پانی بجلی کا بحران اور گرمی
ہم نے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے کو ترجیح نہیں دی اور کالا باغ ڈیم بیانیہ کی بلی چڑھ گیا۔
تین بحران اس وقت ہماری دہلیز دستک دے رہے ہیں۔ ہم باخبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر ہیں۔ ہمارا ہوم ورک بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ تین بحران ہیں، پانی کی قلت، ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمی میں شدت اور بجلی کا بحران جسے لوڈشیڈنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔
پانی کی کمی کے پیچھے تاریخ کاایک طویل پس منظر موجود ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کی روداد کا علم ہم سب کو ہے کہ ہم نے دریا ئے ستلج اور بیاس ہندوستان کو بیچ دیے اور اس کے عیوض ڈیم بنانے پر انحصار کیا۔ اس وقت ہماری آبادی چار کڑور مشکل سے ہوگی۔ یہاں آمریت تھی اور وہاں نہرو تھے۔ اداروں سے بنا ہندوستان۔ یہاں فرد فیصلے کرتے تھے جبکہ وہاں نہرو جو کہ اداروں پر اثر انداز ہوسکتے تھے، اپنے آپ میں خود ایک ادارہ تھے۔
انھوں نے اپنی تمام عمر سیاست کو پیش کی اور وہ اس سیاسی تجربے سے بہت آگے تک دیکھ سکتے تھے اور ہمیں کچھ سمجھ نہ آئی کہ ہم ان دریا ئوں سے اگر دستبردار ہورہے ہیں تو ہم خود اپنے ہاتھ کاٹ رہے ہیں۔ شاید ہی دنیا میں ایسا کوئی معاہدہ ہو کہ جس سے کوئی اپنے ہی حصے کے پانی سے دستبردار ہوا ہو۔ یہ بات ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ ڈیم پانی پیدا نہیں کرسکتے، وہ صرف پانی کو ذخیرہ کرتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان کا پانی ہندوستان سے گزر کے آتا تھا اور ہمیں یہ ڈر تھا کہ ہندوستان ہمارا پانی ویسے بھی روک سکتا ہے، اس سے بہتر ہے کہ ہم اس سے معاہدہ کرلیں۔ میرے خیال میں سندھ طاس معاہدے سے پہلے جو بٹوارے کا پس منظر ہے وہ بھی ایک معاہدہ تھا۔ غالباً ریڈ کلف مشن نے کیا تھا۔ خود سندھ طاس معاہدے کے پیچھے بھی ورلڈ بینک گارنٹیئر ہے تو کیا ہندوستان کشن گنگا ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک کر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر رہا؟
اس پانی کے بحران کی ایک سادہ حقیقت یہ بھی ہے کہ پانی کا بہاؤ بھی کم ہوا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ لیکن پانی کا جو نظام یعنی واٹر مینجمنٹ ہمارے پاس ہے اس سے بہت سارا پانی ضایع ہوجاتا ہے۔ ہم نے جہاں راستے بنانے میں زیادہ بجٹ صرف کیا، اتنی سیرپ کاری ہم نے دریاؤں اور کینالوں کی مرمت اور بہتر ی میں نہیں کی۔ ہماری سوئی آج تک صرف کالا باغ ڈیم پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ ہم نے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے کو ترجیح نہیں دی اور کالا باغ ڈیم بیانیہ کی بلی چڑھ گیا، بجائے رحمت بننے کے زحمت بن گیا۔ اس کے ڈنکے اس طرح بجائے گئے کہ پنجاب میں بھی مقبولیت ہو اور سندھ میں بھی یار لوگوں کی دکانیں کھل گئیں۔
سندھ کے اندر جو محکمہ آپاشی ہے وہ انگریزوں کی دین ہے۔ باقی ماندہ پاکستان کی تاریخ ہے اس میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہ آئی۔ انگریزوں کے زمانے میں سندھ کا آبپاشی نظام نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں ایک مثالی نظام تھا۔ لیکن اب یہ نظام اس کے الٹ بدترین نظا م کی مثال ہوگا۔ اتنی تبدیلی آئی ہے دنیا میں کھیتی باڑی اور پانی کے استعمال میں کل جو پودا ایک مخصوص پانی کے استعمال سے پیدا کیا جاسکتا تھا وہ آج اس کے مقابلے میں آدھے پانی سے پیدا کیا جاسکتا ہے۔
دنیا میں جو ترقی ہوئی ہے وہ زراعت سے ہوئی ہے۔ اس نے سر پلس پیدا کیا اور یوں صنعتی انقلاب برپا ہوا اور آج وہ ایک نئی منزل کو چل نکلی۔ ہماری معشیت زراعتی پیداوار اب کے صرف ہوگی 22 فیصد، لیکن اب بھی وہ ملک 48 فیصد لیبر فورس کو روزگار دیتی ہے۔
بجلی کا بحران آپ کے سامنے ہے۔ 70 سال کی تاریخ کا بدترین بحران جو گزشتہ دس سال سے جاری ہے اور اب تک حل نہ ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ لگ بھگ600 ارب کے سرمایہ کا قرض ہے جو اردگرد گھوم رہا ہے۔ چلو اب ہم بجلی پیدا کرنے کے لیے صرف پانی پر انحصار نہیں کرتے بلکہ گیس و تیل سے بھی پاور پلانٹ چلتے ہیں۔ اس سے فی یونٹ خرچہ بڑھ جاتا ہے۔ ہم نے تھر کے کوئلے کو اب جا کے استعمال میں لانے کے لیے قدم اٹھایا ہے، اس کی قیمت ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے ادا کرنی ہوگی۔
ہماری گیس کی پیداوار کم ہوتی جارہی ہے۔ بجلی کے بحران میں بھی بنیادی وجہ ادارے کا فقدان ہے۔ سسٹم ہے جو کام نہیں کر رہا۔ ہمارے پاس اگر 23000 میگاواٹ بجلی روزانہ پیدا کرنے کی گنجائش ہے، لیکن گرمیوں میں مشکل سے تیرہ یا چودہ ہزار میگاواٹ پیدا ہوسکتی ہے، اس لیے سسٹم ٹرپ ہوجاتا ہے۔ اور بہت سے پلانٹ اب بھی ایسے ہیں جو بہتر انداز میں کام نہیں کر رہے ہیں۔ خوش آئندہ بات ہے کہ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنا بہت ہی آسان اور سستی ہوگا۔
دوسری طرف جو ماحولیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں اس سے درجہ حرارت بتدریج پچھلے برسوں کے مقابلے میں بڑھتا جارہا ہے۔ یہ تبدیلی پوری دنیا میں ہورہی ہے اور پوری دنیا اس چیلنج کو نمٹنے کے لیے تیاریاں کر رہی ہے۔ لیکن ہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کام نہیں کرسکے۔
حال ہی میں ہندوستان کے اندر ایک تحقیق نے موئن جو دڑو کی تباہی کے اسباب کے معلوم کرنے کے حوالے سے تمام پرانی تحقیقوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یہ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ موئن جو دڑو میں پانی کا بحران پیدا ہوا تھا۔ بارشیں کم ہوتی تھیں، ان بارشوں کے کم ہونے کے اسباب بھی انھوں نے دریافت کیے ہیں۔ پھر ایک بہت بڑی ہجرت ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے اس ہجرت نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کی۔ ایک رپورٹ میں نے چند سال پہلے اکانومسٹ رسالے میں پڑھی تھی کہ آسٹریلیا کے indegenous لوگ بھی ہزاروں سال پہلے ہجرت کرکے یہیں وادی سندھ سے گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ بنگالی، کاملی یا ساؤتھ ہندوستان کے لوگوں کا origion موئن جو دڑو سے ہے۔
جو عرض میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمیں جب کبھی خانہ جنگی کے بنیادی اثرات نظر آتے ہیں وہ کچھ اور ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے شام کی مثال پڑی ہے۔ اس بحران سے ہجرت نے جنم لیا اور پوری دنیا کو کچھ اس طرح سے لپیٹ میں لیا کہ کچھ مقامی لوگوں نے اپنے ثقافت و تاریخ کے لیے اس کو خطرہ سمجھا۔
ان بحرانوں کو اس نہج پر پہنچانے میں بنیادی طور پر ہمارے 70 سال کی تاریخ ہے۔ یہ ملک جس نے پچیس سال تک آئین دینے میں آدھا ملک گنوا دیا۔ جہاں اب بھی اس بات کا تعین نہ ہوسکا یہ ملک جمہوری طرز حکومت پر چلتا ہے یا کسی اور پر۔
جو جمہوریت یا جمہوری قیادتیں ہمیں ملیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔ یہاں ادارے بن نہیں پائے۔ اور اب ہم تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ پانی کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں آپ کے سامنے ہیں۔ یہ وقت سر جوڑ کے بیٹھنے کا ہے۔
ان بحرانوں کا حل یہ ہے کہ بحیثیت قوم، بحیثیت قومی قیادت اور جو کام اداروں کو کرنا چاہیے کم از کم وہ بہتر انداز سے کیا جائے۔