ایک ماہر اور خدا ترس سرجن

شاہی خاندان کا کوئی فرد جب کبھی بیمار ہوتا ہے تو معائنے کے لیے انہیں لینے خصوصی چارٹرڈ طیارہ دبئی سے آتا ہے۔

آج کل طب کے شعبے میں ٹیسٹ کی جو سہولت حاصل ہے، اس کی مدد سے ایک عام آدمی بھی کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس جائے بغیرکم ازکم یہ خود جان سکتا ہے کہ اسے کیا بیماری ہے ۔ پہلے جب یہ سہولت دستیاب نہیں تھی، ڈاکٹر حضرات مریض سے اس کی تکلیف کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ تفصیلات معلوم کرکے اور ظاہری علامات کی روشنی میں مرض کی تشخیص اور اس کا علاج تجویزکیا کرتے تھے، جس سے اپنے کام میں ان کی مہارت کا پتہ چلتا تھا۔

1981ء میں پتے کا آپریشن ہونے سے پہلے مجھے کوئی دس بارہ سال تکلیف جھیلنی پڑی تھی، جس کی بڑی وجہ ٹیسٹ کی سہولت نہ ہونا تھی، رہ گیا تُکا تو وہ کسی ڈاکٹرکا صحیح لگ نہیں رہا تھا۔ میں جس ادارے میں کام کرتا تھا اس کے پینل پر ایک نہیں چھ ڈاکٹر اور اسپتال تھے لیکن مرض کی تشخیص ہے کہ ہو نہیں پا رہی تھی۔

سب ایک دوسرے کی تشخیص کو درست قرار دیکر صرف دوائیں بدلنے پر اکتفا کرتے اور میں ایک ایک کرکے وہ سب آزماتا رہتا۔ سینے میں اس جگہ جہاں پسلیاں باہم ملتی ہیں، شدید درد اٹھتا تھا۔ پہلے کبھی کبھی ہوتا تھا بعد میں جلدی جلدی ہونے لگا، ہوتا بھی ایسا تھا کہ بندہ برداشت ہی نہ کر سکے۔ دواؤں کی دو شیشیاں ہر وقت میرے ہینڈ بیگ میں موجود رہتی تھیں، جوں ہی درد ہونے لگتا میں فوراً دونوں دواؤں کا ایک ایک چمچ حلق میں انڈیل لیتا جس سے مجھے کچھ ریلیف ملتا تھا۔

آخر میں ان دواؤں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ۔ ایک دن جب میں دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا، اچانک اتنا شدید درد اٹھا کہ میں بیہوش ہوکرکرسی سے نیچے گر پڑا، ہمارے جنرل منیجر آغا عبدالحمید جو میرے پاس ہی بیٹھے تھے مجھے اٹھا کر نیچے لائے، گاڑی میں ڈالا اور گارڈن روڈ پر بمبینو سینما کے قریب واقع ہارون چیمبر پہنچے جہاں مشہور فزیشن ڈاکٹر صالح میمن کا کلینک تھا۔ ہوش میں آکر میں نے ان دونوں کو اپنے اسڑیچر کے قریب کھڑا پایا۔ ڈاکٹر صاحب نے صرف دو سوالات پوچھے اور میرے مرض کی تشخیص ہوگئی۔

کہاں دس بارہ سال سے میرا ایسیڈیٹی (معدے میں تیزابیت) کا علاج ہورہا تھا اورکہاں بتایا گیا کہ تکلیف کی وجہ کوئی اور ہے۔ ڈاکٹر صالح میمن کے مطابق میرے پتے میں پتھری تھی اور وہ پھٹنے کے قریب ہے۔ انہوں نے اس کا علاج آپریشن تجویزکیا اور بلا تاخیرکرانے کا مشورہ دیا۔ میں ڈاکٹر صاحب کو تب سے جانتا تھا جب وہ سول اسپتال کراچی کے ایم ایس تھے اور ہمارے اخبار میں ''مرض اور علاج'' کے زیر عنوان ہفتہ وارکالم لکھا کرتے تھے۔

اب سندھ کے سیکریٹری صحت کی حیثیت سے ریٹائر ہوکر پرائیویٹ پریکٹس کر رہے تھے،کلینک کے علاوہ کلفٹن میں تین تلوار کے قریب اپنے باتھ لینڈ والے گھر پر بھی مریضوں کو دیکھا کرتے تھے۔ بھائی جان کا کاروبار ان دنوں پشاور میں تھا، انہوں نے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے کسی مشہور سرجن سے وقت لیا اور مجھے آپریشن کے لیے فوراً پشاور پہنچنے کو کہا۔


سراج صاحب کو، جو کبھی ہمارے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے، پتہ چلا تو انہوں نے اپنے بھانجے حمید عاقل کے ذریعے مجھے بلا بھیجا۔ تب وہ میکلوڈ روڈ پر اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک بلڈنگ میں واقع حیدر بھیم جی کی مشہور آڈٹ فرم میں کام کرتے تھے۔ میں پہنچا تو انہوں نے اپنے دوست سرجن ایم بی جمالی کو فون کر کے بلایا اور میرا معائنہ کرنے کو کہا۔ میں نے انہیں پہلی بار وہیں دیکھا تھا، بہت بڑے سرجن اور سول اسپتال کے سرجیکل وارڈ کے انچارج تھے، قد کے چھوٹے ضرور تھے لیکن رعب و دبدبے کا عالم یہ تھا کہ ماتحت ڈاکٹر اور نرسیں ہی نہیں ڈپٹی ایم ایس تک ان کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔ سراج صاحب کے اصرار پر انہوں نے مجھے انہی کے ٹیبل پر لٹایا اور قمیص کا پلو اٹھا کر لگے معائنہ کرنے۔ پوچھا کس نے بتایا ہے کہ تمہارے پتے میں پتھری ہے۔

میں نے ڈاکٹر صالح میمن کا نام لیا تو معائنہ ختم کر کے فوراً تپائی سے نیچے اترگئے اور مجھے بھی اٹھ کھڑا ہونے کا اشارہ کیا۔ سراج صاحب ساری کارروائی دیکھ رہے تھے، پوچھا کیوں کیا ہوا۔ بولے میں ڈاکٹر صالح میمن سے بڑا ڈاکٹر نہیں ہوں، اگر یہ ان کی تشخیص ہے تو میں آپریشن کر کے پتہ نکال دوں گا، یہ نہیں دیکھوں گا کہ پتھری ہے یا نہیں۔ وہیں انہی کی زبانی پتہ چلا کہ ایشیا بھر میں ڈاکٹر صالح میمن سے بڑا تشخیص کار کوئی نہیں۔ یہ بھی انہوں نے ہی بتایا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کا کوئی فرد جب کبھی بیمار ہوتا ہے تو معائنے کے لیے انہیں لینے خصوصی چارٹرڈ طیارہ دبئی سے آتا ہے۔

سرجن جمالی جتنے سخت گیر مشہور تھے اتنا ہی سیریس قسم کا مذاق بھی کرتے تھے۔ میرا آپریشن انہوں نے ہی کیا تھا، جنرل وارڈ سے متصل الگ کمرہ میرے لیے وقف تھا، روز ملنے آتے اور میری ڈریسنگ تک خود کرتے۔ وہ تو سراج صاحب نے مجھے ان کی مذاق کرنے کی عادت کے بارے میں پہلے سے بتا دیا تھا ورنہ میں واقعی بھاگ کھڑا ہوتا ۔ مثلاً آپریشن تھیٹر میں لے جاتے وقت انہوں نے بڑی رازداری سے پوچھا سراج کی تم سے کوئی دشمنی ہے کیا۔

میں نے پوچھا کیوں تو بولے پھر وہ اس بات پر کیوں مصر ہیں کہ تمہارا آپریشن میں ہی کروں جبکہ میں نے آخری آپریشن بھی کوئی تیس سال پہلے کیا تھا اور سب کچھ بھول بھال چکا ہوں ۔ پھر آپریشن تھیٹر سے اسٹریچر پر باہر لائی گئی ایک میت کے چہرے پر سے کپڑا ہٹاکر بولے تم میری بات مان نہیں رہے ہو، تھوڑی دیر میں اسی طرح باہر لائے جاؤ گے۔ سوچ لو ابھی بھی وقت ہے اور میں یہاں سے نکل بھاگنے میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ وہ کتنے بڑے اور ماہر سرجن تھے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ میرے آپریشن کے کچھ عرصہ بعد فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کے پتے کا آپریشن کرنے والے سویلین اور فوجی سرجنوں پر مشتمل بورڈ کے سربراہ بھی یہی سرجن جمالی تھے۔

جنرل وارڈ میں داخل ایک مریض سب کی توجہ اور ہمدردی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس کو کبھی کبھی تکلیف اٹھتی تو درد کی شدت سے وہ اس طرح کراہتا جیسے ذبح کیا جارہا ہو، طاقتور اتنا تھا کہ کسی کے قابو میں نہ آتا تھا، جیسے ہی اس کی حالت بگڑتی سرجن جمالی کو ان کی ہدایت کے مطابق فوراً فون پر مطلع کیا جاتا جو آکر اپنا کمرہ کھولتے اور فریج سے کوئی انجیکشن نکال کر اسے لگاتے جس سے وہ پر سکون ہو جاتا۔ ایک بار وہ اس کیلئے بلائے جانے پر ننگے پاؤں اسپتال پہنچے تھے اور سلیپنگ گاؤن پہنے ہوئے تھے۔ میں نے ہمت کرکے کہا اگر یہ اتنی تکلیف میں ہے تو آپ باری کا انتظار کرنے کے بجائے اس کا آپریشن پہلے کیوں نہیں کر دیتے تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا کہ یہ میرا مستقل مہمان ہے اور اس کی باری کبھی نہیں آئے گی۔

پتہ چلا وہ مریض گودی پر مزدوری کرتا تھا ، تین چار سال پہلے آپریشن کر کے اس کا ایک ناکارہ گردہ نکال دیا گیا تھا، اب کے آیا تو پتہ چلا اس کا دوسرا گردہ بھی ناکارہ ہوچکا ہے ۔ایک تو ویسے ہی غریب مزدور کے لیے گردہ خریدنا مشکل اس پر ستم ظریفی یہ کہ اس کا بلڈ گروپ بھی نایاب تھا۔ جس انجکشن سے اس کو فوری ریلیف ملتی تھی وہ بہت مہنگا تھا اور سرجن جمالی اپنے پیسوں سے اس کے لیے بطور خاص لندن سے منگواتے تھے۔

صدر میں عبداللہ ہارون روڈ پر بمن ابادان بیکری کے اوپر کبھی ان کا کلینک ہوا کرتا تھا۔ خاندانی رئیس آدمی تھے اور نواب شاہ کے قریب سکرنڈ میں ان کی زرعی زمینیں بھی تھیں۔ پیشہ ورانہ رقابت میں پہلے رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کرائے گئے پھر ہتھکڑی لگی۔ ان کی تصاویر اخبارات میں خاص اہتمام کے ساتھ چھپوائی گئیں۔ عزت دار آدمی تھے ، بے عزتی برداشت نہ کرسکے اور کنپٹی پر پستول رکھ کر خود کشی کر لی۔ ملک کو ایک ماہر اور خدا ترس سرجن سے محروم کر کے شاید رقیبوں کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ہو۔
Load Next Story