غداری کیس پرویزمشرف کی جانب سے 3 نومبر کی ایمرجنسی غیر ضروری تھی اٹارنی جنرل

31 جولائی کا فیصلہ لارجر بنچ نے کیا تھا، اس لئے تین رکنی بنچ کیس سن سکتا ہے نہ فیصلہ دے سکتا ہے، وکلا


ویب ڈیسک April 25, 2013
31 جولائی کا فیصلہ لارجر بنچ نے کیا تھا، اس لئے تین رکنی بنچ کیس سن سکتا ہے نہ فیصلہ دے سکتا ہے، وکلا۔ فوٹو فائل

پرویز مشرف غداری کیس میں سابق صدر کے وکلا نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے موکل کے خلاف ان درخواستوں پر فیصلہ دیا گیا جس میں وہ فریق نہیں تھے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کررہا ہے، دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی اور احمد رضا قصوری نے دلیل دی کہ 31 جولائی کا فیصلہ سپریم کورٹ کے 14 ججوں پر مشتمل لارجر بنچ نے دیا تھا، اس لئے اس کیس کو تین رکنی بنچ کیس سن سکتا ہے نہ فیصلہ دے سکتا ہے، اس لئے فل کورٹ بینچ تشکیل دینا ہوگا۔ وکلا کا کہنا تھا کہ مقدمے کی سماعت کے لیے لارجر بنچ بنانے کے تین طریقے ہیں، چیف جسٹس کیس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خود لارجر بنچ بنا دیں یا وکلاء کی استدعا منظور کرلی جائے یا پھر یہ بنچ خود لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ کرے۔

پرویز مشرف کے وکلا نے اپنے دلائل میں کہا کہ سندھ ہائی کورٹ بار کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں پرویز مشرف کومشرف کو فریق ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ 31 جولائی کا فیصلہ دو پٹیشنز پر جاری ہوا،اکرم شیخ ایڈووکیٹ کی پٹیشن میں پرویز مشرف کو فریق بنایا گیا تھا۔ جس پرابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے کہا کہاکرم شیخ نے چیف جسٹس کی بحالی کے فوری بعد پٹیشن دائر کی جس کا مقصد پی سی او ججز کو فوری طور پر کام سے روکناتھا۔

اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتہ ہے آپ کوئی غیر آئینی بات نہیں کریں گے جس پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ 3 نومبر کا اقدام غیر ضروری تھا، جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ غیر ضروری سے ان کی کیا مراد ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے واضح جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وہ آئینی امور پر زبانی بات نہیں کریں گے، اس سلسلے میں انہیں آئینی شقوں کا حوالہ دینا ہوگا اور اس مقصد کے لیے متعلقہ ریکارڈ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں