فتنۂ مال و زر
دولت کا نشہ کانوں میں سیسہ بن کر ڈھل گیا اور آنکھیں جام و مینا کے کیف سے بند ہوتی چلی گئیں۔
ایران اور روم کسی زمانے میں طاقت اور کامیابی کا استعارہ سمجھے جاتے تھے لیکن ان کی شکست اسلام کے ہاتھوں لکھ دی گئی تھی، اب ان دونوں ملکوں کی شان و شوکت بھولی بسری داستان کی مانند تھی۔
اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمدؐ سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا تھا کہ اہل ایمان صرف آخرت میں ہی کامیاب و کامران نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی عظیم فتوحات سے سرفراز ہوں گے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کی روشنی نے ہر چیز واضح کردی اور مسلمان آخرکار اپنے عروج کی انتہا پر پہنچ گئے۔ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں ڈھیر تھی اور تاج و تخت ان کی ٹھوکروں میں تھے اور کچھ اہل بصیرت اس دور کو یاد کر رہے تھے، جب جب ایران کی فتح کے بعد مال غنیمت کے انبار دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ رونے لگے تھے۔
دربار میں سے کسی نے حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا کہ ''اے امیر المومنین یہ تو خوشی کا موقع ہے اور آپ کی اشکبار آنکھیں کیا معنی رکھتی ہیں؟'' حضرت عمرؓ نے غم زدہ لہجے میں جواب دیا کہ ''میں اس لیے روتا ہوں کہ جہاں دولت کے قدم آتے ہیں وہاں ایمان سلامت نہیں رہتا، اللہ تمہیں مال و زر کے فتنے سے محفوظ رکھے۔''
اور پھر ایسا ہی ہوا مسلمان عیش و عشرت بھری زندگی کا خواب دیکھنے اور اس کی تعبیر پانے کے لیے عظیم الشان محل تعمیر کرنے لگے، روپے پیسے کی کمی نہ تھی، دنیا کے سارے خزانوں کی کنجیاں مسلمانوں کے پاس تھیں، محلات اپنے حسن و جمال میں یکتا نظر آنے لگے اور اندرونی حصوں میں فانوسوں کی روشنی جگمگ کرنے لگی، لیکن دل اللہ کی یاد سے محروم ہوتے چلے گئے۔ ان کے لیل و نہار کی لذتوں میں مدہوش ہوگئے اور اپنے انجام سے بے خبر ہوکر زندگی کا پل پل گزرتا چلا گیا، دشمن کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیے، وہ ایسے ہی وقت کی تاک میں رہتا ہے کہ وہ کب انتقام لے کر غلبہ پالے۔
لیکن غفلت کی نیند بسر کرنے والے دور اندیشی کی باتیں کب سوچتے ہیں، ایسے اعلیٰ افکار جو ضمیر کو زندہ رکھیں اور برے وقت کی پناہ مانگیں، انھی لوگوں کے ہوتے ہیں جو آندھی اور طوفانوں کے آنے سے قبل اس کی آہٹ کو سن لیتے ہیں، جس کے ہوتے ہی بارش کی آمد کی آس لگا لیتے ہیں اور گناہوں کی دلدل انھیں عذاب الٰہی کا پتا دیتی ہے۔
پھر ان حالات میں ایک بندہ خدا عیش پرستوں اور شہر بغداد کے مکینوں کو تنبیہ کرنے کے لیے پہنچ گیا اور لوگوں کو سمجھانے لگا کہ اے اللہ کے بندو! نافرمانیوں سے باز آجاؤ اور مے خانوں کو ڈھادو اور شراب کو نالیوں میں بہا دو، ورنہ یاد رکھو قدرت بہت جلد تمہیں تمہارے عبرت ناک انجام تک پہنچا دے گی، عذاب کے گن گنے جاچکے ہیں اور تم سب کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے، اگر تائب ہوگئے تو سرخرو ہوگے ورنہ ذلت تمہارا مقدر بنے گی۔
لیکن دولت کا نشہ کانوں میں سیسہ بن کر ڈھل گیا اور آنکھیں جام و مینا کے کیف سے بند ہوتی چلی گئیں، فہم و ادراک کو دھند کی چادر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لیکن اس مجذوب کی بات پر توجہ دینے کے بجائے اہل بغداد نے اسے دیوانہ اور اپنا دشمن جانا اور اس پر گندگی پھینکنے اور نعرے بازی کرنے لگے، اس کا مذاق اڑانے لگے اس قدر ستم ڈھائے کہ اس نے اپنی راہ لی، لیکن جاتے جاتے یہ پیغام دے گیا، عذاب لکھا جاچکا ہے۔ آگ، خون اور ذلت تمہارا مقدر بنے گی، لوگوں نے اس کی اس پیش گوئی پر مزید قہقہے لگائے اور پتھروں سے لہولہان کرنے لگے۔
جب اندھیرا دل و دماغ میں گھر کر لیتا ہے تب آواز حق سنائی نہیں دیتی ہے۔ دنیا کے خریداروں نے ہر دور میں ایسا ہی کیا ہے، خواہ وہ آدم کا زمانہ ہو یا موسیٰ کا دور پیغمبری ہو، یا پھر حضرت یونسؑ اور حضرت لوطؑ کی اپنی قوم کو ہدایات کا عرصہ ہو یا فتح مکہ سے قبل کے ایام اور واقعۂ کربلا کا عظیم سانحہ اور تعمیر پاکستان میں قائداعظم کی انتھک محنت ایثار و قربانیاں ہوں، عاقبت نااندیشوں نے سچائی سے منہ موڑ کر کذب کو اپنایا ہے۔ شہر بغداد بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار تھا۔
ہلاکو خان کی سفاک فوج موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتی رہی اور وہ وقت بھی قریب آگیا جب علم و حکمت کے خزانے کو آگ لگا دی گئی، وحشی لوگوں کا خون بہاتے رہے اور جشن مناتے رہے۔ ان جنگجوؤں نے بغداد کی شاندار تہذیب و تمدن کو اپنے پیروں تلے ملیا میٹ کردیا۔ نیزوں کی بارش نے بغداد کا نقشہ ہی بدل دیا، ہر سمت مسلمانوں کا خون ناحق بہہ رہا تھا۔
محض اپنی نادانی اور عاقبت نااندیشی کی بنا پر عیش و طرب کی دنیا میں گم رہنے والوں میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ مقابلے کے لیے میدان میں اترتے، ویسے بھی رقص و سرود کی محفلوں میں گم رہنے والے بہادری اور ملی و مذہبی غیرت کو بھول جاتے ہیں، جذبہ جہاد بھی دم توڑ جاتا ہے۔ تب شکست و ریخت ان کا مقدر بنتی ہے۔ بغداد کو تہہ و بالا کرنے کے بعد ہلاکو خان کا رخ نیشاپور کی طرف تھا۔
یہاں بھی قتل و غارت کا بازار سج گیا، ان حالات میں انھیں وہ پاگل دیوانہ یاد آگیا جس نے پہلے ہی باخبر کردیا تھا اس کی تلاش شروع ہوگئی، گوہر مراد ہاتھ آگیا۔ اس نے لوگوں کی فریاد کو یکسر نظرانداز کردیا لیکن ان کی گریہ و زاری نے درویش کے دل کو موم کردیا اور وہ اپنی کوٹھڑی سے نکل کر دور ویرانے میں ایک پہاڑی پر چڑھ کر عبادت میں مشغول ہوگیا۔
مجذوب کو پہاڑی پر دیکھ کر سپاہیوں نے برق رفتاری کے ساتھ تیر چڑھائے، بھرپور قوت کا مظاہرہ کیا۔ مگر ایک کمان بھی نہ کھنچ سکی، منگولوں نے گھوڑوں پر سوار ہوکر درویش کو قتل کرنا چاہا، لیکن گھوڑے اپنی جگہ سے ہل نہ سکے۔ منگول سپہ سالار نے بھی اپنی سی کوشش کی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکا اور یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ''اے عظیم ساحر ہمیں معاف کردو، ہماری بھول کو درگزر کر، ہمیں اجازت دے ہم اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔''
چند ہی ثانیے بعد بیجو خان جوکہ فوج کا سپہ سالار تھا، اس کی بے جان ٹانگوں میں طاقت آگئی جلد ہی منگول سپاہیوں کا قافلہ قونیہ کی حدود سے باہر نکل گیا۔ یہ درویش مولانا جلال الدین رومیؒ تھے جن کی عبادت و ریاضت، مخلوق خدا کی خدمت کی بدولت ان کی دعائیں رنگ لے آئیں اور مولانا رومی کی ذات سے کئی اہم معجزات وابستہ ہیں، بے شک جو اس دنیا کو خس و خاشاک کی مانند سمجھ کر ٹھکرا دیتے ہیں اور صرف اللہ اور اس کی خوشنودی کے لیے زندگی بسر کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو دین و دنیا کی کامیابیوں سے سرفراز ہوتے ہیں تا قیامت ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔
ایک دور وہ بھی تھا جب مغلیہ سلطنت کا آخری چراغ ٹمٹما رہا تھا اور انگریز حکومت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔ حالات زمانہ آج کے حالات سے ہرگز مختلف نہ تھے، سرعام بادشاہ وقت کو گالیاں دی جا رہی تھیں، مہنگائی آسمان پر تھی اور خوراک منڈی میں کٹائی کے مواقعوں پر غائب کردی جاتی تھی، سوداگر منہ مانگی قیمتوں پر گندم، سبزی، ترکاری فروخت کرتے تھے، ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کردیا گیا تھا لیکن کوئی پرسان حال نہ تھا۔
بادشاہ کو اقتدار کی ہوس تھی وہ اپنی مدت پوری کرنا چاہتا تھا اور انگریزوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کو پسپا کرنے کا خواہش مند بھی تھا لیکن فوج وفادار نہیں تھی اور نہ ہی بادشاہ نے کبھی انھیں آزمایا، مجاہدین جہاد کے جذبے سے لبریز تھے، لیکن ان کے پاس قیادت نہیں تھی نتیجہ یہ نکلا شاہی خاندان کو قتل کردیا گیا اور بادشاہ کو رنگون جلاوطن کردیا گیا، شاہی خاندان کے 35 مرد و خواتین بھی ساتھ تھے، کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔
نیلسن نے اپنے گھر کے گیراج میں تاجدار ہند بہادر شاہ ظفر کو قید کردیا اور 7 نومبر 1862 تک چار سال قید رہا اور آخر کسمپرسی اور شدید مایوسی و محرومی کے عالم میں اس دنیائے بے ثبات سے کوچ کرگیا۔ مرنے سے پہلے کھلی ہوا میں سانس لینے کی خواہش نے جنم لیا لیکن وہ بھی میسر نہ آئی۔ ماضی حال بن کر سامنے آتا ہے لیکن نادان عشرت کدہ کی دنیا سے نکل کر خارجی حالات سے غافل رہتا ہے۔
آج بھی وہی حالات ہیں، مقتدر حضرات، اقتدار کے حصول کے لیے اپنے اپنے داؤ پیچ لڑا رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ لوگ اقتدار کی کرسی پر کبھی براجمان نہ ہوں، جنھوں نے اس ملک کو جو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اسے پامال کرنے میں کسر نہ چھوڑی۔
اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمدؐ سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا تھا کہ اہل ایمان صرف آخرت میں ہی کامیاب و کامران نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی عظیم فتوحات سے سرفراز ہوں گے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کی روشنی نے ہر چیز واضح کردی اور مسلمان آخرکار اپنے عروج کی انتہا پر پہنچ گئے۔ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں ڈھیر تھی اور تاج و تخت ان کی ٹھوکروں میں تھے اور کچھ اہل بصیرت اس دور کو یاد کر رہے تھے، جب جب ایران کی فتح کے بعد مال غنیمت کے انبار دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ رونے لگے تھے۔
دربار میں سے کسی نے حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا کہ ''اے امیر المومنین یہ تو خوشی کا موقع ہے اور آپ کی اشکبار آنکھیں کیا معنی رکھتی ہیں؟'' حضرت عمرؓ نے غم زدہ لہجے میں جواب دیا کہ ''میں اس لیے روتا ہوں کہ جہاں دولت کے قدم آتے ہیں وہاں ایمان سلامت نہیں رہتا، اللہ تمہیں مال و زر کے فتنے سے محفوظ رکھے۔''
اور پھر ایسا ہی ہوا مسلمان عیش و عشرت بھری زندگی کا خواب دیکھنے اور اس کی تعبیر پانے کے لیے عظیم الشان محل تعمیر کرنے لگے، روپے پیسے کی کمی نہ تھی، دنیا کے سارے خزانوں کی کنجیاں مسلمانوں کے پاس تھیں، محلات اپنے حسن و جمال میں یکتا نظر آنے لگے اور اندرونی حصوں میں فانوسوں کی روشنی جگمگ کرنے لگی، لیکن دل اللہ کی یاد سے محروم ہوتے چلے گئے۔ ان کے لیل و نہار کی لذتوں میں مدہوش ہوگئے اور اپنے انجام سے بے خبر ہوکر زندگی کا پل پل گزرتا چلا گیا، دشمن کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیے، وہ ایسے ہی وقت کی تاک میں رہتا ہے کہ وہ کب انتقام لے کر غلبہ پالے۔
لیکن غفلت کی نیند بسر کرنے والے دور اندیشی کی باتیں کب سوچتے ہیں، ایسے اعلیٰ افکار جو ضمیر کو زندہ رکھیں اور برے وقت کی پناہ مانگیں، انھی لوگوں کے ہوتے ہیں جو آندھی اور طوفانوں کے آنے سے قبل اس کی آہٹ کو سن لیتے ہیں، جس کے ہوتے ہی بارش کی آمد کی آس لگا لیتے ہیں اور گناہوں کی دلدل انھیں عذاب الٰہی کا پتا دیتی ہے۔
پھر ان حالات میں ایک بندہ خدا عیش پرستوں اور شہر بغداد کے مکینوں کو تنبیہ کرنے کے لیے پہنچ گیا اور لوگوں کو سمجھانے لگا کہ اے اللہ کے بندو! نافرمانیوں سے باز آجاؤ اور مے خانوں کو ڈھادو اور شراب کو نالیوں میں بہا دو، ورنہ یاد رکھو قدرت بہت جلد تمہیں تمہارے عبرت ناک انجام تک پہنچا دے گی، عذاب کے گن گنے جاچکے ہیں اور تم سب کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے، اگر تائب ہوگئے تو سرخرو ہوگے ورنہ ذلت تمہارا مقدر بنے گی۔
لیکن دولت کا نشہ کانوں میں سیسہ بن کر ڈھل گیا اور آنکھیں جام و مینا کے کیف سے بند ہوتی چلی گئیں، فہم و ادراک کو دھند کی چادر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لیکن اس مجذوب کی بات پر توجہ دینے کے بجائے اہل بغداد نے اسے دیوانہ اور اپنا دشمن جانا اور اس پر گندگی پھینکنے اور نعرے بازی کرنے لگے، اس کا مذاق اڑانے لگے اس قدر ستم ڈھائے کہ اس نے اپنی راہ لی، لیکن جاتے جاتے یہ پیغام دے گیا، عذاب لکھا جاچکا ہے۔ آگ، خون اور ذلت تمہارا مقدر بنے گی، لوگوں نے اس کی اس پیش گوئی پر مزید قہقہے لگائے اور پتھروں سے لہولہان کرنے لگے۔
جب اندھیرا دل و دماغ میں گھر کر لیتا ہے تب آواز حق سنائی نہیں دیتی ہے۔ دنیا کے خریداروں نے ہر دور میں ایسا ہی کیا ہے، خواہ وہ آدم کا زمانہ ہو یا موسیٰ کا دور پیغمبری ہو، یا پھر حضرت یونسؑ اور حضرت لوطؑ کی اپنی قوم کو ہدایات کا عرصہ ہو یا فتح مکہ سے قبل کے ایام اور واقعۂ کربلا کا عظیم سانحہ اور تعمیر پاکستان میں قائداعظم کی انتھک محنت ایثار و قربانیاں ہوں، عاقبت نااندیشوں نے سچائی سے منہ موڑ کر کذب کو اپنایا ہے۔ شہر بغداد بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار تھا۔
ہلاکو خان کی سفاک فوج موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتی رہی اور وہ وقت بھی قریب آگیا جب علم و حکمت کے خزانے کو آگ لگا دی گئی، وحشی لوگوں کا خون بہاتے رہے اور جشن مناتے رہے۔ ان جنگجوؤں نے بغداد کی شاندار تہذیب و تمدن کو اپنے پیروں تلے ملیا میٹ کردیا۔ نیزوں کی بارش نے بغداد کا نقشہ ہی بدل دیا، ہر سمت مسلمانوں کا خون ناحق بہہ رہا تھا۔
محض اپنی نادانی اور عاقبت نااندیشی کی بنا پر عیش و طرب کی دنیا میں گم رہنے والوں میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ مقابلے کے لیے میدان میں اترتے، ویسے بھی رقص و سرود کی محفلوں میں گم رہنے والے بہادری اور ملی و مذہبی غیرت کو بھول جاتے ہیں، جذبہ جہاد بھی دم توڑ جاتا ہے۔ تب شکست و ریخت ان کا مقدر بنتی ہے۔ بغداد کو تہہ و بالا کرنے کے بعد ہلاکو خان کا رخ نیشاپور کی طرف تھا۔
یہاں بھی قتل و غارت کا بازار سج گیا، ان حالات میں انھیں وہ پاگل دیوانہ یاد آگیا جس نے پہلے ہی باخبر کردیا تھا اس کی تلاش شروع ہوگئی، گوہر مراد ہاتھ آگیا۔ اس نے لوگوں کی فریاد کو یکسر نظرانداز کردیا لیکن ان کی گریہ و زاری نے درویش کے دل کو موم کردیا اور وہ اپنی کوٹھڑی سے نکل کر دور ویرانے میں ایک پہاڑی پر چڑھ کر عبادت میں مشغول ہوگیا۔
مجذوب کو پہاڑی پر دیکھ کر سپاہیوں نے برق رفتاری کے ساتھ تیر چڑھائے، بھرپور قوت کا مظاہرہ کیا۔ مگر ایک کمان بھی نہ کھنچ سکی، منگولوں نے گھوڑوں پر سوار ہوکر درویش کو قتل کرنا چاہا، لیکن گھوڑے اپنی جگہ سے ہل نہ سکے۔ منگول سپہ سالار نے بھی اپنی سی کوشش کی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکا اور یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ''اے عظیم ساحر ہمیں معاف کردو، ہماری بھول کو درگزر کر، ہمیں اجازت دے ہم اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔''
چند ہی ثانیے بعد بیجو خان جوکہ فوج کا سپہ سالار تھا، اس کی بے جان ٹانگوں میں طاقت آگئی جلد ہی منگول سپاہیوں کا قافلہ قونیہ کی حدود سے باہر نکل گیا۔ یہ درویش مولانا جلال الدین رومیؒ تھے جن کی عبادت و ریاضت، مخلوق خدا کی خدمت کی بدولت ان کی دعائیں رنگ لے آئیں اور مولانا رومی کی ذات سے کئی اہم معجزات وابستہ ہیں، بے شک جو اس دنیا کو خس و خاشاک کی مانند سمجھ کر ٹھکرا دیتے ہیں اور صرف اللہ اور اس کی خوشنودی کے لیے زندگی بسر کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو دین و دنیا کی کامیابیوں سے سرفراز ہوتے ہیں تا قیامت ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔
ایک دور وہ بھی تھا جب مغلیہ سلطنت کا آخری چراغ ٹمٹما رہا تھا اور انگریز حکومت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔ حالات زمانہ آج کے حالات سے ہرگز مختلف نہ تھے، سرعام بادشاہ وقت کو گالیاں دی جا رہی تھیں، مہنگائی آسمان پر تھی اور خوراک منڈی میں کٹائی کے مواقعوں پر غائب کردی جاتی تھی، سوداگر منہ مانگی قیمتوں پر گندم، سبزی، ترکاری فروخت کرتے تھے، ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کردیا گیا تھا لیکن کوئی پرسان حال نہ تھا۔
بادشاہ کو اقتدار کی ہوس تھی وہ اپنی مدت پوری کرنا چاہتا تھا اور انگریزوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کو پسپا کرنے کا خواہش مند بھی تھا لیکن فوج وفادار نہیں تھی اور نہ ہی بادشاہ نے کبھی انھیں آزمایا، مجاہدین جہاد کے جذبے سے لبریز تھے، لیکن ان کے پاس قیادت نہیں تھی نتیجہ یہ نکلا شاہی خاندان کو قتل کردیا گیا اور بادشاہ کو رنگون جلاوطن کردیا گیا، شاہی خاندان کے 35 مرد و خواتین بھی ساتھ تھے، کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا۔
نیلسن نے اپنے گھر کے گیراج میں تاجدار ہند بہادر شاہ ظفر کو قید کردیا اور 7 نومبر 1862 تک چار سال قید رہا اور آخر کسمپرسی اور شدید مایوسی و محرومی کے عالم میں اس دنیائے بے ثبات سے کوچ کرگیا۔ مرنے سے پہلے کھلی ہوا میں سانس لینے کی خواہش نے جنم لیا لیکن وہ بھی میسر نہ آئی۔ ماضی حال بن کر سامنے آتا ہے لیکن نادان عشرت کدہ کی دنیا سے نکل کر خارجی حالات سے غافل رہتا ہے۔
آج بھی وہی حالات ہیں، مقتدر حضرات، اقتدار کے حصول کے لیے اپنے اپنے داؤ پیچ لڑا رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ لوگ اقتدار کی کرسی پر کبھی براجمان نہ ہوں، جنھوں نے اس ملک کو جو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اسے پامال کرنے میں کسر نہ چھوڑی۔