حکمران جاتے جاتے بھی میرٹ کی مٹّی پلید کرنے سے باز نہیں آئے

عباسی صاحب کے دیالو پَن پر اگر من وعن عمل کیا گیا تو قومی خزانے سے کئی ارب روپے خرچ کرنا ہوں گے۔

rehmatraazi@hotmail.com

غیر ملکی حکمرانوں کے طرزِ سیاست اور اندازِ حیات ہم دیکھتے ہیں تو رشک آتا ہے اور اپنے ملک کے حکمرانوں کی حرکتیں دیکھ کر شرم سے سر جھُک جھُک جاتا ہے۔ غیر ملکی حکمران عوام کا ایک ایک پیسہ قومی امانت سمجھتے ہُوئے عوام پرخرچ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ہمارے حکمران عوام کا پیسہ ذاتی مال سمجھ کر یوں بے محابہ اور بے شرمی سے ڈکارتے اور لُٹاتے ہیں کہ ایک محاورے کے مطابق، کوئلوں پر بھی مہریں لگ جاتی ہیں۔

خبر آئی ہے کہ اٹلی کے نئے منتخب وزیر اعظم گوسیپی کونٹ وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے صدر سے ملنے کے لیے گئے تو عام ٹیکسی کرائے پر لی تاکہ اپنے عوام اور ملک کا قیمتی سرمایہ بچایا جا سکے۔ اور ایک ہمارے حکمران ہیں کہ عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کی غرض سے اربوں روپے بجٹ میں رکھے گئے لیکن خود حکمرانوں، اُن کی آل اولاد، دامادوں اور بیووکریٹوں نے اِس مختص بجٹ سے کروڑوں روپے کی قیمتی گاڑیاں اپنی ذاتی عیاشی کے لیے تو خرید لیں لیکن عوام کو صاف پانی کایک قطرہ نہ مل سکا۔

ایسا بہیمانہ کردار رکھنے والے حکمرانوں پر اللہ کا قہر نازل نہ ہو تو پھر کیا ہو؟ کیا عوام کی بددعائیں اُن کا بیڑہ غرق نہیں کریں گی؟ حکمرانوں کے ایک زیر حراست کارندے احد چیمہ کی قیمتی گاڑی سے نقد ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کی رقم تو ابھی کل ہی برآمد ہُوئی ہے۔

ایک اورخبر آئی ہے کہ ملائشیا کے نئے منتخب وزیر اعظم مہاتر محمد نے چند ہفتے قبل اقتدار سنبھالا تو اپنی اور اپنے وزیروں کی تنخواہیں گزشتہ وزیر اعظم اور وزرا کے مقابلے میں بیس فیصد کم کر دیں۔ اِس فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا تو وزیر اعظم مہاتر محمد نے کہا: ''ہم اقتدار میں عوام کی خدمت کرنے آئے ہیں، گلچھرے اڑانے اور عیاشیاں کرنے نہیں آئے۔ ملک کے اکثر عوام غریب ہیں، ایسے میں مجھے اور میرے وزیروں کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ سہولتوں بھری زندگی گزاریں۔ پھر ملک پر قرضہ بھی ہے؛ چنانچہ تنخواہیں کم کر دی ہیں۔ جس وزیر نے میرے ساتھ چلنا ہے، چلے ورنہ گھر چلا جائے۔''

اور ہمارے (سابق) وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب کی ''دریا دلی'' کا یہ عالم سامنے آیا ہے کہ حکومت سے رُخصت ہوتے وقت، جاتے جاتے وفاقی حکومت کے تمام ملازمین کو اضافی تین بنیادی تنخواہیں دینے کا اعلان فرما گئے۔ پاکستان میں وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعداد کئی ملین ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ عباسی صاحب کے دیالو پَن پر اگر من وعن عمل کیا گیا تو قومی خزانے سے کئی ارب روپے خرچ کرنا ہوں گے۔

مسٹر عباسی نے قومی خزانے کو جاتے جاتے یہ ٹیکہ ایسے عالم میں لگانے کی کوشش کی ہے جب ہمارے قومی خزانے کے ذخائر کی سطح تیزی سے نیچے گررہی ہے اور ہمارے پاس کُل گیارہ ارب ڈالر بھی نہیں رہ گئے۔ قومی خزانے کی نا قابلِ رشک حالت تو یہ ہے کہ پاکستاں کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے چین کے ترلے کرنا پڑرہے ہیں اور مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان چین کے ایک سرکاری بینک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا فوری قرضہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بھی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

کیا یہ ہمارے لیے شرم کا مقام نہیں ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقتوں میں پاکستان واحد جوہری ملک ہے جسے بار بار آئی ایم ایف سے امداد اور قرضے کی بھیک مانگنا پڑ رہی ہے؟ ایسے میں شاہد خاقان عباسی نے کیوں اور کہاں کی عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے کہ وفاقی ملازمین کو تین اضافی تنخواہیں عطا کرنے کی ریوڑیاں بانٹنے کا اعلان کر گئے، سمجھ میں نہیں آتا۔ اُن کے پاس ذاتی پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے۔

اگر تو وہ وفاقی ملازمین کی ''شاندار''کارکردگی(جس کا ہمیں تو دُور دُور تک کوئی نشان نہیں ملا ہے)سے خوش ہو کر اُنہیں خوش کرنا چاہتے تھے تو نیکی کا یہ کام اپنی جیبِ خاص سے بآسانی کر سکتے تھے لیکن ایسا کرنے کی ہمت نہیں کر سکے۔ قومی خزانے کو خالہ جی کا باڑہ سمجھ کو لُوٹنے اور لُٹانے کے لیے شیر ضرور بن گئے۔ معاملہ مگر اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔ اپوزیشن خصوصی طور پر پی ٹی آئی نے شور مچایا ہے کہ وفاقی ملازمین پر اعلانیہ کی گئی یہ مہربانی بِلا وجہ نہیں ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے دراصل تین اضافی تنخواہوں کے پردے میں آئندہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی ''سائنسی'' کوشش کی ہے۔اپوزیشن اِسے ''پری پولنگ دھاندلی'' سے بھی موسوم کررہی ہے۔ نون لیگ چونکہ دھاندلیوں کے حوالے سے بدقسمتی سے خاص شہرت رکھتی ہے، اسلیے اِس الزام کو اتنا بے بنیاد بھی نہیں کہا جا سکتا۔

اِسے آپ ہیرا پھری کا جدید طریقہ بھی کہہ سکتے ہیں تاکہ کم از کم وفاقی ملازمین کے ووٹ تو کھرے کیے جا سکیں لیکن تاڑنے والے بھی تو قیامت کی نظر رکھتے ہیں!!جب تنقید اور طعنوں کا طوفان مچا تو شاہد خاقان عباسی نے یہ عقدہ کشائی فرمائی کہ یہ مبینہ پری پولنگ دھاندلی کی کوئی کوشش نہیں بلکہ یہ اضافی تنخواہیں صرف اُن وفاقی اداروں کے ملازمین کو دی جائیں گی جنھوں نے ''دن رات ایک کرکے بجٹ تیار کرنے میں مدد دی ہے۔''

یہ عذر یا بہانہ بھی ناقابلِ فہم اور ناقابلِ قبول ہے۔ اگر اُن خاص وفاقی ملازمین نے بجٹ سازی میں تعاون کیا ہے، کوئی ہاتھ بٹایا ہے تو یہ اُن کی سرکاری ڈیوٹی تھی، کوئی احسان یا مہربانی نہیں تھی۔ سرکار کی طرف سے اُنھیں تنخواہ اِسی مَد میں تو دی جاتی ہے۔ پھر تعاون فراہم کرنے یا مدد کرنے کا مطلب؟ صدر ممنون حسین نے 25 جولائی کو عام انتخابات کروانے کا باقاعدہ اعلان تو کردیا ہے لیکن اِن اضافی تنخواہوں کے پھڈے نے ایک نئی کہانی قبل از وقت رقم کر دی ہے۔

کل کلاں کوئی بھی انتخابی اُمیدوار اِسے بنیاد بنا کر منعقدہ انتخابات پر کئی استفہامیہ نشان لگا سکتا ہے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ ملائشیا کے نئے منتخب وزیر اعظم مہاتر محمد نے اپنے ملک کے وسیع تر مالی مفاد میں سنگاپور کے ساتھ کیا گیا 37 ملین ڈالر کا معاہدہ توڑ دیا ہے۔ یہ معاہدہ ملائشیا کے سابق کرپٹ وزیر اعظم نجیب رزاق نے کیا تھا۔ اِس کے تحت ملائشیا کے دارالحکومت سے لے کر سنگا پور تک ایک ہائی سپیڈ جدید ریل بنائی جانی تھی۔

مہاتر محمد نے یہ کہہ کر معاہدہ منسوخ کر دیا ہے کہ''ہم قرضے سے بنائی جانی والی اِس ٹرین کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ معاہدہ ختم کرنے کا ہم ہر جانہ دے دیں گے لیکن اتنی مہنگی ٹرین نہیں بنا سکتے۔ ہم پر پہلے ہی غیر ملکی قرضے بہت ہیں۔ایسے میں ہم اتنی مہنگی ٹرین کی عیاشی نہیں کر سکتے۔''

اِس مثال کو سامنے رکھئے اور سوچئے کہ ہمارے حکمرانوں نے لاہور میں بھاری شرحِ سُود پر لیے جانے والے غیر ملکی قرضوں سے جو اورنج ٹرین بنائی ہے، یہ اربوں ڈالر کے قرضوں میں جکڑی اس قوم پر مہربانی ہے یا ظلم؟ اور لاہور، اسلام آباد اور ملتان میں غیر ملکی قرضوں سے جو میٹر وبنائی گئی ہیں، کیا یہ سب ملک وقوم کی بہتری میں ہے؟قرضوں پر عیاشیاں کرنا چہ معنی دارد؟ کاش، ہمارے پاس بھی کوئی مہاتر محمد ہوتا!!لیکن اتنی ہماری قسمت کہاں؟

پاکستان کے بیس کروڑ عوام کتنے بدقسمت ہیں کہ اُنہیں کسی طرف سے سُکھ اور سکون کی ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی۔ دل توڑنے والا کوئی نہ کوئی سانحہ یا واقعہ آئے روز ہمارے قومی اُفق پر طلوع ہوتا رہتا ہے۔ ابھی نون لیگ کے تاحیات سپریم لیڈر اور عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے تاحیات نااہل ہونے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قومی مفادات کو بلڈوز کرنے والے انٹرویو کے دھماکا خیز الفاظ کی دھمک اور بازگشت مدہم بھی نہیں پڑی تھی کہ مطلاطم حالات میں سابق لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کی کتاب نے ایک نیا پتھر پھینک کر ایک اور طلاطم پیدا کر دیا ہے۔

مسٹردرانی نے سابق بھارتی سپائی ماسٹر اے ایس دُلت کے ساتھ مل کر جو متنازعہ کتاب لکھی ہے، بادی النظر میں یہ پاکستان کے قومی مفادات سے متصاد م ہے۔ بھارتی میڈیا میں اِس کتاب کے حوالے سے جشن منائے جارہے ہیں اور ہمارے ہاں صفِ ماتم سی بچھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بھارتی سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے نہائت ہو شیاری اور چالاکی سے پاکستان کے ایک حساس ادارے کے سابق چیف کو اپنے ڈَھب پر لا کر اپنے مطلب اور مفاد کی باتیں نکلوالی ہیں۔


پاکستان کے حصے میں نیک نام شہرت نہیں آئی ہے۔ اِس سے قبل پاک فوج کے ایک اور جنرل، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے بھی ایک کتاب لکھ کر پاکستان کے قومی سلامتی رازوں اور عسکری معاملات کو بٹہ لگایا تھالیکن حیرانی کی بات ہے کہ اُن کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی گئی نہ اُن کا مواخذہ کیا گیا۔اس لیے کہ شائد جنرل (ر) شاہد عزیز سابق آرمی چیف جنرل(ر) پرویز مشرف کے قریبی عزیز تھے۔اور خود پرویز مشرف نے اپنی سوانح حیات لکھ کر کونسی پاکستان کی خدمت کی تھی؟

اُن کی کتاب بھی کئی واقعات اور اعترافات کے حوالے سے قابلِ مذمت تھی لیکن اُن سے بھی صرفِ نظر کیا گیا اور ساری قوم غصے کے ساتھ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ کیا ہمارے قومی مقدر میں ایسے ہی ریٹائرڈ جرنیلوں کے گناہ رہ گئے ہیں؟اور اب جنرل (ر) اسد درانی کی کتاب نے تو گویا لنکا ہی ڈھا دی ہے۔

موصوف نے ایک ٹویٹ جاری کرکے اپنی بے گناہی اور معصومیت کا اظہار تو فرمایا ہے لیکن اُن کی کتاب کی بنیاد پر پورے ملک میںغصے کا جو طوفان اُبل رہا ہے، اُس کی بنیاد پر پاکستانی عوام کو اُن کی کوئی بھی اور کسی بھی قسم کی کوئی ٹویٹ اور عذر خواہی قبول نہیں ہے۔ جس مکار بھارتی ہندو کے ساتھ مل کر اسد درانی نے کتاب لکھی ہے، بھارتی ''را'' کا یہ سابق سربراہ اِس سے تین سال قبل بھی ایک کتاب لکھ چکا ہے جس میں اُس نے جی بھر کر پاکستان، پاکستان کے حساس اداروں، مسئلہ کشمیر، مجاہدینِ کشمیر، نظریہ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کو گالیاں دی ہیں۔

اسد درانی یقینا اس کتاب سے آگاہی رکھتے ہوں گے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اِس کے باوجود وہ اس مکار بھارتی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے قومی راز شیئر کرنے پر تیار ہو گئے۔تُف ہے!!کیا وہ اتنے ہی بچے تھے کہ اُن سے یہ باتیں نکلوا لی گئیں؟ اب کہہ رہے ہیں کہ مَیں نے پاکستان کی بڑی خدمت کی اور مجھے یہ صلہ دیا جا رہا ہے؟ کونسی خدمت بھائی؟

پہلے تم نواز شریف اینڈ کمپنی میں پیسے بانٹتے رہے۔ پھر تم اپنی خاص اداؤں کی بنیاد پر قبل ازوقت اپنے ادارے سے فارغ کردیے گئے۔ تم سعودی عرب بطور سفیر بنائے گئے لیکن سعودیہ نے تمہارے کا غذات ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر تم جرمنی میں پاکستان کے سفیر بنائے گئے لیکن وہاں بھی اپنی خاص داستانیں رقم کیں اورواپس وطن بلوا لیے گئے۔پھر کونسی قومی خدمات کا ذکر فرمایا جارہا ہے جناب؟

پوری قوم میں اسد درانی اور اُن کی کتاب کے خلاف سخت طیش پایا جاتا ہے۔ زیادہ دکھ اِس بات پر پہنچا ہے کہ اسد درانی افواجِ پاکستان کے سابق سینئر افسر رہے ہیں۔ اُن سے اتنی سنگین اور قابلِ گرفت غلطی کی توقع نہیں تھی لیکن اُنہوں نے تو تباہی پھیر دی ہے۔ اکھنڈ بھارت اور پاک بھارت مشترکہ کرنسی کی بات تک کر دی۔پھر کہاں گیا دو قومی نظریہ؟ موصوف کئی دیگر دلشکن باتیں لکھ گئے ہیں۔

کسی دل جلے نے صحیح کہا ہے کہ اسد درانی کی اِس کتاب نے دراصل نواز شریف پر لگنے والے الزامات اور اُن کے دیے گئے ایک متنازعہ انٹرویو کی بنیاد پر اُٹھنے والے دباؤ کو ختم کر دیا ہے۔ نواز شریف اب خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہے ہیں کہ ایک ادارے کا سابق سینئر افسر خوب پھنسا ہے۔ہم بھی محسوس کرتے ہیں کہ اسد درانی نے کتاب میں الزامات کا طومار باندھ کر دراصل ہمارے عسکری اداروں کا مورال ڈاؤن کرنے کی ایک ناپاک سازش کی ہے۔

سارا پاکستان اِس حوالے سے یک زبان ہے؛چنانچہ افواجِ پاکستان نے اُنہیں 28مئی کو جی ایچ کیو بلا کر درست طور پر ہلایا جلایا ہے۔ فوج نے اُن کے خلاف باضابطہ تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے اور اُن کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔ اُمید ہے اُن کے خلاف کارروائی اور تفتیش کا دائرہ ابھی مزید وسعت اختیار کرے گا۔ ہم یہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کو شاباش دیں گے کہ اُنہوں نے فوری اور بروقت اقدام کیا ہے اور عوام کو یہ اُمید بھرا پیغام بھی دیا ہے کہ افواجِ پاکستان میں ہمیشہ میرٹ کا پرچم بلند رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور یہ بھی کہ کسی بھی سابق یا حاضر فوجی افسر کی کسی غلطی سے صَرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

ہمیں حیرانی اِس بات پر بھی ہُوئی ہے کہ افواجِ پاکستان نے اسد درانی کی کتاب کے بعض متنازعہ مندرجات کی اساس پر انکوائری کا آغاز کیا ہے تو اِس کی زیادہ تکلیف بھارت میں بیٹھے ''را'' کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کو ہُوئی ہے۔ اُس نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے کہ ''افواجِ پاکستان نے اسد درانی کے خلاف قدم اُٹھا کر اچھا نہیں کیا ہے۔

اِس کا معنیٰ یہ ہے کہ پاکستان کو پاک ، بھارت امن کوششیں عزیز نہیں ہیں۔''اِس دریدہ دہن کو شائد معلوم نہیں ہے کہ اُس نے اور اسد درانی نے اکٹھے کتاب لکھ کر در حقیقت پاکستانیوں کو ایک بار پھر احساس دلایا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ ''را'' پاکستان میں ہمیشہ فساد اور انارکی پھیلانے کی دیدہ دانستہ سازشیں کرتا رہتا ہے۔ یعنی چور چوری سے تو جا سکتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے نہیں جا سکتا۔یہ کتاب لکھ کر پاکستان کی امن کوششوں کو ڈائنامائیٹ کیا گیا ہے۔لیکن اِس پس منظر میں یہاں ایک سوال بھی اُٹھتا ہے:افواجِ پاکستان نے تو اپنے ایک سابق سینئر افسر کے خلاف انکوائری کا حکم بھی دے دیا ہے اور ای سی ایل میں اُن کا نام بھی ڈال دیا ہے لیکن کیا اب نون لیگ جرأت کرکے نواز شریف کو بلا کر انکوائری کرے گی کہ اُنہوں نے ایک انگریزی معاصر کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کیوں اور کس بنیاد پر پاکستان اور پاکستان کے اہم اداروں پر دل آزار الزامات عائد کیے؟

نون لیگ یہ جرأت نہیں کرے گی۔ نواز شریف اور راج دلاری کے نام بھی تو ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن کئی ہفتے گزرنے کے باوجود تاحال اس پر عمل نہیں ہو سکا ہے۔کیا اس لیے کہ نون لیگ کا وزیر داخلہ ''اپنا'' تھا اور اپنے باس کو ناراض کرنے کی اُس میں ہمت نہیں تھی؟اب تو احسن اقبال بھی وزارتِ داخلہ سے فارغ ہو چکے ہیں، کیا اب بھی کوئی یہ ہمت کر سکتا ہے؟

نون لیگ اور نواز شریف تو ہمارے عسکری اداروں کے خلاف دل میں بُغض رکھے ہُوئے ہیں لیکن یاد رکھا جائے کہ افواجِ پاکستان میں تو میرٹ کا پرچم بھی بلند ہے اور ہر کسی کا احتساب بھی فوری کیا جاتا ہے جیسا کہ ہم نے اسد درانی کے معاملے میں دیکھ بھی لیا ہے لیکن نون لیگ اور نون لیگی حکمران تو جاتے جاتے بھی میرٹ کی حرمت اور عزت پامال کرنے سے باز نہیں آئے۔ مثلاً، پیرس میں ''یونیسکو''کے لیے ڈپٹی مستقل مندوب کے عہدے پر تین سال کے لیے نیلوفر شہزاد کی تقرری۔یہ تعیناتی اور تقرری حال ہی میں فارغ ہونے والے حکمرانوں کی طرف سے میرٹ کی تازہ ترین بے حرمتی کی کلاسیکل مثال ہے۔

تقریباً دو سال قبل منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ نے ''یونیسکو'' (پیرس) میں ڈپٹی مستقل مندوب کی تعیناتی کا عمل شروع کیا۔ دسمبر2016ء میں ایک چِٹھی کے ذریعے تمام وزارتوں سے تمام سروسز اور گروپس سے نامزدگیاں طلب کی گئیں۔ بعد ازاں اِن افسران کی شارٹ لسٹنگ کرکے ''لَمز'' کے تحت اُن کے امتحان لیے گئے۔کامیابی کے لیے60 فیصد نمبر لینا ضروری تھا۔

آخر میں بہترین صلاحیتوں کے حامل پانچ امیدوار سامنے آئے۔ منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن نے اِن کے انٹرویو لیے۔ وفاقی وزیرِ مملکت برائے تعلیم اِس کی سربراہی کررہے تھے۔ پھر معیار کی کڑی چھلنی سے گزار کر اِن پانچ میں سے بھی تین نام فائنل کیے گئے۔یہاں پہنچ کر میرٹ کی مٹّی پلید کرنے والوں نے ڈنڈی مار دی ۔ یوں کہ جب ان فائنل تین امیدواروں کی لسٹ وزیر اعظم پاکستان کو بھیجی گئی تو چوتھے نمبر پر آنے والی نیلوفر شہزاد کا نام بھی لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔ یہ خاتون کسٹم سروس سے تعلق رکھتی ہیں۔

دوسرے دو امیدوار جن کے نام وزیر اعظم کو ارسال کیے گئے، اُن میں ڈاکٹر نور علی اور رضوان بشیر شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد بابر چوہان ایڈیشنل کمشنر (اِن لینڈ ریونیو )کا نام بھی لسٹ سے نکال دیا گیا حالانکہ وہ نہائیت پڑھے لکھے شخص ہیں۔ اُنہوں نے نیوزی لینڈ اور ہالینڈ کی جامعات سے اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔پُر اسرا ر حالات اور کسی اَن دیکھے دباؤ کے تحت وزیر اعظم نے 19اپریل2018ء کو نیلو فرفر شہزاد کو ''یونیسکو'' پیرس کے لیے ڈپٹی پرمننٹ ڈیلیگیٹ کے عہدے پر فائز کر دیا اور یوں نون لیگی حکمرانوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ کبھی میرٹ کا احترام نہیں کریں گے۔

اہلیت اور قابلیت اُن کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ سُنا گیا ہے کہ نیلوفر شہزاد کی تقرری کے عمل کے پیچھے ایک نون لیگی گورنر اور ایک نون لیگی صوبائی صدر کی سفارش بھی کارفرما تھی۔ یہ تقرری کرکے فی الحقیقت حقدار کا حق غصب کیا گیا ہے۔ اِس کا ازالہ اِسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب سوؤ موٹو لیں اور حقداروں میں سے میرٹ کی بنیاد پر جس کا بھی حق بنتا ہے، اُسے وہ حق عطا فرما دیں۔ اب تو آخری اُمید جناب چیف جسٹس صاحب سے ہی رہ گئی ہے۔
Load Next Story