ملک میں 16 لاکھ بچے دمے کے مریض بن گئے ماہرین طب

دمے کی بیماری کے بارے میں عوام میں غلط فہمیاں ہیں،شہریوں نے دمے کوگالی بنادیاہے اورچھوت کی بیماری سمجھتے ہیں


Staff Reporter June 03, 2018
دمے کی وجہ دھواں،جانورکے بال،خوشبو،گرد،بستراورتکیے کی دھول،سردی،موسم کی تبدیلی،پولن اورسگریٹ کادھواں ہوسکتا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

قومی ادارہ صحت برائے اطفال کے ڈائریکٹر پروفیسر جمال رضا نے بتایا کہ پاکستان میں 16لاکھ بچے دمے کی بیماری میں مبتلا ہیں جب کہ دمے کی بیماری کے بارے میں عوام میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

پروفیسر جمال رضا نے مزید کہا کہ اس بیماری میں سانس کی نالیاں اندونی سوزش کے باعث تنگ ہوجاتی ہیں مریض کے سینے میں گھٹن،کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کے ساتھ سانس لیتے وقت سیٹی جیسی آوازیں نکلتی ہیں اس بیماری کا موجب بہت ساری چیزیں بنتی ہیں جن میں دھواں، بالوں والے جانور، تیز خوشبو والے اسپرے،گردوغبار، بستر اور تکیے کی دھول، سردی، موسم کی تبدیلی، درختوں اور پھولوں کے پولن اور سگریٹ کا دھواں شامل ہیں جبکہ ماں باپ کے جھگڑے اور نفسیاتی دباؤ بھی بچوں میں دمے کا باعث بنتا ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ان چیزوں سے دور رکھیں اور ان کے سامنے جھگڑے نہ کریں۔

ماہرین طب نے بتایا کہ دمے کے نام سے والدین خوفزدہ ہوجاتے ہیں اس لیے اب ہم بچوں کے حوالے سے دمے کے بجائے الرجی کا لفظ استعمال کر تے ہیں والدین اس بیماری کا وقتی علاج کراتے ہیں جس سے بیماری بڑھتی رہتی ہے والدین کو چاہیے کہ وہ اس بیماری کو سمجھ کر اس کا مکمل علاج کرائیں یہ جان لیوا بیماری نہیں ہے تاہم اگر اس کا علاج نہ کرایا جائے تو اس سے موت واقع ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر محسنہ نور ابراہیم نے بتایا کہ والدین میں عام تاثر یہ پایا جاتاہے کہ بچے کو سانس کا مسئلہ ہے کچھ عرصے میں ٹھیک ہوجائے لیکن بچے کو دمہ ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے بچوں میں دمے کی تشخیص بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ بچے اپنے مسائل، تکلیف اور بیماری بیان نہیں کرسکتے اور والدین بھی تکلیف سمجھ نہیں پاتے والدین کو چاہیے کہ بچے کی تکلیف سمجھیں اگر بچے کو 10روز سے زیادہ نزلہ زکام رہے۔

سانس کی دواؤں سے سکون ملے تو اس کو دمہ ہوسکتا ہے دمہ ایک شخص سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوتا اس لیے اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی متاثرہ فردکے برتنوں اور ساتھ کھانے پینے رہنے اور ہاتھ ملانے سے یہ بیماری پھیلتی ہے دمے کو جڑ سے ختم کرنا ممکن نہیں تاہم اس کو قابو کیا جاسکتا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔