کسٹمز ویلیو ایشن کے اختیارات چیف کلکٹر کو تفویض

چیف کلکٹرمختلف ملکوں سے حاصل معلومات کی بنیاد پردرآمدی اشیا کی ویلیو ایشن کریگا


Irshad Ansari June 03, 2018
تنازع کی صورت میں درخواست ملنے پربینک گارنٹی لے کرکلیئرنس کا اختیاربھی ہو گا، ذرائع۔ فوٹو : فائل

وفاقی حکومت نے ڈیٹا ایکس چینج انفارمیشن کے تحت درآمدی اشیا و کنسائنمنٹس کی کسٹمز ویلیو ایشن کے تعین کے لیے مختلف ممالک سے حاصل ہونے والی معلومات استعمال کرنے کے اختیارات فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیف کلکٹر کو دے دیے ہیں۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے سینئر افسر نے گزشتہ روز ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فنانس ایکٹ 2018 کے ذریعے کسٹمز ایکٹ 1969 میں ترامیم کی ہیں اور صدر کے دستخط کے اگلے روز سے ہی فنانس ایکٹ کے ذریعے کسٹمز سے متعلق کی جانے والی تمام ترامیم لاگو کردی گئی ہیں اور ان کے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیے گئے ہیں۔

مذکورہ افسرنے بتایا کہ فنانس ایکٹ کے ذریعے کسٹمز ایکٹ 1969 میں شامل کی جانے والی نئی سیکشن 25 اے اے میں کہا گیا ہے کہ ڈیٹا ایکس چینج انفارمیشن کے تحت درآمدی شیا پر کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی کے لیے اشیا کی ویلیو متعین کرنے کا اختیارات بورڈ کے بجائے چیف کلکٹر کو حاصل ہوگا اور چیف کلکٹر مختلف ممالک سے حاصل ہونے والی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے درآمدی اشیا کی ویلیو ایشن مقرر کرے گا اور جو ویلیو ایشن مقرر ہوگی اس پر مروجہ شرح کے حساب سے کسٹمز ڈیوٹی وصول کی جائے گی، اس کے علاوہ چیف کلکٹر کو اسیسمنٹ کے بھی اختیارات حاصل ہوں گے۔

مذکورہ شق میں کہا گیاکہ درآمدی اشیا پر کسٹمز ڈیوٹی و ٹیکسوں سے متعلقہ تنازعات کی صورت میں کلکٹر کسٹمز کو درآمد کنندگان کی تحریری درخواست پر درآمد کنندہ سے درآمدی اشیا پر عائد ڈیوٹی و ٹیکسوں اور جرمانے کی رقوم کے برابر بینک گارنٹی وصول کرکے اشیا کلیئر کرنے کا اختیار حاصل ہوگا تاہم صرف وہ اشیا درآمد کنندہ کی تحریری درخواست پر کلیئر کی جاسکیں گی جو ممنوع نہیں ہوں گی اور ضبط کرنے کے ذمرے میں نہیں آتی ہوں گی اور جو اشیا کلیئر کی جائیں گی۔

ان اشیا کا تنازع طے کرنے کے لیے مروجہ طریقہ کار کے مطابق قائم ہونے والی کمیٹی سے رائے لی جائے گی اور اگر رائے ٹیکس اتھارٹیز کے حق میں آئے گی تو بینک گارنٹی اور پے آرڈر کی رقم وصول کرلی جائے گی بصورت دیگرٹیکس دہندہ کو واپس کر دی جائے گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔