تیسرے محاذ کی ضرورت
اب تو وسط مدتی انتخابات تقریباً ناگزیر ہی نظر آنے لگے ہیں۔
اب تو وسط مدتی انتخابات تقریباً ناگزیر ہی نظر آنے لگے ہیں۔ زیادہ تر صوبائی لیڈروں کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ سے جس قدر جلد کوئی فائدہ اٹھایا جا سکے اتنا ہی اچھا۔ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ کی پوزیشن بڑی تیزی سے کمزور ہو رہی ہے اور یہی حال مغربی بنگال میں ممتا بینرجی کا ہے۔ اب کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ یہ لیڈر محض اپنے بل بوتے پر کہاں تک کھڑے رہ سکتے ہیں۔
اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ اندازہ ہر کوئی لگا سکتا ہے۔ ایک بات البتہ یقینی ہے کہ فی الوقت کوئی ایک پارٹی بھی لوک سبھا میں اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں جس کی 543 نشستیں ہیں اور کون سی پارٹیاں مل کر مخلوط حکومت تشکیل دیتی ہیں، اس بارے میں بھی فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کون سی پارٹیاں فرقہ واریت کے خلاف ہیں اور یہ کہ وہ اپنا پیغام کس قدر موثر انداز میں پیش کرتی ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ بی جے پی جو اپنی ہندو توا کے نظریے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے، وہ ایک طرف ہو گی جب کہ دیگر تمام پارٹیاں دوسری جانب ہوں گی۔
ایک امکان یہ بھی ہے کہ ایک تیسرا گروپ بھی سامنے آ جائے۔ کانگریس اور بی جے پی دو گروپ ہیں اور ان دونوں کا متبادل دیگر پارٹیوں کا گروپ ہو گا۔ کانگریس یا بی جے پی کے لیے ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کی خاطر دیگر پارٹیوں کو ساتھ ملانا لازم ہو گا۔ لوک سبھا میں سادہ اکثریت کے لیے 273 اراکین کی ضرورت ہو گی۔ بی جے پی نے تیسری طاقت کے ابھرنے کا نظریہ مسترد کرتے ہوئے ملائم سنگھ یادو سے کہا ہے کہ کانگریس کے ساتھ اس قدر شکوہ شکایت کے باوجود آخر وہ ''یو پی اے'' کے اتحاد سے الگ کیوں نہیں ہو جاتے۔ لیکن اس کی اپنی مجبوریاں ہیں، بنا بریں ان کے بیٹے آہیلیش یادو نے، جو کہ یو پی کا وزیر اعلیٰ ہے، تامل ناڈو کی اپنی ہم منصب جے للیتا کے ساتھ ملاقات کر کے تیسرے محاذ کے احیاء کی کوشش کی ہے۔
یہ خیال، کہ کانگریس اور بی جے پی کے مقابلے میں ایک تیسرے محاذ کی ضرورت ہے، عمومی طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے لیکن اس قسم کا محاذ پرانے خطوط پر قائم نہیں کیا جا سکتا۔ جب مثالیت (یا آئیڈیل ازم) میں کمی ہوتی نظر آئے تو پھر بہت سے سمجھوتے کر لیے جاتے ہیں حتی کہ اخلاقی قدروں کو بھی پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لیڈر زمین پر اترا کر چلنا شروع کر دیں گے جن میں کوئی شخصی خوبی نہیں ہوتی اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارت آج اسی کیفیت سے دو چار ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ناپسندیدہ لوگوں کے ایک گروپ کو ناپسندیدہ لوگوں کے دوسرے گروپ سے تبدیل کر لیا جائے۔ تبدیلی کا آغاز بہت چھوٹا ہو سکتا ہے لیکن اس کو مشکوک نہیں ہونا چاہیے۔
بھارت میں تیسرا محاذ' اگر اور جب قائم کیا گیا تو اس کے لیے بہت سارا کام کرنا ہو گا یعنی ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جو کہ کانگریس اور بی جے پی نے برسہا برس سے انباروں کی صورت میں جمع کر رکھی ہیں۔ ان دو پارٹیوں نے جو سب سے بڑا جرم کیا ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے اقتدار میں رہنے کی خاطر پورے معاشرے کو سیاست زدہ کر دیا ہے۔ اپنے غنڈوں اور روپے کے تھیلوں کے ذریعے انھوں نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ تاہم جن پارٹیوں سے تیسرا محاذ قائم کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ خود بھی کسی نہ کسی وقت میں مذکورہ دونوں بڑی پارٹیوں کی طرف سے تشکیل دیے جانے والے اتحادوں کا حصہ رہی ہیں۔
اس پس منظر میں یہ بات قابل فہم ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں نے تیسرے محاذ کے خیال کو برطرف کر دیا۔ جب ملائم سنگھ نے اس تصور کے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی تھی اس کے ساتھ ہی دونوں پارٹیوں کے چوٹی کے لیڈر تیسرے آپشن کے ہیں دوبارہ جنم لینے کے خیال کا مضحکہ اڑا نے لگے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں پارٹیاں اس معاملے میں بہت ذود رنج ہو گئی ہیں اور انھیں اب سے 2014ء کے اوائل تک کسی وقت بھی شروع ہو جانے والے عام انتخابات میں اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہے۔ ایک بڑا سوال البتہ ابھی باقی ہے اور وہ ہے اتفاق رائے پیدا کرنے کا سوال۔
جب اتنی بہت ساری پارٹیاں ہوں جن کے نظریات آپس میں متضاد و متصادم ہوں' ان کی کارکردگی کا اسلوب مختلف ہو اور ان میں ایسے لوگ بھی ہوں جن کا دوسروں سے شخصی اختلاف ہو تو اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہو گا کہ ان درجن بھر عجیب و غریب لیڈروں میں سے وزیر اعظم کون بنے گا؟ ملائم سنگھ یادو نے تو ابھی سے اپنے انڈے گننے شروع کر دیے ہیں حالانکہ ان میں سے چوزے بھی نہیں نکلے۔ پھر مذہبی لیڈر بھی ہیں، جیسے آندھرا پردیش سے تیلگو دیسام پارٹی کی جے للیتا اور چندرا بابو نائیڈو۔ حتیٰ کہ بہو جن سماج وادی پارٹی کی مایا وتی بھی ایک وقت میں اپنی ایسی خواہش کی پرورش کرتی رہی ہیں۔ لیکن میری تشویش یہ ہے کہ آخر علاقائی نکتہ نظر کی حامل پارٹیاں بھارت کی مختلف النوع آبادی پر کس طور حکمرانی کر سکیں گی۔
اس قسم کے منظر نامے میں صرف ایک ہی امکان باقی رہتا ہے کہ وزارت عظمیٰ کا امیدوار باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ ایسے شخص کو منتخب کیا جائے جو ملک کے خارجہ تعلقات کی مکمل سمجھ بوجھ رکھتا ہو نیز اسے ملک کی اقتصادی ترقی کے اصولوں کا بھی علم ہو۔ ہزاروں نوجوان مرد و خواتین صحت' تعلیم' ماحولیات اور انسانی حقوق کے شعبوں میں گراس روٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ان سب کو باہم مربوط کیا جا سکتا ہے۔ اس کے جواب میں وہ اپنے رابطوں اور تجربات کے ذریعے تیسرے فرنٹ کو اور زیادہ بامعنی بنا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ کیمونسٹ بھی ان تمام عناصر کو اپنے حصار میں لینے کے متمنی ہوں گے جو بی جے پی اور کانگریس کے حلقوں سے باہر ہیں۔
مجھے یاد ہے ملکہ سارا بھائی لوک سبھا کا گزشتہ الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑ رہی تھیں۔ اس خاتون نے ایل کے ایڈوانی سے مقابلہ کا فیصلہ کیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پوری قوم کو یہ پیغام دینا چاہتی تھیں کہ جمہوریت اور سیکولر ازم پر یقین رکھنے والے لوگ سیاسی جماعتوں سے رستخیز کے ذریعے اپنے وہ حقوق وصول کریں جن پر وہ غاصبانہ قبضہ کیے بیٹھی ہیں۔ انسانی حقوق کے بعض فعال کارکنوں نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے 'لوک نتی منچ' کے نام پر عوام کا ایک سیاسی فورم قائم کر لیا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جس پر مختلف گروپ یا افراد انتخاب لڑنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے تھے۔
اس منچ میں شمولیت کے لیے صرف ایک شرط تھی کہ وہ جمہوریت سیکولر ازم اور ریاستی فلاح و بہبود پر اعتماد رکھتے ہوں۔ یہ الگ بات تھی کہ ان امیدواروں میں ملکہ بھی شامل تھی جو کہ انتخاب جیت گئی۔ ان لوگوں کا مقصد سیاست سے بدعنوانی کو پاک کرنا تھا اور یہ لوگ اب بھی موجود ہیں ممکن ہے کہ ان کی تعداد کم ہو مگر ان کی اثر پذیری سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ گاندھی کے پیروکار جے پرکاش نارائن نے 1977ء میں بڑی کامیابی سے اندرا گاندھی کی حکومت گرا دی تھی۔ انھوں نے جنتا پارٹی بنائی جس نے لوک سبھا میں اکثریت حاصل کر لی۔ مجھے امید ہے کہ اس قسم کی کوششیں ایک نہ ایک وقت ضرور بار آور ثابت ہوں گی جس طرح کہ یورپ میں ''دی گرینز'' نے ایک اہم سیاسی حیثیت حاصل کر لی ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)