اللہ شوق دے تو کتابیں پڑھا کرو
صاحب نیشنل بک فاؤنڈیشن نام کا ادارہ تو پہلے بھی موجود تھا۔ اور کتابیں بھی بری بھلی اپنی جگہ موجود تھیں۔
صاحب نیشنل بک فاؤنڈیشن نام کا ادارہ تو پہلے بھی موجود تھا۔ اور کتابیں بھی بری بھلی اپنی جگہ موجود تھیں۔ لکھنے والے لکھ بھی رہے تھے' پڑھنے والے پڑھ بھی رہے تھے۔ مگر اچانک یہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی کایا کلپ کیسے ہو گئی کہ وہاں بچے' بڑے' مرد' عورت' بوڑھے' جوان امنڈے چلے آ رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر بچے اسکاؤٹ کی وردی پہنے قطار اندر قطار ہاتھ میں کتاب لیے قدم مارتے چلے آ رہے ہیں۔ ادھر کتابوں کے اسٹالوں پر یار کس اشتیاق سے رنگا رنگ کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں' للچا رہے ہیں' خرید رہے ہیں' ارے یہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کب سے سوئی پڑی تھی۔
اب کیسے جاگ پڑی۔ بات یہ ہے کہ ادارے قائم تو ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ متحرک اس وقت ہوتے ہیں جب کوئی سرپھرا آ کر اس میں روح پھونکتا ہے۔ اب مظہر الاسلام اس ادارے کے سربراہ ہیں۔ اس بات پر تلے نظر آتے ہیں کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کو نیشنل بک فاؤنڈیشن بنانا ہے۔ ملک کے کس کس کونے سے انھوں نے کتابوں کے قارئین کو مطالعہ میں غرق مخلوق کو ڈھونڈ کر نکالا ہے اور اس وسیع و عریض بلند و بالا عمارت میں انھیں جمع کیا ہے جو پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر کے نام سے جانی جاتی ہے۔
کتاب میلہ کی اصل رونق وہ بچے تھے جو صرف میلہ دیکھنے نہیں آئے تھے۔ اپنی پسند کی کتابوں پر اور ایسی کتابیں لکھنے والوں پر اُمنڈے پڑ رہے تھے اور یہ نقشہ دیکھ کر ہم نے یہ جانا کہ اس میلہ کے ہیرو پاکستانی تھیٹر اور ٹی وی ڈرامے کے نامور اداکار قوی خان ہیں۔ جہاں ان کی شکل نظر آئی اور بچے ان پر ٹوٹ پڑے۔ اور ان بچوں میں کتنے بچے وہ تھے جن کے علاقوں میں کتنے اسکول جلائے جا چکے ہیں۔
تو کیا یہ کتاب میلہ جوابِ آں غزل ہے۔ مظہر الاسلام تُلے نظر آتے ہیں کہ کتاب کو عام کیا جائے۔ خوبصورت چھپیں' قیمت کم ہو' قدر و قیمت زیادہ ہو۔ پھر اسے ملک کے دور افتادہ قریوں میں پہنچایا جائے۔ کتنے ایسے منصوبے وہ بنائے بیٹھے تھے۔ انھوں نے ان ادیبوں' دانشوروں کے سامنے جنھیں یہاں بلایا گیا تھا کتنے ایسے منصوبے ایک ایک کر کے پیش کیے اور ان سے اپیل کی کہ آپ لوگوں نے کتابیں خوب لکھیں' اب کتابوں کے سفیر بن جایئے۔ تب کسی کو خیال آیا کہ ارے ہمارے بچپن میں محلہ میں پیسہ لائبریری ہوا کرتی تھی۔
وہاں سے کتابیں لے لے کر کتنی پڑھ ڈالیں اور پیسہ دھیلا کتنا خرچ ہوا۔ نہ ہونے کے برابر۔ کیوں نہ اس سلسلہ کی تجدید کی جائے۔ مگر تقریبات کس رنگ کی ہوئیں یہ بھی تو سن لیجیے۔ ایک تقریب کتاب کے مثالی قارئین کے اعزاز میں۔ پچھلے سال بھی ڈھونڈ کر کراچی سے ایک ایسے قاری کو برآمد کیا گیا تھا جو کتاب کا کیڑا ہے۔ اس کی منہ دکھائی ہوئی اور ایک لاکھ کی رقم نذر کی گئی۔ اس قاری کا نام تھا غازی صلاح الدین اس برس ایسا قاری لاہور سے برآمد کیا گیا۔
اس کا نام ہے وجاہت مسعود۔ منہ دکھائی کے بعد ایک لاکھ کی رقم نذر قاری اور ہاں کمسن قارئین میں سے بھی تو ایسے مثالی قاری برآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پچھلے برس تو خیر سچ مچ کا کتابوں کا ایسا دھنی برآمد ہو گیا تھا۔ اس سال بھی کمسن قارئین کی لمبی صفوں میں ایسے ایسے دو قاری چھانٹ کر نکالے گئے تھے۔ دونوں کو ایک ایک ہزار کی رقم نذر کی گئی۔
اب ادیبوں کی بھی تو سنئے' ان کی بھی تو منہ دکھائی ہوئی تھی۔ ہر ایک کو ا یک ایک گھنٹہ ملا کہ اپنے قارئین سے ملو۔ اپنی کہو ان کی سنو' یہاں مستنصر حسین تارڑ اپنا نیا ناول بغل میں دبا کر نمودار ہوئے۔ سوالوں کی بوچھاڑ میں مداحوں کی طرف سے داد کے برستے ڈونگرے سمیٹے اور رخصت ہوئے۔ اسد محمد خاں اپنی کلیات کے ساتھ آئے تھے۔ بہت کچھ سنایا۔ تھوڑا سنا اور رخصت ہوئے۔ پھر آئیں زاہدہ حنا۔ یہ ہمارے زمانے کی مصور غم علامہ راشد الخیری ہیں۔ زمینِ افسانہ میں اشک کے دانے بوتی ہیں۔
اپنے قارئین اور سامعین کو بھی رلاتی ہیں اور خود بھی اشکوں سے منہ دھوتی ہیں۔ اپنی ایک کہانی سنائی، مسعود اشعر نے اور پھر طنز و مزاح کے تیر چلاتے نشتر چبھوتے آئے عطاء الحق قاسمی اور ان کے پیچھے پیچھے آئے امجد اسلام امجد۔ ان کی قدر کرو۔ نثر نگاروں کے بیچ یہ اکیلے شاعر نظر آ رہے ہیں۔ اور عقیل روبی جو ایک رنگ کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھتے ہیں۔ ارے ہاں دوسرے شاعر کو تو ہم بھول ہی چلے تھے۔ یہ تھے محمود شام۔ نام کہاں تک گناتے جائیں یہاں تو ادیبوں کی ایک کہکشاں تھی۔ سب اپنے اپنے فن کے کھلاڑی۔ ہاں ایک پروگرام منشا یاد کی یاد میں بھی ہوا جس میں ان کے اہل خاندان نے سب سے بڑھ کر شرکت کی۔
ہاں دو مصنفین ادیبوں سے ہٹ کر تھے۔ ایک جاوید جبار صاحب' کتاب لکھی ہے۔ انوکھا پاکستان انوکھی اس کی تقدیر۔ اور جناب رضا ربانی صاحب۔ کتاب اپنی جگہ ان کی تقریر اپنی جگہ۔
اور ہاں دو عالم فاضل دو دوست ممالک سے بھی تو آئے تھے۔ ترکی سے ڈاکٹر درمش اور چین سے ڈاکٹر تھانگ۔
یہ تو تھی ادبی علمی سیاسی کتابوں سے تعارف کی تقریب۔ کتابوں سے اور ان کے مصنفوں سے۔ مگر وہ جو کتاب کے فروغ کے لیے عملی قسم کے منصوبوں کا ذکر تھا وہ تو بیچ ہی میں رہ گیا۔ مظہر الاسلام کا ایک پروگرام یہ ہے کہ چھوٹے قصبوں اور بستیوں میں جا کر لائبریریاں قائم کی جائیں۔ موجود ادیبوں سے گزارش کی کہ کچھ اپنی تصانیف سے کچھ ان تصانیف سے جو ڈھیروں کے حساب سے آپ کے پاس آتی ہیں ان میں سے مٹھی بھر کتابیں ان لائبریریوں کے لیے نکالیے۔
اس سلسلہ میں ایک تجویز چین کے ڈاکٹر تھانگ نے پیش کی۔ ادیبوں سے کتابوں کے عطیات کے لیے اپیل کی گئی تھی اس کے سلسلہ میں کہا کہ مناسب طریقہ یہ ہو گا کہ بک فاؤنڈیشن اپنے انتظام میں ایک بک بینک یا کتاب بینک قائم کرے اور کتابوں کے عطیات وصول کرے اور پھر حصہ رسد ان چھوٹی لائبریریوں میں تقسیم کرے۔
لیجیے کتاب کے فروغ کے کتنے منصوبے ہو گئے۔ اب دیکھیں کون کونسا منصوبہ پروان چڑھتا ہے۔ خلاصہ اس سب کا یہ ہے کہ؎
اللہ شوق دے تو کتابیں پڑھا کرو