پنڈورا بکس

یہ تو کاسمیٹک سرجری بھی نہ ٹھہری اور عوام اب پھر انھی پرفریب لیڈروں کے آسیبی پنجوں میں آگئے۔


Anis Baqar April 26, 2013
[email protected]

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف جس دلیرانہ طریقے سے انصاف کی ڈور پکڑی ہے اگر اس ڈور کو سلجھانے کے لیے کچھ عرصہ اور لگایا جاتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا اور چیف الیکشن کمشنر کے مراتب میں اضافہ ہوجاتا۔ 63/62 کے فلٹر پلانٹ سے سارا سیاسی کچرا عوام کے دامن پر گر پڑا اور صرف نظریہ پاکستان سے متعلق چند سوالات اور بعض ایسے بھی گزرے کہ وہ احتساب سے بالاتر ہوگئے، ظاہر ہے یہی سب ہونا تھا، کہاں اس 63/62 کے پل سے گزرنے کے لیے ایک ماہ اور کہاں ایک ہفتہ، انصاف کے تقاضے کہاں پورے ہونے تھے۔

یہ تو کاسمیٹک سرجری بھی نہ ٹھہری اور عوام اب پھر انھی پرفریب لیڈروں کے آسیبی پنجوں میں آگئے، تعلیم کی کمی اور جاگیرداری سماج دونوں نے مل کر عوام کو تو تقسیم کر ہی دیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں، نسل پرستی کے عفریت نے یہ سمجھادیا ہے کہ اصل دشمن حاکم یا حکمرانی کے انداز نہیں بلکہ غریب کے اصل دشمن دوسرے فرقے، دوسری زبانیں بولنے والے یا دوسرے مکاتب فکر والے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام بٹ چکے ہیں اور جو آج تک اپنے اصل دشمن کو سمجھ نہ سکے جو انھی کی زبان بولتا ہے، ان کے جیسا لباس پہنتا ہے، انھی کی طرح کے فرائض مذہبی ادا کرتا ہے مگر شریعت کے ان انصاف کے پہلوؤں سے ناواقف ہے کہ قرآن کریم میں صلوٰۃ کا جتنی بار بھی ذکر آیا ہے اس سے ذرا کم ہی زکوٰۃ کا ذکر ہے اور پھر اسلامی ریاست میں زر کی تقسیم اور بیت المال سے غربا کی داد رسی کا مسئلہ ہے مگر یہاں کیا ہے چند سو لیپ ٹاپ اور دوسری طرف انکم سپورٹ چند ہزار لوگوں کو جو ملک کی آبادی کا نصف فیصد بھی نہیں ہیں، اربوں روپے کے اشتہارات کیونکر عوام کا پیٹ بھرسکیں گے، بلکہ بعض پارٹیاں تو عوام سے الیکشن فنڈ مانگ رہی ہیں جو ایک نئے پاکستان کی تعمیر میں مبتلا ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی دین دھرم کی اصل روح پر یقین نہیں رکھتے، نہ تو اسلام ان کا مطمع نظر ہے اور نہ ہی سوشلزم اور نہ مغربی جمہوریت اور نہ فلاحی ریاست ان کا دھرم اپنا پیٹ ہے، متوسط طبقے کی جماعتیں عتاب میں ہیں۔

1970 کے انتخاب میں جس پارٹی نے روٹی کپڑ، اور مکان کا نعرہ لگایا تھا یہ تھی ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی، ان دنوں فرانس سمیت دنیا میں سوشلسٹ تحریک عروج پر تھی، یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں بھی یہ تحریک مضبوط ہوچکی تھی، سکرنڈ، نوابشاہ میں سندھ کے سوشلسٹوں نے ہاری کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جہاں سرخ پگڑیاں اور ہاتھوں میں سرخ جھنڈے اٹھائے لاکھوں ہاری یہ نعرہ لگاتے ہوئے سکرنڈ کے میدان میں جمع ہورہے تھے، ہاری حقدار، ہاری حقدار۔

روٹی کپڑا سب کو دو ورنہ گدی چھوڑ دو انقلاب انقلاب۔ دانشوروں کی کراچی سے ایک بڑی ٹرین نوابشاہ پہنچی تھی، اس کانفرنس سے سوبھوگیان چندانی، مزدور اور کسان لیڈروں کے علاوہ شعراء اور ادباء نے بھی تقریریں کیں مگر ذوالفقارعلی بھٹو نے ایسا نعرہ لگایا جو نازش امروہی بھی نہ لگاسکے۔ جو پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ تھے اور بہت سے نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ چلے گئے، این ایس ایف نظریاتی طور پر دولخت ہوگئی، مزدور تحریک اور ہاری تحریک بھی تقسیم ہوکر رہ گئی اور انتخابات 70 کے بعد پیپلزپارٹی نے تقسیم پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور یحییٰ خان کی پالیسی کی تائید کی، بینظیر بھٹو اور نصیر اﷲ بابر نے طالبان کی تحریک کو اپنی محبوب تحریک قرار دیا تھا بلکہ بینظیر بھٹو کی کرسٹینا امریکی جرنلسٹ جو امریکا سے طالبان سے ملاقات کے لیے آئی تھی اس کو انھوں نے بقول کرسٹینا یہ کہاکہ ''یہ ہمارے بچے ہیں'' پھر پرویز مشرف نے بھی جب امریکا کو ضرورت ہوئی تو انھوں نے طالبان کے خلاف اباؤٹ ٹرن لیا جو آج بھی جاری ہے، پھر بھی ڈرون حملوں کا تذکرہ ہوتا ہے محض ایک مذاق ہے جب کہ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں آج بھی پرانی پالیسی پر استقامت سے قائم ہیں، جماعت اسلامی کو اپنی اس پالیسی کے تحت اب انتخابی نقصان پہنچ رہا ہے اور شہری علاقوں میں اس کا ووٹ بینک تیزی سے کم ہوا ہے۔

مگر وہ اپنے نظریہ پر قائم ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ماضی میں خصوصاً 1974 تک اسلامی جمعیت طلبہ کا این ایس ایف سے کانٹے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا، آج بھی جب وہ انتخابی تحریک چلارہے ہیں تو وہ اپنے منشور اور تعلیمی اور معیشت پر کوئی خاص تذکرہ نہیں کرتے گو کہ ان کا معاشی منظرنامہ غور طلب ہے۔ دولت کی تقسیم اور اسلام میں اس کی اہمیت پر زور دینے کے بجائے وہ بھارت اور پاکستان اور کشمیر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

اس لیے جماعت اسلامی کو انتخاب میں زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے جب کہ یہ نعرہ پشاور تک مقبول ہے مگر اتنا نہیں جوکہ 9/11 کے بعد تھا، درحقیقت اس کا اصل سبب پاکستان کی بے ربط اور کمزور خارجہ پالیسی ہے جس کا کوئی تھنک ٹینک نہیں اور کوئی ایسی بلند نگاہ نہیں بنایا کرتی جو کہ سیاست پر عبور رکھتی ہو جو میخائل سوسولوف اور ہنری کسنجر کے پیچ وخم سے واقف ہو اور سوویت یونین اور چین کی سیاست اور جنرل گیاپ کی حکمت عملی سے واقف ہو۔ اب بھی پاکستانی لیڈران یونی پولر ورلڈ کے خواب دیکھ رہے ہیں، یونی پولر ورلڈ یعنی سپر پاور امریکا کی بنیاد کمزور ہورہی ہے۔ جب کہ روس اور چین نے نیو ورلڈ آرڈر پر سمجھوتہ کرلیا ہے جس کا عکس شام اور عرب ممالک کے جنگجو حضرات کے خلاف ان دونوں ممالک کا اتحاد ہے، ورنہ بشار الاسد کب کے ختم ہوچکے ہوتے۔ رفتہ رفتہ روس، چین ان کی پشت پر کھڑے ہوکر امریکا پر دباؤ ڈال رہے ہیں، اسی لیے جرمنی نے شام کی جنگ سے ہاتھ اٹھالیا۔

پاکستان کا محل وقوع جس قدر اہم ہے اسی قدر خطرناک بھی ہے کیونکہ اس پر ہر ملک کی نظر ہے، یہ شیشہ گری پر کام کرنے کے مترادف ہے، مگر ہم نے چین سے معاہدہ کیا اور ہم بغلیں بجارہے ہیں، اب ملک میں الیکشن کا شور وغوغا ہے اور پانچ برسوں کی جمہوریت کے شادیانے بجائے جارہے ہیں، در حقیقت یہ بغلیں بجانے کا دور نہیں بلکہ بہت اہم اور نازک پل آگیا ہے جو پانچ برسوں کی جمہوریت کا پھل جمہوری درخت سے ملنے کو ہے۔

عوام کو ایسے انتخاب میں ایک اور مذاق کیا جارہا ہے، وہ ہے پرویز مشرف پر مقدمہ، اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر مشرف کے دور میں کئی متنازعہ اور اختلافی اقدامات کیے گئے، اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجد اور عدلیہ کے ساتھ زیادتی مگر ہر معاملہ میں صدر کو ہدف بنانا کیا معنی؟ صدر کی پوری کابینہ کم یا زیادہ اس کی ذمے دار تھی ایک فرد ہی کیونکر تمام جرائم کا مرتکب ہوگا، اگر مشرف کابینہ کو اختلاف تھا تو وہ فوراً سبکدوش کیوں نہ ہوئی، اگر معاملات آگے بڑھے تو پھر پنڈورا بکس کھلنے کو ہے، ہم پیاز کی آخری تہہ تلاش کررہے ہیں، ہماری منطق بھی نرالی ہے، صدر زرداری کی ق لیگ خود جمہوریت کے اس سفر میں شامل ہے، فرد واحد کیوں؟ این آر او نے کئی سال گزاردیے، مگر نتیجہ لاحاصل قوم کا اس قدر وقت ضایع ہوا کون ذمے دار ہے۔

یہ کون نہیں جانتا کہ این آر او ایک غیر ملکی سرپرستی کا نتیجہ ہے جس میں یہ طے کردیا گیا تھا کہ پہلی حکومت پی پی پی کی ہوگی اور دوسری حکومت ن لیگ کی مگر کس کی اکثریت کیا ہوگی، کن کن میں مفاہمتی اصول اور حکومت مل کر بنے گی یہ معاملہ تو زمینی حقائق دیکھنے کے بعد ہی ہوگا، مشرف کے جانے کے بعد بھی کئی عشق کے امتحان آئے، منصور اعجاز اور حسین حقانی کا کیس جو اب تک ایک گمشدہ رسید ہے معلوم نہیں کب اور کیا ہوگا؟ اصغر خان کیس کے نتائج کب اور کیونکر نظر انداز ہوگئے، کیونکہ مدعی سست تھا اور وہ خود بھی سچ کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے اور ایسے بے شمار مقدمات آخر اگر مشرف کو مقدمات میں کھینچا جارہا ہے توپھر چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر کس نے حملہ کیا، اس ماضی کا کیا ہوگا آخر وہ بھی تو عدلیہ تھی، کچھ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہی کیوں انصاف! فیلڈ مارشل ایوب خان کے ساتھ، یحییٰ خان کے ساتھ یا ان کی باقیات اور ان کی کابینہ کے لوگ کس

طرح دودھ کے دھلے ہوگئے، دارالسلطنت اسلام آباد کیونکر لے گئے کس سیاسی یا فوجی وجہ سے کبھی بھی ان کا احتساب نہ ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کے قتل پر آنے والی حکومتوں نے احتساب کیوں نہ کیا آخر یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ بعید از قیاس ہے یا کوئی ایسی پہیلی ہے جو ہم سے کہا جارہا ہے کہ بوجھو تو جانیں لیکن یہ بھی نہ کوئی جمہوری طرز عمل ہے اور نہ کسی جمہوری روایت کی جانب جاتا ہے، اگر احتساب منظور ہے تو مشرف کی کابینہ کے تمام بلند پایہ سیاسی اہمیت کے حامل وزرا بھی صدر پرویز کی پالیسی پر عمل درآمد اور پوری انتظامیہ ان تمام بداعمالیوں کی ذمے دار ہیں جو ان کے دور میں رونما ہوئے ہیں، اگر یہ صورتحال ایسی ہی چلتی رہی تو یہ ہوسکتا ہے کہ آزادانہ انتخابات کے لیے ایک زہر قاتل ثابت ہو کیونکہ ان تمام صورت احوال کو دیکھ کر عوام میں انتخابات کے روز کا نقشہ ہولناک دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ملک تقسیم شدہ ہے، فکری اور نظری اعتبار سے اور علاقوں میں بٹا ہوا ہے، پنجاب کے علاوہ تمام صوبے بدامنی کی لپیٹ میں ہیں۔

مجھے شادابی صحن چمن سے خوف آتا ہے
یہی انداز تھے جب لٹ گئی تھی زندگی اپنی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں