جواں آگ
65 سال سے اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ جو کھیل بنام سیاست کھیلا جارہا ہے۔
آج کا نوجوان جاگ اٹھا ہے، آج کے نوجوان نے یہ جان لیا ہے کہ انھی کو آگے بڑھ کر بگڑے ہوئے حالات سنوارنے ہیں۔ نوجوان تو ہر دور ستم میں جاگتے رہے ہیں مگر اس بار معاملہ کچھ اور ہے، آج لاکھوں کی تعداد میں نوجوان گھروں سے باہر نکل آئے ہیں۔ یقیناً انھوں نے فیصلہ کن جنگ لڑنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ آج ہر رستہ، ہر گلی میں نوجوان بے خوف و خطر نظر آتے ہیں۔ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے۔ روز بدلتے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے، بحث و مباحثہ میں مصروف ، وطن کو سنہرے مستقبل سے ہمکنار کرنے کی فکر میں ڈوبے یہ نوجوان، وطن کی شکستہ ڈوبتی ناؤ کو انشاء اﷲ کنارے پر لے آئیں گے۔
65 سال سے اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ جو کھیل بنام سیاست کھیلا جارہا ہے۔ اب یہ سیاسی کھیل ہرگز نہیں چلے گا۔ آج کا نوجوان کھلم کھلا اس اعلان پر اتر آیا ہے کہ اب سیاست بطور کھیل نہیں ہوگی، اب نوجوان خود فیصلے کریں گے، اپنے ملک کی تقدیر خود لکھیں گے، کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے، کس نے ملنا ہے، کس نے نہیں ملنا، کون دوست ہے، کون دشمن ہے، کون سا راستہ اختیار کرنا ہے، کس رستے کو چھوڑنا ہے، یہ سارے معاملات اب نوجوان دیکھیں گے۔ میں نے آج کے نوجوانوں کی آنکھوں میں ابھرتے طوفان دیکھ لیے ہیں۔
اب یہ طوفان ظلم و ستم کے سارے نشانات کو بہا لے جائیں گے۔ آج کے نوجوان تبدیلی کا مصمم ارادہ کر بیٹھے ہیں اور اس بارے میں ان کا یقین انتہائی پختہ نظر آرہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے نوجوان بہت بڑی تعداد میں ملک سے باہر اچھے روزگار سے لگے ہوئے تھے وہ ملک بھی خوبصورت تھے، امن و امان بھی تھا، مگر اپنے ملک کو شعلوں میں گھرا دیکھ کر وہ نوجوان اپنے تمام آرام و آسائش کے سامان چھوڑ کر ملک کو بچانے، شعلوں کو بجھانے واپس آگئے ہیں۔
میں دیکھ رہا ہوں، ہمارے آج کے نوجوان جو اسی اپنے ملک میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز لاکھوں روپے بطور تنخواہ چھوڑ کر ملک بچانے کے لیے لٹیروں، ڈاکوؤں کے خلاف صف آراء ہوگئے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں آج کے نوجوان ملک بچانے کے لیے اپنے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ جوں جوں الیکشن 2013 قریب آرہا ہے توں توں یہ جواں آگ پھیل رہی ہے۔ اس بار ووٹر لسٹ میں تقریباً تین کروڑ نوجوان ووٹ شامل ہیں اور ان میں بہت بڑی تعداد ان نوجوان ووٹرز کی ہے جو زندگی میں پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔ میں نے وہ نوجوان دیکھے ہیں، آپ نے بھی دیکھے ہوں گے۔ جو پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔ یہ نوجوان اپنے شناختی کارڈ سنبھال رہے ہیں اور بڑی بے تابی سے 11 مئی 2013 کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ یہ اپنا ووٹ ''تبدیلی'' کے لیے ڈال سکیں۔
یہ جو نئے ووٹرز کا اندراج ووٹنگ لسٹوں میں ہوا ہے۔ فیصلہ کن یہی ووٹ ہوں گے، اور انشاء اﷲ یہی نوجوان ووٹ ملک کو ترقی کی راہوں پر لے آئیں گے۔ یہ نوجوان ووٹر الیکشن کی تاریخ کا بے تابی کے ساتھ انتظار اس لیے کر رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے وطن میں لاشیں گرتی دیکھی ہیں، گھر جلتے دیکھے ہیں، رہائشی بلڈنگیں بموں سے اڑتی دیکھی ہیں، مساجد، امام بارگاہیں، گرجے، مندر، مزارات کو خود کش بمباروں کے ذریعے تباہ ہوتے دیکھا ہے، ٹارگٹ کلنگ دیکھی ہے، بھتے کی پرچیاں تقسیم ہوتی اور بھتہ نہ دینے پر موت دیکھی ہے۔
ایمبولینسوں کی چنگھاڑیں، اسپتالوں میں آتے زخمی اور پھر لمحوں بعد اسٹریچر پر سفید چادروں سے ڈھکی لاشیں دیکھی ہیں، اٹھتے جنازے، آباد ہوتے قبرستان، اجڑتے شہر، نوگوایریاز، جدید مہلک ترین اسلحے کے ذخائر اور۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اور خاموش چپ سادھے حکمران اور ان کے بارودی بندوق بردار۔ یہ سب بربریت کے نظارے آج کے نوجوان نے دیکھے ہیں۔ ڈرون طیارے آتے ہیں اور ہمارے ملک کے جغرافیے کو تار تار کرکے چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی آج کے نوجوان جانتے ہیں۔ اس ظلم و بربریت پر حکمرانوں کی لوٹ مار، کرپشن، توقیر صادق، لوٹ مار کرکے بحفاظت ملک سے فرار۔ دولت مندوں کے اوباش لڑکے، خود کو خدا سمجھتے ہوئے، جہاں چاہیں شغل کے طور پر گولیاں چلاتے ہیں اور قہقہے لگاتے چلے جاتے ہیں۔ حکمرانوں نے خزانہ بالکل خالی کردیا ہے ، محفوظ سرمایہ 7 ارب رہ گیا ہے جو چند دنوں میں ختم ہوجائے گا۔
یہ اس ملک کا احوال ہے، جہاں قدرت کی تمام نعمتیں موجود ہیں۔ سمندر، خزانوں سے بھرے پہاڑ، سونا اگلتی زمین، دنیا کے بہترین پھل، چاروں موسم، بارشیں، سورہ رحمن کی تفسیر یہ ملک اور بدطینت، بد نیت، بد بخت حکمرانوں نے اس ملک کو اس حال پر پہنچا دیا۔یہ سب کچھ آج کے نوجوانوں کے سامنے ہوا ہے۔ اب یہ نوجوان فیصلہ کرچکے ہیں کہ اپنے ملک کو بچانا ہے اور چہرے نہیں! نظام بدلنا ہے۔ کیونکہ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اب صبر کی مزید گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ اب آج کے نوجوانوں کو آگے بڑھ کر ملک کے تمام تر معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہے اور ملک بچانا ہے، ملک چلانا ہے۔
ان حالات میں الیکشن 2013 بہت اہمیت اختیار کرگئے ہیں پوری دنیا بھی اس اہم خطے میں ہونے والے الیکشن کو دلچسپی و غور سے دیکھ رہی ہے۔ ہمارے جغرافیائی حالات پر دنیا کی نظریں ہیں۔ خصوصاً ایران، ہندوستان اور افغانستان کے حوالے سے ہمارا وطن پاکستان خاص اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ ہمارا صوبہ بلوچستان خلفشار کی سنگین ترین صورت حال میں مبتلا ہے۔ اس نازک صورت حال میں بھی ہمارے وطن کو جان بوجھ کر ڈالا گیا ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے ایسا کیوں ہورہا ہے، یہ بہت غلط ہورہا ہے۔ آج کے نوجوانوں کو بلوچستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بلوچ عوام سے مکمل رابطہ رکھنا ہوگا اور اب میں حبیب جالب کی نظم ''جواں آگ'' آج کے جوانوں کی نذر کر رہا ہوں:
گولیوں سے یہ جواں آگ نہ بجھ پائے گی
گیس پھینکو گے تو کچھ اور بھی لہرائے گی
یہ جواں آگ جو ہر شہر میں جاگ اٹھی ہے
تیرگی دیکھ کے اس آگ کو بھاگ اٹھی ہے
کب تلک اس سے بچاؤ گے تم اپنے داماں
یہ جواں آگ جل دے گی تمہارے ایواں
یہ جواں خون بہایا ہے جو تم نے اکثر
یہ جواں خون نکل آیا ہے بن کر لشکر
یہ جواں خون سیہ رات نہ رہنے دے گا
دکھ میں ڈوبے ہوئے حالات نہ رہنے دے گا
یہ جواں خون ہے محلوں پہ لپکتا طوفاں
اس کی یلغار سے ہر اہل ستم ہے لرزاں
یہ جواں فکر تمہیں خون نہ پینے دے گی
غاصبو! اب نہ تمہیں چین سے جینے دے گی
قاتلو! راہ سے ہٹ جاؤ کہ ہم آتے ہیں
اپنے ہاتھوں میں لیے سرخ علم آتے ہیں
توڑ دے گی یہ جواں فکر حصار زنداں
جاگ اٹھے ہیں میرے دیس کے بے کس انساں