شہید ملت روڈ آج اور آیندہ
تقسیم سے پہلے کراچی ایک چھوٹا سا کم آبادی کا صاف ستھرا کشادہ سڑکوں والا بہت اچھی بندرگاہ کا حامل شہر تھا۔
ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد کراچی شہر کو دارالخلافہ بنایاگیا۔ تقسیم سے پہلے کراچی ایک چھوٹا سا کم آبادی کا صاف ستھرا کشادہ سڑکوں والا بہت اچھی بندرگاہ کا حامل شہر تھا۔ تقسیم کی وجہ سے ہندوستان سے مہاجروں کی آبادی کا انخلا برابر ہورہا تھا مسلمانوں کی آمد زیادہ تھی، ہندو یہاں کم تھے، مہاجرین آتے گئے اور ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مکانات پر قابض ہوتے گئے جو بعد میں ان کو الاٹ بھی ہوتے رہے۔ آبادی بڑھنے سے اس شہر کی نئی سرے سے تعمیر اور نئی بستیاں بنانی ضروری تھیں۔
کیونکہ مہاجروں کو خالی مکان دستیاب نہ ہونے پر کھلی جگہ پر جو شہر سے نزدیک تھیں کچی بستیاں عارضی کچے پکے بے ترتیب مکانات جہاں جگہ ملی سر چھپانے کی جگہ بنالی۔ ان میں جیکب لائن، لیاقت آباد، لالوکھیت، مارٹن کواٹر، لائنزایریا اور سینٹرل جیل کے آس پاس کے علاقے شامل تھے۔ پی آئی بی (پیر الٰہی بخش) کالونی اولین بستیوں میں سے ہے جو متوسط طبقہ کے لوگوں کے لیے باقاعدہ پلاننگ کرکے بنائی گئی۔ لیاقت علی خان نے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (KDA) کی تشکیل دی۔ 1947 سے 1951 تک مہاجرین کی مسلسل آمد سے کراچی پرآبادی کا زبردست دباؤ پڑچکا تھا۔
KDA نے سب سے پہلے محمد علی سوسائٹی کے ڈی اے اسکیم نمبر 1 سے باقاعدہ ابتدا کی، یہاں خوشحال اور بڑے افسران کو پلاٹ الاٹ کیے گئے، اس کے ساتھ ہی شہید ملت روڈ کی پلاننگ شروع کی گئی۔ یہ بہت بڑا پہاڑیوں کا اونچا نیچا علاقہ تھا، شہید ملت مین روڈ سے متصل بہت سی زمینوں کی علاقہ بندی کی گئی۔ یہاں نئی بستیاں بنانے کی پلاننگ کرکے پلاٹ بنائے جس میں مساجد، اسکول، پارک وغیرہ کی گنجائش رکھی گئی، جن ملحقہ علاقوں کی پلاننگ کی گئی تھی وہ مختلف سوسائٹیوں کو الاٹ کیے گئے تھے۔ ان سوسائٹیوں نے یہ پلاٹ اپنے ممبران کو فروخت کرنا شروع کردیے، ابتدا میں ان رہائشی علاقوں کی قیمت 8/10 روپے مربع گز تھی، سوسائٹیوں کو یہ پلاٹ صرف 5/= روپے گز ڈیولپمنٹ چارجز لے کر دیے گئے تھے۔
مین شہید ملت روڈ کی پلاننگ رہائشی علاقے کی تھی، یہاں بھی مکانات بننے شروع ہوگئے تھے، ایک طرف بنگلے ہزار گز یا دو ہزار گز کے تھے، دوسری طرف پلاٹ زیادہ 400-600 گز کے بنائے گئے تھے۔ شہید ملت روڈ سے متصل کمرشل علاقوں بہادر آباد، طارق روڈ، شرف آباد، سندھی ہاؤسنگ سوسائٹی، محمد علی سوسائٹی اور ٹیپو سلطان روڈ کی پلاننگ کی گئی تھی۔ پہلے طارق روڈ اور بہادر آباد میں کمرشل بلڈنگ بنائی گئیں، یہ تعمیرات 1960 میں ہوئیں، عرصہ تک غیرآباد پڑی رہیں، دکانیں صرف کرایہ پر دیدی جاتی تھیں، جہاں جنرل اسٹور، دوا، بیکری، سبزی، کولڈ ڈرنک، پان کی دکانیں ہوتی تھیں اور یہی علاقے کے رہائشیوں کی ضرورت تھی۔
شروع میں مختلف سوسائٹیوں کو پلاٹ بناکر زمین دی گئی تھی وہ بھی آہستہ آہستہ تعمیرات کا مرکز بنتی جارہی تھیں، ان میں دہلی مرکنٹائل سوسائٹی، بہادر یار جنگ سوسائٹی، پی ای سی ایچ ایس ہاؤسنگ سوسائٹی، بنگلور ٹاؤن، جناح ہاؤسنگ سوسائٹی، سی پی برار اور ردہیل کھنڈ سوسائٹیاں زیادہ تعمیرات کا مرکز تھیں۔ سب سے پہلے KDA اسکیم نمبر 1 میں مکانات بننے شروع ہوئے، اس کی پلاننگ خوبصورت تھی اس کے بعد تعمیرات میں تھوڑی بہت دلچسپی لوگوں نے شروع کی۔
لوگ 5/6 سال تک پانی، بجلی اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے خاصا پریشان رہے، ذہن میں رکھیں یہ علاقہ بیرون شہر تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں سائیکل رکشے چلتے تھے، جو اندرون شہید ملت روڈ ہی کارآمد تھے۔ صحیح معنوں میں شہید ملت روڈ کے اطراف سوسائٹیوں اور سڑکوں کو تعمیر 1960 میں شروع ہوئی، چونکہ کراچی میں بارش کم ہوتی تھیں۔ پلاننگ کرنے والوں نے بارش کے پانی نکالنے کے لیے کوئی فکر نہ کی جس کی وجہ سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہاں لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی۔
صرف پانی، گیس اور سیوریج کی لائن ڈالیں وہ بھی لمبے عرصہ کی پلاننگ نہ کی گئی، سیوریج کی جو لائنیں ڈالی گئیں وہ زیادہ آبادی کا پریشر نہ لے سکتی تھی اس کا نتیجہ سامنے آنے لگا، آبادی بڑھنے کے ساتھ تمام سیوریج لائنیں بند ہونا شروع ہوگئیں۔ 1960 سے 1970 تک شہید ملت روڈ کی تمام سوسائٹیاں اور علاقے تعمیر کے مراحل تیزی سے طے کرنے لگے کیونکہ بہت سے علاقوں میں پا نی کی دستیابی بہتر ہورہی تھی۔ شروع میں 1953-54 میں لوگ یہاں آباد ہونا شروع ہوئے تو کھانے پینے کے سامان کے لیے شہر جانا ہوتا تھا۔
یاد رکھیں! ایمپریس مارکیٹ، ایم اے جناح روڈ، زیب النساء اسٹریٹ، برنس روڈ کی آبادیاں شہر کہلاتی تھیں، ٹرانسپورٹ ابھی تک نہ ہونے کے برابر تھی، کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہوتی رہتی تھی، ہر چیز شہر سے منگوائی جاتی تھی۔
طارق روڈ میں1968تک شام کے بعد گہرا سناٹا ہوجاتاتھا۔ طارق روڈ اور بہادر آباد پر ٹریفک بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا۔کراچی کی بلدیاتی حکومت نے شہید ملت روڈ کو آبادی کی ضرورت کے لیے چوڑا اور درمیان میں جو پہاڑیاں یا گڑھے تھے وہ ہموار کرنے کے لیے مٹی اور ملبہ ڈالنے کا مرحلہ شروع کیا۔ یہ کام مسلسل 3 سال تک ہوتا رہا۔ مین سڑک ہموار بنادی گئی، سروس لائنیں ڈالی گئی، بجلی سڑکوں پر لگائی گئی، پورا ایک سال مین شہید ملت روڈ کی کارپیٹنگ میں لگا۔
اسی اثناء میں شاہراہ فیصل بھی ایئرپورٹ تک دور رویہ بن رہی تھی جو کہ پہلے صرف ایک روڈ تھی، کراچی میں ٹریفک بتدریج بڑھ رہی تھی۔ شہید ملت روڈ اور اس کی مختلف سوسائٹیاں1971تک بہت پرسکون تھیں۔ شہید ملت روڈ اور اس کی سب بستیاں کراچی کا پوش علاقہ بن گیا تھا۔ابھی ڈیفنس کی پلاننگ بھی ہورہی تھی، بلوچ کالونی جو شہید ملت ختم ہوتے ہی شروع ہوتی ہے، اس کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہاں شہر کا گندہ پانی اور بارش کا پانی جمع ہوجاتا تھا۔
1973-74شہید ملت مین روڈ مکمل ہونے کے بعد یہاں کی متعلقہ علاقوں یعنی سوسائٹیوں میں مکانات کی تعمیرات تیزی سے ہونے لگیں۔ قیمتیں زمینوں کی جو 8 روپے یا 10 روپے فی گز کے حساب سے الاٹ کرائی گئی تھیں ان کی ڈیمانڈ آنے پر اور روپیہ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم ہونے پر مہنگائی کا ابتدائی دور شروع ہوا۔ کراچی کی آبادی برابر بڑھ رہی تھی، مشرقی پاکستان الگ ہونے کے بعد وہاں کے اردو بولنے والے اور میمن، گجراتی برادری نے کراچی کا رخ کیا۔ چونکہ میمنوں، دہلی والوں، یوپی اور سی پی والوں کی سوسائٹیاں شہید ملت روڈ سے ملحق تھیں، وہ یہاں آکر پلاٹ خرید کر مکانات بنانے لگے۔
مگر پلاٹ اب بھی بہت سستے تھے، ہزار گز کا پلاٹ عالمگیر روڈ حیدر علی روڈ پر یا نزدیک 80 ہزار سے 90 ہزار کا مل جاتا تھا، اندرون سوسائٹی 300 گز کے پلاٹ 25000 ہزار سے 30 ہزار میں، میمنوں اور دہلی والوں کے علاقے نسبتاً مہنگے تھے۔آبادی بڑھنے کی وجہ سے طارق روڈ، بہادرآباد، سندھی سوسائٹی، دھوراجی، شرف آباد، محمد علی سوسائٹی میں کمرشل بلڈنگ کی تعمیر اور کرایہ پر دینے کا رجحان بھی نظر آرہا تھا۔ کمرشل علاقوں میں گراؤنڈ پلس دو منزل کی اجازت تھی۔ دو منزلوں میں فلیٹ عام طورسے3 کمروں کے 300 یا 400 روپیہ مہینہ کرایہ پر مل جاتے تھے۔
چونکہ رہائشی مکانات گراؤنڈ+ایک منزل کمرشل علاقے گراؤنڈ پیلس دو منزل کی اجازت تھی، اس پر سختی سے عمل ہوتا تھا۔ یکایک شرف آباد کے رہائشی علاقہ میں T.V اسٹیشن کے نزدیک بلڈرز نے ہزار، ہزار گز کے بنگلے خرید کر ان کو راتوں رات توڑ کر رہائشی بلڈنگ میں تبدیل کرنا شروع کردیا جوکہ4/5 منزلہ تھیں۔ یہ رہائشی، کمرشل یونٹ اتنی تیزی سے تعمیر ہوئے کہ کے ڈی اے کراچی بلڈنگ اتھارٹی دیکھتی رہ گئی، کئی بلڈرز کو نوٹس دیے گئے۔ انھوں نے کام اور تیز کردیا، کراچی بلڈنگ اتھارٹی نے عدالت سے اجازت لے کر کئی بلڈنگوں کی چھت اور دیواریں توڑدیں، بلڈرز عدالت میں چلے گئے، انھوں نے وہاں سے پہلے Stay لے کر کراچی بلڈنگ اتھارٹی کو توڑ پھوڑ سے روکا پھر انھوں نے بلڈنگوں کی تعمیر کے لیے رشوت کا راستہ دکھایا۔
آج آپ کو پورا بہادر آباد جو کمرشل ایریا بن چکا ہے، شرف آباد، جمال الدین افغانی روڈ، خالد بن ولید روڈ اپنی سڑکوں کی تنگ دامنی، جام ٹریفک کا تماشا خود دیکھ سکتے ہیں، جیسی افر اتفری ہم نے اپنی عملی اور سیاسی زندگی میں برپا کرلی ہے وہی ہمارا پرسکون رہائشی علاقوں کو کمرشل کرکے صرف دولت کی اپنے آنے والے دنوں کو گمبھیر بنادیا ہے، آج کے بچے جب کل باشعور ہوں گے، وہ آج کے بے شعور حکمرانوں، سٹی گورنمنٹ یا بلدیاتی، صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی پر نوحہ کناں ہوں گے۔
کیونکہ مہاجروں کو خالی مکان دستیاب نہ ہونے پر کھلی جگہ پر جو شہر سے نزدیک تھیں کچی بستیاں عارضی کچے پکے بے ترتیب مکانات جہاں جگہ ملی سر چھپانے کی جگہ بنالی۔ ان میں جیکب لائن، لیاقت آباد، لالوکھیت، مارٹن کواٹر، لائنزایریا اور سینٹرل جیل کے آس پاس کے علاقے شامل تھے۔ پی آئی بی (پیر الٰہی بخش) کالونی اولین بستیوں میں سے ہے جو متوسط طبقہ کے لوگوں کے لیے باقاعدہ پلاننگ کرکے بنائی گئی۔ لیاقت علی خان نے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (KDA) کی تشکیل دی۔ 1947 سے 1951 تک مہاجرین کی مسلسل آمد سے کراچی پرآبادی کا زبردست دباؤ پڑچکا تھا۔
KDA نے سب سے پہلے محمد علی سوسائٹی کے ڈی اے اسکیم نمبر 1 سے باقاعدہ ابتدا کی، یہاں خوشحال اور بڑے افسران کو پلاٹ الاٹ کیے گئے، اس کے ساتھ ہی شہید ملت روڈ کی پلاننگ شروع کی گئی۔ یہ بہت بڑا پہاڑیوں کا اونچا نیچا علاقہ تھا، شہید ملت مین روڈ سے متصل بہت سی زمینوں کی علاقہ بندی کی گئی۔ یہاں نئی بستیاں بنانے کی پلاننگ کرکے پلاٹ بنائے جس میں مساجد، اسکول، پارک وغیرہ کی گنجائش رکھی گئی، جن ملحقہ علاقوں کی پلاننگ کی گئی تھی وہ مختلف سوسائٹیوں کو الاٹ کیے گئے تھے۔ ان سوسائٹیوں نے یہ پلاٹ اپنے ممبران کو فروخت کرنا شروع کردیے، ابتدا میں ان رہائشی علاقوں کی قیمت 8/10 روپے مربع گز تھی، سوسائٹیوں کو یہ پلاٹ صرف 5/= روپے گز ڈیولپمنٹ چارجز لے کر دیے گئے تھے۔
مین شہید ملت روڈ کی پلاننگ رہائشی علاقے کی تھی، یہاں بھی مکانات بننے شروع ہوگئے تھے، ایک طرف بنگلے ہزار گز یا دو ہزار گز کے تھے، دوسری طرف پلاٹ زیادہ 400-600 گز کے بنائے گئے تھے۔ شہید ملت روڈ سے متصل کمرشل علاقوں بہادر آباد، طارق روڈ، شرف آباد، سندھی ہاؤسنگ سوسائٹی، محمد علی سوسائٹی اور ٹیپو سلطان روڈ کی پلاننگ کی گئی تھی۔ پہلے طارق روڈ اور بہادر آباد میں کمرشل بلڈنگ بنائی گئیں، یہ تعمیرات 1960 میں ہوئیں، عرصہ تک غیرآباد پڑی رہیں، دکانیں صرف کرایہ پر دیدی جاتی تھیں، جہاں جنرل اسٹور، دوا، بیکری، سبزی، کولڈ ڈرنک، پان کی دکانیں ہوتی تھیں اور یہی علاقے کے رہائشیوں کی ضرورت تھی۔
شروع میں مختلف سوسائٹیوں کو پلاٹ بناکر زمین دی گئی تھی وہ بھی آہستہ آہستہ تعمیرات کا مرکز بنتی جارہی تھیں، ان میں دہلی مرکنٹائل سوسائٹی، بہادر یار جنگ سوسائٹی، پی ای سی ایچ ایس ہاؤسنگ سوسائٹی، بنگلور ٹاؤن، جناح ہاؤسنگ سوسائٹی، سی پی برار اور ردہیل کھنڈ سوسائٹیاں زیادہ تعمیرات کا مرکز تھیں۔ سب سے پہلے KDA اسکیم نمبر 1 میں مکانات بننے شروع ہوئے، اس کی پلاننگ خوبصورت تھی اس کے بعد تعمیرات میں تھوڑی بہت دلچسپی لوگوں نے شروع کی۔
لوگ 5/6 سال تک پانی، بجلی اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے خاصا پریشان رہے، ذہن میں رکھیں یہ علاقہ بیرون شہر تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں سائیکل رکشے چلتے تھے، جو اندرون شہید ملت روڈ ہی کارآمد تھے۔ صحیح معنوں میں شہید ملت روڈ کے اطراف سوسائٹیوں اور سڑکوں کو تعمیر 1960 میں شروع ہوئی، چونکہ کراچی میں بارش کم ہوتی تھیں۔ پلاننگ کرنے والوں نے بارش کے پانی نکالنے کے لیے کوئی فکر نہ کی جس کی وجہ سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہاں لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی۔
صرف پانی، گیس اور سیوریج کی لائن ڈالیں وہ بھی لمبے عرصہ کی پلاننگ نہ کی گئی، سیوریج کی جو لائنیں ڈالی گئیں وہ زیادہ آبادی کا پریشر نہ لے سکتی تھی اس کا نتیجہ سامنے آنے لگا، آبادی بڑھنے کے ساتھ تمام سیوریج لائنیں بند ہونا شروع ہوگئیں۔ 1960 سے 1970 تک شہید ملت روڈ کی تمام سوسائٹیاں اور علاقے تعمیر کے مراحل تیزی سے طے کرنے لگے کیونکہ بہت سے علاقوں میں پا نی کی دستیابی بہتر ہورہی تھی۔ شروع میں 1953-54 میں لوگ یہاں آباد ہونا شروع ہوئے تو کھانے پینے کے سامان کے لیے شہر جانا ہوتا تھا۔
یاد رکھیں! ایمپریس مارکیٹ، ایم اے جناح روڈ، زیب النساء اسٹریٹ، برنس روڈ کی آبادیاں شہر کہلاتی تھیں، ٹرانسپورٹ ابھی تک نہ ہونے کے برابر تھی، کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہوتی رہتی تھی، ہر چیز شہر سے منگوائی جاتی تھی۔
طارق روڈ میں1968تک شام کے بعد گہرا سناٹا ہوجاتاتھا۔ طارق روڈ اور بہادر آباد پر ٹریفک بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا۔کراچی کی بلدیاتی حکومت نے شہید ملت روڈ کو آبادی کی ضرورت کے لیے چوڑا اور درمیان میں جو پہاڑیاں یا گڑھے تھے وہ ہموار کرنے کے لیے مٹی اور ملبہ ڈالنے کا مرحلہ شروع کیا۔ یہ کام مسلسل 3 سال تک ہوتا رہا۔ مین سڑک ہموار بنادی گئی، سروس لائنیں ڈالی گئی، بجلی سڑکوں پر لگائی گئی، پورا ایک سال مین شہید ملت روڈ کی کارپیٹنگ میں لگا۔
اسی اثناء میں شاہراہ فیصل بھی ایئرپورٹ تک دور رویہ بن رہی تھی جو کہ پہلے صرف ایک روڈ تھی، کراچی میں ٹریفک بتدریج بڑھ رہی تھی۔ شہید ملت روڈ اور اس کی مختلف سوسائٹیاں1971تک بہت پرسکون تھیں۔ شہید ملت روڈ اور اس کی سب بستیاں کراچی کا پوش علاقہ بن گیا تھا۔ابھی ڈیفنس کی پلاننگ بھی ہورہی تھی، بلوچ کالونی جو شہید ملت ختم ہوتے ہی شروع ہوتی ہے، اس کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ یہاں شہر کا گندہ پانی اور بارش کا پانی جمع ہوجاتا تھا۔
1973-74شہید ملت مین روڈ مکمل ہونے کے بعد یہاں کی متعلقہ علاقوں یعنی سوسائٹیوں میں مکانات کی تعمیرات تیزی سے ہونے لگیں۔ قیمتیں زمینوں کی جو 8 روپے یا 10 روپے فی گز کے حساب سے الاٹ کرائی گئی تھیں ان کی ڈیمانڈ آنے پر اور روپیہ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم ہونے پر مہنگائی کا ابتدائی دور شروع ہوا۔ کراچی کی آبادی برابر بڑھ رہی تھی، مشرقی پاکستان الگ ہونے کے بعد وہاں کے اردو بولنے والے اور میمن، گجراتی برادری نے کراچی کا رخ کیا۔ چونکہ میمنوں، دہلی والوں، یوپی اور سی پی والوں کی سوسائٹیاں شہید ملت روڈ سے ملحق تھیں، وہ یہاں آکر پلاٹ خرید کر مکانات بنانے لگے۔
مگر پلاٹ اب بھی بہت سستے تھے، ہزار گز کا پلاٹ عالمگیر روڈ حیدر علی روڈ پر یا نزدیک 80 ہزار سے 90 ہزار کا مل جاتا تھا، اندرون سوسائٹی 300 گز کے پلاٹ 25000 ہزار سے 30 ہزار میں، میمنوں اور دہلی والوں کے علاقے نسبتاً مہنگے تھے۔آبادی بڑھنے کی وجہ سے طارق روڈ، بہادرآباد، سندھی سوسائٹی، دھوراجی، شرف آباد، محمد علی سوسائٹی میں کمرشل بلڈنگ کی تعمیر اور کرایہ پر دینے کا رجحان بھی نظر آرہا تھا۔ کمرشل علاقوں میں گراؤنڈ پلس دو منزل کی اجازت تھی۔ دو منزلوں میں فلیٹ عام طورسے3 کمروں کے 300 یا 400 روپیہ مہینہ کرایہ پر مل جاتے تھے۔
چونکہ رہائشی مکانات گراؤنڈ+ایک منزل کمرشل علاقے گراؤنڈ پیلس دو منزل کی اجازت تھی، اس پر سختی سے عمل ہوتا تھا۔ یکایک شرف آباد کے رہائشی علاقہ میں T.V اسٹیشن کے نزدیک بلڈرز نے ہزار، ہزار گز کے بنگلے خرید کر ان کو راتوں رات توڑ کر رہائشی بلڈنگ میں تبدیل کرنا شروع کردیا جوکہ4/5 منزلہ تھیں۔ یہ رہائشی، کمرشل یونٹ اتنی تیزی سے تعمیر ہوئے کہ کے ڈی اے کراچی بلڈنگ اتھارٹی دیکھتی رہ گئی، کئی بلڈرز کو نوٹس دیے گئے۔ انھوں نے کام اور تیز کردیا، کراچی بلڈنگ اتھارٹی نے عدالت سے اجازت لے کر کئی بلڈنگوں کی چھت اور دیواریں توڑدیں، بلڈرز عدالت میں چلے گئے، انھوں نے وہاں سے پہلے Stay لے کر کراچی بلڈنگ اتھارٹی کو توڑ پھوڑ سے روکا پھر انھوں نے بلڈنگوں کی تعمیر کے لیے رشوت کا راستہ دکھایا۔
آج آپ کو پورا بہادر آباد جو کمرشل ایریا بن چکا ہے، شرف آباد، جمال الدین افغانی روڈ، خالد بن ولید روڈ اپنی سڑکوں کی تنگ دامنی، جام ٹریفک کا تماشا خود دیکھ سکتے ہیں، جیسی افر اتفری ہم نے اپنی عملی اور سیاسی زندگی میں برپا کرلی ہے وہی ہمارا پرسکون رہائشی علاقوں کو کمرشل کرکے صرف دولت کی اپنے آنے والے دنوں کو گمبھیر بنادیا ہے، آج کے بچے جب کل باشعور ہوں گے، وہ آج کے بے شعور حکمرانوں، سٹی گورنمنٹ یا بلدیاتی، صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی پر نوحہ کناں ہوں گے۔