چہرے نہیں سماج کو بدلو
جو کل لکھ پتی تھے آج ارب پتی بن گئے اور جو تین کمروں میں رہتے تھے، اب ایک کمرے میں منتقل ہوگئے ہیں۔
ستر سال سے چہرے بدلتے آرہے ہیں، ہمارا سماج (یعنی سرمایہ داری) جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ اگر کسی نے سماج کو بدلنے کی کوششں کی، تو کبھی لیا قت علی خان، تو کبھی حسن ناصر، کبھی ذوالفقار علی بھٹو، کبھی نذیر عباسی اور کبھی ڈاکٹر تاج کو منظر سے ہی غائب کردیا جاتا ہے۔ نتیجتاً ہمارے سماج کی طبقاتی خلیج مزید بڑھتی گئی۔
جو کل لکھ پتی تھے آج ارب پتی بن گئے اور جو تین کمروں میں رہتے تھے، اب ایک کمرے میں منتقل ہوگئے ہیں۔ جو دو روٹی کھاتے تھے، اب ایک روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ ہمیں مذہب، فرقہ، نسل، قوم اور برادری میں تقسیم کرکے طبقاتی کشمکش کو نظروں سے ہمیشہ اوجھل رکھا جاتا آرہا ہے۔ مگر عوام اپنے مسائل سے دوچار ہوکر ہر جگہ اور ہر علاقے میں کہیں مزدور، کہیں کسان، کہیں کلرک، کہیں چرواہے، کہیں لیڈی ہیلتھ ورکرز، کہیں اساتذہ، کہیں طلبا، کہیں نوجوان اور کہیں خواتین اپنے حقوق کے لیے لڑتے نظر آتے ہیں۔ انھیں دبانے اور کچلنے کے باوجود ہر موقع پر اپنے مسائل پر طبقاتی جنگ میں نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک کا نظام سرمایہ کاری، عالمی سرمایہ داری کا ہی حصہ ہے۔ عالمی سرمایہ داری انتہائی بحران کا شکار ہے۔ وہ اپنے اپنے مفادات کے لیے آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔
حال ہی میں اسرائیل نے متنازع علاقے بیت المقدس کو دارالخلافہ بنانے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسے تسلیم کرنے پر فرانس نے مکمل طور پر اس سے اختلاف کیا ہے۔ ایران سے امریکا کے ایٹمی معاہدے کے توڑنے سے یورپ میں تیل کی قیمت بڑھ گئی، جس پر یورپی یونین کے صدر نے کہا کہ آج تیل کی قیمت بڑھی ہے، کل اجناس کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور لوگ سڑکوں پر آئیں گے۔
امریکی رکاوٹ پر جاپان نے امریکا کو امن کی پیشرفت میں مثبت کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا۔ ہالی ووڈ کی معروف گلوکارہ شکیرا نے اقوام متحدہ میں معروف انارکسٹ گلوکار جان لینن کا گیت (قیاس تو کرو) گایا، جس میں دنیا کو ایک کرنے اور برابری کی بات کی گئی تھی۔ اب اسرائیل میں شکیرا نے وہی گانا گانے سے منع کردیا کہ کہیں میرا گیت اسرائیل کی حمایت میں نہ سمجھا جائے۔ ہم فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ہیں۔
اسی طرح اسد درانی نے پاک و ہند کی دوستی کی بات اپنی کتاب میں کی ہے، جس میں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس عمل سے دفاعی اخراجات میں کمی آئے گی۔ میرے خیال میں یہ بات کوئی منفی نہیں، بلکہ برصغیر کے عوام کے حق میں جاتی ہے۔ ہاں مگر جب اسد درانی نے آئی جے آئی (دائیں بازو کا اتحاد) کو جتوانے کے لیے بینک سے پیسے لے کر بانٹے تھے، یہ عمل غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا۔ یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم سیاست میں حصہ نہیں لیں گے، وطن کے تحفظ کے لیے قسسم کھاتے ہیں۔ اس کے خلاف آج تک ان کو کوئی کوئی شوکاز نوٹس نہیں ملا۔
درانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کو کم از کم یورپی یونین جیسا اتحاد بنانا چاہیے، جہاں ایک ہی سکہ ہوگا، تجارت اور اتحاد ہوگا۔ عالمی سامراج نے یورپی یونین، نافٹا، آسیان، سارک اور خلیج تعاون کونسل وغیرہ بنایا ہے۔ مگر اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اجناس کی قیمت کم ہوئیں اور نہ روزگار میں اضافہ ہوا اور نہ امن قائم ہوا۔ چونکہ عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کا شکار ہے، اس لیے وہ خطوں کا اتحاد بنا کر اس بحران سے نجات چاہتا ہے، جب کہ یہ ناممکن ہے۔ ابھرتی ہوئی معیشت کے لیے بریکس کو تشکیل دیا گیا لیکن اس کی صوتحال بھی دگرگوں ہے۔
چین کا گروتھ ریٹ گیارہ فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد، برازیل کا دو فیصد اور ساؤتھ افریقہ کا ایک عشاریہ پانچ فیصد جب کہ ہندوستان کا سات فیصد اور یورپی یونین کا گروتھ ریٹ دو فیصد پر آگیا ہے۔ جب یورپی یونین اور بریکس کی صورتحال پتلی ہے تو پھر جنوبی ایشیا کی یونین بننے سے کیا فرق پڑے گا۔ ہاں مگر پاکستان اور ہندوستان امن سمجھوتہ کرلیں تو فرق پڑے گا۔ تجارت، ثقافت اور معیشت میں بہتری آئے گی۔ دفاعی اخراجات لامحا لہ کم ہوجائیں گے۔
عوام کے ذہنوں سے جنگی تناؤ کم ہوکر ذہنی صحت بہتر ہوگی، دفاع پر خرچ کیے جانے والے اخراجات صحت، تعلیم و ترقی پر خرچ ہوں گے تو عوام بھی صحت مند اور تعلیم یافتہ ہوگی۔ اسد درانی کی کتاب پر بورژوا (سرمایہ دار) سیاست دان چراغ پا نظر آتے ہیں۔ پرویز مشرف جب انڈین حکومت اور عمران خان مودی سے ملاقات کرتے ہیں تو کوئی شور شرابا نہیں ہوتا، نواز شریف کے ملنے پر اعتراض اٹھائے جارہے ہیں۔ اس پر ایک سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟
معروف انقلابی دانشور اور انارکسٹ رہنما کامریڈ پیٹر کروپوتکن نے کہا تھا کہ ''جن پر تنقید نہیں کرسکتے ہیں، وہی اصل حکمران ہیں۔'' وہ اکثر پردے کے پیچھے ہوتے ہیں، آج کل ان کی جھلکیاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ ہمارے ہاں تبدیلی کی بوچھار آئی ہوئی ہے۔ دراصل یہ تبدیلی برسوں سے آرہی ہے۔ سب سے پہلے لائل پور کا نام ایک بادشاہ کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا، بلوچستان کو پاکستان میں شامل کیا گیا، گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنایا گیا، سرحد کا نام خیبرپختونخوا اور اب فاٹا کو کے پی کے میں ضم کردیا گیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ناموں، خطوں، ملکوں، علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے یا توڑنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے، جب تک نظام کو نہیں بدلا جاتا۔
ہندوستان، برما، پاکستان اور بنگلہ دیش بن گیا۔ ان چاروں ملکوں میں بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری، ناخواندگی، بیماری اور بے گھری عروج پر ہے۔ لائل پور فیصل آباد بنے ہوئے برسوں ہوگئے مگر آٹا سستا نہیں ہوا۔ بلوچستان کو پاکستان میں شامل ہوئے بھی برسوں گزر گئے لیکن بلوچ عوام کے استحصال میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، سرحد کا نام خیبرپختونخوا ہوگیا، مگر بجلی، پانی، روزگار ملا اور نہ صحت۔ اب فاٹا کی باری ہے۔
جب کشمیر کے عوام کو میڈیکل کالج، انجینئرنگ یونیورسٹی، مل، کارخانے اور نہ روزگار ملا، سارے کشمیری دنیا بھر میں اور پاکستان میں مارے مارے پھر رہے ہیں، تو اب فاٹا کے باسیوں کو کیا ملے گا؟ ہاں مگر وہاں صنعتوں کا جال بچھایا جائے، زراعت کو فروغ دیا جائے، ہیروئن کی تیاری کی فیکٹریوں کو تباہ کردیا جائے تو وہاں کے عوام کو صحت، تعلیم، روزگار، معقول رہائش، گیس، بجلی اور بنیادی سماجی ڈھانچہ مہیا کیا جائے تو پھر ان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ سماج میں ہی ممکن ہے۔