طلوع سحر تو ہوگی
اسمبلیوں کے ممبران کی موج مستیاں جاری رہیں۔ سوئس بینک کے بعد مے فیئر اپارٹمنٹ بھی قصہ کہانی بن جائے گا۔
ISLAMABAD:
آج ابھی صبح میں نے کرشن چندر کا افسانہ پڑھا ہے۔ افسانے کا نام ہے ''بے وقوفی''۔ چند سطریں اس افسانے کی۔
''ایک دفعہ کا ذکر ہے میں اور میرا دوست امام دین ایک جنگل سے گزر رہے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ چاروں طرف ایک پرستانی خواب کا منظر تھا۔ فرش پر چیڑ کے نوکیلے پتوں کے گچھے ایک نرم اور گداز غالیچے کی طرح بچھے ہوئے تھے۔ پرندے ٹہنیوں پر اونگھ رہے تھے۔ چند بھیڑیں چر رہی تھیں۔ باقی ایک بڑے درخت کے نیچے آرام کر رہی تھیں۔ اس سناٹے میں چشمے کا پانی بھی سویا ہوا معلوم ہوتا تھا۔
اس چشمے کے قریب ہی ایک چرواہی اپنا ہاتھ سر کے نیچے رکھے ہوئے سو رہی تھی۔ ہمارے قدم ہمیں اس سوئی ہوئی حسینہ کے پاس لے گئے۔ یہ جنگل ایک خاموش قلعہ تھا، ایک پرستانی قلعہ۔ اور یہ خوبصورت لڑکی جنگل کی شہزادی تھی، جو غالباً سو سال سے یہیں سو رہی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا شاید ایک ہی خیال، ایک ہی لمحے، ایک ساتھ ہمارے دلوں میں پیدا ہوا اور ہم دونوں آگے بڑھے۔
قریب سے ایک بھیڑ زور سے چلائی باآآآآآآ۔۔۔۔
لڑکی نے آنکھیں کھول دیں۔ دو اجنبیوں کو اپنے قریب کھڑا دیکھ کر وہ جلدی سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور اپنی پریشان لٹیں ٹھیک کرنے لگی، پھر مسکرا کر بولی ''چشمے سے پانی پینا چاہتے ہو؟''
''ارادہ تو ہے۔'' امام دین نے کہا۔
لڑکی جلدی سے بولی ''اچھا تو پی لو۔ میری یوں ہی آنکھ لگ گئی تھی، چشمے کے کنارے بہت ٹھنڈک ہوتی ہے ناں!''
گو پیاس نہیں تھی، پھر بھی پانی پینا پڑا۔ جب ہم پانی پی چکے تو لڑکی نے پوچھا ''ہم پردیسی ہیں'' امام دین نے معنی خیز نگاہوں سے لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا ۔
''اور دیس والوں کو پردیسیوں کا خیال ضرور رکھنا چاہیے۔''
لڑکی نے بھولپن سے کہا ''یہاں سب پردیسی ہیں۔''
''افوہ۔۔۔۔امام دین نے مجھ سے کہا ''یہ تو معرفت کی باتیں کرنے لگی۔''
بس مجھے اتنا ہی افسانہ لکھنا تھا۔ کبھی موقع لگے تو یہ مختصر سا افسانہ پڑھ لیجیے گا۔ کرشن چندر نے افسانے میں گاؤں دیہات میں رہنے والوں کی سادگی کو بیان کیا ہے کہ شہر کی چلتربازیاں دیہاتیوں میں نہیں ہوتیں۔ کرشن چندر کے افسانے کی لڑکی بھی سو سال سے وہیں چشمے کے کنارے سو رہی ہے، اور آج اس افسانے کے کئی سال بعد بھی، نیند کا یہی عالم ہے۔
تقریباً 10 سال پہلے نواب شاہ جانا ہوا۔ دو ، تین دوست بھی ساتھ تھے، ہماری بس کا ٹائر پنکچر ہوگیا، بس کی رفتار کم تھی، سو بچت ہوگئی اور رفتار یوں بھی کم تھی کہ ایک بڑا اہم گاؤں تھا، بس کو رکنا تھا۔ سواریوں کو اترنا چڑھنا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور بس سے اتر گیا۔ وہیل بدلنے کے لیے وقت درکار تھا۔ سامنے ہی ایک سگریٹ پان کا چھوٹا سا لکڑی کا کھوکھا تھا۔ ٹافیاں، ماچس اور شاید سرف، صابن بھی تھا۔ دکاندار کی عمر 40 سال کے لگ بھگ تھی۔ میں نے اس کو سلام کیا اور پوچھا ''اس ویرانے میں یہ چھوٹی سی دکان تمہارے اور بال بچوں کا بوجھ اٹھا لیتی ہے؟'' میرے سوال پر وہ ذرہ برابر پریشان نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے جواب دیا ''سائیں! یہ دکان تو وقت گزاری کے لیے ہے، اصل میں ہمارے بال بچوں کا خرچہ ہمارا سائیں اٹھاتا ہے۔ اسی کی زمین پر ہمارا گھر ہے۔ وہ جب بھی شہر سے آتا ہے تو ہم اس کو سلام کرنے جاتے ہیں۔ سائیں کا منشی پورے گاؤں والوں کو بتا دیتا ہے کہ سائیں اس وقت ملاقات کریں گے۔ تو ہم اس وقت پہنچ جاتے ہیں۔ ہم وڈیرا سائیں کو ہاتھ جوڑ کر سر جھکا کر سلام کرتے ہیں اور پھر وڈیرا سائیں پانچ سو روپے کا نوٹ فرش پر پھینک دیتا ہے۔ ہم وہ نوٹ اٹھا کر وڈیرہ سائیں کو دعائیں دیتے باہر آجاتے ہیں۔'' میں نے ایک اور سوال کردیا۔ ''اور تمہارے بچے بچیوں کی شادی کا خرچہ کون۔۔۔۔؟'' اس دکاندار نے کہا ''وہ سب بھی ہمارا وڈیرا سائیں کرتا ہے۔ کھانا، جہیز کا سامان سب ہمارا سائیں کرتا ہے، نکاح کے بعد لاڑا لاڑی سائیں کو سلام کرنے اور اس کی دعائیں لینے جاتے ہیں۔''
کرشن چندر کے افسانے کی لڑکی بھی صدیوں سے سو رہی ہے اور آج بھی دیہاتوں میں غریب اسی طرح سو رہے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ آج کے وڈیروں، چوہدریوں، خانوں، سرداروں، مجاوروں کو غریب کہلانے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، کیونکہ ٹیلی ویژن نے شہر اور گاؤں کے فاصلے مٹا دیے ہیں۔ مگر جبر، جنگ، خونخواروں کے مظالم کم نہیں ہوئے بلکہ اور بڑھ گئے ہیں۔ کلف لگے سفید کپڑے پہنے زمیندار، غریبوں کو سرعام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور انھیں کوئی روکنے والا نہیں۔
بے نظیر کو کھو کر پانچ سال ظلم کے پیروں میں گزر گئے۔ اگلے پانچ سال میں بھی ہاریوں کے ہاتھ کٹتے رہے۔ شکاری کتے غریبوں کو بھنبھوڑتے رہے۔ اسمبلیوں کے ممبران کی موج مستیاں جاری رہیں۔ سوئس بینک کے بعد مے فیئر اپارٹمنٹ بھی قصہ کہانی بن جائے گا۔ اور خوف کے سائے یوں ہی سر پر رہیں گے۔ لگتا ہے 'رات کے بعد اک رات نئی آ جائے گی۔'' الیکشن پر ہی تکیہ نہ کر بیٹھنا، اس صدیوں کے ظالمانہ نظام کو بدلنا ہے۔ ہم نے ہمت نہیں ہاری، ہم دیکھ رہے ہیں، ظالم ختم ہوں گے۔ جالب کا شعر اور اجازت
اٹھائیں لاکھ دیواریں طلوع مہر نے
یہ شب کے پاسباں کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے