راستہ دو
اس جمہوریت میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے کیا اسے ہم عوامی جمہوریت کا نام دے سکتے ہیں؟
جمہوریت کے عشاق رائج الوقت جمہوریت کے اسرار و رموز کو سمجھے بغیر آنکھ بند کرکے جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں تو حیرت کے ساتھ سخت افسوس ہوتا ہے کہ کیا ان حضرات کو ملک بھر میں جمہوریت کے حسین مناظر نہیں نظر آرہے۔ جب کوئی جمہوریت کی بدترین صورتحال کا رونا روتا ہے تو اسے یہ کہہ کر تسلی دی جاتی ہے کہ جمہوریت کے تسلسل سے ہی جمہوریت بہتر ہوگی۔
جمہوریت کا تسلسل ہمارے ملک میں 70 سال سے جاری ہے اور ہر آنے والے دن میں جمہوریت مزید بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کے حامی حضرات دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے ملک میں جو جمہوریت رائج ہے وہ اشرافیہ کی آمریت ہے جسے جمہوریت کا نام دے کر عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت عوام سے عبارت ہوتی ہے یعنی جمہوریت میں بالادستی عوام کی ہوتی ہے اس حقیقت کا اظہار جمہوریت کے متعارف کنندگان نے جمہوریت کا مطلب ''عوام کی حکومت ، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' کیا ۔ ہماری جمہوریت، جمہوریت کی اس تعریف پر پورا اترتی ہے۔
اس سوال کا جواب مکمل طور پر نفی میں آتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ عوام کی سادہ لوحی ہے عوام یہ سمجھتے ہیں یا عوام کو یہ اچھی طرح سمجھایا گیا ہے کہ جمہوریت کا مطلب ووٹ ڈالنا ہے۔ ووٹ ڈالنے کا مطلب عوام کے ذریعے ہوتا ہے عوام کا ووٹ ڈالنا جمہوریت کی تیسری شرط ہے اور بددیانت سیاستدان ووٹ ڈالنے ہی کو جمہوریت سے تعبیر کرتے ہیں، دراصل شرائط کو دانستہ گول کرجاتے ہیں۔ وہ شرائط ہیں عوام کی حکومت عوام کے لیے۔ کیا 70 سال میں کبھی عوام کی حکومت رہی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں آتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی شاطروں نے انتخابی نظام ایسا بنایا ہے کہ عوام اس نظام میں انتخاب لڑ ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ انتخاب لڑنے یا انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں کا سرمایہ درکار ہوتا ہے اور جو عوام دو وقت کی روٹی حاصل نہیں کر پاتے بھلا وہ انتخاب لڑنے پر کروڑوں روپے کیسے خرچ کرسکتے ہیں؟ اس حوالے سے انتخابی اصلاحات کا ایک ڈرامہ رچایا گیا جس میں انتخابی اخراجات کو کم کرکے غالباً 30 لاکھ کردیا گیا ہے۔ دیکھا آپ نے یہ کیسی شاندار عوامی اصلاحات ہیں کیا ان اصلاحات کے فنکاروں کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ چائے روٹی اور پیاز روٹی سے ناشتہ کرنے والے 30 یا 40 لاکھ اکٹھے کرکے انتخابی اخراجات پورے کرسکتے ہیں؟
''اعلیٰ حلقوں'' میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے عوام اس قابل کہاں ہوتے ہیں کہ قانون ساز اداروں میں جاکر جمہوری ذمے داریاں پوری کرسکیں؟ ہوسکتا ہے عوام ہماری جمہوریت کے اسرار و رموز سے واقف نہ ہوں تو ان کے لیے تربیتی کورس کرائے جاسکتے ہیں اس کے علاوہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ غریبوں کے نوجوان بچے اپنی ذاتی محنت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وہ جمہوریت کے اسرار و رموز سے اچھی طرح واقف ہیں اور قانون ساز اداروں میں وہ اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے پوری کرسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس اشرافیہ کے منہ کو جمہوریت کا خون لگ چکا ہے وہ کسی طرح بھی اس منافع بخش کاروبار سے دست بردار نہیں ہوسکتی۔ آج ذرا اپنے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیے اور میڈیا کی آواز سنیے آپ کو جمہوریت کے ایسے ایسے مناظر نظر آئیں گے کہ شرم کے مارے آپ کا سر نگوں ہوجائے گا اور جمہوریت کی اصلیت دیکھ کر آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
ہمارے ملک کی آبادی 21 کروڑ ہے جس میں اشرافیہ کی تعداد 2 فیصد بتائی جاتی ہے اگر اس میں اپر مڈل کلاس کو شامل کرلیا جائے تو بمشکل یہ تعداد دس فیصد ہوجائے گی اور 10 سال سے ہماری جمہوریت اس دس فیصد سے طلوع ہوتی ہے۔ جب کہ 90 فیصد غریب آبادی نہ انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے نہ قانون ساز اداروں میں پہنچ سکتی ہے 90 فیصد آبادی کے حقیقی نمایندے قانون ساز اداروں میں موجود نہ ہوں تو ایسی جمہوریت کو جمہوریت کہنا جمہوریت کی توہین ہے۔ ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں کیا ان کا کوئی نمایندہ قانون ساز اداروں میں موجود ہے ہمارے دیہی علاقوں کی 60 فیصد آبادی ہاریوں اور کسانوں پر مشتمل ہے کیا اس آبادی کی نمایندگی قانون ساز اداروں میں ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس بھاری اکثریت کا جمہوریت میں حصہ کیا ہے؟
آج پاناما نے آف شور کمپنیوں کا جو بھانڈا پھوڑا ہے کیا یہ آف شور کمپنیاں مزدوروں ہاریوں کسانوں کی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ''پاکستانیوں'' کے 200 ارب روپے سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں، کہا جاتا ہے کہ بینکوں سے ڈھائی کھرب کا قرضہ لے کر معاف کرالیا گیا۔ کیا یہ قرضہ معاف کرانے والے غریب طبقات مزدوروں، کسانوں سے تعلق رکھتے ہیں، میڈیا میں اربوں کی کرپشن کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ کیا یہ اربوں کی کرپشن غریب عوام مزدور اور کسان کر رہے ہیں؟ ہمارے وزرا وزارت کی ذمے داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنیوں میں پارٹ ٹائم جاب کرکے 18-18 لاکھ روپے ماہانہ وصول کر رہے ہیں کیا یہ مزدور ہیں کسان ہیں؟70 سال سے جمہوریت کے نام پر عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔
اس جمہوریت میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے کیا اسے ہم عوامی جمہوریت کا نام دے سکتے ہیں؟ ہماری اشرافیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر غریبوں کے حقیقی نمایندے قانون ساز اداروں میں آنے لگیں تو ان کی لوٹ مار کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ اس سازش کے خلاف ترقی پسند جماعتیں کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان جماعتوں نے پردہ کرلیا ہے یا پھر انقلاب بغیر عوام کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ انقلاب عوام لاتے ہیں اور عوام کو انقلاب کے لیے تیار کرنے کے لیے عوام میں جانا پڑتا ہے۔
اگر غریب طبقات مزدور اور کسان قانون ساز اداروں میں پہنچیں اور اقتدار میں آئیں تو لوٹ مار کے امکانات اس لیے کم ہوجاتے ہیں کہ ان غریب طبقات کو نہ آف شور کمپنیوں کا پتا ہے نہ سوئس بینکوں تک ان کی رسائی ہے نہ وہ بینکوں سے اربوں روپے لے کر معاف کرا لینے کا ہنر جانتے ہیں نہ ان غریب لوگوں کو کرپشن کے جدید طریقے معلوم ہیں ویسے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت میں کرپشن جمہوریت کا لازمہ ہوتی ہے اس حوالے سے اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے لامحدود نجی ملکیت کا حق دے کر اور اسے قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کرکے کرپشن کی ایسی راہ کھولی ہے کہ اس نظام میں کرپشن ختم ہونا ممکن ہی نہیں۔ بس ایک راستہ ہے کہ قانون ساز اداروں میں جانے کے لیے غریب طبقات ، مزدوروں اور کسانوں کو حقیقی اور بامعنی انتخابی اصلاحات کرکے غریب طبقات کو اقتدار میں آنے کا راستہ دو۔