مائیں اتنی جلدی چلی کیوں جاتی ہیں
سب کچھ بوجھل سا ہو چکا ہے۔ قدرت کا قانون ہے۔حکم ربی ہے۔
چندسال پہلے،صرف کچھ برس پہلے،انھی دنوں میں والدہ کاانتقال ہواتھا۔اس وقت سے آج تک زندگی کامحورختم ساہوکررہ گیاہے۔کوئی گھڑی ایسی نہیں،کوئی پَل ایسا نہیں جس وقت دھیان اپنی والدہ کی طرف نہ جاتاہو۔اپنوں سے بچھڑنابھی کتناعجیب غم ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے،مزیدبڑھنے اورگہراہونے والادکھ۔طبیعت میں بھی بے حدفسوں غالب آچکاہے۔میرے لیے یہ سب کچھ بہت مشکل ہے۔بہت مشکل۔
لوگ خداکو"مقام مقدسہ"میں تلاش کرتے ہیں۔ عمرے کرتے ہیں۔حج پرجاتے ہیں۔مگرمیں تورب کوزمین پرتلاش کرتاہوں۔ حجازجانے والے بھی ٹھیک ہیں اور شائد میرے جیسے گناہ گاربھی۔پختہ یقین ہے کہ خدا اپنے بندوں کے ذریعے عام لوگوں کے لیے آسانیاں پید اکرتا ہے۔ موجودگی کااحساس دلاتاہے۔سوچ کربتائیے کہ ماں سے بڑھ کراﷲ کی قدرت کہاں اس خوبصورتی سے موجزن ہوتی ہے۔ شائدکہیں بھی نہیں۔کہیں اورہوبھی نہیں سکتی۔
ماں جی نے بڑی مشکل اورصبرآزما زندگی گزاری۔مگرایک لحاظ سے شاندار اوربہت بامقصد۔تقسیم ہندسے پہلے ہندوستان میں خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کاکوئی خاص شعورنہیں تھا۔لڑکیوں کو زیادہ سے زیادہ دینی تعلیم دینے کے بعدسمجھاجاتاتھاکہ ان کی تعلیم مکمل ہوگئی۔بس اب شادی کرنی ہے اور پھر گھر گھر ہستی۔ یہ طورطریقہ برصغیرمیں صدیوں سے جاری تھا۔مگرچندمسلم خواتین نے اس نظریہ کوتسلیم نہیں کیا۔ان خواتین نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اورچھ سات دہائیاں پہلے علم کی روشنی ہرجگہ پھیلانے میں مصروف ہوگئیں۔
میری والدہ انھی خواتین میں سے ایک تھیں۔میری عمرکے لوگوں کوبچپن میں یاد ہوگا کہ اکثرخواتین،حضرات اپنے نام کے بعد"ڈگری اور علیگ"کا لفظ استعمال کرتے تھے۔اس سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصد ہوتاتھاکہ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ پورے برصغیرمیں علی گڑھ یونیورسٹی واحدمستندتعلیمی ادارہ تھاجس میںمسلمان مردوں اوربالخصوص خواتین کوزیورِتعلیم سے آراستہ کرنے پربے حدزوردیاجاتاتھا۔
اگردیکھاجائے توپاکستان حاصل کرنے کی جدوجہدمیں علی گڑھ کے طلباء کا لازوال کردارتھا۔مجھے آج بھی شوق ہے کہ اس عظیم درسگاہ کو جاکردیکھوں۔دیکھناشائدمناسب لفظ نہیں۔زیارت کروں۔ میری والدہ اسی یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ تھیں۔"بوٹنی" Botanyمیں ایم ایس سی کی ہوئی تھی۔کبھی کبھی بتاتی تھیں کہ علی گڑھ کے نزدیک''بلندشہر''نام کی ایک جگہ تھی۔میری ننھیال وہیں پرمقیم تھی۔ان قصبوں میں بجلی نہیں تھی۔
امی بتاتی ہیں کہ وہ لوگ لالٹین کی روشنی میں پڑھتی تھیں۔دیگر سہولتوں کاکیاذکرکرنا۔جب بجلی ہی نہیں توباقی ضروریات زندگی کیسی ہونگی۔اندازہ کیجیے کہ سترسال پہلے کی ایک مسلمان خاتون اس قدرپُرعظم تھی کہ کسی بھی سہولت کے بغیر بوٹنی جیسے مشکل مضمون میں تعلیم حاصل کی۔اگرشرح خواندگی کااندازہ لگایاجائے توتقسیم ہندسے پہلے مسلمان خواتین میں تعلیم نہ ہونے کے برابرتھی۔شائدایک یادو فیصد۔ ہندسوںمیں کیارکھاہے۔عورتوں کاکیاذکرکرنا،بنیادی طورپر مسلمانوں میں تعلیم کارجحان بے حدکم تھا۔ویسے آج بھی مسلمان تحقیق اورسائنس کے میدان سے بہت دورزندگی گزاررہے ہیں۔
پاکستان آکرحالات بالکل تبدیل ہوگئے۔ تصور کرنا محال ہے کہ اس وقت کے لوگوں نے کن کن مشکلات اور عذاب جھیلے ہونگے۔نئے لوگ،نئے معاشرے،نئی زبان اورسب سے بڑھ کرمعلوم سے نامعلوم کی طرف سفر۔ترکِ وطن کے دکھ اورتکلیف سے گزرنابذاتِ خودایک بہت بڑا سانحہ ہے۔میرے سے پہلی نسل نے مشکلات کایہ سمندربھی عبورکیاہے۔والدہ کاعلی گڑھ سے لائل پورکیسے آناہوا۔ بالکل نہیں جانتا۔مگرجب مجھے تھوڑی سی ہوش آئی تووہ کارخانہ بازارمیں واقع خواتین کے گورنمنٹ کالج میں لیکچرار تھیں۔آخری دم تک پڑھاتی رہیں۔
مختلف خواتین کے کالجوں کی پرنسپل رہیں۔تقریباًتیس پنتیس برس شعبہ تعلیم سے منسلک رہنے کے بعد ریٹائرہوئیں اورپھراپنااسکول کھول لیا۔والدہ نے اپنی برسوں کی روٹین تبدیل نہیں کی۔ پہلے کالج میں پڑھاتی تھیں۔پھراپنے اسکول میں تعلیمی کام شروع کردیے۔مجھے کیڈٹ کالج حسن ابدال اورکنگ ایڈورڈ کالج تک پہنچانے میں والدہ کاہاتھ سوفیصدسے بھی زیادہ تھا۔انتہائی فعال بامقصداورمصروف زندگی گزاررہی تھیں۔ پورے خاندان کوسنبھال رکھاتھا۔
ایک دن فون آیاکہ انھیں فالج کاحملہ ہوا ہے۔ لاہور میں تھا۔فیصل آبادتک پہنچنے کے دوگھنٹے میرے زندگی کے کٹھن ترین اوقات میں سے ایک ہیں۔اسپتال پہنچاتو والدہ ابھی تک بے ہوش تھیں۔فالج کی بدولت بدن کاایک حصہ تقریباًبے جان ہوچکاتھا۔ڈاکٹرکہہ رہے تھے کہ ان کی حالت بہت نازک ہے۔ڈاکٹرسے پوچھاکہ کیامیں انھیں لاہورلے جاسکتاہوں۔جواب انتہائی مشکل تھا۔ ہاں، مگر اپنی ذمے داری پر۔ زندگی کے مشکل فیصلوں میں سے ایک فیصلہ تھاکہ والدہ کوبیہوشی کی حالت میںلاہور لے کر جانا ہے۔ ایمبولینس میں ایک نرس اورڈاکٹربٹھایا۔خودبھی بیٹھ گیا۔
خدا کانام لے کروالدہ کے ساتھ لاہورروانہ ہوگیا۔یقین کیجیے کہ میری نظرمسلسل اپنی ماں پرمرکوزتھی۔ڈاکٹرہونے کی حیثیت سے باربارنبض دیکھتاتھااورکبھی بلڈپریشرچیک کرتاتھا۔یہ اذیت ناک سفرمیرے ذہن پرآج بھی نقش ہے۔ہرلمحہ دھڑکا لگا ہواتھاکہ اب کچھ ہواکہ اب ہوا۔اسی بے ہوشی کے عالم میں لاہورکے ایک اسپتال پہنچ گئے۔یادہے کہ پانچ چھ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے انکوچیک کیا۔
آج تک ان انجان ڈاکٹروں کاشکرگزارہوں۔بے ہوشی کئی دنوں بعدختم ہوئی۔اس عرصے میں میری بہنوں اوراہلیہ نے جس طرح والدہ کی خدمت کی، میں مرتے دم تک اس احسان کابدلہ نہیں دے سکتا۔ہوش آیا توآدھابدن فالج کی بدولت بے جان تھامگرذہن مکمل طور پر مستعدتھا۔
پہلی باراندازہ ہواکہ فالج کس طرح انسان کی زندگی کو بربادکردیتاہے۔انسان سانس تولیتاہے،مگردنیاسے کٹ کر رہ جاتاہے۔جب اسپتال سے پہلی بارگھرلے کرآیاتوفیصلہ کیا کہ انھوں نے جتنی مصروف بلکہ ریاضت والی زندگی گزاری ہے،انکوکسی طرح بھی مکمل آرام اورسکون کے چندپَل مہیا کر پاؤں۔پتہ نہیں کہ کامیاب رہایاناکام۔مگراس کے بعد ہر چیز تبدیل ہوگئی۔والدہ فیصل آبادمیں اپنے گھرمیں رہنے کی عادی تھیں۔پہلافیصلہ کیاکہ لاہورمیں اپنے گھرکو ان کا گھر بنادوں۔انھیں سب نے یقین دلایاکہ ہم سارے ان کے گھر میں رہ رہے ہیں۔
جوسہولتیں مہیاکرسکتاتھا، کوشش کرکے مہیا کیں۔مگرفالج آہستہ آہستہ انھیں اندرسے کھا رہا تھا۔ چند ہفتے لاہوررہیں۔پھرکہنے لگیں کہ فیصل آبادجاناہے۔ ضد کے سامنے ہتھیارڈال دیے۔ضدکیا،انکاحکم تھا۔بہرحال فیصل آبادگئیں توجس طرح میری بھابھی اورچھوٹے بھائی مبشرنے ان کی خدمت کی،وہ احسان بھی چکا نہیں سکتا۔میری بھابھی ڈاکٹرہیں۔اس نیک خاتون نے بہونہیں بلکہ بیٹی بنکر سب کچھ کیا۔خداہی انکواسکااَجردے سکتاہے۔امی نے فیصلہ کیاکہ زیادہ عرصے لاہوررہینگی اورپھرچندماہ بعد، فیصل آبادجایاکرینگی۔
ہرایک نے من وعن فیصلہ تسلیم کیا۔میری جہاں بھی لاہورسے باہرپوسٹنگ ہوئی،والدہ کومیں نے اپنے ساتھ رکھا۔ڈی سی نارووال اورگوجرانوالہ میں بھی میرے ساتھ تھیں۔جس صورت کومیں نے ہردم کام کرتے دیکھا تھا۔ اسے اتنی بے کسی کی حالت میں دیکھنا اَزحدمشکل تھا۔ کمرے میں جاکر کہتاتھاکہ بس ایک ماہ میں آپ مکمل صحت یاب ہوجائینگی۔اس کے بعدہم دونوں گراؤنڈمیں دوڑ لگائیN گے۔
یہ دلاسہ سن کرماں کے چہرے پرمسکراہٹ آجاتی تھی۔ہنسنے لگتی تھیں کہ ہاں بس تھوڑے دنوں کی بات ہے۔مکمل طور پر صحت یاب ہوجاؤنگی۔ کمرے سے باہرآکرمیری آنکھوں میں آنسوآجاتے تھے۔کیونکہ بطورڈاکٹرمجھے علم تھاکہ فالج کا مریض مکمل طورپرصحت یاب کبھی نہیں ہوتا۔مگرپھربھی کوشش کرنی تومکمل طورپرصائب بات ہے۔
دونوں بیٹوں،مبارزاورحمزہ کوکہہ رکھاتھاکہ اسکول سے آکرپہلاکام یہ کرناہے کہ دادی کے کمرے میں جاکران کے پیردبانے ہیں۔انھیں سلام کرناہے۔دعائیں لینی ہیں۔یہ روٹین آخری دم تک قائم رہی۔فالج کی صورتحال میں امی آٹھ سال زندہ رہیں۔کئی بارڈاکٹروں نے کہاکہ روزے نہ رکھیں۔آپ مریض ہیں۔علماء دین نے بھی یہی فرمایاکہ اس مرض میں روزے معاف ہیں۔مگرمہلک بیماری کی حالت میں بھی مسلسل روزے رکھتی رہیں۔
آخری چندسالوں میں اَزحدعبادت شروع کردی۔اسی حالت میں نمازپڑھتی رہیں۔ہروقت تسبیحات میں مصروفِ کاررہتی تھیں۔ان کے کمرے میں جاکرمجھے عجیب ساسکون ملتاتھا۔لگتاتھاکہ کسی بزرگ کے کمرے میں آگیاہوں۔والدہ اپنے کمرے سے بہت کم باہرآتی تھیں۔ایک دن شام کے وقت لاؤنج میں آئیں۔یہ غیرمعمولی بات تھی۔مجھے غورسے دیکھااورواپس چلی گئیں۔انکایہ اشارہ سمجھ ہی نہ پایا۔انھوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔دراصل وہ بتاناچاہتی تھی کہ یہ میری اوران کی آخری ملاقات ہے۔
امی شام کوبڑے آرام سے جہان فانی سے چلی گئیں۔میرے بالکل سامنے۔ بالکل سامنے۔بے بسی سے دیکھتا رہا۔ لاچارگی کا شدید احساس ہوا۔اس دن سے لے کرآج تک زندگی تو ہے، مگر ہرچیزبدل گئی ہے۔کوئی انتظار کرنے والا نہیں۔ کوئی کہنے وال کہ کھاناکھالیاہے کہ نہیں۔کیسے ہو۔ میری خوشیوں اورغموں کومحسوس کرنے والا اب کوئی بھی نہیں ہے۔سب کچھ بوجھل سا ہو چکا ہے۔ قدرت کا قانون ہے۔حکم ربی ہے۔مگرسوچتارہتاہوں کہ مائیں ہمیں چھوڑکراتنی جلدی کیوں چلی جاتی ہیں!