کانگریس کی بھارتی سیاست میں اہمیت نہیں رہی
افسوس کہ ہمارے پاس کوئی ایسا ادارہ نہیں جو صدر مملکت کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے۔
پرناب مکھرجی ایسا شخص ہے جس کے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات اور روابط ہیں۔ پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر وہ اعلیٰ ترین مناصب پر رہے ہیں حتیٰ کہ اپنی ایک سیاسی پارٹی بھی قائم کی جس میں ان کے چند سیاسی دوست بھی شامل تھے۔ تاہم مسٹر مکھرجی ہر لحاظ سے ایک سیلف میڈ شخص ہیں جنہوں نے سیاسی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انھیں آر ایس ایس نے ناگپور میں واقع اپنے ہیڈکوارٹر میں آکر کارکنوں سے خطاب کی دعوت دی جسے مکھرجی نے قبول کرلیا۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے کہا ہے کہ پرناب مکھرجی کی طرف سے ان کی دعوت قبول کرنا ان کی شان بڑھانے کا سبب ہے۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر میں کبھی مہاتما گاندھی کی تصویر نہیں لگائی گئی کیونکہ گاندھی جی اجتماعیت کے فلسفے کے قائل تھے جس کو آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ اور ہندو راشٹرا قائم کرنے کی سوچ قبول نہیں کرتی۔ میں پرناب مکھرجی کی خصوصیات پر غور کروں تو مجھے یاد آتا ہے وہ بہت ہی منکسرالمزاج شخص تھے جنہوں نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تاکہ میں ان کی بیوی کا گایا ہوا ایک بھجن سن سکوں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب مکھرجی سیاست میں اپنا نام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان کی رہائش گاہ سادہ سی تھی جس میں فرنیچر برائے نام ہی تھا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سادہ عادات کے حامل انسان ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب سیاست میں ان کی اہمیت بڑھ گئی تو ان میں بہت سی تبدیلیاں آگئیں۔ ایمرجنسی کے دوران بھی میں نے ان کی رہائش گاہ کا دورہ کیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ان کا گھر بہت سج اور سنور گیا تھا۔ ڈرائنگ روم کا فرنیچر بڑا شاندار تھا۔ تب وہ اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے اور سنجے گاندھی کے ساتھ ان کی خاصی قربت تھی۔ سنجے گاندھی کسی سرکاری منصب کے نہ ہونے کے باوجود تمام اختیارات رکھتے تھے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پرناب مکھرجی کا کام ان تمام احکامات پر عمل کرانا ہوتا تھا جو سنجے کی طرف سے جاری کیے جاتے۔ سنجے گاندھی کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ ملک کی اصل حکومت انھی کے ہاتھ میں تھی۔ سنجے کے ایک طرف پرناب مکھرجی تھے اور دوسری طرف اس دور کے وزیر دفاع بنسی لال۔ یہ وہ وقت تھا جب پرناب مکھرجی سنجے کی طرف سے دی گئی کوئی نیلامی منظور کروا دیتے اور مخالفت میں کسی اور بولی کو منسوخ کرایا جاتا۔
یہ وہ وقت تھا جب لوگوں کی دکانوں اور گھروں پر چھاپے مارے جاتے تھے اور یہ ملک بھر میں ہوتا تھا۔ بعد میں پرناب مکھرجی کو سونیا گاندھی نے ملک کا صدر بنا دیا لیکن میرے خیال میں ان کا تقرر غلط تھا۔ وہ صاحبان اقتدار کی کی تعریفیں ہی کرتے رہتے تھے۔ جب سونیا گاندھی نے انھیں صدر مملکت کے منصب پر ترقی دیدی تو سونیا پر تنقید ہوئی۔ لیکن پرناب مکھرجی سونیا کے لیے خاص تحفہ ہی تھے جو دن کو رات اور رات کو دن کہنے پر تیار رہتے تھے۔ گویا ایک لحاظ سے وہ اندرا گاندھی کے گیانی ذیل سنگھ کی مانند تھے جنھیں اندرا گاندھی نے بڑی کوششوں کے ساتھ صدارت کے منصب پر بٹھایا تھا اور اس منصب جلیلہ پر باقاعدہ منتخب بھی کرایا۔
پرناب مکھرجی کی حکومت جمہوری قوم کے لیے ایک توہین سے کم نہیں تھی۔ اس منصب پر بیٹھ کر مکھرجی نے آئین کی خلاف ورزی کی تھی۔ جب مکھرجی راشٹر پتی بھون (ایوان صدارت) میں براجمان تھے تو میں ان سے متواتر ملاقات کرتا تھا اور مجھے بڑا افسوس ہوتا تھا کہ ان کا تاثر ملک و قوم پر مکمل طور پر منفی رہا۔ اگر وہ کوئی حساس شخص ہوتے تو وہ خود ہی یہ عہدہ چھوڑ دیتے کیونکہ ایمرجنسی کے 17 مہینوں کے دوران ان کا کردار یکسر منفی رہا تھا اور کچھ نہیں تو وہ ایمرجنسی کی مذمت ہی کر دیتے کیونکہ ایمرجنسی کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں بند کردیا گیا تھا۔
پریس پر پابندیاں لگا دی گئیں جب کہ سرکاری افسران کا غلط اور صحیح کے درمیان امتیاز ختم کر دیا تھا۔ اخلاقی اور غیر اخلاقی کا امتیاز ختم ہوگیا تھا۔ یہ سونیا گاندھی کا پختہ ارادہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے راہول گاندھی کو ہر قیمت پر ملک کا وزیراعظم بنانا چاہتی تھیں لیکن اس موقع پر مکھرجی کی سیاسی خواہشات اس راہ میں رکاوٹ بن گئیں لیکن انھیں جلد اندازہ ہوگیا کہ سونیا کا ارادہ کچھ اور ہے لہٰذا مکھرجی نے 2014ء کا انتخاب لڑنے سے قبل از وقت ہی انکار کر دیا جس سے راہول کا راستہ صاف ہوگیا۔ سونیا نے مکھرجی کو صدارتی عہدے پر اس لیے بٹھایا کہ اس نے گاندھی خاندان کی مکمل خلوص سے مدد کی تھی۔
ایمرجنسی کی وجہ سے عوام نے اندرا گاندھی کو 1970ء کے انتخابات میں شکست سے دوچار کیا کیونکہ یہ انتخابات ایمرجنسی اٹھائے جانے کے فوراً بعد ہوئے تھے لیکن میرے نزدیک مکھرجی کو ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بٹھانا درحقیقت قوم کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف تھا۔ میں توقع کرتا ہوں کہ سابق صدر اس زمانے کو یاد کریں گے جب وہ راشٹرپتی بھون میں بطور صدر مقیم تھے۔ تب لوگ محسوس کرتے تھے کہ اس انتخاب کے ذریعے عوام کو ذلیل و خوار کردیا گیا ہے۔ اگر اس وقت محتسب یا لوگ پال کا منصب موجود ہوتا تو وہ ان مواقع کی نشاندہی کر سکتا تھا۔
افسوس کہ ہمارے پاس کوئی ایسا ادارہ نہیں جو صدر مملکت کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے۔ دیگر سرکاری اداروں کے سربراہوں کی نگرانی کا بھی کوئی نظام موجود نہیں۔ اس سوچ کے پیچھے غالباً یہ احساس موجود ہے کہ تنقید سے ان اداروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے جوکہ جمہوری سیاست کے لیے ناگزیر ہیں۔ اسی وجہ سے صدر کے عہدے پر متمکن شخص کو بہت ہی غلطیاں کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے پرناب مکھرجی کسی احتساب سے مبرا رہے ہیں حالانکہ انھیں اپنے عہدے پر فائز رہتے ہوئے اپنی یادداشتیں تحریر کرنے کا حق حاصل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ کام کیا۔
پرناب مکھرجی نے فرقہ وارانہ قوتوں کے خلاف جدوجہد کے بارے میں کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ سوچ پر تنقید کی ہے لیکن سابق صدر کا آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر میں جاکر اس کے کارکنوں سے خطاب کرنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ آر ایس ایس کے فلسفے کی حمایت کرتے ہیں۔ حیرت کی یہ بات ہے کہ کانگریس نے پرناب مکھرجی کے اس اقدام کے خلاف کوئی بات نہیں کی کیونکہ کانگریس کی خاموشی سے مکھرجی کی تائید کا مطلب بھی اخذ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ کانگریس کے ایک سابق وزیر نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ سیکولر ازم کی حمایت کا اعلان کریں۔
یونین منسٹر نیتن گڈکری نے سابق صدر کے آر ایس ایس کے کارکنوں سے خطاب کے فیصلے کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ دشمن کے کسی کیمپ کا دورہ نہیں کر رہے تھے۔ اگرچہ کانگریس کے حلقوں میں مکھرجی کے بارے میں آراء منقسم ہیں پھر بھی کانگریس کے بعض ارکان یہ تصور کرتے ہیں کہ سابق صدر آر ایس ایس کے پلیٹ فارم سے بھی اجتماعیت اور سیکولرازم کے حوالے سے کوئی مثبت پیغام دے سکتے ہیں۔
کانگریس کے ممتاز لیڈر سلمان خورشید نے مکھرجی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں مکھرجی پر اعتماد رکھنا چاہیے کیونکہ وہ ہم سب میں سے زیادہ باشعور اور عقلمند ہیں۔ پرناب مکھرجی کے آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر کی حمایت میں یہ بہت کمزور دلیل ہے۔ کیونکہ سارا ملک جانتا ہے کہ آر ایس ایس کا فلسفہ اجتماعیت کے فلسفے سے متضاد ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سونیا گاندھی اور کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے مکھرجی کی آر ایس ایس کے ہیڈ آفس کے دورے پر تنقید کی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو کانگریس پر عوام کی توجہ میں اور کمی آجاتی جوکہ پہلے ہی خاصی حد تک غیر متعلق ہوچکی ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے کہا ہے کہ پرناب مکھرجی کی طرف سے ان کی دعوت قبول کرنا ان کی شان بڑھانے کا سبب ہے۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر میں کبھی مہاتما گاندھی کی تصویر نہیں لگائی گئی کیونکہ گاندھی جی اجتماعیت کے فلسفے کے قائل تھے جس کو آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ اور ہندو راشٹرا قائم کرنے کی سوچ قبول نہیں کرتی۔ میں پرناب مکھرجی کی خصوصیات پر غور کروں تو مجھے یاد آتا ہے وہ بہت ہی منکسرالمزاج شخص تھے جنہوں نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تاکہ میں ان کی بیوی کا گایا ہوا ایک بھجن سن سکوں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب مکھرجی سیاست میں اپنا نام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان کی رہائش گاہ سادہ سی تھی جس میں فرنیچر برائے نام ہی تھا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سادہ عادات کے حامل انسان ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب سیاست میں ان کی اہمیت بڑھ گئی تو ان میں بہت سی تبدیلیاں آگئیں۔ ایمرجنسی کے دوران بھی میں نے ان کی رہائش گاہ کا دورہ کیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ان کا گھر بہت سج اور سنور گیا تھا۔ ڈرائنگ روم کا فرنیچر بڑا شاندار تھا۔ تب وہ اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے اور سنجے گاندھی کے ساتھ ان کی خاصی قربت تھی۔ سنجے گاندھی کسی سرکاری منصب کے نہ ہونے کے باوجود تمام اختیارات رکھتے تھے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پرناب مکھرجی کا کام ان تمام احکامات پر عمل کرانا ہوتا تھا جو سنجے کی طرف سے جاری کیے جاتے۔ سنجے گاندھی کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ ملک کی اصل حکومت انھی کے ہاتھ میں تھی۔ سنجے کے ایک طرف پرناب مکھرجی تھے اور دوسری طرف اس دور کے وزیر دفاع بنسی لال۔ یہ وہ وقت تھا جب پرناب مکھرجی سنجے کی طرف سے دی گئی کوئی نیلامی منظور کروا دیتے اور مخالفت میں کسی اور بولی کو منسوخ کرایا جاتا۔
یہ وہ وقت تھا جب لوگوں کی دکانوں اور گھروں پر چھاپے مارے جاتے تھے اور یہ ملک بھر میں ہوتا تھا۔ بعد میں پرناب مکھرجی کو سونیا گاندھی نے ملک کا صدر بنا دیا لیکن میرے خیال میں ان کا تقرر غلط تھا۔ وہ صاحبان اقتدار کی کی تعریفیں ہی کرتے رہتے تھے۔ جب سونیا گاندھی نے انھیں صدر مملکت کے منصب پر ترقی دیدی تو سونیا پر تنقید ہوئی۔ لیکن پرناب مکھرجی سونیا کے لیے خاص تحفہ ہی تھے جو دن کو رات اور رات کو دن کہنے پر تیار رہتے تھے۔ گویا ایک لحاظ سے وہ اندرا گاندھی کے گیانی ذیل سنگھ کی مانند تھے جنھیں اندرا گاندھی نے بڑی کوششوں کے ساتھ صدارت کے منصب پر بٹھایا تھا اور اس منصب جلیلہ پر باقاعدہ منتخب بھی کرایا۔
پرناب مکھرجی کی حکومت جمہوری قوم کے لیے ایک توہین سے کم نہیں تھی۔ اس منصب پر بیٹھ کر مکھرجی نے آئین کی خلاف ورزی کی تھی۔ جب مکھرجی راشٹر پتی بھون (ایوان صدارت) میں براجمان تھے تو میں ان سے متواتر ملاقات کرتا تھا اور مجھے بڑا افسوس ہوتا تھا کہ ان کا تاثر ملک و قوم پر مکمل طور پر منفی رہا۔ اگر وہ کوئی حساس شخص ہوتے تو وہ خود ہی یہ عہدہ چھوڑ دیتے کیونکہ ایمرجنسی کے 17 مہینوں کے دوران ان کا کردار یکسر منفی رہا تھا اور کچھ نہیں تو وہ ایمرجنسی کی مذمت ہی کر دیتے کیونکہ ایمرجنسی کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں بند کردیا گیا تھا۔
پریس پر پابندیاں لگا دی گئیں جب کہ سرکاری افسران کا غلط اور صحیح کے درمیان امتیاز ختم کر دیا تھا۔ اخلاقی اور غیر اخلاقی کا امتیاز ختم ہوگیا تھا۔ یہ سونیا گاندھی کا پختہ ارادہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے راہول گاندھی کو ہر قیمت پر ملک کا وزیراعظم بنانا چاہتی تھیں لیکن اس موقع پر مکھرجی کی سیاسی خواہشات اس راہ میں رکاوٹ بن گئیں لیکن انھیں جلد اندازہ ہوگیا کہ سونیا کا ارادہ کچھ اور ہے لہٰذا مکھرجی نے 2014ء کا انتخاب لڑنے سے قبل از وقت ہی انکار کر دیا جس سے راہول کا راستہ صاف ہوگیا۔ سونیا نے مکھرجی کو صدارتی عہدے پر اس لیے بٹھایا کہ اس نے گاندھی خاندان کی مکمل خلوص سے مدد کی تھی۔
ایمرجنسی کی وجہ سے عوام نے اندرا گاندھی کو 1970ء کے انتخابات میں شکست سے دوچار کیا کیونکہ یہ انتخابات ایمرجنسی اٹھائے جانے کے فوراً بعد ہوئے تھے لیکن میرے نزدیک مکھرجی کو ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بٹھانا درحقیقت قوم کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف تھا۔ میں توقع کرتا ہوں کہ سابق صدر اس زمانے کو یاد کریں گے جب وہ راشٹرپتی بھون میں بطور صدر مقیم تھے۔ تب لوگ محسوس کرتے تھے کہ اس انتخاب کے ذریعے عوام کو ذلیل و خوار کردیا گیا ہے۔ اگر اس وقت محتسب یا لوگ پال کا منصب موجود ہوتا تو وہ ان مواقع کی نشاندہی کر سکتا تھا۔
افسوس کہ ہمارے پاس کوئی ایسا ادارہ نہیں جو صدر مملکت کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے۔ دیگر سرکاری اداروں کے سربراہوں کی نگرانی کا بھی کوئی نظام موجود نہیں۔ اس سوچ کے پیچھے غالباً یہ احساس موجود ہے کہ تنقید سے ان اداروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے جوکہ جمہوری سیاست کے لیے ناگزیر ہیں۔ اسی وجہ سے صدر کے عہدے پر متمکن شخص کو بہت ہی غلطیاں کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے پرناب مکھرجی کسی احتساب سے مبرا رہے ہیں حالانکہ انھیں اپنے عہدے پر فائز رہتے ہوئے اپنی یادداشتیں تحریر کرنے کا حق حاصل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ کام کیا۔
پرناب مکھرجی نے فرقہ وارانہ قوتوں کے خلاف جدوجہد کے بارے میں کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ سوچ پر تنقید کی ہے لیکن سابق صدر کا آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر میں جاکر اس کے کارکنوں سے خطاب کرنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ آر ایس ایس کے فلسفے کی حمایت کرتے ہیں۔ حیرت کی یہ بات ہے کہ کانگریس نے پرناب مکھرجی کے اس اقدام کے خلاف کوئی بات نہیں کی کیونکہ کانگریس کی خاموشی سے مکھرجی کی تائید کا مطلب بھی اخذ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ کانگریس کے ایک سابق وزیر نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ سیکولر ازم کی حمایت کا اعلان کریں۔
یونین منسٹر نیتن گڈکری نے سابق صدر کے آر ایس ایس کے کارکنوں سے خطاب کے فیصلے کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ دشمن کے کسی کیمپ کا دورہ نہیں کر رہے تھے۔ اگرچہ کانگریس کے حلقوں میں مکھرجی کے بارے میں آراء منقسم ہیں پھر بھی کانگریس کے بعض ارکان یہ تصور کرتے ہیں کہ سابق صدر آر ایس ایس کے پلیٹ فارم سے بھی اجتماعیت اور سیکولرازم کے حوالے سے کوئی مثبت پیغام دے سکتے ہیں۔
کانگریس کے ممتاز لیڈر سلمان خورشید نے مکھرجی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں مکھرجی پر اعتماد رکھنا چاہیے کیونکہ وہ ہم سب میں سے زیادہ باشعور اور عقلمند ہیں۔ پرناب مکھرجی کے آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر کی حمایت میں یہ بہت کمزور دلیل ہے۔ کیونکہ سارا ملک جانتا ہے کہ آر ایس ایس کا فلسفہ اجتماعیت کے فلسفے سے متضاد ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سونیا گاندھی اور کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے مکھرجی کی آر ایس ایس کے ہیڈ آفس کے دورے پر تنقید کی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو کانگریس پر عوام کی توجہ میں اور کمی آجاتی جوکہ پہلے ہی خاصی حد تک غیر متعلق ہوچکی ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)