ملک کی خاطر
اگر اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن دیکھنے کی خواہش ہے۔ اگر ملک کی خوشحالی کی تمنا ہے تو پھر سب کچھ دیدنی ہونا چاہیے۔
31 مئی کی نصف شب دوسری منتخب قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد ازروئے آئین تحلیل ہوگئیں۔ اس دوران گوکہ دو جماعتوں کی وفاق میں حکومت رہی، لیکن وزرائے اعظم دونوں ادوار میں اپنی مدتیں مکمل نہ کرسکے۔ یہ بھی اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک المیہ ہے۔ بہرحال وفاق اور سندھ کے لیے نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوچکا ہے۔
توقع ہے کہ اس اظہاریے کی اشاعت تک باقی تین صوبوں کے نگران سیٹ اپ کا بھی اعلان ہوچکا ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے 25 جولائی کو اگلے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے۔ یوں بظاہر اگلے عام انتخابات کے حوالے سے میدان تیار ہوچکا ہے۔ مگر ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آیا انتخابات اپنے وقت مقررہ پر ہوسکیں گے۔ اس بارے میں صرف عوام ہی میں نہیں بلکہ اقتدار کی راہداریوں میں بھی شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں، ان پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو یہ خبر اہمیت کی حامل ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بنچ نے شہر سے قومی اسمبلی کے چار حلقوں (NA57, 58, 59, 60, 61) کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دے دی ہیں۔ جب کہ چکوال کے حلقوں کی حلقہ بندی کے خلاف 25 درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرلی ہیں۔ جن کی سماعت چند دنوں میں شروع ہونے کا امکان ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ ایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ اگر کراچی کی مردم شماری اور حلقہ بندیاں درست نہ کی گئیں، تو ان کی جماعت انتخابات کا بائیکاٹ کرسکتی ہے۔ اس سے قبل لندن میں موجود قیادت انتخابات کی شفافیت پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے پہلے ہی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ معاملہ طول پکڑ سکتا ہے۔
تیسری خبر یہ ہے کہ بلوچستان کی تحلیل ہونے والی حکومت کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ عام انتخابات ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیے جائیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بہت سے لوگ حج کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب گئے ہوئے ہوں گے۔ دوسرے گرمی کے باعث بلوچستان سے عوام کی بڑی تعداد دوسرے علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ووٹر بہت کم دستیاب ہوگا۔ جب کہ چوتھی خبر شیخ رشیدکا بیان ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ انتخابات اس روز ہوں گے، جس کی تاریخ چیف جسٹس دیں گے۔ اب عدالت کی جانب سے بعض حلقوں کی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دیا جانا، ملک کے سب سے بڑے شہر کی آبادی کے بارے میں ایک سال سے اٹھنے والے سوالات اور حلقہ بندیوں پر اعتراضات پر ارباب حل وعقد کی عدم توجہی پھر سرفراز بگٹی کا مطالبہ انتخابات کے التوا کا بہانہ بن سکتے ہیں۔
اب ذرا چند پہلوؤں پر غور کرلیا جائے۔ سول سوسائٹی، متوشش شہری اور ذرایع ابلاغ کئی برس سے مسلسل انتخابی اصلاحات کے لیے زور دیتے چلے آرہے ہیں۔ 2014ء میں ایک 31 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، جس کی مبہم سی سفارشات گزشتہ برس کے آخری مہینوں میں سامنے آئیں۔ اس سے قبل کہ ان سفارشات پر اکیڈمک بحث ہوتی، ایک جذباتی مذہبی مسئلہ کی بنیاد پر ہونے والے دھرنے نے پوری بحث کا رخ موڑ دیا۔ یوں انتخابی عمل میں اصلاحات کے لیے پیش کی جانے والی سفارشات میں پائی جانے والے نقائص، کمزوریوں اور خامیوں پر کھل کر گفتگو نہیں ہوسکی اور نہ ہی کوئی بہتر تبدیلی سامنے آسکی۔ نتیجتاً اگلے انتخابات کے بعد ہر شکست خوردہ جماعت انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر دھرنے، جلسے جلوسوں کا راستہ اختیار کرے گی۔ یوں اگلی حکومت کو وفاق اور صوبوں میں کھل کر کام کرنے کا موقع ملنے کے امکانات معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔
اسی طرح گزشتہ برس ہونے والی مردم شماری کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے جو اعتراضات اور تحفظات سامنے لائے گئے، ان پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ خاص طور پر کراچی کی آبادی کا مسئلہ سنگین نوعیت کا ہے۔ اسی حوالے سے اس کی حلقہ بندیاں بھی انتہائی حساس معاملہ ہے۔ لیکن کراچی کے بارے میں اسلام آباد میں بیٹھے حکمران اور منصوبہ ساز سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ یہی رویہ سندھ حکومت کا بھی ہے، جو کراچی پر اپنا حق تو جتاتی ہے، مگر اس پر ایک دھیلا بھی خرچ کرنے پر آمادہ نہیں۔
یہ تسلیم کہ 2013ء میں شروع ہونے والے آپریشن کے کچھ مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ آئے دن ہونے والی قتل و غارت گری اور ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات میں نمایاں حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں بھی دہرا معیار نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی گئی تھی، اس میں پانچ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگز بتائے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پہلے سے یہ فیصلہ کرلیا گیا تھاکہ صرف ایک جماعت کو نشانہ بنانا ہے اور باقی جماعتوں کی منفی سرگرمیوں سے صرف نظر کرنا ہے۔
یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے شہرکو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔ کسی نمایندہ سیاسی جماعت میں توڑ پھوڑ کرنے اور بدنام زمانہ افراد کو اپنی پسندیدہ افراد کی قیادت میں جبراً شامل کرانے کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ اس کے علاوہ لوگ یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ان کی نمایندہ جماعت کے بانی رہنما پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ثبوت اگر خفیہ ایجنسیوں کو ملا ہے، تو اسے عدالت میں پیش کرنے سے کیوں گریز کیا جارہا ہے؟ دوسرے لاہور ہائی کورٹ کس قانون کے تحت ایک پاکستانی شہری کو بغیر کسی ٹرائل اب تک تحریر اور تقریر کے حق سے کیوں محروم کے ہوئے ہے؟
دوسری طرف میاں نواز شریف مسلسل یہ اعلان کررہے ہیں کہ ان کا مقابلہ عمران خان اور ان کی جماعت سے نہیں ہے، بلکہ اصل معرکہ خلائی مخلوق سے ہے۔ یہی کچھ معاملہ کراچی کے شہریوں کا ہے۔ بلوچستان کے بعد سندھ سے بھی قوم پرستوں کو غائب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پشتون نوجوان بھی اپنے مطالبات کی خاطر میدان عمل میں ہیں۔ ایسی صورتحال میں عام انتخابات کے شفاف ہونے کے امکانات کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔
اب اگر کراچی کے عوام کی نمایندہ جماعت انتخابات کا بائیکاٹ کردیتی ہے، تو ممکن ہے کہ منصوبہ سازوں کو اپنے منصوبے کے مطابق اس شہر کے مینڈیٹ کو تقسیم کرنے کا موقع مل جائے۔ مگر کیا یہ عمل اس شہر کو مزید افراتفری اور تباہی کی طرف دھکیلنے کا باعث نہیں بنے گا؟ کیا کراچی کے عوام یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں کہ ایوب خان نے اس شہر کے باسیوں کے ساتھ جس امتیازی سلوک اور متعصبانہ رویے کی بنیاد رکھی تھی، وہ ہنوز جاری ہے؟
عرض ہے کہ اگر اس ملک اور اس کے عوام سے محبت ہے۔ اگر اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن دیکھنے کی خواہش ہے۔ اگر ملک کی خوشحالی کی تمنا ہے۔ تو پھر سب کچھ دیدنی ہونا چاہیے۔ نادیدہ کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جو کچھ ہو آئین اور قانون کے دائرے میں ہو۔ اس مقصد کے لیے اشرافیہ (سیاسی رہنما، اسٹیبلشمنٹ، تاجر و صنعتکار طبقات اور صحافیوں کا مخصوص ٹولہ) کو اپنی روش تبدیل کرنا ہوگی۔ فیصلے پسند و ناپسند کی نہیں میرٹ کی بنیاد پر کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگر معاملات و مسائل کے سدھرنے کے رہے سہے امکانات بھی معدوم ہوتے چلے جائیں گے۔