اپنے رب پر یقین
پریشانی میں مس مریم نے ایک بار پھر پیسے گنے لیکن نتیجہ وہی، پیسے اتنے ہی تھے۔
SHARJAH, UNITED ARAB EMIRATES:
''آج تو سارے پیسے میڈم کو دے ہی دینے چاہییں، خواہ مخواہ کی ذمے داری اٹھائی ہوئی ہے۔''
مس مریم نے یہ سوچ کر بیگ کھولا اور پیسے نکالنے چاہے تو اسے ایک جھٹکا لگا۔ بیگ میں موجود رقم کم لگ رہی تھی، اس نے جلدی سے رقم باہر نکالی اور گننا شروع کی، وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، ایک نہ دو پورے چھبیس ہزار غائب تھے۔ اب تو مس مریم کے پسینے چھوٹ گئے، کیوں کہ وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور اسکول سے ملنے والی تن خواہ پر ہی ان کا گذارہ ہوتا تھا۔ وہ ایک پرائیویٹ ادارے میں ٹیچر تھیں جہاں سے ماہانہ دس ہزار روپے تن خواہ ملتی تھی۔ گویا گم ہونے والی رقم ان کی دو ماہ کی تن خواہ سے بھی زیادہ تھی۔
پریشانی میں مس مریم نے ایک بار پھر پیسے گنے لیکن نتیجہ وہی، پیسے اتنے ہی تھے۔
''پتا نہیں کس نے دشمنی نبھائی ہے؟'' انہوں نے سوچا، کیوں کہ کچھ دیر پہلے ہی وہ اپنا بیگ اسٹاف روم میں چھوڑ کر گئی تھیں اور اب اس میں چھبیس ہزار روپے کم تھے۔ ان کے پاس کئی دنوں سے بچوں سے لی گئی فیس موجود تھی جو ٹوٹل پینسٹھ ہزار بنی تھی، لیکن اب ان کے بیگ میں صرف انتالیس ہزار روپے موجود تھے۔
''ارے! کیا ہوا مریم؟ تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟'' اسی لمحے حفصہ اسٹاف روم میں داخل ہوئی تو چونک کر بولی۔ وہ مریم کی بہترین دوست تھی۔
''کیا بتاؤں حفصہ؟ پتہ نہیں سب مجھ سے ہی حسد کیوں کرتے ہیں؟'' مریم نے کہا۔
''کیوں, کیا ہوا؟ کچھ تو بتاؤ؟'' حفصہ کی حیرت اور بڑھ گئی۔
''حفصہ! میں نے جو بچوں کی فیس لی تھی، اس میں چھبیس ہزار کم ہیں۔'' مریم نے بڑی مشکل سے حفصہ کو بتایا۔
''اوہ ہو! تو بچوں سے پتا کرو، ہوسکتا ہے ان میں سے کسی نے...'' حفصہ کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ مریم نے اس کی بات تیزی سے کاٹ دی اور کہا:
''نہیں حفصہ! بچے ایسا نہیں کرسکتے، یہ اسٹاف میں سے کسی کا کام ہے۔'' مریم نے دو ٹوک انداز سے کہا۔
''تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو؟'' حفصہ نے چونک کر پوچھا۔
''کیوں کہ بیگ میں سے چھبیس ہزار نکالے گئے ہیں، باقی انتالیس ہزار موجود ہیں، اس طرح جیسے کسی کو ضرورت ہی چھبیس ہزار روپے کی تھی، اور یہ صرف کوئی سمجھ دار انسان ہی کر سکتا ہے، بچے نہیں۔'' مریم نے پورے یقین سے کہا۔
''بات تو تمہاری ٹھیک ہے، لیکن بچوں سے پوچھ لینے میں کیا ہرج ہے؟ اسٹاف سے بھی پوچھ لیں گے۔'' حفصہ نے اسے تسلی دی۔
''سب میرا مذاق بنائیں گی حفصہ!'' مریم نے خدشہ ظاہر کیا۔
''تم بچوںسے پتا کرو، اسٹاف سے میں پوچھ لوں گی۔'' حفصہ نے اسے نرمی سے سمجھایا۔
مس مریم نے چھٹی کے وقت سب بچوں کو بلا کر رقم کا پوچھا لیکن وہ ان کی بات سن کر الٹا پریشان ہو گئے، کیوں کہ انہیں ایسی کسی بات کا پتا ہی نہیں تھا۔ بچوں نے مس مریم سے کہا کہ اگلی بار ہم جیب خرچ سے پیسے دے کر آپ کی کمی پوری کر دیں گے، یہ سن کر مس مریم کی آنکھوں میں آنسو آگئے، مگر وہ یہ کیسے برداشت کرسکتی تھیں کہ معصوم اور پیارے پیارے بچے ان کے لیے یہ سب کریں، اس لیے انہوں نے بچوں کو جانے کا کہہ دیا اور اسٹاف روم کی طرف چل پڑیں جہاں حفصہ ان کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسٹاف روم میں سے کسی نے نہیں اٹھائے۔
''پھر پیسے گئے کہاں؟'' مریم کی پریشانی عروج پر تھی۔
''شاید تم گھر بھول گئی ہو گی۔'' حفصہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
''نہیں، گھر بھولتی تو سارے بھولتی، آدھے کیسے بھول سکتی تھی؟ ضرور یہ اسٹاف روم میں سے کسی کی حرکت ہے، وہ بھی مجھے پریشان کرنے کے لیے۔'' مریم نے روہانسے لہجے میں کہا۔
''اچھا تم پریشان مت ہو، گھر جا کر دوبارہ حساب کرنا اور پھر بتانا، کیا پتا تم سے کوئی بھول چوک ہو گئی ہو۔'' حفصہ نے اسے سمجھایا اور پھر وہ دونوں رکشا میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔
گھر جا کر سب سے پہلے مریم نے حساب کیا اور حساب کے بعد اس کے سر پر دکھ کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا، کیوں کہ گم ہونے والی رقم چھبیس ہزار نہیں بلکہ پینتیس ہزار تھی۔ اس نے حفصہ کو بتایا۔ پریشانی میں اس کا بلڈ پریشر لو ہوگیا تھا۔
''اب تو دو ہی حل ہیں مریم!'' حفصہ نے کہا اور مریم کو کچھ تسلی ہوئی۔
''کون سے حل؟'' اس نے پوچھا۔
''ایک تو یہ کہ تم ہر ماہ اپنی تن خواہ سے کچھ رقم کٹواتی رہو، تاکہ نقصان بھی پورا ہوجائے اور تمہارا گذارہ بھی ہوتا رہے اور دوسرا...'' حفصہ کہتے کہتے چپ ہو گئی۔
''دوسرا کون سا حفصہ؟'' مریم نے بے چینی سے پوچھا
''دوسرا یہ کہ تم صدقہ کرو۔ یہ نیت کرلو کہ اگر میرے گم شدہ پیسے مل گئے تو میں ان میں سے پانچ سو روپے صدقہ کر دوں گی۔'' حفصہ کی بات سن کر مریم نے اسی وقت نیت کرلی۔
اس کا سارا دن پریشانی میں گزرا، حفصہ برابر اس کا حوصلہ بڑھاتی رہی.
دوسرے دن کلاس میں جانے سے پہلے مریم پرنسپل کے آفس میں گئی اور جو رقم اس کے پاس موجود تھی، وہ اس نے انہیں دے دی اور بقایا رقم کے لیے ابھی تمہید باندھنے ہی لگی تھی کہ پرنسپل صاحبہ نے یہ کہہ کر اسے حیران کر دیا کہ آپ کا حساب مکمل ہے، پینتیس ہزار آپ کچھ دن پہلے ہی دے چکی ہیں۔ مریم کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
وہ جلدی سے اٹھی اور پانچ سو کا ایک نوٹ فوراً اسکول میں کام کرنے والی ماسی کو دیا جو ان دنوں کافی بیمار تھی۔
گھر آ کر مریم نے خدا کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا اور حفصہ کا شکریہ ادا کیا جس نے ہر قدم پر اس کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ مریم کا اب اپنے رب پر یقین اور پختہ ہو گیا تھا۔
''آج تو سارے پیسے میڈم کو دے ہی دینے چاہییں، خواہ مخواہ کی ذمے داری اٹھائی ہوئی ہے۔''
مس مریم نے یہ سوچ کر بیگ کھولا اور پیسے نکالنے چاہے تو اسے ایک جھٹکا لگا۔ بیگ میں موجود رقم کم لگ رہی تھی، اس نے جلدی سے رقم باہر نکالی اور گننا شروع کی، وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، ایک نہ دو پورے چھبیس ہزار غائب تھے۔ اب تو مس مریم کے پسینے چھوٹ گئے، کیوں کہ وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور اسکول سے ملنے والی تن خواہ پر ہی ان کا گذارہ ہوتا تھا۔ وہ ایک پرائیویٹ ادارے میں ٹیچر تھیں جہاں سے ماہانہ دس ہزار روپے تن خواہ ملتی تھی۔ گویا گم ہونے والی رقم ان کی دو ماہ کی تن خواہ سے بھی زیادہ تھی۔
پریشانی میں مس مریم نے ایک بار پھر پیسے گنے لیکن نتیجہ وہی، پیسے اتنے ہی تھے۔
''پتا نہیں کس نے دشمنی نبھائی ہے؟'' انہوں نے سوچا، کیوں کہ کچھ دیر پہلے ہی وہ اپنا بیگ اسٹاف روم میں چھوڑ کر گئی تھیں اور اب اس میں چھبیس ہزار روپے کم تھے۔ ان کے پاس کئی دنوں سے بچوں سے لی گئی فیس موجود تھی جو ٹوٹل پینسٹھ ہزار بنی تھی، لیکن اب ان کے بیگ میں صرف انتالیس ہزار روپے موجود تھے۔
''ارے! کیا ہوا مریم؟ تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟'' اسی لمحے حفصہ اسٹاف روم میں داخل ہوئی تو چونک کر بولی۔ وہ مریم کی بہترین دوست تھی۔
''کیا بتاؤں حفصہ؟ پتہ نہیں سب مجھ سے ہی حسد کیوں کرتے ہیں؟'' مریم نے کہا۔
''کیوں, کیا ہوا؟ کچھ تو بتاؤ؟'' حفصہ کی حیرت اور بڑھ گئی۔
''حفصہ! میں نے جو بچوں کی فیس لی تھی، اس میں چھبیس ہزار کم ہیں۔'' مریم نے بڑی مشکل سے حفصہ کو بتایا۔
''اوہ ہو! تو بچوں سے پتا کرو، ہوسکتا ہے ان میں سے کسی نے...'' حفصہ کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ مریم نے اس کی بات تیزی سے کاٹ دی اور کہا:
''نہیں حفصہ! بچے ایسا نہیں کرسکتے، یہ اسٹاف میں سے کسی کا کام ہے۔'' مریم نے دو ٹوک انداز سے کہا۔
''تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو؟'' حفصہ نے چونک کر پوچھا۔
''کیوں کہ بیگ میں سے چھبیس ہزار نکالے گئے ہیں، باقی انتالیس ہزار موجود ہیں، اس طرح جیسے کسی کو ضرورت ہی چھبیس ہزار روپے کی تھی، اور یہ صرف کوئی سمجھ دار انسان ہی کر سکتا ہے، بچے نہیں۔'' مریم نے پورے یقین سے کہا۔
''بات تو تمہاری ٹھیک ہے، لیکن بچوں سے پوچھ لینے میں کیا ہرج ہے؟ اسٹاف سے بھی پوچھ لیں گے۔'' حفصہ نے اسے تسلی دی۔
''سب میرا مذاق بنائیں گی حفصہ!'' مریم نے خدشہ ظاہر کیا۔
''تم بچوںسے پتا کرو، اسٹاف سے میں پوچھ لوں گی۔'' حفصہ نے اسے نرمی سے سمجھایا۔
مس مریم نے چھٹی کے وقت سب بچوں کو بلا کر رقم کا پوچھا لیکن وہ ان کی بات سن کر الٹا پریشان ہو گئے، کیوں کہ انہیں ایسی کسی بات کا پتا ہی نہیں تھا۔ بچوں نے مس مریم سے کہا کہ اگلی بار ہم جیب خرچ سے پیسے دے کر آپ کی کمی پوری کر دیں گے، یہ سن کر مس مریم کی آنکھوں میں آنسو آگئے، مگر وہ یہ کیسے برداشت کرسکتی تھیں کہ معصوم اور پیارے پیارے بچے ان کے لیے یہ سب کریں، اس لیے انہوں نے بچوں کو جانے کا کہہ دیا اور اسٹاف روم کی طرف چل پڑیں جہاں حفصہ ان کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسٹاف روم میں سے کسی نے نہیں اٹھائے۔
''پھر پیسے گئے کہاں؟'' مریم کی پریشانی عروج پر تھی۔
''شاید تم گھر بھول گئی ہو گی۔'' حفصہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
''نہیں، گھر بھولتی تو سارے بھولتی، آدھے کیسے بھول سکتی تھی؟ ضرور یہ اسٹاف روم میں سے کسی کی حرکت ہے، وہ بھی مجھے پریشان کرنے کے لیے۔'' مریم نے روہانسے لہجے میں کہا۔
''اچھا تم پریشان مت ہو، گھر جا کر دوبارہ حساب کرنا اور پھر بتانا، کیا پتا تم سے کوئی بھول چوک ہو گئی ہو۔'' حفصہ نے اسے سمجھایا اور پھر وہ دونوں رکشا میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔
گھر جا کر سب سے پہلے مریم نے حساب کیا اور حساب کے بعد اس کے سر پر دکھ کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا، کیوں کہ گم ہونے والی رقم چھبیس ہزار نہیں بلکہ پینتیس ہزار تھی۔ اس نے حفصہ کو بتایا۔ پریشانی میں اس کا بلڈ پریشر لو ہوگیا تھا۔
''اب تو دو ہی حل ہیں مریم!'' حفصہ نے کہا اور مریم کو کچھ تسلی ہوئی۔
''کون سے حل؟'' اس نے پوچھا۔
''ایک تو یہ کہ تم ہر ماہ اپنی تن خواہ سے کچھ رقم کٹواتی رہو، تاکہ نقصان بھی پورا ہوجائے اور تمہارا گذارہ بھی ہوتا رہے اور دوسرا...'' حفصہ کہتے کہتے چپ ہو گئی۔
''دوسرا کون سا حفصہ؟'' مریم نے بے چینی سے پوچھا
''دوسرا یہ کہ تم صدقہ کرو۔ یہ نیت کرلو کہ اگر میرے گم شدہ پیسے مل گئے تو میں ان میں سے پانچ سو روپے صدقہ کر دوں گی۔'' حفصہ کی بات سن کر مریم نے اسی وقت نیت کرلی۔
اس کا سارا دن پریشانی میں گزرا، حفصہ برابر اس کا حوصلہ بڑھاتی رہی.
دوسرے دن کلاس میں جانے سے پہلے مریم پرنسپل کے آفس میں گئی اور جو رقم اس کے پاس موجود تھی، وہ اس نے انہیں دے دی اور بقایا رقم کے لیے ابھی تمہید باندھنے ہی لگی تھی کہ پرنسپل صاحبہ نے یہ کہہ کر اسے حیران کر دیا کہ آپ کا حساب مکمل ہے، پینتیس ہزار آپ کچھ دن پہلے ہی دے چکی ہیں۔ مریم کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
وہ جلدی سے اٹھی اور پانچ سو کا ایک نوٹ فوراً اسکول میں کام کرنے والی ماسی کو دیا جو ان دنوں کافی بیمار تھی۔
گھر آ کر مریم نے خدا کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا اور حفصہ کا شکریہ ادا کیا جس نے ہر قدم پر اس کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ مریم کا اب اپنے رب پر یقین اور پختہ ہو گیا تھا۔