درزیوں نے عید پر مردانہ ملبوسات کی سلائی مہنگی کر دی
عیدکیلیے ملبوسات کی سلائی کارجحان سال بہ سال کم ہورہاہے،گزشتہ سال کی600روپے سلائی اب800سے850روپے تک پہنچ گئی
عید کے لیے مردانہ ملبوسات کی سلائی کی اجرت میں اس سال200 سے 250 روپے تک کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کاریگروں کی اجرت کے علاوہ میٹریل اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جنریٹر کے استعمال سے ملبوسات کی سلائی کی لاگت بڑھ گئی ہے عید کے لیے ملبوسات کی سلائی کا رجحان سال بہ سال کم ہورہا ہے سلائی کی اجرت بڑھنے کی وجہ سے زیادہ تر گھرانوں میں سلے سلائے ملبوسات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
کرتا شلواراور قمیص شلوار کی برانڈز کی مقبولیت کے بعد سے کراچی میں ریڈی میڈ ملبوسات کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے اور شہری کپڑا خرید کر درزیوں کے ناز نخرے اٹھانے اور عید سے قبل درزیوں کی دکانوں کے چکر کاٹنے کی زحمت سے بچنے کے لیے سلے سلائے ملبوسات کو ترجیح دے رہے ہیں تاہم اب بھی شہر میں کوئی درزی ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا دکھائی نہیں دیتا۔
ٹیلرز کا کہنا ہے کہ لگے بندھے گاہک اتنے ہوتے ہیں کہ عید تک سر اٹھانے کی فرصت نہیں ہوتی البتہ نئے گاہکوں کی تعداد میں اضافہ برائے نام ہورہا ہے، عید کے لیے کپڑے کی سلائی کے آرڈرز 10سے 15روزوں تک لیے جاتے ہیں شہر میں مردانہ سلائی کے مراکز اور مشہور ٹیلرنگ شاپس پر رمضان کے پہلے ہفتے میں ہی نو بکنگ کے بورڈ آویزاں کردیے جاتے ہیں۔
ٹیلروں کے مطابق ریڈی میڈ ملبوسات کی مانگ میں اضافہ اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ٹیلرنگ کا کام متاثر ہورہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک کراچی میں ٹیلرنگ کا کام عروج پر ہوتا تھا اور سیزن کمانے کے لیے اندرون ملک سے کاریگر کراچی آتے تھے۔
کراچی میں بھی ٹیلرنگ کے کاریگر سیزن کے دنوں کے علاوہ دیگر کام کاج کرکے روزگار کماتے ہیں تاہم سلائی کا کام جاننے والے کاریگر رمضان کے دنوں میں ٹیلرنگ کا کام کرکے اضافی آمدن حاصل کرتے ہیں اس سال مصروف ٹیلرنگ شاپس پرکاریگروں کی یومیہ اجرت 1000سے 1200روپے تک پہنچ گئی ہے۔
بعض دکانوں پر کاریگروں کو جوڑے کے حساب سے اجرت دی جاتی ہے کراچی میں مردانہ ملبوسات کی سلائی کے بڑے مراکز صدر کریم سینٹر، کوآپریٹیو مارکیٹ میں قائم ہیں جہاں آخری عشرے تک سلائی کے آرڈز لیے جاتے ہیں عید قریب آتے آتے سلائی کی اجرت بھی بڑھ جاتی ہے۔
کریم سینٹر اور کو آپریٹیو مارکیٹ میں سلائی کے بڑے کارخانے قائم ہیں جہاں رمضان کے دنوں میں دن رات سلائی کا کام جاری رہتا ہے۔
رمضان میں ٹیلرنگ کے کام سے کئی لوگوں کو اضافی روزگار حاصل ہوتا ہے
درزی کے کام سے متعدد لوگوں کو اضافی روزگار ملتا ہے سلائی کا ناپ اور کٹنگ ٹیلر ماسٹر کی ذمے داری ہوتی ہے جو کپڑے کی کٹنگ کرکے سلائی کے کاریگروں کے سپرد کردیتا ہے سلائی کے کاریگرنصف گھنٹے میں ایک سوٹ تیار کرلیتے ہیں زیادہ تر قمیضوں کی سلائی کارخانوں یا ٹیلرنگ شاپس میں کی جاتی ہے جبکہ شلواریں زیادہ تر گھروں پر سلائی کرنے والی درزن سے سلوائی جاتی ہیں۔
تیار قمیصوں کو کاج بٹن اور اوور لاک کے لیے بھیجا جاتا ہے جس کے بعد تیار سوٹ کی شکنیں دور کرنے کے لیے استری (پریس) کی جاتی ہے اور تھیلیوں میں پیک کرکے رکھا جاتا ہے عید کے لیے زیادہ آرڈز ہونے کی وجہ سے ملبوسات کی شناخت اور گاہکوں کو درست ملبوسات کی ڈیلیوری کے لیے کپڑوں پر کوڈز کی شکل میں بکنگ کے نمبر درج کیے جاتے ہیں اور پیک شدہ ملبوسات کو بکنگ کی رسید لگاکر رکھا جاتا ہے۔
ٹیلرنگ شاپس میں کاریگروں کے ساتھ ہیلپرز کی بھی مدد لی جاتی ہے جو چھوٹے موٹے کام میں مدد کرتے ہیں۔ عموماً ایک چھوٹی ٹیلرنگ شاپ میں ماسٹر، دو کاریگر اور ایک سے دو ہیلپرز ہوتے ہیں۔
درزی اپنے اور اہل خانہ کے کپڑے چاند رات کو سیتے ہیں
ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ افراد کے مطابق چراغ تلے اندھیرا کے مصداق خود دزیوں اور ان کے اہل خانہ کے ملبوسات چاند رات کو تیار کیے جاتے ہیں، رمضان میں بک کرائے گئے ملبوسات لینے والے گاہک عید سے ایک تا دو روز قبل ہی ٹیلرنگ شاپس کا رخ کرتے ہیں اس دوران درزی ملبوسات کی ڈیلیوری اور اجرت کی وصولی میں مصروف رہتے ہیں اور تمام گاہکوں کو نمٹانے کے بعد درزی اپنے اور اپنے اہل خانہ کے کپڑوں کی سلائی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
چاند رات کو ٹیلرنگ شاپس عموماً پوری رات کھلی رہتی ہیں زیادہ تر کاریگر بھی اپنے لیے ملبوسات آخری ایک دو روزمیں تیار کرتے ہیں درزیوں کی عید کا پورا ہفتہ آرام کرکے گزرتا ہے اور عید کی تعطیلات کے فوری بعد شادی بیاہ کے سیزن کے لیے مردانہ ملبوسات کی تیاری کا کام شروع ہوجاتا ہے شہر میں کام کرنے والے درزیوں کا سیزن شعبان سے ذوالحج تک جاری رہتا ہے ٹیلرز کے مطابق ربیع الاوّل کے مہینے میں نئے ملبوسات کی تیاری کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
مردانہ ملبوسات میں بھی فیشن اور جدت کا رجحان بڑھنے لگا
مردانہ ملبوسات میں بھی فیشن کا رجحان عام ہورہا ہے۔ درزیوں سے سلائی کرنے والے زیادہ تر نوجوان کرتے اور قمیصوں پر ہلکی کڑھائی کو ترجیح دیتے ہیں، کالر اور آستینوں کے علاوہ سامنے کے رخ پر تعویز کے اطراف کڑھائی والے سوٹوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہے کڑھائی والے سوٹوں کی سلائی کی اجرت بھی معمول سے 200 روپے تک زائد ہے جبکہ کڑھائی کے لیے ڈیزائن کے لحاظ سے 300 سے 500 روپے اضافی وصول کیے جاتے ہیں۔
کڑھائی کے علاوہ آستین اور کالر پر شوخ رنگوں کے کپڑے سے ڈبل پٹیوں میں ڈیزائننگ کا فیشن بھی عام ہے بیشتر درزی 10روزے گزرنے کے بعد ڈیزائننگ اور کڑھائی والے ملبوسات کے آرڈر لینا بند کردیتے ہیں گرمی کی وجہ سے اس بار مردانہ ملبوسات کے لیے بھی ہلکی کاٹن اور لان کے کرتے سلوائے جارہے ہیں کاٹن کے سوٹ کی سلائی واش اینڈ ویئر مبلوسات سے زیادہ وصول کی جاتی ہے کاٹن اور ہلکے کپڑے کے مقابلوں میں واش اینڈ ویئر مبلوسات کی سلائی کا تناسب 30 فیصد تک محدود ہے۔
شہر میں بجلی یک طویل لوڈشیڈنگ سے درزیوں کا کام بری طرح متاثرہوگیا
شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دن کے اوقات میں سلائی کا کام بری طرح متاثر ہورہا ہے ٹیلرنگ کا کام کرنے والے زیادہ تر رات کے وقت سلائی کرتے ہیں جو سحری تک جاری رہتا ہے، بڑے ٹیلرز نے دن رات سلائی کے لیے کمرشل اور گھریلو علاقوں میں عارضی طور پر کرائے کی جگہوں پر سلائی کرتے ہیں جہاں کاریگروں کے آرام اور سونے کھانے پینے کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے اور بجلی جانے کی صورت میں گیس سے چلنے والے جنریٹرز استعمال کیے جاتے ہیں۔
بازاروں اور شاپنگ سینٹرز میں واقع ٹیلرنگ شاپس پر پیٹرول کے جنریٹر استعمال کیے جاتے ہیں جن پر یومیہ 200سے 300روپے تک کا ایندھن استعمال ہوتا ہے درزیوں کا کہنا ہے کہ سلائی کے مٹیریل بکرم، دھاگہ، بٹن، اوورلاک، قمیصوں کی کاج بنانے سمیت سلے ہوئے ملبوسات کی استری پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے جس سے سلائی کی اجرت بڑھ گئی ہے۔
ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کاریگروں کی اجرت کے علاوہ میٹریل اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جنریٹر کے استعمال سے ملبوسات کی سلائی کی لاگت بڑھ گئی ہے عید کے لیے ملبوسات کی سلائی کا رجحان سال بہ سال کم ہورہا ہے سلائی کی اجرت بڑھنے کی وجہ سے زیادہ تر گھرانوں میں سلے سلائے ملبوسات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
کرتا شلواراور قمیص شلوار کی برانڈز کی مقبولیت کے بعد سے کراچی میں ریڈی میڈ ملبوسات کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے اور شہری کپڑا خرید کر درزیوں کے ناز نخرے اٹھانے اور عید سے قبل درزیوں کی دکانوں کے چکر کاٹنے کی زحمت سے بچنے کے لیے سلے سلائے ملبوسات کو ترجیح دے رہے ہیں تاہم اب بھی شہر میں کوئی درزی ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا دکھائی نہیں دیتا۔
ٹیلرز کا کہنا ہے کہ لگے بندھے گاہک اتنے ہوتے ہیں کہ عید تک سر اٹھانے کی فرصت نہیں ہوتی البتہ نئے گاہکوں کی تعداد میں اضافہ برائے نام ہورہا ہے، عید کے لیے کپڑے کی سلائی کے آرڈرز 10سے 15روزوں تک لیے جاتے ہیں شہر میں مردانہ سلائی کے مراکز اور مشہور ٹیلرنگ شاپس پر رمضان کے پہلے ہفتے میں ہی نو بکنگ کے بورڈ آویزاں کردیے جاتے ہیں۔
ٹیلروں کے مطابق ریڈی میڈ ملبوسات کی مانگ میں اضافہ اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ٹیلرنگ کا کام متاثر ہورہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک کراچی میں ٹیلرنگ کا کام عروج پر ہوتا تھا اور سیزن کمانے کے لیے اندرون ملک سے کاریگر کراچی آتے تھے۔
کراچی میں بھی ٹیلرنگ کے کاریگر سیزن کے دنوں کے علاوہ دیگر کام کاج کرکے روزگار کماتے ہیں تاہم سلائی کا کام جاننے والے کاریگر رمضان کے دنوں میں ٹیلرنگ کا کام کرکے اضافی آمدن حاصل کرتے ہیں اس سال مصروف ٹیلرنگ شاپس پرکاریگروں کی یومیہ اجرت 1000سے 1200روپے تک پہنچ گئی ہے۔
بعض دکانوں پر کاریگروں کو جوڑے کے حساب سے اجرت دی جاتی ہے کراچی میں مردانہ ملبوسات کی سلائی کے بڑے مراکز صدر کریم سینٹر، کوآپریٹیو مارکیٹ میں قائم ہیں جہاں آخری عشرے تک سلائی کے آرڈز لیے جاتے ہیں عید قریب آتے آتے سلائی کی اجرت بھی بڑھ جاتی ہے۔
کریم سینٹر اور کو آپریٹیو مارکیٹ میں سلائی کے بڑے کارخانے قائم ہیں جہاں رمضان کے دنوں میں دن رات سلائی کا کام جاری رہتا ہے۔
رمضان میں ٹیلرنگ کے کام سے کئی لوگوں کو اضافی روزگار حاصل ہوتا ہے
درزی کے کام سے متعدد لوگوں کو اضافی روزگار ملتا ہے سلائی کا ناپ اور کٹنگ ٹیلر ماسٹر کی ذمے داری ہوتی ہے جو کپڑے کی کٹنگ کرکے سلائی کے کاریگروں کے سپرد کردیتا ہے سلائی کے کاریگرنصف گھنٹے میں ایک سوٹ تیار کرلیتے ہیں زیادہ تر قمیضوں کی سلائی کارخانوں یا ٹیلرنگ شاپس میں کی جاتی ہے جبکہ شلواریں زیادہ تر گھروں پر سلائی کرنے والی درزن سے سلوائی جاتی ہیں۔
تیار قمیصوں کو کاج بٹن اور اوور لاک کے لیے بھیجا جاتا ہے جس کے بعد تیار سوٹ کی شکنیں دور کرنے کے لیے استری (پریس) کی جاتی ہے اور تھیلیوں میں پیک کرکے رکھا جاتا ہے عید کے لیے زیادہ آرڈز ہونے کی وجہ سے ملبوسات کی شناخت اور گاہکوں کو درست ملبوسات کی ڈیلیوری کے لیے کپڑوں پر کوڈز کی شکل میں بکنگ کے نمبر درج کیے جاتے ہیں اور پیک شدہ ملبوسات کو بکنگ کی رسید لگاکر رکھا جاتا ہے۔
ٹیلرنگ شاپس میں کاریگروں کے ساتھ ہیلپرز کی بھی مدد لی جاتی ہے جو چھوٹے موٹے کام میں مدد کرتے ہیں۔ عموماً ایک چھوٹی ٹیلرنگ شاپ میں ماسٹر، دو کاریگر اور ایک سے دو ہیلپرز ہوتے ہیں۔
درزی اپنے اور اہل خانہ کے کپڑے چاند رات کو سیتے ہیں
ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ افراد کے مطابق چراغ تلے اندھیرا کے مصداق خود دزیوں اور ان کے اہل خانہ کے ملبوسات چاند رات کو تیار کیے جاتے ہیں، رمضان میں بک کرائے گئے ملبوسات لینے والے گاہک عید سے ایک تا دو روز قبل ہی ٹیلرنگ شاپس کا رخ کرتے ہیں اس دوران درزی ملبوسات کی ڈیلیوری اور اجرت کی وصولی میں مصروف رہتے ہیں اور تمام گاہکوں کو نمٹانے کے بعد درزی اپنے اور اپنے اہل خانہ کے کپڑوں کی سلائی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
چاند رات کو ٹیلرنگ شاپس عموماً پوری رات کھلی رہتی ہیں زیادہ تر کاریگر بھی اپنے لیے ملبوسات آخری ایک دو روزمیں تیار کرتے ہیں درزیوں کی عید کا پورا ہفتہ آرام کرکے گزرتا ہے اور عید کی تعطیلات کے فوری بعد شادی بیاہ کے سیزن کے لیے مردانہ ملبوسات کی تیاری کا کام شروع ہوجاتا ہے شہر میں کام کرنے والے درزیوں کا سیزن شعبان سے ذوالحج تک جاری رہتا ہے ٹیلرز کے مطابق ربیع الاوّل کے مہینے میں نئے ملبوسات کی تیاری کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
مردانہ ملبوسات میں بھی فیشن اور جدت کا رجحان بڑھنے لگا
مردانہ ملبوسات میں بھی فیشن کا رجحان عام ہورہا ہے۔ درزیوں سے سلائی کرنے والے زیادہ تر نوجوان کرتے اور قمیصوں پر ہلکی کڑھائی کو ترجیح دیتے ہیں، کالر اور آستینوں کے علاوہ سامنے کے رخ پر تعویز کے اطراف کڑھائی والے سوٹوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہے کڑھائی والے سوٹوں کی سلائی کی اجرت بھی معمول سے 200 روپے تک زائد ہے جبکہ کڑھائی کے لیے ڈیزائن کے لحاظ سے 300 سے 500 روپے اضافی وصول کیے جاتے ہیں۔
کڑھائی کے علاوہ آستین اور کالر پر شوخ رنگوں کے کپڑے سے ڈبل پٹیوں میں ڈیزائننگ کا فیشن بھی عام ہے بیشتر درزی 10روزے گزرنے کے بعد ڈیزائننگ اور کڑھائی والے ملبوسات کے آرڈر لینا بند کردیتے ہیں گرمی کی وجہ سے اس بار مردانہ ملبوسات کے لیے بھی ہلکی کاٹن اور لان کے کرتے سلوائے جارہے ہیں کاٹن کے سوٹ کی سلائی واش اینڈ ویئر مبلوسات سے زیادہ وصول کی جاتی ہے کاٹن اور ہلکے کپڑے کے مقابلوں میں واش اینڈ ویئر مبلوسات کی سلائی کا تناسب 30 فیصد تک محدود ہے۔
شہر میں بجلی یک طویل لوڈشیڈنگ سے درزیوں کا کام بری طرح متاثرہوگیا
شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دن کے اوقات میں سلائی کا کام بری طرح متاثر ہورہا ہے ٹیلرنگ کا کام کرنے والے زیادہ تر رات کے وقت سلائی کرتے ہیں جو سحری تک جاری رہتا ہے، بڑے ٹیلرز نے دن رات سلائی کے لیے کمرشل اور گھریلو علاقوں میں عارضی طور پر کرائے کی جگہوں پر سلائی کرتے ہیں جہاں کاریگروں کے آرام اور سونے کھانے پینے کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے اور بجلی جانے کی صورت میں گیس سے چلنے والے جنریٹرز استعمال کیے جاتے ہیں۔
بازاروں اور شاپنگ سینٹرز میں واقع ٹیلرنگ شاپس پر پیٹرول کے جنریٹر استعمال کیے جاتے ہیں جن پر یومیہ 200سے 300روپے تک کا ایندھن استعمال ہوتا ہے درزیوں کا کہنا ہے کہ سلائی کے مٹیریل بکرم، دھاگہ، بٹن، اوورلاک، قمیصوں کی کاج بنانے سمیت سلے ہوئے ملبوسات کی استری پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے جس سے سلائی کی اجرت بڑھ گئی ہے۔