آج کی خواتین کے مختلف النوع مساٸل کی تین اہم وجوہ نظر آتی ہیں: انتہاء پسندی، حیا سے عاری دل، اور علم و شعور کا فقدان۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
سترہ سالہ فاطمہ اپنے بھاٸی احمر کے رویّے پر اکثر دل گرفتہ رہتی تھی جو انگريزى ادب کا طالب علم تھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر خواتین کے حقوق کےلیے اکثر مہماتی کام سرانجام ديتا تھا۔ يہ کرنے کی وجہ اس کا اپنے ايک لبرل پروفيسر كے مغربى خيالات سے متاثر ہونا تھا جو ويسے تو مغربی تہذیب کے بہت دلدادہ تھے لیکن اپنے گھر میں خود اٹھ کر پانی پینا بهی اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے؛ اور پھر ''جیسا راجہ ویسی پرجا'' والی مثال کے تحت ان کے احمر اور اس کے دوستوں جیسے شاگرد اور خواتين کے حقوق کے علمبردار طالب علم جب گھر میں داخل ہوتے تو گھر والے ایک مستقل دباؤ کا شکار ہو جاتے کہ پتا نہیں کب انہیں کوٸی بات ناگوار گزر جائے اور ایک طوفان کا پیش خیمہ بن جائے۔
فاطمہ کو اپنی والدہ سے بھی خاصی شکایات تھیں جو غلط بات پر بھی اس کے بھاٸی کی طرف داری کرنا ضرورى سمجھتی تھیں۔ وہ اکثر سوچتی تھی کہ ہر مرد اس کے خالو جیسا کیوں نہیں ہوجاتا جو بہت نرم مزاج کے مالک ہیں۔ اب یہ تو کوٸی اس کی خالہ سے پوچھتا جنہیں اپنےشوہر کی نرم مزاجی اس وقت زہر لگتی تھی جب وہ اپنی مرضی کے خلاف کوٸی بات ہونے پر ان سے تو کچھ نہیں کہتے تھے لیکن مزاج میں ایسی تبدیلی لے آتے جو پورے گھر کےلیے پریشانی کا باعث بن جاتی اور اس کی وجہ جاننا گھر والوں کےلیے اک امرِ محال بن جاتا۔ فاطمہ کی خالہ کو یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ مردوں کی توقعات عورتوں سے اتنی زیاده کیوں ہوتی ہیں اور وہ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ عورتیں غیب کا حال جانتی ہیں اس لیے انہیں ان کی پسند ناپسند، ضروریات، یہاں تک کہ ان کی دل کی باتوں کا بھی ان کے کہے بغیر علم ہو جانا چاہیے۔
اپنے انہی تجربات کی بنیاد پر فاطمہ اور اس کی خالہ خواتین کے حقوق کےلیے کوشاں تنظیموں کو محض ایک کھیل سمجھتی تھیں اور اس سال بھی حقوق نسواں کے عالمی دن کے حوالے سے پرجوش نہیں تھیں۔ دونوں کو یقین تھا کہ گزشتہ کٸی سال کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی عورتوں کے حقوق کا عالمی دن محض کچھ دانشور حضرات کی پرجوش تقریروں اور روشن خیال خواتین کے دھواں دھار نعروں کی نظر ہوگا۔ کچھ عرصے کے وقتی بحث و مباحثے اور دلاٸل و نصاٸح کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا۔ دونوں کا یہ یقین کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا بلکہ پچھلے کٸی برسوں کا براہِ راست مشاہدہ تھا۔
ظاہر ہے مغربی تہذیب کی تقلید میں اندھی ہوئی قوم جب اپنی غوروفکر کی صلاحیتوں کو گروی رکھ دے، اپنے اسلاف کی روایتوں کو بھلا دے اور اپنے مقصد زندگی سے نگاہ چرالے تو پھر اس کے ساتھ جو المیہ ہونا چاہیے، وہی آج کل رونما ہورہا ہے۔
بنیادی طور پر آج کی خواتین کے مختلف النوع مساٸل کی تین اہم وجوہ نظر آتی ہیں: انتہاء پسندی، حیا سے عاری دل، اور علم و شعور کا فقدان۔ انتہاء پسندی، چاہے وہ شدت پسند دینی طبقے کی طرف سے ہو یا مخصوص آزاد خیال دانشور طبقے کی جانب سے؛ نیز حیا اور علم و شعور کا فقدان، چاہے اس کے ذمہ دار خواتین کے گھر والے ہوں یا وہ خود۔ ان سلگتے ہوئے شعلوں کا ادراک نہ کرسکنے کے باعث وہ نہ صرف خود نقصان اٹھاتی ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کےلیے بھی شدید اذیت کا باعث بن جاتی ہیں۔ بقول شاعر
نہ مرد میں رہی شرم نہ عورت میں رہی حیا
خواہش نفس نے انسان کو حیواں بنا دیا
احمر کے پروفیسر جیسے دردمند دانشور حضرات جو خواتین کے حقوق کےلیے بہت فکرمند رہتے ہیں لیکن اس سوال پر ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں کہ جو خواتین ان کی رعیت میں آتی ہیں، ان کے کتنے حقوق وہ ادا کر چکے ہیں اور بحیثیت ایک باپ، بیٹے، بھائی اور شوہر کے وہ اپنے کتنے فرائض سے عہدہ برأ ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف انہی مرد حضرات کی برادری کے کچھ افراد کا نظریہ ہے کہ برابری کا مطلب لڑکیوں اور لڑکوں کو شتر بےمہار چھوڑ دینا اور ہر طرح کی حدود و قیود سے آزاد کر دینا ہے، یعنی ذہنی غلامی کی انتہا یہ ہے کہ بیٹیوں کو آزادی کے نام پر معاشرے میں پھیلی بے راہ روی کا حصہ بنانا آسان لگتا ہے لیکن اپنی اولاد کی درست نہج پر تربیت کرنا انہیں معیوب نظر آتا ہے۔
مزید برأں حقوق نسواں کی بات اکثر وہ افراد کرتے ہیں جو آپس کی لڑاٸیوں میں ماں اور بہن جیسی محترم ہستیوں کےلیے جو الفاظ استعمال کرتے ہیں، ان پر قلم کشاٸی کی اجازت نہ حیا دیتی ہے اور نہ ہی ضمیر گوارا کرتا ہے۔ ان حضرات کےلیے صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
دوسری طرف وہ روشن خیال خواتین جنہیں لگتا ہے کہ ان کے حقوق صلب کیے جارہے ہیں اور جس کےلیے انہیں سڑکوں پر نکل کر نعرے لگانا اور جذباتی باتیں کرنا بہت سہل لگتا ہے لیکن اپنے بیٹوں کو صنف نازک کی عزت کرنا سکھانا ان کےلیے ایک امر محال بن جاتا ہے۔ جذبات انسانی شخصیت کا اہم حصہ ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کے سہارے زندگی نہیں گزرتی، جب تک ساتھ کوٸی عملی لائحہ عمل نہ ہو۔ کیا ان خواتین نے کبھی اپنے بیٹوں کی تربیت اس نہج پر کرنے کی کوشش کی کہ خود اٹھ کر اپنے کام کرنے سے یا اپنی محرم عورتوں کا خیال رکھنے سے ان کی شان پر کوٸی حرف نہیں آئے گا بلکہ یہ عمل ان کے وقار میں اضافے کا باعث بنے گا؟
زیادتی اور پامالی حقوق کا خیال انہیں تب بھی آنا چاہیے جب ڈراموں اور اشتہارات میں انہی کی صنف کو نیم عریاں انداز میں انہی غاصب مردوں کی تسکین کےلیے پیش کیا جارہا ہوتا ہے یا جب ان کی صنف کی کچھ بےبس اور مجبور بیٹیاں انہی کے بیٹوں کے ہاتھوں روند دی جاتی ہیں۔ ''ہمہیں ہمارے حقوق دو'' اور ''میرا جسم میری مرضی'' جیسے نعرے لگانے والیاں ان لاکھوں معصوم خواتین کی بھی مجرم ہیں جو باہر نکلتے ہوئے اس خوف کا شکار رہتی ہیں کہ اب انہیں مردوں کی طرف سے وہ عزت نہیں ملے گی جس کی وہ حقدار ہیں۔
اب چاہے وہ گھنٹوں لائن میں کھڑی رہیں یا تپتی گرمیوں میں بس پر سوار ہوں، کوئی بھائی انہیں اپنی جگہ کی پیشکش نہیں کرے گا نہ ان کےلیے راستہ خالی کروائے گا کیونکہ وہ اور مرد اب برابر ہیں۔ ان آزاد خیال عورتوں کے دل میں یہ احساس اجاگر ہونا چاہیے کہ یہ نعرہ نہ صرف ان کے وقار کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ان کو اس مرتبے سے بھی گرا رہا ہے جو چودہ صدیاں قبل ہمارے رب نے ہمیں دیا تھا اور جس کا عملی نفاذ پیارے نبیﷺ نے کرکے دکھایا تھا۔
مغربی تہذیب کے سحر میں گرفتار افراد کو اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ ملکہ وکٹوریہ کے عہد تک ان کی خواتین کی حالت کتنی قابل رحم ہوا کرتی تھی۔ اس دور کے قوانين اور ادب اٹھا کر پڑھیں تو ان کی ذہنی پسماندگی کا اچهی طرح اندازہ ہوتا ہے۔ وراثت میں حصہ نہ ہونا اور اگر کسی شخص کی صرف بیٹیاں ہوں تو اس کے بعد اس کے بھانجے یا بھتیجے کو اس کی جاٸیداد مل جانا اور ماں اور بیٹیوں کا زمانے کی ٹھوکریں کھاتے پھرنا، عورتوں کا گھر میں قیدیوں کی مانند زندگی گزارنا، اعلی تعلیم کے دروازے ان پر بند ہونا، اپنی شادی کے حوالے سے کوٸی رائے نہ دے پانا یا انہیں صرف سیکس سمبل اور بچے پالنے کی مشین سمجھنا۔ حد تو یہ تھی کہ کوٸی خاتون اگر بہت جدوجہد کے بعد قلمکار بن بھی جاتی تو اپنے نام سے نہیں لکھ سکتی تھی بلکہ اسے لازماً مردانہ نام اختیار کرکے اپنی شاخت چھپانی پڑتی؛ اور جو جرأت مند خواتین قلمکار اس رواج سے بغاوت کرتیں وہ آخرکار معاشرے کے طنز و تشنیع سے تنگ آکر خودکشی کرلیتیں۔
یہ اسلام آنے سے قبل کے نہیں صرف ایک صدی قبل کے مغربی خواتين کے حالات ہیں جنہیں ووٹ دینے کا حق بھی کٸی سال کی جدوجہد کے بعد 1918 میں انیسویں ترمیم کے بعد ملا اور اس میں بھی صرف تیس سال کی عمر سے اوپر کی خواتین کو ووٹ دینے کا اختیار تھا۔ شدت پسندی کی اگر یہ ایک انتہا تھی تو دوسری انتہا آج کل سب کے سامنے ہے، اور پستی کی انتہا یہ ہے کہ ان کے ماہرین اب اس بات پر بھی غور کرتے ہیں کہ کس طریقے سے اس آزاد منش قوم کو شادی اور خاندانی نظام کی اہمیت کا بتایا جاسکے۔ اس کے برعکس ہمارے دین نے چودہ صدیاں قبل ہمیں اس معاملے میں جو اعتدال و توازن سکھایا، اس سے ہم سب بہت اچھی طرح واقف ہیں۔
انتہا پسندی کا اگر یہ ایک رخ ہے تو دوسرا رخ وہ شدت پسند دینی طبقہ بھی ہے جسے ہر مسٸلے کا حل خواتين کو گھر بٹھا دینے یا انہیں پردہ کروادینے میں نظر آتا ہے۔ کیا ایسے افراد نے کبھی پیار و محبت سے اپنے گھر کی خواتین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ پردہ ان کےلیے کیوں ضروری ہے؟ اور یہ کہ باہر اکثریت انسان کے روپ میں بھیڑیوں کی ہوتی بے جو بے پردہ خواتین کے بارے میں جو سوچتے اور بولتے ہیں اس کا انہیں علم ہو جائے تو وہ خود اپنی حیا کی حفاظت کےلیے کوشاں ہوجاٸیں۔ کیا ان افراد نے اپنے گھر کی خواتین کو کبھی یہ اعتماد دینے کی سعی کی کہ وہ جو ہیں، جیسی ہیں، بہت اچھی ہیں؛ اور یہ کہ وہ ان کےلیے کتنی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان افراد کی بے جا سختی پھر کیا رنگ لے کر آتی ہے، یہ کوٸی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم نے بارہا ایسے گھریلو ماحول کی لڑکیوں کو اپنے والدین کی عزت کی دھجیاں اڑاتے دیکھا ہے جنہیں جب گھر میں وہ محبت اور توجہ نہیں ملتی جس کی وہ حقدار ہیں تو وہ باہر مصنوعی سہاروں کو تلاشتی ہیں اور پھر نہ صرف اپنی زندگی تباہ کرلیتی ہیں بلکہ اپنے والدین کو بھی زندہ درگور کردیتی ہیں۔
اس کے برعکس ہم نے ایسی باپردہ اور بااعتماد خواتین کو بھی دیکھا ہے جو صرف اپنے والدین کے دیئے گئے اعتماد اور محبت کے سہارے نہ صرف اعلی تعلیمی اداروں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتی ہیں بلکہ ایک بہت اچھی ماں، بیٹی اور بیوی ثابت ہوتی ہیں۔ سختی کبھی بھی کسی مشکل کا حل نہیں ہوتی بلکہ بذات خود کٸی مسٸلوں کو جنم دیتی ہے۔ ایسے افراد کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن حکیم میں الله رب العزت نے کچھ مقامات پر انبیاء تک کو تنبیہ کی لیکن جہاں بھی حضرت مریم اور حضرت آسیہ کا ذکر کیا بہت نرمی اور محبت سے کیا۔ احادیث نبویﷺ میں بھی اسی لیے کٸی جگہ عورتوں سے نرمی اختیار کرنے کا حکم آیا۔ یہاں تک کہ آخری وصیت میں بھی آپﷺ نے انہیں یاد رکھا۔
اس سب سے ہٹ کر اگر عام گھروں کے حالات دیکھے جاٸیں تو اچھے خاصے سلجھے ہوئے لوگوں کے گھروں میں بھی ایسے رواج عام نظر آتے ہیں جو نہ صرف تکلیف دہ ہیں بلکہ بے حسی کی بھی عکاسی کرتے ہیں اور اس سب کی جب وجہ جاننے کی کوشش کی جائے تو بہت معمولی سی نکلتی ہے یعنی ذہن سازی۔
یہی ذہن سازی ماؤں سے اپنی اولاد کے مابین چھوٹی چھوٹی باتوں پر فرق کرواتی ہے اور اس بات کا ادراک نہیں ہونے دیتی کہ ان کی آج کی یہ معمولی تفریق آگے جاکر ان کے بیٹوں سے دوسری عورت کے بڑے حقوق صلب کروائے گی۔ مثلاً چھوٹے بھاٸیوں کا بڑی بہنوں سے بدتمیزی کرنا یا ہاتھ اٹھانا یا مدد کروانا تو درکنار، انہیں کسی قابل نہ سمجھنا ان ماؤں کےلیے معمولی بات ہوتی ہے لیکن یہی رویہ ان کے بیٹوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ شادی کی پہلی رات ہی بیوی کو اس کے فرائض و نصاٸح کا پلندہ تو تھمادیں لیکن ان پر عمل پیرا ہونے کےلیے اس کے ساتھ کوٸی تعاون نہ کریں اور جہاں کوٸی بات ان کی مرضی کے خلاف ہو وہاں طلاق کی دھمکی دے کر بیوی کو ایک لمبے عرصے کےلیے ذہنی اذیت کا شکار کردیں تاکہ آٸندہ وہ کوٸی ایسی حرکت نہ کرے جو انہیں ناگوار گزرتی ہے۔
اپنے بیٹوں کی ایسی تربیت کرنے کے بعد اکثر وہ ماٸیں پھر بڑھاپے میں پچھتاتی ہیں جب ان کے راج دلارے بیٹے بڑے ہوجانے کے بعد انہی کو بوجھ سمجھتے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی ان کےلیے وقف کردی۔ اولڈ ہومز ایسی کتنی ہی ماؤں سے بھرے پڑے ہیں اور اب تو حال یہ ہے کہ ذرا سی بات پر ایسے ہی بیٹے اپنے والدین کی جان تک لینے کے درپے ہوجاتے ہیں یا لے لیتے ہیں۔ اخبارات میں ایسی خبریں پڑھ کر استغفار کرنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہو گیا لیکن اسباب پر غور کرنا ہماری ذمہ داری ہر گز نہیں ہوتی۔ اس رویّے کی بڑی وجہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو قرآن کریم کی تعلیمات سے ناواقف رکھنا بھی ہے جس میں والدین کی احسان سے کم درجے کی خدمت کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔
ان سب عوامل کے تدراک کےلیے آج کی عورت کے پاس علم و شعور کا ہونا بہت ضروری ہے۔ علم کی طلب ہر مسلمان مرد و عورت پر بے وجہ فرض قرار نہیں دی گٸی۔ یہ علم ہی ہے جو نہ صرف ذہنوں کو جِلا بخشتا ہے بلکہ ہر معاملے میں حکمت عملی بھی سجھاتا ہے۔ ایک پڑھی لکھی عورت ایک باشعور معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے اور آنے والی نسلوں کی بہترین تربیت کرسکتی ہے۔ ایک باشعور عورت گھر کو جوڑ کر رکھنا جانتی ہے اور خود اپنے آپ کو دوہری مشقت میں ڈالنے کے بجاٸے گھر کی ملکہ بن کر رہنا چاہتی ہے۔
اس حوالے سے مغربی ممالک میں خواتین پر کیے گئے سروے اکثر سامنے آتے ہیں جن میں وہ ایک محبت بھرے گھر کی خواہش کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں لیکن ایسا کوٸی مخلص فرد نہیں تلاش کرپاتیں جو ان کی اس خواہش کو پورا کرسکے۔ باشعور و باعمل اور جاہل ماؤں کے بچوں میں فرق بھی بہت واضح نظر آتا ہے جو ان کی آگے کی زندگی کی عکاسی کردیتا ہے۔
اسی لیے اسلام نے جیسے نماز اور روزے کو فرض قرار دیا ہے، ویسے ہی علم کی طلب کو بھی فرض کا درجہ دیا ہے۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے حلال و حرام کی طرح فرائض کے بھی درجات بنا رکھے ہیں کہ کونسا عمل ہمارے لیے زیادہ فرض ہے اور کونسا کم۔ دیگر برأں اس کی ایک وجہ مادیت پرستی اور مختلف برانڈز کی دوڑ میں بھاگنا بھی ہے جس میں پانچ ہزار کا جوتا بہت سستا اور پانچ سو کی کتاب بہت مہنگی نظر آتی ہے۔ بقول شاعر
ہم وہاں ہیں جہاں سے خود ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
آخر میں بس یہ التجا ہے کہ خدارا حقوق پر جنگ لڑنے کے بجائے اپنے اپنے فرائض ادا کرنے شروع کردیجیے، یہ شعلے خودبخود بجھ جاٸیں گے۔ اگر اس اذیت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو اپنے رشتوں کی قدر کرنا سیکھیے اور ان لوگوں کو دیکھیے جو ان خوبصورت رشتوں سے محروم ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن و حدیث پر غور و فکر، سیرت محمدی ﷺ اور صحابہ و صحابیات کی زندگی کے مطالعے کو نہ صرف اپنا بلکہ اپنے بچوں کے بھی معمول کا حصہ بنواٸیے... بس یہ یاد رکھتے ہوئے کہ
''الله اس قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔'' (سورۃ الرعد۔ آیت 11)
مردوں سے حقوق پر لاحاصل جنگ لڑنے کے بجائے اپنے جیسی کمزور عورت کا سہارا بن جاٸیے۔ جو تکلیف آپ کو ملی، اسے کسی اور کے ساتھ نہ ہونے دیجیے چاہے آپ ایک ساس ہوں، ماں ہوں، بیٹی یا بہو۔ ابتداء اپنے گھر سے کیجیے، اس یقین کے ساتھ کہ سوچ بدلے گی تو عمل بدلے گا؛ اور عمل بدلے گا تو پورا معاشرہ تبدیل ہوگا... اِن شاء اللہ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔