انتخابات کسی صورت تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے چیف جسٹس

الیکشن کمیشن خود بے بس ہوجائے تو الگ بات ہے، جسٹس ثاقب نثار


ویب ڈیسک June 04, 2018
عدالت نے موجودہ اور سابقہ انتخابی ضابطہ اخلاق کا مواد بھی طلب کرلیا۔ فوٹو:فائل

BERLIN,: انتخابی اصلاحات عمل درآمد کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ انتخابات کسی صورت تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے جب کہ اس حوالے سے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات عمل درآمد کیس کی سماعت کی، اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ انتخابات کسی صورت تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے، انتخابات قریب ہیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا،الیکشن کمیشن تاخیر کو بھول جائے تاہم الیکشن کمیشن خود بے بس ہو جائے تو الگ بات ہے۔

عدالت نے موجودہ اور سابقہ انتخابی ضابطہ اخلاق کا مواد طلب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کل شام تک مواد پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے کاغذات نامزدگی سے متعلق اپیلیں بھی بدھ کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔

'' کئی بار کہہ چکا کہ پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے ''


دوسری جانب سپریم کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی اور اس دوران عدالت نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کر دیا، عدالت نے پانی کی کمی اور ڈیمز کی تعمیر سے متعلق دیگر مقدمات بھی مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ پانی کی قلت ملک کے لیے سب سے بڑا ناسور ہے، کشن گنگا ڈیم سے دریائے نیلم خشک ہو جائے گا، کئی بار کہہ چکا ہوں کہ پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے، آنے والی نسل کو اگر پانی نہ دیا تو کچھ نہیں دیا۔

'' انتخابات سے قبل ڈیمز کی تعمیر کا وعدہ لازمی قرار دیا جائے ''


اس موقع پر درخواست گزار نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کے لیے انتخابات سے قبل ڈیمز کی تعمیر کا وعدہ لازمی قرار دیا جائے، انتخابات میں ووٹ کے ساتھ کالا باغ ڈیم پر ریفرنڈم کی پرچی بھی شامل کی جائے۔

'' پانی کے مسئلے پر جو بھی ہو سکا کروں گا ''


چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کو کنفیوز نہ کریں، پاکستان کی بقا پانی پرمنحصر ہے لہذا پانی کے مسئلے پر جو بھی ہو سکا کروں گا، 48 سال سے ملک میں کوئی ڈیم نہیں بنا، سپریم کورٹ کی اولین ترجیح پانی کے مسئلے کا حل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔