افغانستان سے دہشت گردوں کا پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملہ

پاکستان سے ملحقہ افغان علاقوں پر افغانستان کی حکومت اور اس کے سیکیورٹی اداروں کنٹرول موثر نہیں ہے۔


Editorial June 05, 2018
پاکستان سے ملحقہ افغان علاقوں پر افغانستان کی حکومت اور اس کے سیکیورٹی اداروں کنٹرول موثر نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

پاک افغان سرحد پر اتوار کو دہشت گردوں کے سرحد پار سے بلوچستان اور باجوڑ کی چیک پوسٹوں پر حملے سے ایف سی کے 4 اور پاک فضائیہ کا ایک جوان زخمی ہوگئے' جوابی کارروائی میں چھ دہشت گرد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں نے حملے افغان سرحد کی جانب سے باجوڑ اور بلوچستان کے علاقے قمر دین کاریز میں کیے جہاں باڑ لگانے والوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستانی چوکیوں پر افغانستان کی سرحد سے دہشت گردوں کے حملے کوئی نئی بات نہیں اس سے پیشتر بھی متعدد بار دہشت گردوں کے حملے ہو چکے ہیں جن میں پاکستانی سرحدی اہلکار شہید و زخمی بھی ہوئے' جوابی کارروائی میں دہشت گردوں کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑا۔

اس سلسلے میں پاکستان متعدد بار افغان حکومت سے احتجاج کر چکا کہ وہ دہشت گردوں کے سرحد پار حملے روکنے کے لیے سرحدی سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم بہتر بنائے۔ افغان حکومت نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی موثر انتظام نہیں کیا جس پر پاک افغان سرحد دہشت گردوں کے حملوں کے باعث غیر محفوظ ہو چکی ہے۔

افغان حکومت کے اس منفی رویے کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے افغان سرحد کے ساتھ ساتھ خاردار تاروں کی تنصیب اور چوکیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں۔ افغانستان میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو کابل حکومت بلا تحقیق اس کا الزام فوری طور پر پاکستان پر عائد کر دیتی ہے لیکن وہ سرحد پار پاکستان پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔

افغانستان میں اس وقت امریکی اور نیٹو افواج جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ موجود ہے اگر وہ خلوص نیت سے کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ سرحدی سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم بہتر ہونے سے دہشت گردوں کو سرحد پار حملے سے روکا نہ جا سکے۔ اس سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ دہشت گردوں کے ان حملوں کی وجہ افغان حکومت اور امریکی افواج کی کمزور پالیسی ہے جس کا مقصد سرحدوں پر انتشار پیدا کر کے پاکستان کے لیے سلامتی کے مسائل پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

پاکستان کو صرف افغان سرحد ہی نہیں بلکہ مشرقی سرحد پر بھی ایسی ہی سنگین صورت حال کا سامنا ہے جہاں بھارتی افواج آئے روز گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ شروع کر کے پاکستان کے لیے نت نئے مسائل پیدا کر دیتی ہے۔ سرحدوں کو پرامن رکھنے کے لیے چند روز پیشتر پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرلزملٹری آپریشنزکا ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا تھا جس میں دونوں فریقین نے موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے، یقینی امن کے قیام اور سرحد کے آر پار رہنے والی سول آبادی کو مشکلات سے بچانے کے لیے مخلصانہ اقدامات کرنے پر اتفاق کیا۔

دونوں ملکوںکے ڈی جیز ملٹری آپریشنز نے2003ء کے پاک بھارت جنگ بندی معاہدہ پراس کی روح کے مطابق مکمل عمل کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ دونوں طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ لیکن بھارتی افواج نے حسب عادت سرحدی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اتوار کو پھر سیالکوٹ کے سرحدی علاقوں پر فائرنگ اور گولہ باری کی جس سے ایک خاتون اور ایک بچی شہید جب کہ 26سے زائد شہری زخمی ہو گئے۔

پاکستان ایک عرصے سے اپنی مشرقی اور شمال مغربی سرحد کو پرامن رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے پڑوسی ممالک بدطینتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحدوں پر گڑ بڑ پیدا کرنے سے باز نہیں آتے۔

پاکستانی چیک پوسٹوں پر ہونے والا دہشت گردوں کا یہ حملہ بھی اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ پاکستان سے ملحقہ افغان علاقوں پر افغانستان کی حکومت اور اس کے سیکیورٹی اداروں کنٹرول موثر نہیں ہے ' یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں اور وہ وہاں سے پاکستان میں بھی کارروائیاں کرتے ہیں اور افغانستان کے اندر بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔

انھی خطرات کی وجہ سے پاکستان اپنی جانب سے پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہاں باڑ لگا رہا ہے 'ایسا کرنا پاکستان کی سلامتی اور امن کے لیے انتہائی ضروری ہے۔افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام ہر صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں