سیاست و بزنس کا امتزاج

حاکم علی زرداری نے اپنے بیٹے آصف علی زرداری کو بچپن ہی سے بزنس اور سیاست کی تربیت دیتے رہے

حاکم علی زرداری کی فیملی زمیندارگھرانے سے تعلق رکھتی ہے، وہ ملتان سے سندھ میں آکر آباد ہوئے اور خاص طور پر ان کے دادا بلاول جنھیں بالو فقیر بھی کہا جاتا تھا، وہ ایک فقیرانہ مزاج کے آدمی تھے لیکن ان کے پاس بہت ساری زرعی زمین تھی اور وہ نواب شاہ ضلع کے بڑے زمیندار تھے ۔ ان زمینوں کو آباد کرنے کے لیے پورا ایک بابو واہ (Canal) کا پانی خرچ ہوتا تھا ۔ اس زمانے میں چار آب پاشی کینال اس علاقے میں بہتے تھے جس میں بابو واہ کے علاوہ کلرا واہ، مبارک واہ اور پنتھی واہ امل ہیں ۔

اس وقت بھی بالو فقیر زرداری کا مزار نواب شاہ شہر سے 7 کلومیٹر دور ہے جہاں پر لوگ فاتحہ خوانی کے لیے اکثر جاتے رہتے ہیں، ان کی عمر 115 برس تھی۔ بالو کے خاندان میں سجاول خان، حاجی حسین، حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری نے جدوجہد کرکے مقام حاصل کیا۔

حاکم علی زرداری نے اپنا سیاسی کیریئر میجر ڈسٹرکٹ کونسل نواب شاہ سے 1965 سے کیا ۔ 1970 میں پی پی پی کے ٹکٹ پر اپنے علاقے سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ 1985 میں نان پارٹی الیکشن میں حصہ لیا مگر سعید علی اصغر کے ہاتھوں شکست کھائی جب کہ 1988 میں پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے بن گئے ۔ انھیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنادیا گیا۔ دوبارہ 1990 کے جنرل الیکشن میں وہ ایم این اے کی سیٹ آئی جے آئی کے امیدوار سید بشیر احمد شاہ کے ہاتھوں ہار گئے لیکن 1993 والے انتخابات میں وہ کامیاب ہوگئے۔ سیاسی کیریئر کے دوران 1976میں انھوں نے پی پی پی سے استعفیٰ دے دیا اور عوامی نیشنل پارٹی (ولی خان) میں شامل ہوگئے اور انھیں سندھ صوبے کا صدر بنا دیا گیا۔

شروع ہی سے سیاست میں کافی سنجیدہ تھے اور انھوں نے اس میں متحرک ہوکرکام کیا۔ جب وہ پی پی پی کے ساتھ تھے تو جنرل پرویز مشرف اور محمد نواز شریف نے انھیں جھوٹے مقدمے میں جیل بھجوا دیا مگر انھوں نے جیل کی سختیوں کو دلیری کے ساتھ برداشت کیا۔ انھیں خاکسار تحریک کے علامہ عنایت اللہ مشرفی سے بڑی انسیت تھی اور وہ تحریک کے ممبر بھی بنے۔ انھی دنوں میں وہ یونین کونسل جمال شاہ کے چیئرمین منتخب ہوگئے ۔ صدر محمد ایوب خان کی طرف Basic Democracy جب متعارف ہوا تو اس میں بھی حصہ لیا ۔ ضیا الحق کے زمانے میں مارشل لا سمری ملٹری کورٹ کی طرف سے ان پر 7 سال سیاست میں حصہ نہ لینے والی پابندی لگائی گئی۔ انھوں نے صدر ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان الیکشن میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔

حاکم علی زرداری شاید سندھ سے پہلے سندھی تھے، جس نے کراچی میں آکر بلڈرزکی دنیا میں اپنا کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ اس میں کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔ انھیں فلموں سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ اداکار چارلٹن ہسٹن اور اداکارہ صوفیہ لارین کو بڑا پسند کرتے تھے ۔ فلموں کے شوق کی وجہ سے انھوں نے ایک سندھی فلم سورٹھ بنائی جس نے باکس آفس پر بڑی کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے کراچی میں ایک ماڈرن انداز کا سینما بمبینو اور اس کے بعد اسکالا بنایا۔ وہ سینما مالکان کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین منتخب کیے گئے۔ انھوں نے فلم کے ڈسٹری بیوٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ خاص طور پر 1958 سے 1962 تک فلمی دنیا میں بڑے مگن رہے۔

زمیندار تو وہ تھے ہی جس کی وجہ سے مال مویشیوں سے بڑا پیار تھا اور خاص طور پر انھوں نے بڑی اچھی نسل کے اونٹ اور گھوڑے پال رکھے تھے جنھیں وہ میلوں میں اکثر ریس میں آزماتے رہتے۔ اس وقت بھی ان کے بیٹے آصف علی زرداری نے یہ شوق قائم کر رکھا ہوا ہے۔ حاکم علی زرداری کے دادا سجاول خان بھی انگریزوں کے زمانے میں سیاست کرتے رہے جس کی وجہ سے سیاست اس خاندان کو منتقل ہوتی رہی ہے ۔ ان کے چار بھائی تھے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔


حاکم علی نے دو شادیاں کی تھیں جس میں پہلی بیوی بلقیس بیگم ہیں جو حسن علی آفندی کی نواسی تھیں ۔ دوسری شادی انھوں نے مشہور براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری کی بیٹی زرین بیگم سے رچائی ۔ بڑی بیوی بلقیس بیگم کی اولاد میں آصف علی زرداری اور تین بیٹیاں فوزیہ زرداری، فریال ٹالپر اور عذرا پیچو ہوہیں۔ وہ 1927 اور کہیں 1930 لکھا ہوا ہے اپنے گاؤں فتول زرداری میں محمد حسین خان کے گھر میں پیدا ہوئے تھے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں اور مالو سانڈ سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ مدرسہ ہائی اسکول نوشہرو فیروز (نوشہرو فیروز) اور لوکل بورڈ ہائی اسکول نواب شاہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد چلے گئے اور باقی تعلیم وہاں سے حاصل کی۔

انھوں نے کراچی میں دو گھر بنائے تھے اور اس کے علاوہ جو بھی ان کی پراپرٹی تھی وہ انھوں نے یہ دنیا چھوڑنے سے پہلے ہی اپنے بچوں میں تقسیم کردی تھی۔ انھیں اچھے کپڑے پہننے کا بڑا شوق تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرے جس کے لیے انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ وہ بڑے متحرک اور عقلمند سیاستدان اور بزنس مین تھے ۔

حاکم علی زرداری نے اپنے بیٹے آصف علی زرداری کو بچپن ہی سے بزنس اور سیاست کی تربیت دیتے رہے اور جب وہ بیمار رہنے لگے تو انھوں نے آصف علی زرداری کو سیاست میں عملی طور پر لے آئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آصف علی زرداری صدر پاکستان بن گئے اور کئی تاریخی کام سرانجام دیے۔

یکم مارچ 2012 کو حاکم علی زرداری کی جب طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو انھیں انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس پاکستان میں داخل کردیا گیا۔ تقریباً دو مہینے اور کچھ دنوں کے بعد 24 مئی 2012 کو یہ دنیا چھوڑ گئے۔ ان کے جسم خاکی کو پہلے پریزیڈنٹ ہاؤس لایا گیا جہاں سے اسپیشل جہاز کے ذریعے زرداری ہاؤس نواب شاہ پہنچایا گیا اور اس جگہ کو Red Zone قرار دیا گیا کیونکہ سیکیورٹی Concern کا خطرہ موجود تھا۔

اس موقعے پر پورے ضلع بے نظیر آباد میں چھٹی کا اعلان کردیا گیا جب کہ قریبی اور نواہی شہر بند کر دیے گئے اور پورے ملک سے پارٹی کے لوگ اور دوسرے افراد پہنچنے لگے ۔ ان کی تدفین کے وقت کو بعد میں اناؤنس کیا گیا۔

بہرحال حاکم علی نے پوری زندگی کی جدوجہد میں اپنی محنت کا محور سیاست، بزنس اور سوشل کاموں کو بنایا۔ انھوں نے زرداری قوم کو متحد کرنے کے لیے آل سندھ زرداری ایسوسی ایشن بھی بنائی جس کے وہ سردار منتخب کیے گئے۔
Load Next Story