3 خوا 3
ہم اسپورٹسمین محترمہ کے معتقد ہو گئے ہیں کہ کھلاڑی اور ملکوں ملکوں پھرنے کے باوجود اس کے اندر عورت زندہ ہے۔
اگر آپ کی اجازت ہو تو آج ہم کو کچھ خواتین بلکہ (3خوا3 ) کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں، ویسے اجازت نہ بھی ہو تو چلے گا کیونکہ ہم '' تہہ طوفان '' کیے ہوئے ہیں اور بزرگوں نے کہا کہ بہادر جب ایک طرف رخ کر لیتے ہیں تو پھر نہیں پلٹتے، چاہے آگے کنواں آئے یا کھائی۔
اس سلسلے میں سنا ہے کہ سب سے بڑا بہادری کا وکٹوریہ کراس Xاس جانور کو جاتا ہے جس کے سینگ بھی نہیں ہوتے اور خود بھی کم از کم لاہور میں تو بالکل نہیں ہوتا کہ وہاں خطرہ چھری سو چاقو والف کا ہوتا ہے ۔ان تینوں خواتین یعنی (3خوا3 ) کا تعلق ان واقعات سے ہے جو آج کل دونوں پڑوسی ملکوں میں بڑی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ وہی جنسی ہراسگی یا ہراسانی جس کا دانشورانہ اور میڈیائی نام '' ہراسمنٹ ''ہے۔سب سے پہلا بیان تو پڑوسی ملک کی ایک عفیفہ مشہورہ اور معصوم محترمہ ملکہ شراوت کا ہے ۔
اس نے اتنے ہی جارحانہ انداز میں جنسی ہراسمنٹ پر بیان دیا ہے جتنے جارحانہ انداز میں وہ کپڑوں سے سلوک کرتی ہے۔ کہا ہے کہ گاندھی کے دیس میں ان حالات پر مجھے شرم آرہی ہے، آنا بھی چاہیے لیکن اس میں ہمیں تھوڑی سی غلط بیانی بھی نظر آرہی ہے ۔ شرم تو اسے تب آئے گی جب اس سے کبھی گئی بھی ہو۔ اس کے پاس تو اتنی شرم ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ کچھ اور شرم کے لیے گنجائش ہی باقی نہیں رہتی لیکن ٹھیک ہے، وہ کہتی ہے تو ٹھیک ہی کہتی ہوگی کیونکہ وہ ہمیشہ ٹھیک ہی کہتی ہے، ٹھیک کرتی بھی ہے اور ٹھیک پہنتی بھی ہے ۔
اور ایسا بیان صرف اسی کے منہ سے زیب دیتا ہے کیونکہ وہاں عورت کو جو '' مان سمان '' حاصل ہے جس کا ایک نمونہ وہ خود بھی ہے، اس کے پیش نظر واقعی گاندھی کے دیس میں ایسا ویسا نہیں ہونا چاہیے۔اور پھر خود اس نے جو اپنے کیریئر میں عصمت و عفت بلکہ شرم و حیاکے لیے جو کام کیا ہے ایسے میں تو بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے، وہ کتنی محنت سے لوگوں کو تفریح فراہم کیے جا رہی ہے اور یہ مرد ویئے پھر بھی بے قابو ہو کر جنسی ہراسگی پھیلا رہے ہیں ۔
ویسے ایک بات ہے کہ بد سے بدنام برا ہو جاتا ہے ورنہ اس ملک میں جو '' کام '' زینت امان اور ممتاز وغیرہ نے شروع کیا تھا، اب وہ اتنے زوروں پر چل رہا ہے کہ صرف آنکھوں کی سوئیاں جو چارگرہ کپڑے پر مشتمل ہیں وہ بھی نکلا چاہتی ہیں، اس پر بھی اگریہ مر دوئیے جنسی ہراسمنٹ سے باز نہیں آرہے ہیں توتف ہے ان پر اور ان کے '' باپوں '' پر دادوں پر بلکہ اب تو بات اس مقام پر پہنچی ہے کہ اس کے آگے اور کوئی مقام ہے ہی نہیں ۔
ایک پرانی بات یاد آگئی، وی سی آر اورکیسٹ بازار میں تازہ تازہ وراد ہوئے تھے۔ ایک شخص ہمارے گاؤں عرب سے وی سی آر اور ایک مصری کیسٹ لے آیا تھا جو ایک مصری ڈانسر کے '' فن '' سے بھری ہوئی تھی ۔ اس مصری رقاصہ نے کمر سے دو چار انچ کا ایک کپڑا باندھا ہوا تھا جو سارے جسم پر واحد بیرونی شے تھی۔بہت سارے لوگوں نے وہ کیسٹ دیکھی تھی اور دیکھے جا رہے تھے۔ ایک دن ایک شخص جس نے خود بھی وہ کیسٹ دیکھی تھی ، اپنے چھوٹے بھائی کو بلا نے آ گیا ۔ جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ رقص دیکھ رہا تھا۔ اپنے بھائی کو بلانے کے بعد بیٹھک کے دروازے میں جھانکتا ہوا ، ان نوجوانوں سے بولا،اگر تم اس انتظار میں ہو کہ اس عورت کا یہ کپڑا گر جائے گا تو ہر گز گرنے والا نہیں، اس لیے اپنا وقت ضایع مت کرو۔
لیکن پڑوسی ملک والوں کا وقت ضایع نہیں ہوگا بہت جلد وہ چار گرہ کا کپڑا بھی گرنے ہی والا ہے جو اس بیان دینے والی عفیفہ کا کل اثاثہ جسم ہے۔باقی دو خواتین کا تعلق پاکستان سے ہے ، ان میں ایک تو اسپورٹسمین ہے جو ہمیں کبھی کرکٹ کی وجہ سے پسند نہیں تھی لیکن اب اس بیان کے بعد اتنی پسند آئی ہیں کہ اس بیان پر ہم اسے حج کا ثواب بھی نذر کریں تو کم ہوگا ۔ اس نے ایک اور خاتون جو خیر سے معروف اداکارہ اور ماڈل ہے کو نشانے پر لیا ہوا ہے جو آج کل جنسی ہراسمنٹ کی روک تھام میں بے حد مصروف ہے۔ اسپورٹسمین خاتون نے اپنے فیس بک پر جو کہا ہے وہ ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں لیکن فیشن انڈسٹری، میڈیا انڈسٹری ، اشتہاری انڈسٹری کے نقاروں میں طوطی کی آواز طوطی بھی نہیں سنتی۔
اس محترمہ نے تفصیل سے مرض کی اصل '' جڑ '' کو پکڑتے ہوئے لکھا ہے کہ کیسے کیسے اشتہاری کمپنیوں کے کنٹرول میں یہ لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ انھوں نے جو پتے اور نکتے کی بات بتائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ خواتین کو ہمیشہ ایک ''چیز '' یعنی پروڈکٹ کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ اچھا ہوا کہ یہ محترمہ جو ہمیں پہلے بالکل پسند نہیں تھیں اور اب اتنی پسند ہیں کہ ان کی بلائیں لے رہے ہیںکہ
ایں کار راز تو آئدو مرداں چنیس کنند
ہم ایک عرصے سے یہی کہے جا رہے ہیں کہ عورت بھی میڈیا کی طرح جتنی غلام آج ہے اس سے زیادہ پہلے کبھی نہیں تھی کہ ان دونوں کو آزادی کے وہم میں مبتلا کرکے کٹھ پتلی سے بھی زیادہ بے بس کر دیا گیا ہے۔
آخر ذرا عقل کے ناخن لیجیے انصاف کو ہاتھ لگائیے اور خدا لگتی کہئے کہ جب قدم قدم پر جنسی ترغیب و تحریص کے میلے لگے ہوں، وہاں بیچارہ مرد کیا کرے گا ۔ عجیب منطق ہے باقاعدہ اور نہایت زور سے جنسی دعوت دے کر جنسی ہراسمنٹ کا شور بھی مچایا جا رہا ہے ۔
درمیاں قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
بارش برسائی جارہی ہے اور خبردار ہوشیار اگر بھیگے تو کی آواز یں بھی دی جا رہی ہیں ۔
ہم اسپورٹسمین محترمہ کے معتقد ہو گئے ہیں کہ کھلاڑی اور ملکوں ملکوں پھرنے کے باوجود اس کے اندر عورت زندہ ہے اور عورت کو ''چیز '' یعنی پروڈکٹ سمجھنے کے خلاف ہے اور یہی اصل آزادی نسواں ہے کہ عورت بھی رہے اور انسان بھی رہے اور خود کو چیزیا پروڈکٹ نہ بننے دے۔
اس سلسلے میں سنا ہے کہ سب سے بڑا بہادری کا وکٹوریہ کراس Xاس جانور کو جاتا ہے جس کے سینگ بھی نہیں ہوتے اور خود بھی کم از کم لاہور میں تو بالکل نہیں ہوتا کہ وہاں خطرہ چھری سو چاقو والف کا ہوتا ہے ۔ان تینوں خواتین یعنی (3خوا3 ) کا تعلق ان واقعات سے ہے جو آج کل دونوں پڑوسی ملکوں میں بڑی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ وہی جنسی ہراسگی یا ہراسانی جس کا دانشورانہ اور میڈیائی نام '' ہراسمنٹ ''ہے۔سب سے پہلا بیان تو پڑوسی ملک کی ایک عفیفہ مشہورہ اور معصوم محترمہ ملکہ شراوت کا ہے ۔
اس نے اتنے ہی جارحانہ انداز میں جنسی ہراسمنٹ پر بیان دیا ہے جتنے جارحانہ انداز میں وہ کپڑوں سے سلوک کرتی ہے۔ کہا ہے کہ گاندھی کے دیس میں ان حالات پر مجھے شرم آرہی ہے، آنا بھی چاہیے لیکن اس میں ہمیں تھوڑی سی غلط بیانی بھی نظر آرہی ہے ۔ شرم تو اسے تب آئے گی جب اس سے کبھی گئی بھی ہو۔ اس کے پاس تو اتنی شرم ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ کچھ اور شرم کے لیے گنجائش ہی باقی نہیں رہتی لیکن ٹھیک ہے، وہ کہتی ہے تو ٹھیک ہی کہتی ہوگی کیونکہ وہ ہمیشہ ٹھیک ہی کہتی ہے، ٹھیک کرتی بھی ہے اور ٹھیک پہنتی بھی ہے ۔
اور ایسا بیان صرف اسی کے منہ سے زیب دیتا ہے کیونکہ وہاں عورت کو جو '' مان سمان '' حاصل ہے جس کا ایک نمونہ وہ خود بھی ہے، اس کے پیش نظر واقعی گاندھی کے دیس میں ایسا ویسا نہیں ہونا چاہیے۔اور پھر خود اس نے جو اپنے کیریئر میں عصمت و عفت بلکہ شرم و حیاکے لیے جو کام کیا ہے ایسے میں تو بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے، وہ کتنی محنت سے لوگوں کو تفریح فراہم کیے جا رہی ہے اور یہ مرد ویئے پھر بھی بے قابو ہو کر جنسی ہراسگی پھیلا رہے ہیں ۔
ویسے ایک بات ہے کہ بد سے بدنام برا ہو جاتا ہے ورنہ اس ملک میں جو '' کام '' زینت امان اور ممتاز وغیرہ نے شروع کیا تھا، اب وہ اتنے زوروں پر چل رہا ہے کہ صرف آنکھوں کی سوئیاں جو چارگرہ کپڑے پر مشتمل ہیں وہ بھی نکلا چاہتی ہیں، اس پر بھی اگریہ مر دوئیے جنسی ہراسمنٹ سے باز نہیں آرہے ہیں توتف ہے ان پر اور ان کے '' باپوں '' پر دادوں پر بلکہ اب تو بات اس مقام پر پہنچی ہے کہ اس کے آگے اور کوئی مقام ہے ہی نہیں ۔
ایک پرانی بات یاد آگئی، وی سی آر اورکیسٹ بازار میں تازہ تازہ وراد ہوئے تھے۔ ایک شخص ہمارے گاؤں عرب سے وی سی آر اور ایک مصری کیسٹ لے آیا تھا جو ایک مصری ڈانسر کے '' فن '' سے بھری ہوئی تھی ۔ اس مصری رقاصہ نے کمر سے دو چار انچ کا ایک کپڑا باندھا ہوا تھا جو سارے جسم پر واحد بیرونی شے تھی۔بہت سارے لوگوں نے وہ کیسٹ دیکھی تھی اور دیکھے جا رہے تھے۔ ایک دن ایک شخص جس نے خود بھی وہ کیسٹ دیکھی تھی ، اپنے چھوٹے بھائی کو بلا نے آ گیا ۔ جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ رقص دیکھ رہا تھا۔ اپنے بھائی کو بلانے کے بعد بیٹھک کے دروازے میں جھانکتا ہوا ، ان نوجوانوں سے بولا،اگر تم اس انتظار میں ہو کہ اس عورت کا یہ کپڑا گر جائے گا تو ہر گز گرنے والا نہیں، اس لیے اپنا وقت ضایع مت کرو۔
لیکن پڑوسی ملک والوں کا وقت ضایع نہیں ہوگا بہت جلد وہ چار گرہ کا کپڑا بھی گرنے ہی والا ہے جو اس بیان دینے والی عفیفہ کا کل اثاثہ جسم ہے۔باقی دو خواتین کا تعلق پاکستان سے ہے ، ان میں ایک تو اسپورٹسمین ہے جو ہمیں کبھی کرکٹ کی وجہ سے پسند نہیں تھی لیکن اب اس بیان کے بعد اتنی پسند آئی ہیں کہ اس بیان پر ہم اسے حج کا ثواب بھی نذر کریں تو کم ہوگا ۔ اس نے ایک اور خاتون جو خیر سے معروف اداکارہ اور ماڈل ہے کو نشانے پر لیا ہوا ہے جو آج کل جنسی ہراسمنٹ کی روک تھام میں بے حد مصروف ہے۔ اسپورٹسمین خاتون نے اپنے فیس بک پر جو کہا ہے وہ ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں لیکن فیشن انڈسٹری، میڈیا انڈسٹری ، اشتہاری انڈسٹری کے نقاروں میں طوطی کی آواز طوطی بھی نہیں سنتی۔
اس محترمہ نے تفصیل سے مرض کی اصل '' جڑ '' کو پکڑتے ہوئے لکھا ہے کہ کیسے کیسے اشتہاری کمپنیوں کے کنٹرول میں یہ لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ انھوں نے جو پتے اور نکتے کی بات بتائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ خواتین کو ہمیشہ ایک ''چیز '' یعنی پروڈکٹ کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ اچھا ہوا کہ یہ محترمہ جو ہمیں پہلے بالکل پسند نہیں تھیں اور اب اتنی پسند ہیں کہ ان کی بلائیں لے رہے ہیںکہ
ایں کار راز تو آئدو مرداں چنیس کنند
ہم ایک عرصے سے یہی کہے جا رہے ہیں کہ عورت بھی میڈیا کی طرح جتنی غلام آج ہے اس سے زیادہ پہلے کبھی نہیں تھی کہ ان دونوں کو آزادی کے وہم میں مبتلا کرکے کٹھ پتلی سے بھی زیادہ بے بس کر دیا گیا ہے۔
آخر ذرا عقل کے ناخن لیجیے انصاف کو ہاتھ لگائیے اور خدا لگتی کہئے کہ جب قدم قدم پر جنسی ترغیب و تحریص کے میلے لگے ہوں، وہاں بیچارہ مرد کیا کرے گا ۔ عجیب منطق ہے باقاعدہ اور نہایت زور سے جنسی دعوت دے کر جنسی ہراسمنٹ کا شور بھی مچایا جا رہا ہے ۔
درمیاں قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
بارش برسائی جارہی ہے اور خبردار ہوشیار اگر بھیگے تو کی آواز یں بھی دی جا رہی ہیں ۔
ہم اسپورٹسمین محترمہ کے معتقد ہو گئے ہیں کہ کھلاڑی اور ملکوں ملکوں پھرنے کے باوجود اس کے اندر عورت زندہ ہے اور عورت کو ''چیز '' یعنی پروڈکٹ سمجھنے کے خلاف ہے اور یہی اصل آزادی نسواں ہے کہ عورت بھی رہے اور انسان بھی رہے اور خود کو چیزیا پروڈکٹ نہ بننے دے۔