سیاسی مدبرین کی ذہنیت

امریکی عوام کی پسند پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا انھیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا مجموعہ اضداد شخص کے علاوہ کوئی مدبر شخص نہیں ملا؟

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ZURICH:
پہلی جنگ عظیم سے لے کر افغانستان کی جنگ تک دنیا کی قیادت ایسے جنگجو اور نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں رہی، جن کو دنیا کے اجتماعی مفادات اور 7 ارب انسانوں کی اجتماعی بھلائی پر اپنی انا اور عصبیت کو اولیت حاصل رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم یا عالمی جنگ میں ہٹلر نے جو حماقتیں کیں اسی قسم کی حماقتیں عراق کی جنگ میں بش جونیئر نے کیں۔

دور حاضرکی بدقسمتی یہ ہے کہ امریکا کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا جذباتی صدر ملا ہے اور شمالی کوریا کو ٹرمپ کا چھوٹا بھائی ملا ہے۔ کہاں امریکا پر دن رات ایٹمی میزائل داغنے کی باتیں اورکہاں نہ صرف ایٹمی تجربات سے دستبرداری بلکہ ایٹمی تجربات کی سائٹس کو ختم کردینا۔ یہ متضاد سیاست جہاں ناپختہ ذہنیت کی عکاس ہے بلکہ فرعونیت کا مظہر بھی ہے جہاں تک ٹرمپ کا سوال ہے ، امریکی جمہوریت کا ٹرمپ ایسا شاہکار ہے جس کی ماضی میں مثال ملنا مشکل ہے۔

ٹرمپ کی شخصیت کے تضادات اور جنگ پسندی محض اقتدار کا نشہ نہیں ہے بلکہ اقتدار میں آنے سے پہلے یہ تمام ''خوبیاں'' ٹرمپ کی شخصیت کا حصہ رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے متلون مزاج رہنما کو امریکی عوام نے اپنا قائد کیوں منتخب کیا؟ اس سوال کا جواب ٹرمپ کی شخصیت میں تلاش کرنا بے سود ہے اس کا جواب سرمایہ دارانہ جمہوریت ہی دے سکتی ہے جو عوام کی برتری کی دعویدار اور رائے عامہ کی اہمیت کی حامی ہے۔

شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان مسلسل کشیدگی اور جنگی صورتحال کے بعد شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ نے یکطرفہ طور پر نہ صرف جنوبی کوریا کے صدر سے غیر مشروط امن مذاکرات کا اعلان کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا بلکہ ایٹمی تجربات کے ختم کرنے کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ ایٹمی تجربات کی تمام سائٹس کو تباہ کرنے بلکہ اس حیرت انگیز کارروائی کا مشاہدہ کرنے کی دعوت امریکا اور اس کے اتحادیوں کے میڈیا پرسنز کو دے کر اپنی مخلصانہ کاوشوں کا بہ چشم خود مشاہدہ کرنے کی دعوت دے کر اپنے خلوص کا اظہارکیا۔

اس نئی صورتحال سے جس کا کریڈٹ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ کو جاتا ہے۔ دنیا نے سکھ اور شانتی کا سانس لیا تھا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ امن کے حوالے سے ہونے والی کم جونگ سے ملاقات منسوخ کردی اور صدر ٹرمپ نے اس کی وجہ شمالی کوریا کا غصہ اور دشمنیت بتائی۔

امریکی صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان کو خط لکھا ہے کہ وہ اگلے ماہ سنگا پور میں ہونے والی جوہری سربراہی کانفرنس کو منسوخ کر رہے ہیں، ٹرمپ نے اس ممکنہ تاریخی کانفرنس کی مضبوطی کی وجہ شمالی کوریا کا غصہ اور دشمنیت بتایا۔ اس سے قبل شمالی کوریا نے امریکی نائب صدر مائیک پینس کو جاہل اور بے وقوف کہا تھا۔ جس کے جواب میں ٹرمپ کا یہ خط سامنے آیا جس میں موصوف نے سنگاپور کی اہم ترین کانفرنس کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔


وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ڈونالڈ ٹرمپ کے شمالی کوریا کے صدر کم جونگ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کے حالیہ بیانوں میں جھلکنے والے غصے اور دشمنیت کی وجہ مجھے یہ غیر مناسب لگتا ہے کہ ایسے موقعے پر ہم طویل عرصے سے منصوبہ بندی کی جانے والی ملاقات کا انعقاد کریں ۔ ٹرمپ نے امریکی جوہری ہتھیاروں کی تشہیر کرتے ہوئے کہا کہ آپ جوہری صلاحیتوں کی بات کرتے ہیں لیکن آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ ہماری جوہری صلاحیت اتنی زیادہ ہے کہ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس کا کبھی استعمال نہ کرنا پڑے۔

مستقبل کے مذاکرات کے حوالے سے خط میں کہا گیا ہے کہ ہم مستقبل کے حوالے سے آپ کے صبر، مذاکرات کے لیے آپ کی جانب سے کی گئی کوششوں کی قدر کرتے ہیں۔ خط میں ٹرمپ کی جانب سے کم جونگ کو کہا گیا ہے کہ آپ کے اور میرے درمیان ایک بہترین رابطہ ہو رہا تھا اگر آپ اس انتہائی اہم کانفرنس کے لیے اپنا موقف تبدیل کرتے ہیں تو آپ بلا جھجک مجھے ٹیلی فون کرسکتے ہیں یا خط لکھ سکتے ہیں۔

ٹرمپ کا ارشاد ہے کہ دنیا خصوصی طور پر شمالی کوریا نے دیرپا امن اور عظیم خوشحالی کا موقع گنوا دیا۔ یہ موقع گنوانا تاریخ کا افسوسناک عمل ہے۔ ٹرمپ کے اعلان سے کچھ ہی دیر قبل شمالی کوریا نے اپنی ایٹمی تجربہ گاہ منہدم کردی تھی۔ شمالی کوریا نے کہا ہے کہ ہماری جوہری ٹیسٹ سائٹس کو تباہ کرنے کا مقصد علاقائی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔

واشنگٹن میں موجود چینی وزیر خارجہ نے فرمایا ہے کہ امریکا کے پاس شمالی کوریا کے ساتھ امن معاہدہ کرنے اور ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا یہ ایک بہترین وقت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے درمیان طے شدہ اور منسوخ شدہ ملاقات اب بھی ہوسکتی ہے شمالی کوریا کے اعلیٰ عہدیدار پھوئے چن ہی نے کہا ہے کہ امریکا سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگیں گے امریکا مذاکرات کرنا چاہتا ہے یا ایٹمی جنگ چاہتا ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے سنگاپور مذاکرات کی منسوخی کے اسباب اور شمالی کوریا کے خیالات اگر اخبارات میں درست رپورٹ ہوئے ہیں تو بلا تکلف یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کی واحد سپر پاور کے صدر اور شمالی کوریا جیسے اہم ملک کے صدر کے خیالات نہیں بلکہ کسی تھرڈ کلاس ملکوں کے سربراہوں کے درمیان تاریخی تبادلہ خیال کا نمونہ ہے۔ اسے دنیا کے 7 ارب انسانوں کی بدقسمتی کہیں یا دنیا کے ''عظیم ملک'' امریکا کی ''شاندار سفارتکاری'' کا نمونہ کہیں کہ اس قسم کی قیادتیں دنیا کی سربراہی کر رہی ہیں۔

امریکا اپنے آپ کو دنیا کی واحد سپر پاور کہتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دینے والے امریکی صدر ٹرومن سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک امریکا کو جو قیادت نصیب ہوئی ہے وہ نہ صرف جنگجو ذہنیت کی حامل ہے بلکہ سفارت کاری کے حوالے سے اس قدر گھٹیا ذہنیت کی عکاس ہے کہ امریکی عوام کی پسند پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا انھیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا لٹھ مار اور مجموعہ اضداد شخص کے علاوہ کوئی مدبر شخص نہیں ملا؟ دوبارہ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے دیکھیے یہ سلسلہ کہاں تک چلتا ہے۔
Load Next Story