بینظیر قتل کیسپرویز مشرف کی باقاعدہ گرفتاری سے پنڈورا باکس کھلنے کا امکان

ایف آئی اے کو تفتیش کرنے کٰلیے ’’فری ہینڈ‘‘ دیا گیا ہے جو اگر ہو گئی تو سازش میں ملوث ’’خفیہ ہاتھ‘‘ بے نقاب ہو سکتا ہے

ایف آئی اے کو تفتیش کرنے کٰلیے ’’فری ہینڈ‘‘ دیا گیا ہے جو اگر ہو گئی تو سازش میں ملوث ’’خفیہ ہاتھ‘‘ بے نقاب ہو سکتا ہے۔ فوٹو فائل

بینظیر بھٹو قتل کیس میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کی باقاعدہ گرفتاری کے بعد پنڈورا باکس کھلنے کا امکان ہے۔

ایف آئی اے کو سابق صدر سے تفتیش کرنے کے لیے ''فری ہینڈ'' دیا گیا ہے جو اگر ہو گئی تو بینظیر کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث ''خفیہ ہاتھ'' بے نقاب ہو سکتا ہے۔ ایف آئی اے، جسے ماضی میں ایوان صدارت، وزارت داخلہ اور بینظیر کے قتل سے پہلے اور بعد میں ہونے والے اجلاسوں کے ریکارڈ تک رسائی نہیں دی گئی، اسے پہلی مرتبہ ان تفصیلات میں جانے اور لوگوں تک رسائی کا موقع ملے گا جنھیں پولیس اور حتیٰ کہ سکاٹ لینڈ یارڈ تک کو بھی پوچھ گچھ کی اجازت نہیں دی گئی۔

نمائندہ ایکسپریس نے اس ضمن میں سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک سے استفسار کیا کہ مشرف کو کس بنیاد پر بینظیر قتل کیس میں ملوث کیا جا سکتا ہے تو انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کے ساتھ تفتیش کرنے کے لیے مطلوبہ شواہد دستیاب ہیں۔ انھوں نے بینظیر کے قتل کے بعد مشرف کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والی چند ملاقوں کی طرف بھی اشارہ دیا۔ مزید براں ماضی میں تفتیشی ٹیموں کو اہم ایجنسی کے اعلیٰ سطح کے اہلکاروں سے سوال و جواب کی اجازت نہیں دی۔ اب کیا ایف آئی اے کو خفیہ ریکارڈ تک رسائی ہو گی، یہ باعث دلچسپی ہو گا۔

ایف آئی اے کو بینظیر قتل کیس میں پہلی مرتبہ تفتیش 2010ء میں دی گئی اس کیس میں قریباً ایک درجن رہنمائوں کیلیے پرفارما تیار کیا گیا جو بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر گواہ تھے یا ان سے پوچھ گچھ کی ضرورت تھی۔ اس اقدام کا مقصد انھیں شرمندگی سے بچانا تھا جن میں اس وقت کے وزیر داخلہ کا نام بھی شامل تھا۔ پیپلزپارٹی دور حکومت میں جن لوگوں نے ایف آئی اے کی طرف سے بھیجے گئے پرفارما کا جواب نہیں دیا ان میں پرویز مشرف، پرویز الٰہی اور رحمٰن ملک شامل تھے جبکہ جنھوں نے جواب دیا ان میں اس وقت کے آئی بی سربراہ اعجاز شاہ، مخدوم امین فہیم، ناہید خان اور صفدر عباسی شامل تھے۔


ایف آئی اے ٹیم بیان ریکارڈ کرنے کے لیے دبئی جانے کو بھی تیار تھی مگر سابق جنرل نے انکار کر دیا تاہم انھوں نے میڈیا انٹرویوز کے دوران اس سے مکمل انکار کیا۔ مشرف کا کہنا تھا کہ انھوں نے سابق وزیراعظم کو خبردار کیا تھا حتیٰ کہ 26 دسمبر 2007ء کو اس وقت کے انٹیلی جنس چیف نے مخصوص رپورٹس کی بناء پر انھیں لیاقت باغ، راولپنڈی جانے سے منع کیا تھا۔ مشرف نے بعدازاں اپنے ایک انٹرویو میں پہلی مرتبہ انکشاف کیا کہ مجھے مورد الزام ٹھہرانے والے بینظیر کے سیکیورٹی چیف خالد شہنشاہ (قتل سے پہلے وڈیو میں جس کے پوز سے مختلف سوال اٹھتے ہیں) اور بینظیر کے قتل کے بعد رحمن ڈکیت بابت بھی استفسار کریں۔

کیا وہ اس حوالے سے ایف آئی اے کو مزید تفصیلات فراہم کریں گے یا نہیں؟ ایف آئی اے تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے معاملے کا بھی جائزہ لے گی جس نے اپنے ایک بیان میں قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا بعدازاں وہ بھی ایک حملے میں مارا گیا تھا۔ کیس میں مفرور دیگر 4 اشتہاری بھی ''پراسرار مقابلوں'' میں مبینہ طور پر مارے گئے تھے جن کے خلاف ٹرائل جاری ہے ان میں سے ایک نے مبینہ طور پر قتل کیا یا ملوث لوگوں کی مدد کی تاہم ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ سازش کہاں تیار کی گئی؟ مشرف کی گرفتاری تفتیش کا تازہ آغاز ہو سکتا ہے۔

جس سے وہ باب دوبارہ کھل سکتا ہے کہ قتل کے چند گھنٹوں بعد کس نے جائے واردات کو دھونے کا حکم دیا تھا۔ بینظیر بھٹو قتل کیس میں مشرف کا ٹرائل متعدد خفیہ اور قدرے کم خفیہ ہاتھوں کا ٹرائل بھی ہو سکتا ہے۔ تفتیش کا کُھرا سابق حکومت کے چند اہم کھلاڑیوں کی طرف بھی جا سکتا ہے۔

 

Recommended Stories

Load Next Story