بغاوت کیس میں مشرف کے وکلا غیریقینی صورتحال کاشکار

کبھی عدالت پردباؤکی کوشش اورکبھی منت سماجت کی،معاملہ معافی تلافی تک بھی پہنچا

کبھی عدالت پردباؤکی کوشش اورکبھی منت سماجت کی،معاملہ معافی تلافی تک بھی پہنچا فوٹو: فائل

بغاوت کیس میں سابق ڈکٹیٹر پرویزمشرف کے وکلا خود غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار نظرآرہے ہیں۔

، بحث کے دوران کبھی عدالت کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے توکبھی معاملہ معافی تلافی اور منت سماجت تک پہنچ جاتا ہے۔جمعرات کو پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی کے دلائل کے دوران یہی صورتحال جاری رہی، ایک موقع پر فاضل وکیل نے کہا کہ نظریہ ضرورت آج بھی زندہ ہے اور سپریم کورٹ نے31 جولائی کے فیصلے میں بھی اس نظریے کو زندہ رکھا ہواہے، 3 نومبرکے اقدامات کو نظریہ ضرورت کو رد کرتے ہوئے غیرآئینی نہیں قراردیا گیا بلکہ ان اقدامات کوغیرآئینی قراردینے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ اقدامات عوام کے مفاد میں نہیں تھے اوران کوعوام کی قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔




 

جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ یہ تاثربالکل غلط ہے،غیر آئینی اقدامات کی توثیق کے لیے کھڑکی کھلی رکھنے کا موقف درست نہیں، سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں واضح کردیا ہے کہ آئین سے بغاوت ناقابل توثیق عمل ہے ، جج آئندہ آئین کے علاوہ کسی اورچیزکا حلف نہیں اٹھائیںگے ۔جب بات نہیں بنی تو فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت نے31 جولائی کے فیصلے کے خلاف جسٹس عبد الحمید ڈوگرکی اپیل منظورکی تھی اوران کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لیا گیا تھا، انھوں نے کہا کہ ان کے موکل بھی رعایت کے مستحق ہیں جس پرجسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ جسٹس ڈوگر نے اپنی درخواست میں معافی مانگی تھی۔

پشیمانی کا اظہارکیا تھا اورموقف اپنایا تھا کہ وہ بیمار ہیں اور عمر رسیدہ ہوچکے ہیں، جسٹس خلجی عارف حسین نے فاضل وکیل سے استفسارکیا کیا وہ بھی یہ راستہ اپنانا چاہتے ہیں، فاضل وکیل نے کوئی جواب نہیں دیا اور موقف اپنایا اس نکتے پر بعد میں بات کریںگے۔فاضل وکیل نے 3 نومبر کے اقدامات کی غیرآئینی حیثیت کو بھی قبول کیا اوراستدعا کی کہ جب کبھی ٹربیونل بنے گا تو وہ طے کرے گا کہ غداری ہوئی یا نہیں، سپریم کورٹ مداخلت نہ کرے، وفاقی حکومت جانے اور ملزم جانے۔
Load Next Story