نرکو مادہ بنانے کا ہنر
یوں شیخ صاحب کی اکڑفوں تو ختم ہوگئی لیکن ہمارے درمیان محاذ آرائی بدستور جاری رہی
پشتنی سندھی اور اصل ٹھٹہ کے رہنے والے تھے لیکن اپنی مادری زبان سندھی صحیح بول یا لکھ نہیں پاتے تھے۔ حالات کچھ ایسے رہے ہوں گے جن کے تحت ان کے بڑے ٹھٹہ سے کراچی منتقل ہوکر لیاری میں آباد ہوگئے جو آج کی طرح پہلے بھی مکرانی بلوچوں، سندھی ماہی گیروں اور شیدیوں کی بستی ہی تھی لیکن اسے سندھی آبادی والا علاقہ کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ اندرون سندھ سے کراچی میں آکر آباد ہونے والے سندھی رہائش کے لیے اسے یوں ترجیح دیتے کہ اپنی زبان اورکلچر والے لوگوں کے ساتھ رہنے میں اجنبیت کا احساس نہیں رہتا اورآدمی خود کو اپنوں کے درمیان موجود سمجھتا ہے۔
یہ مسئلہ صرف سندھیوں کے ساتھ نہیں ہے، ہر زبان اور نسل کے لوگوں میں یہ سوچ اور رجحان مشترک ہے۔ کراچی کے اکثر علاقے جہاں اردو بولنے والوں کا گڑھ کہلاتے ہیں وہاں شہر میں دیگر زبانیں بولنے والوں خصوصاً پٹھانوں کی اکثریت والے علاقے بھی پائے جاتے ہیں۔ شیخ عبدالرحیم واحد آدمی نہیں تھے جنھیں یہ مسئلہ درپیش تھا، میں نے کراچی میں آباد بیشتر قدیم سندھیوں کو اپنی مادری زبان کی ایسی تیسی کرتے دیکھا ہے۔ عام آدمیوں کو چھوڑیں، اردو بولنے والوں کے بچوں کو سندھی پڑھانے والے سندھی لینگویج ٹیچرز تک غلط سندھی بولتے ہیں۔ جب وہ خود غلط سندھی بولتے ہیں تو ظاہر ہے بچوں کو پڑھاتے بھی غلط ہی ہیں اور یوں سندھی زبان کی ترویج و اشاعت کا منصوبہ حقیقت میں اس کی تباہی و بربادی کا باعث بنا ہوا ہے۔ پہلے کی طرح آج بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اوراس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔
'' ڈان'' کے سینئر رپورٹر اور ''ویل سیٹ'' آدمی تھے، اپنی گاڑی میں دفتر اور پریس کلب آتے جاتے تھے، محمود آباد پھاٹک کے قریب کہیں ان کا بڑا سا ذاتی گھر بھی تھا۔ اخبار سے ان کی وابستگی بہت پرانی تھی اور انھوں نے اس کے بانی ایڈیٹر الطاف حسین کا دور دیکھا اور ان کی زیر ادارت کام بھی کیا تھا۔ 1977ء میں جب فوج نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا تو جنرل فیض علی چشتی، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے نمبر ٹوکی حیثیت سے سامنے آئے۔
وہ شیخ صاحب کے ذاتی دوست تھے، اب یہ تو پتہ نہیں کہ سب کیسے ہوا، دوست کی فرمائش تھی یا انھوں نے خود دوستی کو بطور جیک استعمال کرکے پٹری بدلی تھی، بہرحال وہ 1979ء میں ہمارے ایڈیٹر بن کر ''ڈان'' سے ''ہلال پاکستان'' میں آگئے۔ صرف ایک سال بعد جب حالات نے پلٹا کھایا اور ان کی جگہ میں نے بطور ایڈیٹر ذمے داریاں سنبھالیں تو پتہ چلا انھوں نے ایسا کرکے غلطی کی تھی۔ ہلال پاکستان بلاشبہ بھٹو کا اخبار تھا اور پیپلز فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام نکلنے والا مالی طور پر نہایت مستحکم اخبار تھا جس نے اپنے ملازمین کو ہرسال ایک چھوڑ چار چار بونس دینے کی روایت ڈالی تھی جس کی اخباری صنعت کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی، لیکن یہ سب ماضی کی باتیں تھیں، شیخ صاحب نے اس خیال سے کہ یہاں بڑا مال ہے اندھے کنوویں میں چھلانگ لگائی تھی۔
بھول گئے تھے کہ اب ٹرسٹ نہ صرف مشرف بہ اسلام ہوکر شیخ سلطان ٹرسٹ بن چکا ہے بلکہ غلام اسحٰق خان، خان عبدالعلی خان اور جنرل مجیب جیسے لوگوں کے کنٹرول میں ہے جو کراچی میں اپنے منظور نظر علی احمد بروہی کے ذریعے اخبارکو کسی لا وارث یتیم خانے کی طرح چلا رہے تھے اور اس سے جلد ازجلد جان چھڑانے یا اسے سرے سے بند کرنے کے درپے تھے۔ شیخ صاحب جنرل چشتی سے اپنے مراسم کی وجہ سے علی احمد بروہی کو تو گھاس نہیں ڈالتے تھے اور ان سے پوچھے بغیر سب فیصلے اپنی مرضی سے کرتے تھے لیکن بریک پر پاؤں بروہی کا تھا سو گاڑی آگے کیسے بڑھتی۔ مشکلات میں کیا گھرے، جان کے لالے پڑگئے۔
شیخ صاحب نے جتنے ہاتھ پاؤں مارے گئے وہ انھوں نے مارے، اپنے کچھ رشتے داروں اور دوستوں کو جو پہلے سے سرکاری ملازمت میں تھے، اخبار میں نوکریاں دیں، دفترکی گاڑی کو بچوں کے استعمال میں دیکر اس کی ایسی درگت بنوائی کی کباڑی مفت میں بھی نہ لے۔ بیٹا امریکا میں تھا، ماں اور بہنیں اس سے روز فون پر گپ شپ کیا کرتیں جس کا بل اخبار کے ٹیلی فون بل سے بھی زیادہ ہوتا اور جو دفترکو ادا کرنا پڑتا تھا۔ یوں ان سے ادارے کو جتنا مالی نقصان پہنچایا گیا، وہ انھوں نے پہنچایا باقی کوئی لمبا ہاتھ نہیں مار سکے۔ ہم بات کر رہے تھے غلط زبان بولنے کی، شیخ صاحب سندھی اخبار کے ایڈیٹر بن کر آئے تھے، مگراصل سندھی ہوتے ہوئے سندھی زبان سے جانکاری کا عالم یہ تھا کہ ایک منٹ کو ہکڑو منٹ کے بجائے ہکڑی منٹ کہتے، یعنی صیغہ بدل کر نرکو مادہ بنا دیتے تھے۔
سنجیدہ بات کو بھی ہنسی مذاق میں ٹال دینے کی عادت تھی سو جب کوئی ٹوکتا کہ سائیں ہکڑی منٹ نہیں ہکڑو منٹ ہوتا ہے تو ہنس کرکہتے ہاں ہاں پتہ ہے۔ ان کے دور میں اخبار ایک طرح سے ''ڈمی'' بن کر رہ گیا تھا سو اخبار کی اجتماعی سودا کار (سی بی اے) یونین نے اسے بچانے کے لیے مارشل لاء اور سنسر شپ کی پابندیاں ہوتے ہوئے ایڈونچر کرنے کا فیصلہ کیا، قرعہ فال میرے نام نکلا، میں ہر ہفتے عالمی حالات و واقعات پر مشتمل صفحہ ترتیب دیا کرتا تھا، اسی کو ایڈونچر کا ذریعہ بنایا گیا، اخبار کی اشاعت تیزی سے بڑھنے لگی، شیخ صاحب بہت خوش تھے اور اسے اپنی ایڈیٹری کی کرامت سمجھ رہے تھے۔
انھیں اصل بات کا پتہ تب چلا جب وزارت داخلہ کی جانب سے اخبار کو ضمانت طلبی کا نوٹس ملا، اور وہ بھی اس دھمکی کے ساتھ کہ کیوں نہ اس کی اشاعت بند کردی جائے۔ پوچھنے پر یونین کے فیصلے کے مطابق میں نے انھیں مختصر جواب دیا کہ سب کچھ آپ کی ہدایت کے مطابق ہوا ہے۔ پریشان ہوگئے اور بولے میں نے تمہیں کب ایسا کرنے کو کہا تھا، میں نے کہا کسی اور سے مت کہیے گا کہ آپ نے نہیں کہا تھا ورنہ لوگ ہنسیں گے کہ کیسا ایڈیٹر ہے جسے پتہ ہی نہیں کہ اس کے اخبار میں کیا چھپ رہا ہے۔
جنرل چشتی کی دوستی کام آگئی اور وہ جیل جانے سے بچ گئے لیکن پھر وہ میرے پیچھے ہاتھ دھوکر ایسے پڑے کہ کوئی دن خالی نہ جاتا تھا جب وہ مجھے چارج شیٹ نہ کرتے ہوں، یہی نہیں اس کی نقول اپنے تمام حکام بالا کو بھی بھجواتے تھے۔خدا بھلا کرے سیکریٹری تعلیم خان عبدالعلی خان کا جو اخبار کی کنٹرولنگ اتھارٹی (ٹرسٹ) کے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے، جنہوں نے میرے خلاف لکھے ہوئے ایک شکایتی خط کے جواب میں ان سے دریافت کیا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو کیوں نہ تمہاری جگہ اسے (مجھے) ایڈیٹر مقررکردیا جائے۔
یوں شیخ صاحب کی اکڑفوں تو ختم ہوگئی لیکن ہمارے درمیان محاذ آرائی بدستور جاری رہی۔عاشقی کے ساتھ ساتھ نوکری کا سلسلہ بھی چلتا رہا تاآنکہ بیچارے بلڈ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے۔ بیٹے نے امریکا بلوالیا جہاں کچھ عرصہ زیر علاج بھی رہے لیکن ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' کے مصداق کوئی افاقہ نہ ہوا۔ وہیں سے استعفیٰ بھجوا دیا، واپس آئے اور جلد ہی وفات پا گئے ، وصیت کے مطابق مکلی (ٹھٹہ) میں آسودہ خاک ہیں۔
کراچی کے قدیم سندھیوں پر ہی کچھ موقوف نہیں، پیکر نقوی (پیر جی) اور ابوبکر بلوانی جیسے دوستوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے میرے مشاہدے میں آیا کہ اردو بولنے والے ہمارے بہاری بھائی بھی جنس بدلنے کا ہنر خوب جانتے ہیں اور ان کے ہاں لکھنے پڑھنے میں مذکر کو مؤنث اورمؤنث کو مذکر بنانا عام ہے۔ ابوبکر ویسے توانگریزی کریڈ کا ترجمہ نہایت تیزی سے اور بالکل صحیح کیا کرتے تھے لیکن ان کی املا میں مذکر مؤنث چیک کرنا میں نے اقبال سہوانی کے ذمے لگا رکھا تھا، اس طرح کام بھی ہوجاتا اور ان دونوں (ابوبکر اور اقبال سہوانی) کی نوک جھونک کا مزا لینا بھی مل جاتا ۔
یہ مسئلہ صرف سندھیوں کے ساتھ نہیں ہے، ہر زبان اور نسل کے لوگوں میں یہ سوچ اور رجحان مشترک ہے۔ کراچی کے اکثر علاقے جہاں اردو بولنے والوں کا گڑھ کہلاتے ہیں وہاں شہر میں دیگر زبانیں بولنے والوں خصوصاً پٹھانوں کی اکثریت والے علاقے بھی پائے جاتے ہیں۔ شیخ عبدالرحیم واحد آدمی نہیں تھے جنھیں یہ مسئلہ درپیش تھا، میں نے کراچی میں آباد بیشتر قدیم سندھیوں کو اپنی مادری زبان کی ایسی تیسی کرتے دیکھا ہے۔ عام آدمیوں کو چھوڑیں، اردو بولنے والوں کے بچوں کو سندھی پڑھانے والے سندھی لینگویج ٹیچرز تک غلط سندھی بولتے ہیں۔ جب وہ خود غلط سندھی بولتے ہیں تو ظاہر ہے بچوں کو پڑھاتے بھی غلط ہی ہیں اور یوں سندھی زبان کی ترویج و اشاعت کا منصوبہ حقیقت میں اس کی تباہی و بربادی کا باعث بنا ہوا ہے۔ پہلے کی طرح آج بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اوراس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔
'' ڈان'' کے سینئر رپورٹر اور ''ویل سیٹ'' آدمی تھے، اپنی گاڑی میں دفتر اور پریس کلب آتے جاتے تھے، محمود آباد پھاٹک کے قریب کہیں ان کا بڑا سا ذاتی گھر بھی تھا۔ اخبار سے ان کی وابستگی بہت پرانی تھی اور انھوں نے اس کے بانی ایڈیٹر الطاف حسین کا دور دیکھا اور ان کی زیر ادارت کام بھی کیا تھا۔ 1977ء میں جب فوج نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا تو جنرل فیض علی چشتی، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے نمبر ٹوکی حیثیت سے سامنے آئے۔
وہ شیخ صاحب کے ذاتی دوست تھے، اب یہ تو پتہ نہیں کہ سب کیسے ہوا، دوست کی فرمائش تھی یا انھوں نے خود دوستی کو بطور جیک استعمال کرکے پٹری بدلی تھی، بہرحال وہ 1979ء میں ہمارے ایڈیٹر بن کر ''ڈان'' سے ''ہلال پاکستان'' میں آگئے۔ صرف ایک سال بعد جب حالات نے پلٹا کھایا اور ان کی جگہ میں نے بطور ایڈیٹر ذمے داریاں سنبھالیں تو پتہ چلا انھوں نے ایسا کرکے غلطی کی تھی۔ ہلال پاکستان بلاشبہ بھٹو کا اخبار تھا اور پیپلز فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام نکلنے والا مالی طور پر نہایت مستحکم اخبار تھا جس نے اپنے ملازمین کو ہرسال ایک چھوڑ چار چار بونس دینے کی روایت ڈالی تھی جس کی اخباری صنعت کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی، لیکن یہ سب ماضی کی باتیں تھیں، شیخ صاحب نے اس خیال سے کہ یہاں بڑا مال ہے اندھے کنوویں میں چھلانگ لگائی تھی۔
بھول گئے تھے کہ اب ٹرسٹ نہ صرف مشرف بہ اسلام ہوکر شیخ سلطان ٹرسٹ بن چکا ہے بلکہ غلام اسحٰق خان، خان عبدالعلی خان اور جنرل مجیب جیسے لوگوں کے کنٹرول میں ہے جو کراچی میں اپنے منظور نظر علی احمد بروہی کے ذریعے اخبارکو کسی لا وارث یتیم خانے کی طرح چلا رہے تھے اور اس سے جلد ازجلد جان چھڑانے یا اسے سرے سے بند کرنے کے درپے تھے۔ شیخ صاحب جنرل چشتی سے اپنے مراسم کی وجہ سے علی احمد بروہی کو تو گھاس نہیں ڈالتے تھے اور ان سے پوچھے بغیر سب فیصلے اپنی مرضی سے کرتے تھے لیکن بریک پر پاؤں بروہی کا تھا سو گاڑی آگے کیسے بڑھتی۔ مشکلات میں کیا گھرے، جان کے لالے پڑگئے۔
شیخ صاحب نے جتنے ہاتھ پاؤں مارے گئے وہ انھوں نے مارے، اپنے کچھ رشتے داروں اور دوستوں کو جو پہلے سے سرکاری ملازمت میں تھے، اخبار میں نوکریاں دیں، دفترکی گاڑی کو بچوں کے استعمال میں دیکر اس کی ایسی درگت بنوائی کی کباڑی مفت میں بھی نہ لے۔ بیٹا امریکا میں تھا، ماں اور بہنیں اس سے روز فون پر گپ شپ کیا کرتیں جس کا بل اخبار کے ٹیلی فون بل سے بھی زیادہ ہوتا اور جو دفترکو ادا کرنا پڑتا تھا۔ یوں ان سے ادارے کو جتنا مالی نقصان پہنچایا گیا، وہ انھوں نے پہنچایا باقی کوئی لمبا ہاتھ نہیں مار سکے۔ ہم بات کر رہے تھے غلط زبان بولنے کی، شیخ صاحب سندھی اخبار کے ایڈیٹر بن کر آئے تھے، مگراصل سندھی ہوتے ہوئے سندھی زبان سے جانکاری کا عالم یہ تھا کہ ایک منٹ کو ہکڑو منٹ کے بجائے ہکڑی منٹ کہتے، یعنی صیغہ بدل کر نرکو مادہ بنا دیتے تھے۔
سنجیدہ بات کو بھی ہنسی مذاق میں ٹال دینے کی عادت تھی سو جب کوئی ٹوکتا کہ سائیں ہکڑی منٹ نہیں ہکڑو منٹ ہوتا ہے تو ہنس کرکہتے ہاں ہاں پتہ ہے۔ ان کے دور میں اخبار ایک طرح سے ''ڈمی'' بن کر رہ گیا تھا سو اخبار کی اجتماعی سودا کار (سی بی اے) یونین نے اسے بچانے کے لیے مارشل لاء اور سنسر شپ کی پابندیاں ہوتے ہوئے ایڈونچر کرنے کا فیصلہ کیا، قرعہ فال میرے نام نکلا، میں ہر ہفتے عالمی حالات و واقعات پر مشتمل صفحہ ترتیب دیا کرتا تھا، اسی کو ایڈونچر کا ذریعہ بنایا گیا، اخبار کی اشاعت تیزی سے بڑھنے لگی، شیخ صاحب بہت خوش تھے اور اسے اپنی ایڈیٹری کی کرامت سمجھ رہے تھے۔
انھیں اصل بات کا پتہ تب چلا جب وزارت داخلہ کی جانب سے اخبار کو ضمانت طلبی کا نوٹس ملا، اور وہ بھی اس دھمکی کے ساتھ کہ کیوں نہ اس کی اشاعت بند کردی جائے۔ پوچھنے پر یونین کے فیصلے کے مطابق میں نے انھیں مختصر جواب دیا کہ سب کچھ آپ کی ہدایت کے مطابق ہوا ہے۔ پریشان ہوگئے اور بولے میں نے تمہیں کب ایسا کرنے کو کہا تھا، میں نے کہا کسی اور سے مت کہیے گا کہ آپ نے نہیں کہا تھا ورنہ لوگ ہنسیں گے کہ کیسا ایڈیٹر ہے جسے پتہ ہی نہیں کہ اس کے اخبار میں کیا چھپ رہا ہے۔
جنرل چشتی کی دوستی کام آگئی اور وہ جیل جانے سے بچ گئے لیکن پھر وہ میرے پیچھے ہاتھ دھوکر ایسے پڑے کہ کوئی دن خالی نہ جاتا تھا جب وہ مجھے چارج شیٹ نہ کرتے ہوں، یہی نہیں اس کی نقول اپنے تمام حکام بالا کو بھی بھجواتے تھے۔خدا بھلا کرے سیکریٹری تعلیم خان عبدالعلی خان کا جو اخبار کی کنٹرولنگ اتھارٹی (ٹرسٹ) کے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے، جنہوں نے میرے خلاف لکھے ہوئے ایک شکایتی خط کے جواب میں ان سے دریافت کیا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو کیوں نہ تمہاری جگہ اسے (مجھے) ایڈیٹر مقررکردیا جائے۔
یوں شیخ صاحب کی اکڑفوں تو ختم ہوگئی لیکن ہمارے درمیان محاذ آرائی بدستور جاری رہی۔عاشقی کے ساتھ ساتھ نوکری کا سلسلہ بھی چلتا رہا تاآنکہ بیچارے بلڈ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے۔ بیٹے نے امریکا بلوالیا جہاں کچھ عرصہ زیر علاج بھی رہے لیکن ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' کے مصداق کوئی افاقہ نہ ہوا۔ وہیں سے استعفیٰ بھجوا دیا، واپس آئے اور جلد ہی وفات پا گئے ، وصیت کے مطابق مکلی (ٹھٹہ) میں آسودہ خاک ہیں۔
کراچی کے قدیم سندھیوں پر ہی کچھ موقوف نہیں، پیکر نقوی (پیر جی) اور ابوبکر بلوانی جیسے دوستوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے میرے مشاہدے میں آیا کہ اردو بولنے والے ہمارے بہاری بھائی بھی جنس بدلنے کا ہنر خوب جانتے ہیں اور ان کے ہاں لکھنے پڑھنے میں مذکر کو مؤنث اورمؤنث کو مذکر بنانا عام ہے۔ ابوبکر ویسے توانگریزی کریڈ کا ترجمہ نہایت تیزی سے اور بالکل صحیح کیا کرتے تھے لیکن ان کی املا میں مذکر مؤنث چیک کرنا میں نے اقبال سہوانی کے ذمے لگا رکھا تھا، اس طرح کام بھی ہوجاتا اور ان دونوں (ابوبکر اور اقبال سہوانی) کی نوک جھونک کا مزا لینا بھی مل جاتا ۔