جنابِ حیدرکرارؓ سماجی انصاف کے علم بردار
مسلمانوں کی اصل طاقت اور دشمنوں کے خلاف سب سے بڑا دفاع امت کے عوام ہوتے ہیں۔
فرمان الٰہی ہے: ''ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ کتاب اور میزان دے کر تاکہ لوگ انصاف قائم کریں اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑی طاقت ہے اور فائدہ ہے انسانوں کے لیے تاکہ ہم یہ بتائیں کہ اﷲ اور اس کے رسولوں کی بغیر دیکھے کون مدد کرنے والا ہے، بے شک اﷲ قوت والا، غالب ہے ۔'' (سور الحدید)
یہ ان مختصر ترین آیات میں ہے جس میں خدا نے اپنے نظام ہدایت کا مکمل طور پر تعارف کرایا۔ کتاب علم کا استعارہ ہے، میزان عدل کا اور لوہا مدافعت کا۔ ان استعاروں کے حوالے سے اس آیت میں خداوند عالم نے اپنے پیغمبروں کو عالم انسانیت کے لیے علم اور عدل کا پیغام دینے کے لیے بھیجا اور اس علم اور عدل کے پیغام کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اپنے معاشرے میں انصاف قائم کریں۔ علم اور عدالت، اسلامی یا انسانی معاشرے کی پہچان ہیں اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ جہل اور ظلم کے کارندے انسانوں پر اپنا غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اس صورت میں انصاف پرور معاشروں میں اتنی توانائی بھی ہونی چاہیے کہ وہ مدافعت کرسکیں۔
ماہ صیام کے آخری عشرے کی ابتدا پر ہم امیرالمومنین علی ابن ابی طالبؓ کی شہادت کی یاد مناتے ہیں اور یہ یادیں اس لیے منائی جاتی ہیں کہ ہم ان شخصیات کی معرفت حاصل کریں۔ حضرت علیؓ کے بارے میں جناب رسالت مآبؐ فرماتے ہیں: '' میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔'' سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علیؓ ہیں۔ علیؓ کی یوم خندق کی ایک ضربت عبادت ثقلین سے زیادہ افضل ہے۔ اور ان تینوں فضیلتوں کا مقصد جیسا کہ مندرجہ بالا آیت میں کہا گیا یہ ہے کہ لوگ انصاف کریں۔
خود جناب امیرؓ علم اور عدل کے حوالے سے اپنا منشور حیات اس طرح بیان فرماتے ہیں اس خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ہر ذی روح کو پیدا کیا اگر مددگاروں کی وجہ سے محبت تمام نہ ہوگئی اور علما سے خدا کا عہد یہ نہ ہوتا کہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک سے سمجھوتا نہ کریں تو میں ناقۂ خلافت کی باگ ڈور اسی کی پشت پر ڈال دیتا۔ آپؓ نے فرمایا ملک کفر سے تو چل سکتا ہے لیکن ظلم سے نہیں چل سکتا۔ ایک اور موقع پر آپؓ طبقاتی نظام کا اس طرح تجزیہ کرتے ہیں میں نے کوئی وافر دولت ایسی نہیں دیکھی جس کے پہلو میں غصب شدہ حق نظر نہ آئے ہوں۔ ایک مرتبہ کسی نے آپؓ سے پوچھا کہ خدا کا قول ہے ہم نے زمین پر رہنے والے ہر ذی روح کے لیے روزی پیدا کی ہے تو پھر بعض لوگ بھوکے کیوں رہ جاتے ہیں! آپؓ نے جواب دیا اس لیے کہ مال دار نے اس کے حصے کی روزی غصب کرلی۔
ایک خط میں آپؓ طبقہ اشرافیہ کے کردار کا اس طرح تجزیہ فرماتے ہیں: یاد رکھو خوش حالی کے زمانے میں حاکم کے لیے سب سے بڑا بوجھ معیشت کے وقت جی چرانے والا، بخشش و عطا کے موقع پر سب سے کم شکر گزار ہونے والا، محرومی پر کوئی عذرت نہ سننے والا۔ پھر آپؓ نے اپنے گورنر کو ہدایت فرمائی کہ زمانے کی ابتلا میں سب سے کم ثابت قدم رہنے والا یہ خواص کا طبقہ ہی ہے۔ تمہیں وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو حق کے لحاظ سے بہترین، انصاف کے لحاظ سے سب سے بہتر اور عوام کی مرضی کے مطابق ہو، کیوں کہ عوام کی ناراضی خواص کی رضا مندی کو بے اثر بنا دیتی ہے اور خواص کی ناراضی عوام کی رضامندی کے ہوتے ہوئے برداشت کرلی جاتی ہے۔
مسلمانوں کی اصل طاقت اور دشمنوں کے خلاف سب سے بڑا دفاع امت کے عوام ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں بھی معاملات پر طبقہ اشرافیہ چھایا رہے گا وہاں طبقاتی خلیج بڑھتی ہی چلی جائے گی اور امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہوتا چلا جائے گا۔ عوام کی حالت پر سب سے زیادہ اثر انداز حکومت کی ٹیکس کی پالیسیاں ہوا کرتی ہیں۔ عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کے سلسلے میں حضرت علیؓ کی پالیسی کیا تھی؟ آپؓ فرماتے ہیں دیکھو! محکمۂ خراج سے زیادہ ملک کی آبادی پر توجہ دینا، کیوں کہ خراج بھی تو خوش حالی سے حاصل ہوتا ہے، جو حاکم تعمیر کے بغیر خراج چاہتا ہے اس کی حکومت یقینا چند روزہ ثابت ہوگی۔
اگر کاشت کار خراج کی زیادتی کسی آسمانی آفت، آب پاشی میں خلل، رطوبت کی قلت، سیلاب یا خشکی کے سبب فصل کے خراب ہونے کی شکایت کریں تو ان کے لگان کو کم کردینا۔ ملک کی آبادی اور سرسبزی ہر بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ لہذا ہمیشہ خیال رکھنا ملک کی بربادی کا سبب تو باشندوں کی غربت ہے اور غربت کا یہ سبب ہوتا ہے کہ حاکم دولت سمیٹنے پر کمر باندھ لیتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں زوال کا خوف رہتا ہے اور وہ عبرتوں سے سبق نہیں حاصل کرنا چاہتے۔
اس گفت گو سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد عدالت یا سماجی انصاف کا قیام ہے اور حضرت علیؓ نے اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن قیام عدالت کے سلسلے میں ذرہ برابر انحراف نہیں کیا۔ پرانے دوستوں نے آپؓ کے خلاف تلواریں اٹھالیں، رشتے دار برگشتہ ہوگئے، سلطنت کم زور ہوگئی، مصر کا علاقہ نکل گیا لیکن آپؓ نے انصاف کے خلاف کوئی مصلحت، کوئی سمجھوتا گوارا نہیں کیا۔
گورنر مالک دیکھ رہے تھے کہ لوگ آپؓ سے دور ہوتے جارہے ہیں، جناب امیرؓ کو لکھتے ہیں: اگر آپؓ بھی بے دریغ مال دینا تقسیم کرتے اور جتھابند اور قابو یافتہ لوگوں کو دوسروں سے زیادہ دیں تو پھر دیکھیے کہ لوگوں کی گردنیں کس طرح آپ کی طرف جھکتی ہیں اور ان کی زبانیں آپ کے کیسے کیسے گن گاتی ہیں اور وہ کیسے آپ کے خیر خواہ بن جاتے ہیں۔
حضرت علیؓ کا جواب تھا: اﷲ جانتا ہے، انہوں نے ہم سے علیحدگی اس لیے نہیں کی کہ ہم نے ان پر ظلم و جور کیا اور وہ ہم سے جدا ہوکر کسی عادل کی پناہ میں گئے ہوں۔ ہم سے جدائی کا سبب سوائے طلب دنیا کے اور کچھ نہیں اور دنیا زائل ہونے والی ہے۔
یہ وہ اصول ہیں جو صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بل کہ ہر معاشرے کی فلاح کے ضامن ہیں۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب، کسی قوم یا کسی زمانے سے ہو۔ اب آخری بات ہم جو بہ زعم خود مسلمان ہیں، بل کہ بہترین مسلمان ہیں اور ہم جو اس وقت یعنی رمضان میں بے شمار تلاوت قرآن کے تحفے اﷲ کے حضور بھیج رہے ہیں، حضرت علیؓ کی شہادت کو یاد کرکے غم زدہ ہیں، ہمارا کیا رویہ ہے اور ہم نے عدالت کے قیام کے لیے کیا کِیا۔۔۔۔۔۔ ؟ ہمارا یہ کارنامہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے غریب اور زیادہ مفلوک الحال ہوتا جارہا ہے، ہماری بستیوں میں بھوک، بے روزگاری، بیماریاں، خودکشی کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، مذہب کے نام پر سیاست تو دھوم دھڑکے سے ہورہی ہے، مذہبی قوانین بھی بن رہے ہیں، نظام اسلام کے نفاذ کے نعرے روز زیادہ ہی بلند بانگ ہوتے جارہے ہیں لیکن سماجی انصاف کے قیام کے لیے کوئی قانون نہیں بنتا۔ بعض لوگوں کی گفت گو محض اپنی محبوب شخصیات سے وابستہ معجزات کے ذکر تک محدود رہتی ہے۔ لیکن یہ بھی تو سوچو کہ اس خانہ خدا میں پیدا ہونے والے نے زمین پر کیسی زندگی گزاری۔
یہ ان مختصر ترین آیات میں ہے جس میں خدا نے اپنے نظام ہدایت کا مکمل طور پر تعارف کرایا۔ کتاب علم کا استعارہ ہے، میزان عدل کا اور لوہا مدافعت کا۔ ان استعاروں کے حوالے سے اس آیت میں خداوند عالم نے اپنے پیغمبروں کو عالم انسانیت کے لیے علم اور عدل کا پیغام دینے کے لیے بھیجا اور اس علم اور عدل کے پیغام کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اپنے معاشرے میں انصاف قائم کریں۔ علم اور عدالت، اسلامی یا انسانی معاشرے کی پہچان ہیں اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ جہل اور ظلم کے کارندے انسانوں پر اپنا غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اس صورت میں انصاف پرور معاشروں میں اتنی توانائی بھی ہونی چاہیے کہ وہ مدافعت کرسکیں۔
ماہ صیام کے آخری عشرے کی ابتدا پر ہم امیرالمومنین علی ابن ابی طالبؓ کی شہادت کی یاد مناتے ہیں اور یہ یادیں اس لیے منائی جاتی ہیں کہ ہم ان شخصیات کی معرفت حاصل کریں۔ حضرت علیؓ کے بارے میں جناب رسالت مآبؐ فرماتے ہیں: '' میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔'' سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علیؓ ہیں۔ علیؓ کی یوم خندق کی ایک ضربت عبادت ثقلین سے زیادہ افضل ہے۔ اور ان تینوں فضیلتوں کا مقصد جیسا کہ مندرجہ بالا آیت میں کہا گیا یہ ہے کہ لوگ انصاف کریں۔
خود جناب امیرؓ علم اور عدل کے حوالے سے اپنا منشور حیات اس طرح بیان فرماتے ہیں اس خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ہر ذی روح کو پیدا کیا اگر مددگاروں کی وجہ سے محبت تمام نہ ہوگئی اور علما سے خدا کا عہد یہ نہ ہوتا کہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک سے سمجھوتا نہ کریں تو میں ناقۂ خلافت کی باگ ڈور اسی کی پشت پر ڈال دیتا۔ آپؓ نے فرمایا ملک کفر سے تو چل سکتا ہے لیکن ظلم سے نہیں چل سکتا۔ ایک اور موقع پر آپؓ طبقاتی نظام کا اس طرح تجزیہ کرتے ہیں میں نے کوئی وافر دولت ایسی نہیں دیکھی جس کے پہلو میں غصب شدہ حق نظر نہ آئے ہوں۔ ایک مرتبہ کسی نے آپؓ سے پوچھا کہ خدا کا قول ہے ہم نے زمین پر رہنے والے ہر ذی روح کے لیے روزی پیدا کی ہے تو پھر بعض لوگ بھوکے کیوں رہ جاتے ہیں! آپؓ نے جواب دیا اس لیے کہ مال دار نے اس کے حصے کی روزی غصب کرلی۔
ایک خط میں آپؓ طبقہ اشرافیہ کے کردار کا اس طرح تجزیہ فرماتے ہیں: یاد رکھو خوش حالی کے زمانے میں حاکم کے لیے سب سے بڑا بوجھ معیشت کے وقت جی چرانے والا، بخشش و عطا کے موقع پر سب سے کم شکر گزار ہونے والا، محرومی پر کوئی عذرت نہ سننے والا۔ پھر آپؓ نے اپنے گورنر کو ہدایت فرمائی کہ زمانے کی ابتلا میں سب سے کم ثابت قدم رہنے والا یہ خواص کا طبقہ ہی ہے۔ تمہیں وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو حق کے لحاظ سے بہترین، انصاف کے لحاظ سے سب سے بہتر اور عوام کی مرضی کے مطابق ہو، کیوں کہ عوام کی ناراضی خواص کی رضا مندی کو بے اثر بنا دیتی ہے اور خواص کی ناراضی عوام کی رضامندی کے ہوتے ہوئے برداشت کرلی جاتی ہے۔
مسلمانوں کی اصل طاقت اور دشمنوں کے خلاف سب سے بڑا دفاع امت کے عوام ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں بھی معاملات پر طبقہ اشرافیہ چھایا رہے گا وہاں طبقاتی خلیج بڑھتی ہی چلی جائے گی اور امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہوتا چلا جائے گا۔ عوام کی حالت پر سب سے زیادہ اثر انداز حکومت کی ٹیکس کی پالیسیاں ہوا کرتی ہیں۔ عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کے سلسلے میں حضرت علیؓ کی پالیسی کیا تھی؟ آپؓ فرماتے ہیں دیکھو! محکمۂ خراج سے زیادہ ملک کی آبادی پر توجہ دینا، کیوں کہ خراج بھی تو خوش حالی سے حاصل ہوتا ہے، جو حاکم تعمیر کے بغیر خراج چاہتا ہے اس کی حکومت یقینا چند روزہ ثابت ہوگی۔
اگر کاشت کار خراج کی زیادتی کسی آسمانی آفت، آب پاشی میں خلل، رطوبت کی قلت، سیلاب یا خشکی کے سبب فصل کے خراب ہونے کی شکایت کریں تو ان کے لگان کو کم کردینا۔ ملک کی آبادی اور سرسبزی ہر بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ لہذا ہمیشہ خیال رکھنا ملک کی بربادی کا سبب تو باشندوں کی غربت ہے اور غربت کا یہ سبب ہوتا ہے کہ حاکم دولت سمیٹنے پر کمر باندھ لیتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں زوال کا خوف رہتا ہے اور وہ عبرتوں سے سبق نہیں حاصل کرنا چاہتے۔
اس گفت گو سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد عدالت یا سماجی انصاف کا قیام ہے اور حضرت علیؓ نے اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن قیام عدالت کے سلسلے میں ذرہ برابر انحراف نہیں کیا۔ پرانے دوستوں نے آپؓ کے خلاف تلواریں اٹھالیں، رشتے دار برگشتہ ہوگئے، سلطنت کم زور ہوگئی، مصر کا علاقہ نکل گیا لیکن آپؓ نے انصاف کے خلاف کوئی مصلحت، کوئی سمجھوتا گوارا نہیں کیا۔
گورنر مالک دیکھ رہے تھے کہ لوگ آپؓ سے دور ہوتے جارہے ہیں، جناب امیرؓ کو لکھتے ہیں: اگر آپؓ بھی بے دریغ مال دینا تقسیم کرتے اور جتھابند اور قابو یافتہ لوگوں کو دوسروں سے زیادہ دیں تو پھر دیکھیے کہ لوگوں کی گردنیں کس طرح آپ کی طرف جھکتی ہیں اور ان کی زبانیں آپ کے کیسے کیسے گن گاتی ہیں اور وہ کیسے آپ کے خیر خواہ بن جاتے ہیں۔
حضرت علیؓ کا جواب تھا: اﷲ جانتا ہے، انہوں نے ہم سے علیحدگی اس لیے نہیں کی کہ ہم نے ان پر ظلم و جور کیا اور وہ ہم سے جدا ہوکر کسی عادل کی پناہ میں گئے ہوں۔ ہم سے جدائی کا سبب سوائے طلب دنیا کے اور کچھ نہیں اور دنیا زائل ہونے والی ہے۔
یہ وہ اصول ہیں جو صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بل کہ ہر معاشرے کی فلاح کے ضامن ہیں۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب، کسی قوم یا کسی زمانے سے ہو۔ اب آخری بات ہم جو بہ زعم خود مسلمان ہیں، بل کہ بہترین مسلمان ہیں اور ہم جو اس وقت یعنی رمضان میں بے شمار تلاوت قرآن کے تحفے اﷲ کے حضور بھیج رہے ہیں، حضرت علیؓ کی شہادت کو یاد کرکے غم زدہ ہیں، ہمارا کیا رویہ ہے اور ہم نے عدالت کے قیام کے لیے کیا کِیا۔۔۔۔۔۔ ؟ ہمارا یہ کارنامہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے غریب اور زیادہ مفلوک الحال ہوتا جارہا ہے، ہماری بستیوں میں بھوک، بے روزگاری، بیماریاں، خودکشی کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، مذہب کے نام پر سیاست تو دھوم دھڑکے سے ہورہی ہے، مذہبی قوانین بھی بن رہے ہیں، نظام اسلام کے نفاذ کے نعرے روز زیادہ ہی بلند بانگ ہوتے جارہے ہیں لیکن سماجی انصاف کے قیام کے لیے کوئی قانون نہیں بنتا۔ بعض لوگوں کی گفت گو محض اپنی محبوب شخصیات سے وابستہ معجزات کے ذکر تک محدود رہتی ہے۔ لیکن یہ بھی تو سوچو کہ اس خانہ خدا میں پیدا ہونے والے نے زمین پر کیسی زندگی گزاری۔