محافظِ اسلام علی ابن ابی طالبؓ

امیرالمومنینؓ نے ہر لمحہ دین خدا کی حفاظت کے لیے شجاعت کے جوہر دکھائے اور باطل قوتوں کو شکست دی

امیرالمومنینؓ نے ہر لمحہ دین خدا کی حفاظت کے لیے شجاعت کے جوہر دکھائے اور باطل قوتوں کو شکست دی: ۔ فوٹو: فائل

علی ابن ابی طالبؓ محافظ اسلام تھے۔ وہ محافظ جس نے اپنے شب و روز اسلام کی حفاظت اور حرمت کے لیے وقف کردیے۔ جناب امیرالمومنین علیؓ کی تلوار ذوالفقار جب بھی نیام سے نکلی اسلام کے دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹی اور انھیں صفحۂ ہستی سے مٹاتی چلی گئی۔

محافظ کا لفظ اس شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس کی آغوش میں کسی شے نے نمو پائی اور اپنی نشو و نما جاری رکھی ہو۔ پروان چڑھنے میں اس شخص کی طاقت استعمال کی ہو اور اس کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھتے ہوئے مخالف قوتوں سے ٹکرایا ہو۔ محافظ وہ شخص بھی ہوتا ہے جس نے خون دل سے اس شے کی آب یاری کی ہو، اس کو ہر سرد و گرم سے بچایا ہو، ہر مشکل میں اس کی ڈھال بن گیا ہو، تحفظ کا احساس فراہم کرے، قوت و ہمت دے، جرأت و حوصلہ عطا کرے۔

انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول برحق حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو پیغمبروں پر برگزیدہ کیا اور مجھ کو مختار بنایا اور علیؓ سے میرے بازو کو مضبوطی اور قوت بخشی جیسا کہ موسیٰ کا بازو اس کے بھائی ہارون سے مستحکم اور قوی بنایا تھا۔

آپؓ صحیح معنوں میں قرآنِ ناطق تھے۔10 برس کی عمر سے آیاتِ قرآنی لسانِ علیؓ پر جاری تھیں۔ آپؓ چوں کہ شہر علم جناب رسول اﷲ ﷺ کا در تھے، اس لیے قرآن حکیم کی جو تفسیر آپؓ نے بیان فرمائی وہ کسی شک و شبہہ سے بالاتر، مستند اور معتبر ہے۔


تاریخ میں رقم ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے عزیز و اقارب جمع ہیں اور آقائے نام دار ﷺ ان سے پوچھتے ہیں کہ اﷲ نے مجھے توحید کی تبلیغ کا حکم دیا ہے، کوئی ہے جو اس تبلیغ میں میری مدد کرے۔ سب کے سر جھک جاتے ہیں، اتنے میں ایک سات آٹھ سال کا بچہ ان میں سے کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اﷲ کے رسولؐ اگرچہ میں بچہ ہوں، کم زور و ناتواں ہوں لیکن پھر بھی اسلام کی تبلیغ میں، میں آپؐ کا ساتھ دوں گا۔ آپؓ رسول خدا ؐ کے حامی اور مددگار بنے اور اسلام کے لیے لازوال قوت ثابت ہوئے۔

آپؐ نے اسلام کو وہ آغوش بریں فراہم کی کہ اسلام دن دگنی اور رات چوگنی قوت سے ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عرب اور دنیا پر چھا گیا۔ آپؓ اسلام کے دشمنوں کے لیے وہ سیسہ پلائی دیوار تھے جس سے ٹکرا کر تمام مخالف قوتیں پاش پاش ہوگئیں۔ شیریزداں، حیدر کرارؓ نے اپنے بلند کردار کی قوت اور ذوالفقار کی طاقت سے اسلام کو حیات جاوداں بخشی۔ آپؓ نے اس تکلیف دہ سفر میں پائوں میں چبھنے والے کانٹوں کو بھی فرش گُل سمجھا اور پُرخار راستوں پر گام زن رہے۔ آپؓ نے اسلام کے راستے کے خار اپنے مقدس ہاتھوں سے چُنے اور دامن اسلام کو گُلوں سے بھر دیا۔

غزوۂ بدر کی صورت میں حق و باطل کا پہلا معرکہ ہو یا جنگ خندق کا فیصلہ کن معرکہ، غزوہ حنین ہو یا غزوہ خیبر میں مرحب سے مقابلہ، امیرالمومنین علیؓ نے اپنے جوش ایمانی سے اسلام کی رگوں میں حرارت بھری اور شجاعت بہادری، دلیری، جواں مردی، ہمت و حوصلے کے ایسے جوہر دکھائے کہ تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہجرت کی رات جب ہر طرف تلواروں کی جھنکار سنائی دے رہی تھی اور پروردگارِ عالم نے اپنے محبوب نبیؐ کو ہجرت کا حکم دے دیا تھا تو اس صورت میں لوگوں کی امانتیں واپس کرنا بہت بڑا مسئلہ بن گیا کیوں کہ لوگ آپؐ پر اعتماد کرتے اور آپؐ کو امین سمجھتے ہوئے اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھتے تھے۔ اس گمبھیر اور کشیدہ صورت حال میں حضرت علی ابن ابی طالبؓ کام آئے۔ آقائے دو عالمؐ نے حکم دیا کہ اے علی تم میرے بستر پر سو جائو اور صبح کو لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینے پہنچ جانا۔ حیدر کرارؓ نے حکم رسولؐؐ کو حکم ربی سمجھتے ہوئے اس پر من و عن عمل کیا۔ حالاں کہ اس رات آپؐ کے بستر پر سونا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا تھا لیکن آپ نے اپنا سب کچھ نبیؐ کے حکم پر وار دینے کا ارادہ کیا اور امانتوں کے امین بن گئے۔ آپؓ کے اس عمل کو تاریخ نے سنہری حروف میں لکھا ہے۔

تاریخ اس حکم کی بجا آوری اور پیروی پر حیران و ششدر ہے۔ امیرالمومنینؓ نے ہر لمحہ دین خدا کی حفاظت کے لیے شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھائے اور اسلام کے مد مقابل باطل قوتوں کو شکست فاش دی۔ آپؐ نے دین خدا کی بے پایاں خدمت کی آپؐ کی مدعت اور تعریف میں کتابوں کے دفتر بھرے ہوئے ہیں۔ آپؐ کی تصنیف ''نہج البلاغہ'' آپ کی فہم و فراست، عقل و دانش اور علم و شعور کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس میں آپؓ نے زندگی بہتر طور پر گزارنے کے رموز و اسرار سمجھائے ہیں۔ جنگ حنین سے واپسی پر آپ کی لکھی ہوئی وصیت بہ نام حسن بن علیؓ اپنے اندر ایک منفرد منشور رکھتی ہے، جس پر عمل کرکے دنیا و آخرت میں فلاح و کام رانی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تمام دنیا کے مسلمان تا حشر شیر یزداں کی اسلام کے لیے قربانیوں اور خدمات کو یاد رکھیں گے۔

ایڈووکیٹ شگفتہ سحاب
Load Next Story