شاہ محمود یا عبدالعلیم عمران کسے وزیراعلیٰ پنجاب بنائیں گے

دوسری جانب مردم شماری کے حوالے سے بھی معاملہ سنگین ہوتا جا رہا ہے


رضوان آصف June 06, 2018
دوسری جانب مردم شماری کے حوالے سے بھی معاملہ سنگین ہوتا جا رہا ہے

MAZAR-I-SHARIF, AFGHANISTAN: چیف جسٹس آف پاکستان کی یقین دہانی، سپریم کورٹ کی جانب سے نامزدگی فارم کی بحالی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے باوجود آج بھی ملک میں عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے بے یقینی کی فضاء قائم ہے جو امیدوار الیکشن کمیشن سے نامزدگی فارم وصول کر رہے ہیں انہیں بھی الیکشن ہونے کا یقین کامل نہیں ہے ۔

اس بے یقینی کے پیچھے وہ عوامل ہیں جوحلقہ بندیوں کے کالعدم ہونے کی صورت میں بھی رونما ہو رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں میاں نواز شریف کی ممکنہ سزا کے بعد کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے بھی پیدا ہوں گے۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے نامزدگی فارم کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں نے عدلیہ کو نشانے پر لے لیا تھا اور یہ تاثر قائم کردیا گیا جیسے اس فیصلہ کے ذریعے عدلیہ نے انتخابات کو موخر کرنے کی کوشش کی ہے ۔

سپریم کورٹ نے اس صورتحال کے تناظر میں الیکشن کمیشن اور سردار ایاز صادق کی اپیل پر لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرکے گیند واپس الیکشن کمیشن کے کورٹ میں پھینک دی ہے اور ساتھ ہی چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ اب اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہو گی۔ باخبر حلقوں کا دعوی ہے کہ انتخابات میں تاخیر کا خدشہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ نامزدگی فارم سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور پیچیدہ معاملہ حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دینا ہے۔ ابتک کئی شہروں کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار پا چکی ہیں جبکہ مزید کئی درجن فیصلے ہونا باقی ہیں۔

نئی حلقہ بندیوں میں وقت درکار ہے۔ دوسری جانب مردم شماری کے حوالے سے بھی معاملہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم نے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے جانے کا اعلان کردیا ہے۔ موجودہ حلقہ بندیاں نئی مردم شماری کے''عارضی'' نتائج کی بنیاد پر کی گئی تھیں اب اگر مردم شماری کے نتاتج کے حوالے سے کوئی اچانک اور اہم فیصلہ آجاتا ہے تو ان حلقہ بندیوں کی قانونی حیثیت چیلنج ہوجائے گی۔ میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ تمام تر دشوار حالات کے باوجود پنجاب کے اربن ایریاز میں مسلم لیگ(ن) کی سیاسی طاقت اب بھی تحریک انصاف کو شکست دے سکتی ہے، وہ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ اس وقت تحریک انصاف کے امیدواروں کو حلقوں میں بھرپور انتخابی مہم چلانے کیلئے کم وقت مل رہا ہے لہذا ان کی یہ کمزوری ن لیگ کے امیدواروں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف 25 جولائی کو الیکشن کا انعقاد چاہتے ہیں۔

عام انتخابات کا سب سے بڑا اور فیصلہ کن معرکہ پنجاب میں لڑا جانا ہے۔ جہانگیر ترین نے جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو شدید کمزور کر دیا ہے اور وہاں ن لیگ کے پاس مضبوط الیکٹ ایبلز موجود نہیں رہے لہذا جنوبی پنجاب کی نشستوں میں سے 80 فیصد سے زائد تحریک انصاف جیت سکتی ہے لیکن سنٹرل پنجاب اور بالائی پنجاب میں تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان گھمسان کی جنگ ہو گی۔ ان علاقوں کو ہمیشہ ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔

ان علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں الیکٹ ایبلز تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں لیکن جیت اور مقابلہ کیلئے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کے مضبوط امیدوار کے ساتھ مضبوط صوبائی امیدواروں کا پینل بنانا ہوگا،کبھی کبھی کمزور صوبائی امیدوار، مضبوط قومی امیدوار کی شکست کی وجہ بن جاتا ہے۔ عمران خان کی سربراہی میں پارلیمانی بورڈ نے گزشتہ رات گئے ملک بھر کے انتخابی امیدواروں کا چناو مکمل کر لیا ہے اور آج تحریک انصاف باضابطہ طور پر انتخابی امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ہر الیکٹ ایبل نے اپنا حلقہ اور ٹکٹ کنفرم کرنے کے بعد ہی شمولیت اختیار کی ہے لہذا ایک تہائی امیدواروں کے بارے میں تو پوری قوم کو کئی روز پہلے ہی علم ہو چکا تھا۔

بادی النظر میں وفاق، پنجاب اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت بنتی دکھائی دے رہی ہے، گو کہ ان حکومتوں میں بعض سیاسی جماعتیں اور آزاد حیثیت سے جیتنے والے افراد بھی شامل ہوں گے لیکن مرکزی حیثیت تحریک انصاف کو ہی حاصل ہو گی ۔ عمران خان بخوبی سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں ن لیگ کا راستہ روکنے اور 2023 میں ہونے والے انتخابات میں جیتنے کیلئے لازم ہے کہ تحریک انصاف پنجاب میں بہترین حکومت کر کے دکھائے۔

یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ کے پی کے میں تحریک انصاف ایک مثالی حکومت کا ماڈل پیش کرنے میں اس طرح سے کامیاب نہیں ہوسکی جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں جیتنے والی جماعت ہی وفاق میں حکومت بنانے کیلئے فیورٹ ہوتی ہے۔ لہذا تحریک انصاف کے چیئرمین کو پنجاب کے وزیر اعلی کے انتخاب کیلئے بہت سے عوامل اور شواہد کو مد نظر رکھنا ہوگا ۔ کچھ عرصہ قبل تک عمران خان کو اس معاملہ میں دوسرا نام سوچنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ جہانگیر ترین ان کی پہلی و آخری ترجیح تھے لیکن جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی جبکہ ترین کی نا اہلی کے بعد چوہدری سرور نے خود کو وزارت اعلی کا امیدوار (بلکہ کنفرم وزیر اعلی) ظاہر کرنا شروع کردیا اور لابنگ بھی شروع کر ڈالی۔ چوہدر ی سرور نے اس حوالے سے این اے131 کے صوبائی حلقہ پی پی 162 سے الیکشن لڑنے کا عندیہ بھی دے دیا لیکن وہ کارکنوں کے ساتھ ساتھ قیادت کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

عمران خان نے انہیں سمجھایا ہے کہ آپ سینیٹر بن چکے ہیں، وفاق میں حکومت بنی تو آپ کو اہم عہدہ بھی مل جائے گا، آپ وزیر اعلی کی دوڑ میں شامل نہ ہوں۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کی دوڑ میں اب دو اہم رہنما باقی رہ گئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور عبدالعلیم خان میں سے کسی ایک کو عمران خان منتخب کر سکتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی بھی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور عبدالعلیم خان بھی تحریک انصاف کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے گنتی کے چند رہنماوں میں شمار ہوتے ہیں، لہذا عمران خان کیلئے بھی انتخاب آسان نہیں ہوگا تاہم حتمی فیصلہ تو کپتان نے ہی کرنا ہے۔

ریحام خان کی متوقع کتاب کے حوالے سے گزشتہ روز فواد چوہدری نے بہت زبردست پریس کانفرنس کی ہے، انہوں نے دلائل اور شواہد کے ساتھ ریحام خان کے الزامات کا جواب دیا ہے۔ فواد چوہدری نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے لہذا ریحام خان اینڈ کمپنی کو کچھ نیا سوچنا ہوگا۔ فواد چوہدری صرف قانون کی کتابوں کے ہی نہیں میڈیا کے بھی بڑے کھلاڑی ہیں۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کو بہت عرصہ پہلے فواد چوہدری کو مرکزی سیکرٹری اطلاعات بنا دینا چاہیئے تھا خوامخواہ وقت ضائع کیا لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ''دیر آید درست آید''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں