یو اے ای سے تنازع سنگین پانی سرسے اونچا ہونے پرپاکستان آپشنز دیکھنے لگا

پی سی بی پی ایس ایل کوملک میں منتقل کرنے یا بدستور امارات میں انعقاد کے حوالے سے فیصلہ فرنچائزز کی مشاورت سے کرے گا


Saleem Khaliq June 06, 2018
پی سی بی پی ایس ایل کوملک میں منتقل کرنے یا بدستور امارات میں انعقاد کے حوالے سے فیصلہ فرنچائزز کی مشاورت سے کرے گا،ذرائع فوٹو : فائل

یو اے ای سے تنازع سنگین ہو گیا،پانی سرسے اونچا ہونے پرپاکستان آپشنزدیکھنے لگا، پی سی بی پی ایس ایل کو مکمل طور پر ملک میں منتقل کرنے یا بدستور امارات میں انعقاد کے حوالے سے فیصلہ فرنچائزز کی مشاورت سے کریگا، اس ضمن میں12 جون کو لاہور میں اہم اجلاس طلب کر لیا گیا جس کی صدارت نجم سیٹھی کرینگے۔

حکام کا خیال ہے کہ چونکہ لیگ میں سرمایہ کاری فرنچائزز نے ہی کی لہذا کسی بھی اقدام سے قبل ان سے پوچھنا ضروری ہے، دسمبر اور جنوری میں امارات کرکٹ لیگ سے پاکستانی ایونٹ کی اہمیت کم ہو جائیگی لہذا وہاں انعقاد درست نہیں ہوگا۔ دوسری جانب بیشتر فرنچائزز لیگ کی ملک منتقلی پر آمادہ نظر آتی ہیں،انکے مطابق تین کامیاب ایونٹس نے پی ایس ایل کو ایک برانڈ بنا دیا، اب اگر بعض غیرملکی کرکٹرز نہیں آئے تو بھی ایونٹ کی قدروقیمت برقرار رہے گی۔ تفصیلات کے مطابق یو اے ای سے پی سی بی کے تعلقات گذشتہ کچھ عرصے سے خاصے کشیدہ ہیں، چیئرمین نجم سیٹھی نے اپریل میں ''ایکسپریس'' کو خصوصی انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ اگراکتوبر سے مارچ تک امارات میں دیگر لیگز ہوئیں تو پاکستان اپنی کرکٹ کسی اور ملک منتقل کر دے گا،انھوں نے ملائیشیا کا نام بھی لیا تھا، اس الٹی میٹم کے بعد بھی اماراتی حکام نے کوئی لچک نہیں دکھائی اور گذشتہ دنوں اعلان کر دیا کہ دسمبر اور جنوری میں ان کی اپنی لیگ منعقد ہوگی، افغانستان اپنی لیگ اکتوبر میں یو اے ای میں ہی کرانے کا اعلان پہلے ہی کر چکا ہے۔

نومبر اور دسمبر میں وہاں ٹی ٹین لیگ بھی ہوگی، اس صورتحال میں پاکستان کو بھی اب واضح پیغام مل چکا کہ متحدہ عرب امارات کے پاس اب مزید کئی آپشنز موجود لہذا وہ اس کی بات نہیں مانے گا، پی سی بی پہلے مرحلے میں پی ایس ایل کو یو اے ای سے منتقل کرنے کا سوچ رہا ہے، گذشتہ برس فائنل کراچی میں ہوا جبکہ لاہور نے دونوں ایلیمنیٹرز کی میزبانی کا اعزاز پایا تھا،ذرائع نے بتایا کہ بورڈ نے فرنچائزز سے مشاورت کے بعد ہی کوئی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے 12 جون کو اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ۔

بیشتر ٹیموں کا خیال ہے کہ لیگ تین برس سے کامیابی کے ساتھ منعقد ہونے کی بدولت ایک برانڈ بن چکی، اب اگر پی سی بی اس کا انعقاد ملک میں بھی کرا دے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ سیکیورٹی صورتحال بھی اب کافی بہتر ہو چکی ہے، ایک ٹیم آفیشل نے نمائندہ ''ایکسپریس'' کے استفسار پر کہا کہ امارات لیگ کے بعد پی ایس ایل کے انعقادکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہم یہاں بزنس کرنے آئے ہیں مگر ہمیں کچھ نہیں ملے گا، ہمارا انحصار ٹکٹنگ،براڈ کاسٹنگ اور ٹائٹل اسپانسر شپ پر ہے، اگر یو اے ای میں متواتر لیگز ہوتی رہیں تو براڈ کاسٹر کی دلچسپی کم ہو جائے گی، ٹائٹل اسپانسر شپ سے بھی زیادہ پیسے نہیں ملیں گے، مسلسل کرکٹ دیکھنے سے لوگ بھی اکتاہٹ کا شکار ہو جائینگے اور ہمارے ایونٹ میں اتنا کرائوڈ نہیں آئے گا، انھوں نے کہا کہ امارات میں کئی لیگز ہوئیں تو پی ایس ایل کی انفرادیت ختم ہوجائے گی، ایسے میں مناسب یہی ہے کہ پورا ایونٹ پاکستان منتقل کر دیں۔

ایک اور فرنچائز آفیشل نے کہا کہ ایونٹ میں شریک ٹیموں کی آپس میں رقابت شروع ہوچکی جس سے شائقین بیحد لطف اندوز ہوتے ہیں، ہر ٹیم کے لاکھوں مداح ہیں، اگر آئندہ برس بعض غیرملکی کھلاڑی پاکستان آنے سے انکار کر دیں تب بھی ایونٹ کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، لہذا پی سی بی نے اگر ہم سے پوچھا تو جواب ہاں میں ہوگا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ امارات پر بھارتی اثرورسوخ بڑھنے سے پاکستان کو نقصان ہوا، پی ایس ایل کو ناکام بنانے کیلیے پہلے ایم سی ایل کرائی گئی جو بدترین انداز میں فلاپ ہوئی،پھر فکسنگ اسکینڈل سامنے آیا،گذشتہ برس ٹی ٹین لیگ لانچ کی گئی، بورڈ نے حیران کن طور پر اسے سپورٹ بھی کیا،کئی اسٹار پاکستانی کرکٹرز کی شرکت نے اسے کامیاب کرا دیا۔

البتہ اس بار پی سی بی ایونٹ کو ماضی کی طرح سپورٹ نہیں کرے گا مگر کھلاڑیوں کو ریلیز کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ گذشتہ دنوں برطانوی میڈیا میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق پاکستان 10 سال میں یو اے ای کو میچز کی میزبانی کے عوض200 ملین ڈالرز دے چکا ہے، ہر سال 20 ملین ڈالرز دیے جاتے ہیں، اس رقم سے ملک میں کئی اسٹیڈیمز تعمیر ہو سکتے تھے۔ فی الحال پی سی بی اس پوزیشن میں نہیں کہ ہوم سیریز بھی یو اے ای سے منتقل کر دے، اس لیے فوری طور پر صرف پی ایس ایل کے حوالے سے فیصلہ سامنے آ سکتا ہے، بطور متبادل نیوٹرل وینیو ملائیشیا پر بھی غور جاری تاہم وہاں یو اے ای جیسی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں