
شمالی اسرائیل کے رہائشی تین سالہ بچے کا نام مشہور فٹ بالر شاقیل اونیل پر رکھا گیا اور اس نے دو سال تک ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا تاہم اس دوران وہ چھوٹے چھوٹے الفاظ ادا کرتا رہا جن میں 'مائی ڈیئر' اور 'اوہ مائی گڈنیس' جیسے انگریزی الفاظ نمایاں تھے مگر اب وہ انگریزی کے مشکل الفاظ روانی سے ادا کرتا ہے، اس کے والدین پریشان ہیں کہ شاید یہ عربی نہیں سیکھ رہا بلکہ انگریزی میں آگے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی۔
ڈاکٹروں نے بتایا کہ ایسا گمان ہوتا ہے کہ اس بچے کی تربیت اور پرورش کسی انگریزی بولنے والے خاندان کے گھر میں ہوئی ہے جب کہ اس کے والدین انگریزی نہیں بولتے اور نہ ہی اس نے کبھی کسی انگریزی زبان والے ملک کا سفر کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے گھر میں انگریزی پروگرام بھی نہیں دیکھے جاتے تاہم ڈاکٹر محمود کی اس صلاحیت پر حیران ہیں۔
اسرائیلی نرس ایرت ہولمین نے کہا کہ بچہ حیرت انگیز یادداشت اور انگریزی الفاظ پر مہارت رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی مادری زبان عربی نہیں بول پارہا بعض افراد نے اسے کسی انگریز کا دوسرا جنم بھی قرار دیا ہے۔
بعض ماہرین نے کہا ہے کہ ننھا محمود ایک کیفیت 'زینوگلوسی' میں مبتلا ہے جس میں لوگ دوسری زبان سیکھے بغیر ازخود اجنبی زبان سیکھ جاتے ہیں تاہم اس کی اب تک کوئی سائنسی وجہ سامنے نہیں آسکی ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔