’ فاٹا ‘ غلامی سے آزادی تک
بلند وبالا پہاڑوں کی سرزمین کا انوکھا قصّہ جسے انگریز استعمار نے کالے قوانین بنا کر اپنے زیرنگیں کرنا چاہا تھا
''انسان خوش اس وقت ہوتا ہے جب وہ آزاد ہو...اور صرف بہادر و دلیر انسان ہی آزاد ہوتے ہیں۔''(یونانی مورخ،تھوسیڈائڈز)
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج کشمیریوں پرگاڑیاں چڑھا کر مار رہی ہے' تو اسرائیل میں اسرائیلی فوج نرسوں اور فلسطینیوں کو شست باندھ کے شہید کرتی ہے۔ یہ دونوں ظالم قوتیں انگریز استعمار کی پیداوار ہیں۔ ان انگریزوں نے جگہ جگہ اپنے گھناؤنے نقش چھوڑے۔
اس واقعہ کو ڈیرھ صدی سے زیادہ عرصہ بیت چلا جب جنگ آزادی1857ء میں فتح پا کر غاصب اور استعمار پسند انگریزوں نے ہندوستان کے بڑے حصے پر قبضہ جما لیا اور سونے کی اس چڑیا کو لوٹنے لگے۔ لیکن جلد ہی مغرب میں ایک ابھرتی طاقت، روس برطانوی ہند کے در پر د ست دینے لگی۔اب انگریزوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ روس ہندوستان پر قبضہ کر سکتا ہے۔
اسی لیے وہ افغانستان اوراس سے ملحقہ علاقوں کو اپنی عمل داری میں لانے کی کوششیں کرنے لگے تاکہ یہ علاقے روسی حملے کی صورت میں برطانوی ہند کی ابتدائی دفاعی لائنیں بن جائیں۔ مگر افغانستان اور محلقہ قبائلی علاقوں میں آباد پشتونوں نے انگریزوں کی حاکمیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چناںچہ پشتونوں اور انگریزوں کے مابین لڑائیوں کا طویل سلسلہ چھڑ گیا۔ کسی لڑائی میں پشتون جیت جاتے تو کسی لڑائی میں انگریز جدید ترین اسلحے کی بدولت فاتح رہے۔ بہرحال وہ پشتونوں کے علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل نہ کر سکے ا وروہاں کے باشندوں نے اپنی خود مختاری اور آزادی خاصی حد تک برقرار رکھی۔
لڑائیوں میں پشتون بڑی بے جگری' دلیری اور بے خوفی سے لڑتے۔ وہ توپوں اور رائفلوں کے سامنے بھی تلواریں سونت کر آجاتے ۔ سینوں پر گولیاں کھاتے مگر پیٹھ نہ دکھاتے۔ انگریزوں نے اسی زبردست بہادری کو پہلے بے وقوفی اور پاگل پن کا نام دیا۔ پھر وہ پشتونوں کو اجڈ ' غیر مہذب اور وحشی کے القابات سے یاد کرنے لگے۔انگریزوں کی فوج میں بیشتر فوجی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔
انگریزوں نے منظم سازش سے پنجاب کے فوجیوں میں یہ باتیں پھیلا دیں کہ پہاڑی علاقوں کے باشندے اجڈ' وحشی' اور ظالم ہیں۔ اس طرح وہ انہیں قبائلیوں کے خلاف ابھارنا چاہتے تھے۔''تقسیم کر کے خود حکومت کرو'' کی انگریز پالیسی بہت کامیاب رہی اور قبائلیوں اور اہل پنجاب کے مابین نفرت و عداوت پیدا ہوتی چلی گئی۔ فوجی جب اپنے گھر جاتے' تو وہاں بھی قبائلیوں کے خلاف باتیں کرتے۔ یوں یہ باتیں پھیل کر پنجاب کی عوامی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گئیں۔ ناخواندہ اور معصوم قبائلیوں اور اہل پنجاب ... دونوں کو احساس تک نہیں ہوا کہ انگریز غاصبوںنے بڑی عیاری اور چالاکی سے دونوں اقوام کو بالمقابل لا کھڑا کیا ۔
چالیس پچاس سال پہلے بچوں کو ڈرا دھمکا کر گھر لانے کا ایک معروف طریق کار یہ بھی تھا کہ مائیں کہتیں: ''علاقہ غیر کے آدمی تجھے پکڑ لے جائیں گے۔ تیرے بازو اور ٹانگیں توڑ کر تجھ سے بھیک منگوائیں گے۔'' اس زمانے میں اکثر بچوں کو علاقہ غیر کے باشندوں سے ڈرایا جاتا تھا کہ وہ بڑے وحشی اور ظالم ہیں۔ اسی لیے ان لوگوں کے متعلق پنجاب اور دیگر علاقوں میں عجیب وغریب باتیں پھیل گئیں۔جب میںنے شعور سنبھالا اور تاریخ و عمرانیات سے متعلق سیکڑوں کتب مطالعے میں آئیں تو منکشف ہوا کہ یہ ہندوستان کے انگریزی حاکم تھے جنہوںنے اپنے مفادات کی خاطر قبائلی علاقہ جات المعروف بہ علاقہ غیر کے باشندوں کو بدنام کیا۔
انگریزوں نے خاص طور پر پنجاب میں بڑے منظم و مربوط طریقے سے یہ پروپیگنڈا کیا کہ قبائلی علاقہ جات کے لوگ بڑے ظالم اور وحشی ہیں۔ اسی پروپیگنڈے کی وجہ سے پنجاب اور ملحقہ علاقوں میں انہیں ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ 1901ء میں انگریزوں نے قبائلی علاقہ جات کو اپنا ماتحت غلام بنانے کے لیے وہاں خوفناک اور غیر انسانی ''کالے قوانین'' (ایف سی آر) لاگو کر دیئے اور انگریز پولیٹکل ایجنٹ کسی ڈکیٹر کی طرح حکومت کرنے لگے۔ علاقے کے جو معززین (ملک) انگریز حکومت کا ساتھ دیتے' انہیں تو مراعات و نوازشات سے نوازا جاتا' مخالفین صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جاتے۔ غرض انگریز حاکموںنے قبائلی علاقہ جات میں ظلم و جبر کا بازار گرم کر دیا۔ انگریز خود کو جمہوریت پسند اور حقوق انسانی کا چمپئین کہتے ہیں۔ مگر قبائلی علاقہ جات میں انہوں نے پشتونوں پر جو خوفناک مظالم ڈھائے، وہ تاریخ انسانی کا سیاہ باب ہے۔
ان علاقوں پر قابض رہنے کی خاطر انگریزوں نے جھوٹ' سازش ' تقسیم کر کے حکومت کرو' جس کی لاٹھی اس کی بھینس، رشوت ،ظلم و جبر' ترغیب... غرض ہربدی کا سہارا لیا۔ جب 1947ء میں آخر انگریز استعمار کا خاتمہ ہوا تو قبائلی علاقہ جات میں یہ خبر پھیل گئی کہ علاقے ایک مسلم حکومت میں شامل ہو گئے ہیں۔اس پر قبائلیوں نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ یہی وجہ ہے ' مظلوم کشمیر کو ظالم ہندو شاہی سے آزاد کرانے کے لیے جو لشکر پشاور سے روانہ ہوا' اس میں بہت سے لشکری قبائلی تھے۔ آج ہمارے پاس جتنا بھی کشمیر موجود ہے' اسے آزاد کرانے میں قبائلیوں نے اہم کردار ادا کیا۔
قیام پاکستان کے بعد ہونا یہ چاہیے تھا کہ قبائلی علاقہ جات پر انگریز غاصبوں کے تھوپے گئے کالے قوانین ختم کر دیئے جاتے' مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اہم وجہ یہ کہ جس افسر شاہی نے پاکستان کا انتظام سنبھالا' وہ انگریزوں کی پروردہ تھی۔ انگریز بڑی مکاری سے مسلمان افسروں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کرنے میں کامیاب رہے تھے کہ قبائلی علاقہ جات کے باشندے فسادی' لڑاکے ' جنگجو اور جرائم پیشہ ہیں۔ یہ نظریہ اذہان میں ایسا جڑ پکڑ گیا کہ اسی کے زیر اثر ایف آر سی کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی قوانین قبائلی علاقوں میں برقرار رکھے گئے جنہیں اب ''فاٹا ''(وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات) کہا جانے لگا۔ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تو انگریزوں نے پھر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ریل پٹڑیاں بچھا دیں۔ سڑکیں اور پل بنوائے' بیراج بنا دیئے مگر قبائلی علاقہ جات کے باشندوں کی ترقی و خوشحالی پر ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کیا۔ وجہ یہی کہ انگریز علاقے کے باشندوں کو دانستہ ناخواندہ اور پس ماندہ رکھنا چاہتے تھے۔
انہیں خوف تھا کہ تعلیم سے شعور پا کر عام قبائلی باشندے اپنے حقوق مانگنے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کا اقتدار علاقہ غیر میں کمزور پڑ جائے گا۔دنیا کی ہر قوم میں جرائم پیشہ افراد ملتے ہیں۔ مگر عموماً ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اور نہ ہی ان مجرموں کے باعث کسی پوری قوم کو معتوب و نفرت انگیز ٹھہرایا جاتا ہے لیکن انگریز حاکم نے اچھے برے کی تمیز رکھے بغیر تمام قبائلیوں کو مجرم اور وحشی بنا ڈالا۔ یہی نہیں' انہوںنے دانستہ قبائلیوں اور غیر قبائلیوں کے مابین نفرت و دشمنی کے بیج بوئے تاکہ وہ آپ میں لڑ مریں اور انگریز خود مزے سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔
خدا خدا کر کے ستر سال بعد پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں کو ہوش آیا اور ماہ مئی میں سینٹ' قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے آئین میں اکتیسویں ترمیم اپنا کر قبائلی علاقہ جات کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دے دی۔ نیز انگریز استعمار کے وضع کردہ غیر انسانی و ظالمانہ کالے قوانین بھی ختم کر دیئے گئے۔ از روئے قانون دو سال کے اندر اندر فاٹا صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن جائے گا۔
تب تک ایک نئے مجموعہ قوانین ''فاٹا انٹرم گورنس ریگولیشن آف 2018ء''(Fata Interim Governance Regulation, 2018) کے تحت قبائلی علاقہ جات کا انتظام چلایا جائے گا۔بعض دانش وروں کو اس نئے مجموعہ قوانین پر کچھ اعتراضات ہیں۔ چند کا تو دعویٰ ہے کہ اس میں بدنام زمانہ ایف سی آر کے کچھ قانون بھی شامل کر دیئے گئے۔ گویا نئی بوتل میں پرانی شراب ڈال دی ۔فاٹا انٹرم گورنس ریگولیشن آف 2018ء کی رو سے پولیٹکل ایجنٹ اب ڈپٹی کمشنر کہلائے گا۔ جبکہ فاٹا کی سات قبائلی ایجنسیاں اب قبائلی اضلاع کہلائیں گی۔ جبکہ فاٹا میں شامل سرحدی علاقے( فرنٹیئر ریجن ) سب ڈویژن بنا دیئے گئے ۔ اس نئے مجموعہ قوانین میں مقامی سطح پر مقدمات نمٹانے والے جرگے اور قومی جرگہ برقرار رکھے گئے ہیں۔
ان نئے قوانین پر ماہرین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ پولیٹکل ایجنٹ کی طرح ڈپٹی کمشنر اور اس کے نائبین کو بہت زیادہ طاقتیں دے کر آمر بنا دیا گیا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کہ پہلے کی طرح اب بھی علاقے کے معززین (یا ملک) ہی طے کریں گے کہ کون سے ''رواج'' (مقامی رسم و رواج) لاگو کیے جائیں۔ ماضی میں انگریزوں اور پھر پاکستانی حکمرانوں کے پٹھو ملک انہی ''رواجوں'' سے فائدہ اٹھا کر غریب و مسکین قبائلیوں کا استحصال کرتے رہے ہیں ۔نئے قوانین میں یہ ذمے داری پھر مقامی سرداروں کو سونپ دی گئی۔
تیسرا اعتراض یہ کہ نئے قوانین میں کہیں یہ ذکر نہیں ، قبائلی علاقہ جات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں آ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ فاٹا کو ہر قسم کے سول کورٹ کی حد سے باہر رکھا گیا ہے۔ یہ معاملہ 31 ویں آئینی ترمیم سے متصادم ہے جس کے ذریعے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں قانونی طور پرمدغم کیا گیا۔چوتھا اعتراض یہ ہے کہ''فاٹا انٹرم گورنس ریگولیشن آف 2018ء'' پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کی خاطر پیش نہیں کیا گیا۔ گویا اب وجود میں آنے والی نئی اسمبلی اس نئے مجموعہ قوانین پربحث کرے گی جو فاٹا پر لاگو ہو چکا۔ اگر سابق اسمبلی میں یہ پیش کر دیا جاتا' تو اس کے سقم دور ہو سکتے تھے۔
ان تحفظات کے باوجود یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک نمایاں سیاسی جماعت کے علاوہ تمام جماعتوں نے پارلیمنٹ میں اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کیا اور فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا بل بھاری اکثریت سے منظور کرایا۔ امید ہے مستقبل میں ملک و قوم کے لیے مفید اقدامات منظور کرنے کی خاطر بھی قومی سیاسی جماعتیں ایسے ہی اتحاد و اتفاق کا امید افزا مظاہرہ پیش کریں گی۔فاٹا یا قبائلی علاقہ جات میں پچاس لاکھ سے زائد افراد آباد ہیں۔ ان میں سے 60 تا 70 فیصد باشندے خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت ان ہم وطنوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
فاٹا میں اسکول و کالج کھولے جائیں تاکہ وہاں تعلیم کی روشنی پھیل سکے۔ ترقیاتی منصوبے شروع ہوں تاکہ نہ صرف باشندگان فاٹا کو سہولیات زندگی میسر آئیںبلکہ انہیں روز گار بھی مل سکے۔ مویشی پالنا اور کاشت کاری ان کا بنیادی ذریعہ روز گار ہے۔ اس ضمن میں انہیں گلہ بانی اور کھیتی باڑی کے جدید طریقوں سے روشناس کرانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی آمدن بڑھا سکیں۔مکار انگریزوں نے سازش سے ڈیڑھ سو برس قبل قبائلی علاقہ جات کو علاقہ غیر میں بدل دیا تھا۔ اس کے باشندے بھی فسادی اور جرائم پیشہ کہلائے۔ مگر اب علاقہ غیر قصّہ ماضی بن چکا۔ اہل پاکستان کا فرض ہے کہ وہ باشندگان فاٹا کو گلے سے لگائیں اور ایسی گرم جوش محبت دیں کہ وہ اپنی تلخ تاریخ فراموش کر دیں۔ باہمی پیار ' الفت 'یگانگت اور قومی یک جہتی سے بھرا مستقبل ہم سب کی منزل ہونی چاہے۔
31 ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات
اس ترمیم کو فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کا بل بھی کہا گیا ۔اس کے خاص نکات یہ ہیں:
٭...یہ بل نو شقوں پر مشتمل ہے۔ دوسری شق میں آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم تجویز کی گئی جس کی رو سے آئین سے فاٹا کا لفظ ہمیشہ کے لیے نکل جائے گا۔
٭...2018 ء کے عام انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے۔اگلے الیکشن (2023ء )میںقومی اسمبلی میں فاٹا کی نشستیں بارہ سے کم ہوکر چھ ہو جائیں گی۔خیبر پختونخوا کا قومی اسمبلی میں موجودہ حصہ انتالیس سے بڑھ کر پینتالیس نشستیں ہو گا۔سینیٹ میں فاٹا کی موجودہ آٹھ نشستیں ختم ہوں گی۔سینٹ اراکان کی کل تعداد 104 سے کم ہو کر 96 ہوجائے گی۔قومی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہو گی۔ ملک میں براہ راست انتخاب 272 کے بجائے 266 حلقوں پر ہوگا۔قومی اسمبلی میں 266 عام نشستیں، 60 خواتین کی جبکہ 10 اقلیتوں کی نشستیں ہوں گی۔
٭... 2015 ء اور 2018 ء کے سینٹ انتخابات کے منتخب آٹھ سینیٹ اراکان اپنی مدت پوری کریں گے۔
٭... 2018 ء کے عام انتخابات میں فاٹا قومی اسمبلی کے بارہ رکن بھی اپنی مدت پوری کریں گے۔
٭... 2018 ء میں ہونے والے عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے۔
٭...فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکان کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔
٭...صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا میں فاٹا کا حصہ 16 عام نشستیں، خواتین کی 4 نشستیں اور 1 اقلیتی نشست ہوگی۔
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج کشمیریوں پرگاڑیاں چڑھا کر مار رہی ہے' تو اسرائیل میں اسرائیلی فوج نرسوں اور فلسطینیوں کو شست باندھ کے شہید کرتی ہے۔ یہ دونوں ظالم قوتیں انگریز استعمار کی پیداوار ہیں۔ ان انگریزوں نے جگہ جگہ اپنے گھناؤنے نقش چھوڑے۔
اس واقعہ کو ڈیرھ صدی سے زیادہ عرصہ بیت چلا جب جنگ آزادی1857ء میں فتح پا کر غاصب اور استعمار پسند انگریزوں نے ہندوستان کے بڑے حصے پر قبضہ جما لیا اور سونے کی اس چڑیا کو لوٹنے لگے۔ لیکن جلد ہی مغرب میں ایک ابھرتی طاقت، روس برطانوی ہند کے در پر د ست دینے لگی۔اب انگریزوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ روس ہندوستان پر قبضہ کر سکتا ہے۔
اسی لیے وہ افغانستان اوراس سے ملحقہ علاقوں کو اپنی عمل داری میں لانے کی کوششیں کرنے لگے تاکہ یہ علاقے روسی حملے کی صورت میں برطانوی ہند کی ابتدائی دفاعی لائنیں بن جائیں۔ مگر افغانستان اور محلقہ قبائلی علاقوں میں آباد پشتونوں نے انگریزوں کی حاکمیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چناںچہ پشتونوں اور انگریزوں کے مابین لڑائیوں کا طویل سلسلہ چھڑ گیا۔ کسی لڑائی میں پشتون جیت جاتے تو کسی لڑائی میں انگریز جدید ترین اسلحے کی بدولت فاتح رہے۔ بہرحال وہ پشتونوں کے علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل نہ کر سکے ا وروہاں کے باشندوں نے اپنی خود مختاری اور آزادی خاصی حد تک برقرار رکھی۔
لڑائیوں میں پشتون بڑی بے جگری' دلیری اور بے خوفی سے لڑتے۔ وہ توپوں اور رائفلوں کے سامنے بھی تلواریں سونت کر آجاتے ۔ سینوں پر گولیاں کھاتے مگر پیٹھ نہ دکھاتے۔ انگریزوں نے اسی زبردست بہادری کو پہلے بے وقوفی اور پاگل پن کا نام دیا۔ پھر وہ پشتونوں کو اجڈ ' غیر مہذب اور وحشی کے القابات سے یاد کرنے لگے۔انگریزوں کی فوج میں بیشتر فوجی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔
انگریزوں نے منظم سازش سے پنجاب کے فوجیوں میں یہ باتیں پھیلا دیں کہ پہاڑی علاقوں کے باشندے اجڈ' وحشی' اور ظالم ہیں۔ اس طرح وہ انہیں قبائلیوں کے خلاف ابھارنا چاہتے تھے۔''تقسیم کر کے خود حکومت کرو'' کی انگریز پالیسی بہت کامیاب رہی اور قبائلیوں اور اہل پنجاب کے مابین نفرت و عداوت پیدا ہوتی چلی گئی۔ فوجی جب اپنے گھر جاتے' تو وہاں بھی قبائلیوں کے خلاف باتیں کرتے۔ یوں یہ باتیں پھیل کر پنجاب کی عوامی تہذیب و ثقافت کا حصہ بن گئیں۔ ناخواندہ اور معصوم قبائلیوں اور اہل پنجاب ... دونوں کو احساس تک نہیں ہوا کہ انگریز غاصبوںنے بڑی عیاری اور چالاکی سے دونوں اقوام کو بالمقابل لا کھڑا کیا ۔
چالیس پچاس سال پہلے بچوں کو ڈرا دھمکا کر گھر لانے کا ایک معروف طریق کار یہ بھی تھا کہ مائیں کہتیں: ''علاقہ غیر کے آدمی تجھے پکڑ لے جائیں گے۔ تیرے بازو اور ٹانگیں توڑ کر تجھ سے بھیک منگوائیں گے۔'' اس زمانے میں اکثر بچوں کو علاقہ غیر کے باشندوں سے ڈرایا جاتا تھا کہ وہ بڑے وحشی اور ظالم ہیں۔ اسی لیے ان لوگوں کے متعلق پنجاب اور دیگر علاقوں میں عجیب وغریب باتیں پھیل گئیں۔جب میںنے شعور سنبھالا اور تاریخ و عمرانیات سے متعلق سیکڑوں کتب مطالعے میں آئیں تو منکشف ہوا کہ یہ ہندوستان کے انگریزی حاکم تھے جنہوںنے اپنے مفادات کی خاطر قبائلی علاقہ جات المعروف بہ علاقہ غیر کے باشندوں کو بدنام کیا۔
انگریزوں نے خاص طور پر پنجاب میں بڑے منظم و مربوط طریقے سے یہ پروپیگنڈا کیا کہ قبائلی علاقہ جات کے لوگ بڑے ظالم اور وحشی ہیں۔ اسی پروپیگنڈے کی وجہ سے پنجاب اور ملحقہ علاقوں میں انہیں ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ 1901ء میں انگریزوں نے قبائلی علاقہ جات کو اپنا ماتحت غلام بنانے کے لیے وہاں خوفناک اور غیر انسانی ''کالے قوانین'' (ایف سی آر) لاگو کر دیئے اور انگریز پولیٹکل ایجنٹ کسی ڈکیٹر کی طرح حکومت کرنے لگے۔ علاقے کے جو معززین (ملک) انگریز حکومت کا ساتھ دیتے' انہیں تو مراعات و نوازشات سے نوازا جاتا' مخالفین صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جاتے۔ غرض انگریز حاکموںنے قبائلی علاقہ جات میں ظلم و جبر کا بازار گرم کر دیا۔ انگریز خود کو جمہوریت پسند اور حقوق انسانی کا چمپئین کہتے ہیں۔ مگر قبائلی علاقہ جات میں انہوں نے پشتونوں پر جو خوفناک مظالم ڈھائے، وہ تاریخ انسانی کا سیاہ باب ہے۔
ان علاقوں پر قابض رہنے کی خاطر انگریزوں نے جھوٹ' سازش ' تقسیم کر کے حکومت کرو' جس کی لاٹھی اس کی بھینس، رشوت ،ظلم و جبر' ترغیب... غرض ہربدی کا سہارا لیا۔ جب 1947ء میں آخر انگریز استعمار کا خاتمہ ہوا تو قبائلی علاقہ جات میں یہ خبر پھیل گئی کہ علاقے ایک مسلم حکومت میں شامل ہو گئے ہیں۔اس پر قبائلیوں نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ یہی وجہ ہے ' مظلوم کشمیر کو ظالم ہندو شاہی سے آزاد کرانے کے لیے جو لشکر پشاور سے روانہ ہوا' اس میں بہت سے لشکری قبائلی تھے۔ آج ہمارے پاس جتنا بھی کشمیر موجود ہے' اسے آزاد کرانے میں قبائلیوں نے اہم کردار ادا کیا۔
قیام پاکستان کے بعد ہونا یہ چاہیے تھا کہ قبائلی علاقہ جات پر انگریز غاصبوں کے تھوپے گئے کالے قوانین ختم کر دیئے جاتے' مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اہم وجہ یہ کہ جس افسر شاہی نے پاکستان کا انتظام سنبھالا' وہ انگریزوں کی پروردہ تھی۔ انگریز بڑی مکاری سے مسلمان افسروں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کرنے میں کامیاب رہے تھے کہ قبائلی علاقہ جات کے باشندے فسادی' لڑاکے ' جنگجو اور جرائم پیشہ ہیں۔ یہ نظریہ اذہان میں ایسا جڑ پکڑ گیا کہ اسی کے زیر اثر ایف آر سی کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی قوانین قبائلی علاقوں میں برقرار رکھے گئے جنہیں اب ''فاٹا ''(وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات) کہا جانے لگا۔ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تو انگریزوں نے پھر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ریل پٹڑیاں بچھا دیں۔ سڑکیں اور پل بنوائے' بیراج بنا دیئے مگر قبائلی علاقہ جات کے باشندوں کی ترقی و خوشحالی پر ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کیا۔ وجہ یہی کہ انگریز علاقے کے باشندوں کو دانستہ ناخواندہ اور پس ماندہ رکھنا چاہتے تھے۔
انہیں خوف تھا کہ تعلیم سے شعور پا کر عام قبائلی باشندے اپنے حقوق مانگنے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کا اقتدار علاقہ غیر میں کمزور پڑ جائے گا۔دنیا کی ہر قوم میں جرائم پیشہ افراد ملتے ہیں۔ مگر عموماً ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اور نہ ہی ان مجرموں کے باعث کسی پوری قوم کو معتوب و نفرت انگیز ٹھہرایا جاتا ہے لیکن انگریز حاکم نے اچھے برے کی تمیز رکھے بغیر تمام قبائلیوں کو مجرم اور وحشی بنا ڈالا۔ یہی نہیں' انہوںنے دانستہ قبائلیوں اور غیر قبائلیوں کے مابین نفرت و دشمنی کے بیج بوئے تاکہ وہ آپ میں لڑ مریں اور انگریز خود مزے سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔
خدا خدا کر کے ستر سال بعد پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں کو ہوش آیا اور ماہ مئی میں سینٹ' قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے آئین میں اکتیسویں ترمیم اپنا کر قبائلی علاقہ جات کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی منظوری دے دی۔ نیز انگریز استعمار کے وضع کردہ غیر انسانی و ظالمانہ کالے قوانین بھی ختم کر دیئے گئے۔ از روئے قانون دو سال کے اندر اندر فاٹا صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن جائے گا۔
تب تک ایک نئے مجموعہ قوانین ''فاٹا انٹرم گورنس ریگولیشن آف 2018ء''(Fata Interim Governance Regulation, 2018) کے تحت قبائلی علاقہ جات کا انتظام چلایا جائے گا۔بعض دانش وروں کو اس نئے مجموعہ قوانین پر کچھ اعتراضات ہیں۔ چند کا تو دعویٰ ہے کہ اس میں بدنام زمانہ ایف سی آر کے کچھ قانون بھی شامل کر دیئے گئے۔ گویا نئی بوتل میں پرانی شراب ڈال دی ۔فاٹا انٹرم گورنس ریگولیشن آف 2018ء کی رو سے پولیٹکل ایجنٹ اب ڈپٹی کمشنر کہلائے گا۔ جبکہ فاٹا کی سات قبائلی ایجنسیاں اب قبائلی اضلاع کہلائیں گی۔ جبکہ فاٹا میں شامل سرحدی علاقے( فرنٹیئر ریجن ) سب ڈویژن بنا دیئے گئے ۔ اس نئے مجموعہ قوانین میں مقامی سطح پر مقدمات نمٹانے والے جرگے اور قومی جرگہ برقرار رکھے گئے ہیں۔
ان نئے قوانین پر ماہرین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ پولیٹکل ایجنٹ کی طرح ڈپٹی کمشنر اور اس کے نائبین کو بہت زیادہ طاقتیں دے کر آمر بنا دیا گیا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کہ پہلے کی طرح اب بھی علاقے کے معززین (یا ملک) ہی طے کریں گے کہ کون سے ''رواج'' (مقامی رسم و رواج) لاگو کیے جائیں۔ ماضی میں انگریزوں اور پھر پاکستانی حکمرانوں کے پٹھو ملک انہی ''رواجوں'' سے فائدہ اٹھا کر غریب و مسکین قبائلیوں کا استحصال کرتے رہے ہیں ۔نئے قوانین میں یہ ذمے داری پھر مقامی سرداروں کو سونپ دی گئی۔
تیسرا اعتراض یہ کہ نئے قوانین میں کہیں یہ ذکر نہیں ، قبائلی علاقہ جات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں آ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ فاٹا کو ہر قسم کے سول کورٹ کی حد سے باہر رکھا گیا ہے۔ یہ معاملہ 31 ویں آئینی ترمیم سے متصادم ہے جس کے ذریعے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں قانونی طور پرمدغم کیا گیا۔چوتھا اعتراض یہ ہے کہ''فاٹا انٹرم گورنس ریگولیشن آف 2018ء'' پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کی خاطر پیش نہیں کیا گیا۔ گویا اب وجود میں آنے والی نئی اسمبلی اس نئے مجموعہ قوانین پربحث کرے گی جو فاٹا پر لاگو ہو چکا۔ اگر سابق اسمبلی میں یہ پیش کر دیا جاتا' تو اس کے سقم دور ہو سکتے تھے۔
ان تحفظات کے باوجود یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک نمایاں سیاسی جماعت کے علاوہ تمام جماعتوں نے پارلیمنٹ میں اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کیا اور فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا بل بھاری اکثریت سے منظور کرایا۔ امید ہے مستقبل میں ملک و قوم کے لیے مفید اقدامات منظور کرنے کی خاطر بھی قومی سیاسی جماعتیں ایسے ہی اتحاد و اتفاق کا امید افزا مظاہرہ پیش کریں گی۔فاٹا یا قبائلی علاقہ جات میں پچاس لاکھ سے زائد افراد آباد ہیں۔ ان میں سے 60 تا 70 فیصد باشندے خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت ان ہم وطنوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
فاٹا میں اسکول و کالج کھولے جائیں تاکہ وہاں تعلیم کی روشنی پھیل سکے۔ ترقیاتی منصوبے شروع ہوں تاکہ نہ صرف باشندگان فاٹا کو سہولیات زندگی میسر آئیںبلکہ انہیں روز گار بھی مل سکے۔ مویشی پالنا اور کاشت کاری ان کا بنیادی ذریعہ روز گار ہے۔ اس ضمن میں انہیں گلہ بانی اور کھیتی باڑی کے جدید طریقوں سے روشناس کرانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی آمدن بڑھا سکیں۔مکار انگریزوں نے سازش سے ڈیڑھ سو برس قبل قبائلی علاقہ جات کو علاقہ غیر میں بدل دیا تھا۔ اس کے باشندے بھی فسادی اور جرائم پیشہ کہلائے۔ مگر اب علاقہ غیر قصّہ ماضی بن چکا۔ اہل پاکستان کا فرض ہے کہ وہ باشندگان فاٹا کو گلے سے لگائیں اور ایسی گرم جوش محبت دیں کہ وہ اپنی تلخ تاریخ فراموش کر دیں۔ باہمی پیار ' الفت 'یگانگت اور قومی یک جہتی سے بھرا مستقبل ہم سب کی منزل ہونی چاہے۔
31 ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات
اس ترمیم کو فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کا بل بھی کہا گیا ۔اس کے خاص نکات یہ ہیں:
٭...یہ بل نو شقوں پر مشتمل ہے۔ دوسری شق میں آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم تجویز کی گئی جس کی رو سے آئین سے فاٹا کا لفظ ہمیشہ کے لیے نکل جائے گا۔
٭...2018 ء کے عام انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے۔اگلے الیکشن (2023ء )میںقومی اسمبلی میں فاٹا کی نشستیں بارہ سے کم ہوکر چھ ہو جائیں گی۔خیبر پختونخوا کا قومی اسمبلی میں موجودہ حصہ انتالیس سے بڑھ کر پینتالیس نشستیں ہو گا۔سینیٹ میں فاٹا کی موجودہ آٹھ نشستیں ختم ہوں گی۔سینٹ اراکان کی کل تعداد 104 سے کم ہو کر 96 ہوجائے گی۔قومی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہو گی۔ ملک میں براہ راست انتخاب 272 کے بجائے 266 حلقوں پر ہوگا۔قومی اسمبلی میں 266 عام نشستیں، 60 خواتین کی جبکہ 10 اقلیتوں کی نشستیں ہوں گی۔
٭... 2015 ء اور 2018 ء کے سینٹ انتخابات کے منتخب آٹھ سینیٹ اراکان اپنی مدت پوری کریں گے۔
٭... 2018 ء کے عام انتخابات میں فاٹا قومی اسمبلی کے بارہ رکن بھی اپنی مدت پوری کریں گے۔
٭... 2018 ء میں ہونے والے عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے۔
٭...فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکان کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔
٭...صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا میں فاٹا کا حصہ 16 عام نشستیں، خواتین کی 4 نشستیں اور 1 اقلیتی نشست ہوگی۔