عوامی مفادات کی کامیاب سیاست
حقائق کو سمجھنے کے لیے حالات کو اس کے پس منظر میں دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔
WEST BROMWICH:
دنیا آج جنگوں ، نفرتوں ، معاشی استحصال کی لعنتوں میں اس طرح گھرگئی ہے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ بیسویں صدی کے آخر تک دنیا دو مخالف کیمپوں میں بٹی ہوئی تھی، اب دنیا صرف سرمایہ دارانہ نظام کے محور پرگھوم رہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام طبقاتی استحصال کی بنیادوں پرکھڑا ہے، دنیا کا 90 فیصد کے قریب حصہ غربت کی چکی میں پس رہا ہے اور محض دو فیصد حصہ دنیا کی ہر نعمت سے مستفید ہو رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں میں جنگ اور اسلحے کی تیاری اور تجارت ایک مضبوط بنیاد تسلیم کی جاتی ہے ۔ دونوں عالمی جنگوں سے لے کر آج تک لڑی جانے والی ہر جنگ میں اسلحے کی تیاری اور فروخت بنیادی حیثیت کے حامل رہے ہیں ۔
پسماندہ ملکوں کا کرپٹ حکمران طبقہ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام میں جنگوں کی ضرورت اور اہمیت سے واقف تو ہے لیکن اپنے مفادات اور لوٹ مار کی سہولتوں کی وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت نہیں کرتا ۔ ابھی حال میں شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان جو جنگی فضا بن گئی تھی، اس سے دنیا بھرکے اہل علم اور اہل دانش سخت پریشان تھے کیونکہ بدقسمتی سے آج امریکا کا اقتدار ایک ایسے نیم پاگل شخص کے ہاتھوں میں ہے جو فطرتاً جنگ پسند اور متعصب ہے دوسری طرف شمالی کوریا کے رہنما بھی عجلت پسندی کا شکار ہیں لیکن بوجوہ یہ ممکنہ جنگ ٹل گئی اور دنیا نے سکھ کا سانس لیا۔ اس تناظر میں ہم سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کا ایک اجمالی جائزہ لیتے ہیں تاکہ جنگی اور استحصالی قوتوں کی نشان دہی کے ساتھ سوشلزم کے مثبت پہلو سامنے آسکیں۔
دنیا ڈھائی سو سال سے سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے آج اس ظالمانہ نظام کی وجہ سے دنیا کا لگ بھگ 90 فیصد حصہ غربت بھوک اور افلاس کی چکی میں پس رہا ہے۔ 1917 میں ماوک اور انجیلا نے برسوں اس ظالمانہ نظام کی اسٹڈی کرکے ایک بہتر متبادل سوشلزم کے نام سے پیش کیا۔ مارکس کے اس فلسفے پر عمل کرتے ہوئے 1917 میں ایک انقلاب برپا کیا گیا جسے پرولتاری انقلاب کہا گیا۔ اس انقلاب نے نہ صرف روس کی دنیا بدل دی بلکہ دنیا کا 1/3 حصہ سوشلزم کے زیر اثر آگیا۔
اس نظام کی بدولت 50 سال کے اندر اندر روس سپر پاور بن گیا۔ اس نظام کی بنیاد طبقاتی استحصالی کے خاتمے پر رکھی گئی۔ اس کا آخری مقصد طبقاتی نظام کا خاتمہ تھا۔ بلاشبہ یہ دونوں ہی مقصد انسانیت کی بھلائی سے تعلق رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ یہ نظام بہت کم عرصے میں ساری دنیا میں مقبول ہوگیا، اس نظام کی مقبولیت نے سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کی نیندیں اڑا دیں اور انھوں نے اس نظام کو ہر قیمت پر ختم کرنے کا تہیہ کرلیا۔
اس حوالے سے سب سے بڑا گیم یہ کھیلا گیا کہ سوشلزم کو لادینی نظام بتا کر اہل ایمان کے یقین اور نظریات کی تہہ میں بارودی سرنگیں بچھانے کی کوشش کی گئی تاکہ ان کی ہمدردیاں سوشلزم کی طرف نہ ہوجائیں۔ بدقسمتی سے مسلم ملکوں خصوصاً پاکستان میں امریکی پروپیگنڈا بڑی حد تک کامیاب رہا اور دینی حلقوں نے نادانستہ ہی صحیح سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کے جال میں پھنس کر سوشلزم کی مخالفت کی لیکن پھر بھی سوشلزم اپنی طبقات مخالف پالیسی کی وجہ مقبول ہوتا رہا ۔
ہم حالات کو ہمیشہ ان کے پیش منظر میں دیکھتے رہے ہیں، جب کہ حقائق کو سمجھنے کے لیے حالات کو اس کے پس منظر میں دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر فلسطین کے مسئلے کو لے لیجیے فلسطینیوں پر مظالم اسرائیل کر رہا ہے اور دنیا خاص طور پر مسلم دنیا میں اسرائیلی ہی ظالم کہلائے جاتے ہیں جب کہ اسرائیل کا وجود اور اس کی بقا کی اصل وجہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سرپرستی ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مصنوعی سرپرست سرمایہ دارانہ نظام ہے لیکن ہماری توجہ صرف اسرائیل پر مرتکز رہتی ہے۔ امریکا اور سرمایہ دارانہ نظام ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں ۔
یہی وہ تکنیک ہے جو امریکا اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست بڑی کامیابی سے استعمال کررہے ہیں۔ اسی حوالے سے بھارت اورکشمیر کے مسئلے پر نظر ڈالیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مسئلہ کشمیر 70 سالوں سے بھارتی حکمرانوں کی تنگ نظری کا شکار ہے اور عام طور پر دنیا بھارت ہی کو کشمیر کے مسئلے کا ذمے دار سمجھتی ہے لیکن مسئلہ کشمیر کا تعلق عالمی سیاست سے بھی ہے امریکا نے چین کے خلاف جو حصار بنا رکھا ہے اس حصار میں بھارت کی حیثیت سینئر پارٹنرکی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور استحکام کے لیے اسرائیل اور بھارت جیسے کردار بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور اس حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں ہتھیاروں کی تجارت لہو بن کر دوڑتی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور پاکستان کا جو سرمایہ ہتھیاروں کی خریداری پر لگتا ہے وہی سرمایہ سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط اور اس کے شکار دنیا کے انسانوں کو کمزور کرتا ہے یہ سارے وہ حربے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست پردے کے پیچھے بیٹھ کر استعمال کرتے ہیں۔ کیا عام آدمی ان حربوں کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے؟
سوشلزم کے حامیوں کی سب سے بڑی غلطی یا حماقت یہ ہے کہ یہ حضرات سوشلزم کی بات تو کرتے ہیں لیکن انسانوں کے سب سے بڑے دشمن سرمایہ دارانہ نظام کی ستم ظریفیوں سے عوام کو واقف کراتے ہیں نہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکیں چلاتے ہیں۔ اسی احمقانہ غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور مضبوط ہو رہا ہے سوشلزم اور کمزور ہو رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عملی میدان میں سوشلزم مات کھا گیا ہے لیکن فکری دنیا میں سوشلزم نہ صرف زندہ ہے بلکہ پوری طاقت سے موجود ہے۔
مسلم دنیا خاص طور پر پاکستان جیسے ملکوں میں امریکی پروپیگنڈے کی وجہ سے عام آدمی میں بدگمانیاں تو پیدا ہوگئی ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم اور طبقاتی استحصال ایسی کھلی شکل میں موجود ہے کہ اگر اس کے مظالم کے خلاف ایک منصوبہ بند اور منظم تحریک چلائی جائے تو نہ صرف عوام کی غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں بلکہ دینی حلقوں کے متعصبانہ انداز فکر میں بھی تبدیلی آسکتی ہے۔ کیونکہ دینی حلقوں اور دینی جماعتوں کے کارکن اور حمایتی بھی اس سرمایہ دارانہ استحصال کا شکار ہیں جس کے شکار پاکستان کے 21 کروڑ اور دنیا کے 7 ارب انسان ہیں۔
حیرت ہے کہ پاکستان کے انقلابی حلقے اب تک اسٹڈی سرکلز سے باہر نہ نکل سکے اور کھلی سیاست کے ذریعے اپنی بات اپنا پروگرام اپنا منشور عوام تک نہ پہنچا سکے اس میں شک نہیں کہ ارب پتیوں کی سیاست میں محنت کشوں کی سیاست دبی رہے گی لیکن جو سیاست عوامی مفادات پر مبنی ہوتی ہے وہ آخر کارکامیاب و کامران رہتی ہے۔