کرپشن کے دفاع میں حقائق مسخ

میگا کرپٹ کرداروں اور ان کی میگا کرپشن کے حامی کہتے ہیں کہ 3 ہزار ارب روپوں کی کرپشن نہیں کی جاسکتی۔

moazzamhai@hotmail.com

ملک میں اس وقت میگا کرپٹ لوگوں اور ان کی میگا کرپشن کا دفاع کرنے والے میڈیا کے مختلف عناصرکو معاشرے میں ہر سو پھیلی کم علمی اور جہالت سے بڑا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ اپنے اپنے گاڈ فادرز کی کرپشن کے دفاع میں بڑی آسانی سے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔ حق وفاداری ادا کرنا ان کا حق ہے تاہم لوگوں کا بھی حق ہے کہ ان تک مسخ کرکے پیش کیے جانے والے حقائق، ان تک اپنی صحیح حالت میں پہنچائے جائیں۔

اس وقت حقائق کو کیسے چائنا کٹنگ کرکے استعمال کیا جا رہا ہے اس کی ذرا چند مثالیں دیکھتے ہیں۔ اس وقت شریف خاندان پہ اس ملک 300 ارب سے لے کر 3000 ارب روپوں تک کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ یہ الزامات صحیح ہیں یا غلط اس کا فیصلہ تو ظاہر ہے کہ عدالتیں ہی کریں گی تاہم اس مبینہ میگا کرپشن کے دفاع میں جس طرح حقائق کو گھمایا پھرایا جا رہا ہے اسے ایکسپوز کرنا ضروری ہے۔

مثلاً کالم لکھے جا رہے ہیں کہ پاکستان کے تو 1990ء کی دہائی میں بجٹ ہی اتنے نہیں تھے کہ 3 ہزار ارب روپوں کی کرپشن کی جاتی! تو جناب! آپ 2008ء سے اب تک کا حساب کیوں گول کر رہے ہیں؟ 2008ء میں اس این آر او مارکہ جمہوریت کے آغاز میں پاکستان پہ چڑھے قرضے 6 کھرب روپے تھے جو اب 24 کھرب ہوچکے ہیں۔ یعنی ملک کے ساٹھ سالوں میں 6 کھرب یعنی 6 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے گئے اور 2008ء سے 2018ء تک جمہوریت کے صرف 10 سال میں 18 کھرب یعنی 18 ہزار ارب روپوں سے زائد کے قرضے لیے گئے۔

آپ ذرا ملک میں گھوم پھر کر دیکھ لیں، نلوں میں آتا غلیظ پانی پئیں، سہولتوں سے محروم اسپتال، تباہ حال سرکاری اسکول دیکھیں، کہیں سے لگتا ہے کہ دس سالوں میں لیے جانے والے یہ 18 ہزار ارب روپوں کے قرضے اس ملک پہ خرچ کیے گئے؟ پورے سندھ اور پنجاب، اسلام آباد میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں جسے شریف اور زرداری خاندان اپنے علاج کے قابل سمجھ سکیں۔ پھر کہتے ہیں کہ پنجاب اور سکھر کے اسپتال یورپ کے اسپتالوں کے برابر ہیں، اگر ایسا ہے تو پھر یورپ کے اسپتالوں میں کیوں اپنا علاج کرایا جاتا ہے؟

میگا کرپشن اور میگا کرپٹ کے حاکم کچھ سیلف میڈ بقراط سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں موجود پاکستان سے لے جائے گئے ہزاروں ارب روپوں کے معاملے کو مشکوک بنانے کے لیے ایک طرف ایسے ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے یہ کسی نے ہوائی اڑائی ہے اور سوئس بینکوں میں پاکستان کا کوئی مال نہیں اور دوسری طرف یہ ''دانشور'' یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر سوئس بینکوں میں پاکستان کا کچھ مال پڑا بھی ہے تو یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ناجائز مال ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جناب نمبر ایک کسی اور نے نہیں بلکہ خود شریف حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 9 مئی 2014ء کو قومی اسمبلی کو بتایا کہ پاکستان سے لے جائے گئے کوئی 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں چھپائے گئے ہیں۔

جی ہاں 200 ارب ڈالر جو بنتے ہیں کوئی 23 ہزار 4 سو ارب روپے۔ لیجیے جناب یہاں میگا کرپٹ اور میگا کرپشن کے حامی کالم نگار اور ٹی وی اینکر 3 ہزار ارب روپے لوٹے جانے کا امکان پہ شکوک و شبہات کھڑے کر رہے ہیں اور وہاں ان کی محبوب حکومت کا اپنا وزیر خزانہ کہہ رہا ہے کہ صرف سوئس بینکوں میں ہی پاکستان کے تقریباً ساڑھے 23 ہزار ارب روپے چھپائے گئے ہیں۔ نمبر دو۔ اور جناب! اگر سوئس بینکوں میں موجود یہ 200 ارب ڈالر پاکستان میں جائز طریقوں سے کما کر پاکستان سے باہر جائز طریقوں سے لے جائے گئے تو پھر ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس ان کا مکمل حساب کتاب کیوں نہیں ہے؟


میگا کرپٹ اور میگا کرپشن کے حامی یہ بھی ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ پاکستان پہ لادے گئے ان بھاری بھرکم قرضوں کا شور خوامخواہ ہی میں مچایا جا رہا ہے جب کہ دنیا کے کئی ملکوں کے قرضے پاکستان پہ چڑھائے گئے قرضوں سے کہیں زیادہ ہیں تو جناب! ایک تو یہ کہ صرف دس سال میں پاکستان کے ساٹھ سالوں میں لیے گئے قرضوں سے تین گنا زیادہ قرضے لیے گئے اور یہ قرضے کہاں گئے یہ بھی پوری طرح سے نہیں پتہ۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کی معیشت زوال پذیر ہے۔

برآمدات درآمدات کے نصف پہ پہنچ رہی ہیں، سی پیک جس کا اتنا شور ہے اس کا بھی بہت بڑا حصہ مہنگے کمرشل قرضوں پہ مشتمل ہے، ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر کراچی دیہی سندھ کی نمایندہ پیپلز پارٹی کی نااہل وڈیرہ جمہوریت کے ہاتھوں تباہ ہو کے کوڑاچی میں تبدیل ہوچکا ہے، ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی بالخصوص چھوٹی اور درمیانی صنعتیں سستے چینی مال اور سرکاری اداروں کی کرپشن کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہیں، مثلاً آپ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل صنعتوں کی تباہی دیکھ لیجیے۔ تو جناب! قصہ مختصر آپ کسی بھی طرح پاکستان پہ لادے گئے قرضوں کے معاملے کا دوسرے ملکوں کے قرضوں سے موازنہ نہیں کرسکتے۔

اب آپ ذرا ایک اور کاریگری ملاحظہ کیجیے۔ میگا کرپشن کے حامی میڈیا دانشوروں کا شور مچانا ہے کہ نواز شریف پہ براستہ دبئی بھارت 4.9 ارب ڈالر منی لانڈرنگ کرنے کا الزام صحیح ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ دنیا میں اتنی بڑی رقم کسی ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنا ممکن نہیں۔ چلیے ہوسکتا ہے کہ نواز شریف پہ یہ الزام ثابت نہ ہو مگر یہ جو آپ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ 4.9 ارب ڈالر جتنی بڑی رقم ملک سے منی لانڈرنگ نہیں کی جاسکتی تو یہ ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔

خود پاکستان کے کرپٹ حکمران طبقے کے گاڈ فادر امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی پچھلے سال 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے ہر سال 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جاتی ہے یعنی کوئی ایک ہزار دو سو ارب روپے۔ اب کیا آپ یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی اس رپورٹ کو بھی جھٹلائیں گے؟ مسخ کریں گے؟ ضرور کریں گے مگر یاد رکھیں کہ یہ رپورٹس پوری دنیا میں معتبر مانی جاتی ہیں۔ اب آپ ذرا ایک اور معاملہ دیکھیے۔ ایف بی آر نے قومی اسمبلی کی فنانس پہ اسٹیڈنگ کمیٹی کو پچھلے سال اکتوبر میں بتایا کہ صرف دبئی ہی کی پراپرٹی مارکیٹ میں پاکستانیوں نے صرف پچھلے چار سال میں ہی 8 ارب ڈالر یعنی کوئی 936 ارب روپوں کی سرمایہ کاری کی ہے۔

میگا کرپٹ کرداروں اور ان کی میگا کرپشن کے حامی کہتے ہیں کہ 3 ہزار ارب روپوں کی کرپشن نہیں کی جاسکتی جب کہ حقائق یہ ہیں کہ صرف دس سال میں ہی ملک پہ 18 ہزار ارب روپوں کے قرضے چڑھا لیے گئے ہیں، 20 ہزار ارب روپوں سے زیادہ کا پاکستان کا مال سوئس بینکوں میں پڑا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ 4 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ نہیں کی جاسکتی جب کہ دنیا کہتی ہے کہ پاکستان سے ہر سال10ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جاتی ہے، صرف چار سال میں صرف دبئی میں ہی آٹھ ارب ڈالر کی جائیدادیں خریدی جاتی ہیں اور کرپشن کے یہ حامی ہیں کہ۔۔۔۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔

خدا کے خوف پہ یاد آیا کہ میگا کرپٹ اور میگا کرپشن کے حامی ''دانشوروں'' نے روحانی حقائق بھی اپنی مرضی سے گھما پھرا کر پیش کرنے شروع کردیے ہیں۔ یہ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ 100 لوگوں کو بھی قتل کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ ایک توبہ سے سب معاف۔ لوگوں کا مال چرانا، حق مارنا بھی بس ایک توبہ سے معاف یعنی یہ کہ اگر ان کا مربی کوئی بھی حکمران ایک درجن سے زیادہ نہتے لوگوں کو سڑکوں پہ پولیس سے مروا دے تو کوئی بڑی بات نہیں، ان کے کسی مربی حکمران کا کوئی ''بہادر بچہ'' 400 سے زیادہ بے گناہ انسانوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کرادے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ صرف ایک توبہ، ایک عبادت اور سب معاف۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ درجنوں انسانی جانیں لینا اور کروڑوں لوگوں کا اربوں، کھربوں کا مال لوٹنا اور انھیں طرح طرح سے تکلیفیں پہنچانا تو دور کی بات ہمارے دین مبین نے تو صاف صاف بتا دیا ہے کہ حقوق العباد کا رتی برابر گناہ، معمولی ترین زیادتی بھی رب ذوالجلال اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک متاثرہ فریق سچے دل سے، بنا کسی دباؤ کے خود سے معاف نہ کردے۔

آپ کرپٹ اور کرپشن کے دفاع میں حقائق مسخ کرسکتے ہیں۔ انھیں بدل نہیں سکتے۔
Load Next Story