ہم نے پاکستان کو کیا دیا

ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے، لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔ اب بڑی بڑی ذمے داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں۔

shabbirarman@yahoo.com

ستائیس رمضان المبارک 1366 ہجری کو ہمارا ملک پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر اور لاکھوں انسانی جانوں کا نذرانہ دینے، جائیداد اور مال ومتاع پیش کرنے کے بعد انگریز سامراج کی غلامی سے آزاد ہوا تھا۔

اس سے پہلے کہ آزادی کی قدر ومنزلت پر کہا جائے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور اس نسبت سے پاکستان کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کے مطابق پاکستان میں قرآن و سنت کے قوانین کا نفاذ ہوگا اور آئین پاکستان کے مطابق بتدریج پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا جائے گا، لیکن بد قسمتی سے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی راہ میں متواتر رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں جو ایک الگ موضوع ہے۔

یہاں ذکر مقصود یہ ہے کہ جو ملک خاص اسلام کی سر بلندی کے لیے معرض وجود میں آیا ہو اس ملک کی یوم تشکر آزادی پاکستان 27 رمضان المبارک کو منایا جائے تو یہ ایک بہتر عمل ہوگا، بلاشبہ ایک مسلمان کے لیے 27 رمضان المبارک کی شب ہزاروں راتوں سے افضل ترین ہے، شب قدرکی اس مبارک ساعت میں نزول قرآن ہوا، پورا مہینہ برکتوں کا مہینہ ہے اس سے بڑھ کر اور کیا پاکستانیوں پر رحمت ہوگی کہ دن بھی جمعۃ الوداع! الحمداللہ! یعنی ایک طرف اللہ تعالیٰ پورے کائنات کی فلاح کے لیے دنیا میں نزول قرآن فرما رہے ہیں اور دوسری طرف اس روز اسلام کے نام پر پاکستان کو دنیا کے نقشے پر نمودار کررہے ہیں اور قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے لیے قرآن حکیم کو دستور قرار دیتے ہیں۔

مگر ان تمام نعمتوں کو ہم نے دانستہ طور پر ٹھکرا کر اپنے آپ کو بھلا بیٹھے ہیں اور اس راہ پر چل پڑی ہیں جہاں منزل کوئی نہیں، ہم اصل راہ سے بٹھک چکے ہیں، دوسروں کے بتائے ہوئے راستے پرگامزن ہیں۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ آزادی کا تصور کسی بھی قوم کے لیے تابناک مستقبل کی نوید ہوتی ہے غلام لوگ جب آزادی کی جدوجہد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں روشن مستقبل کی چمک کانوں میں سکھ چین کی گھنٹیاں اور ذہن میں خوبصورت خواب ہوتے ہیں،آزادی کا سفر پستی سے بلندی کی طرف اور اندھیروں سے روشنی کی جانب ہوتا ہے۔

انگریز سامراج ہمیں جغرافیائی آزادی تو دے گیا لیکن ذہنی طور پر ہم اب بھی اس ظالم سامراج کے غلام ہیں۔ معاشی ناہمواری، سماجی اونچ نیچ اور سیاسی اجارہ داری کی چاردیواری میں ہم اب بھی مقید ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں پھنس کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیںکہ ، کیا ہم آزاد ہیں ؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم آج بھی اس مقام پرکھڑے ہیں جہاں سے ہم نے آزادی کے حصول کی خاطر سفر شروع کیا تھا،کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟ جس کے بانی قائد اعظم محمدعلی جناح ہیں؟ بلاشبہ ہم نے دانستہ طور پر قائداعظم، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے لاکھوں کارکنوں کی خواہشات کے برخلاف کام کیے ہیں۔


ہم سے ہر ایک عملی طور پر قائد اعظم کے اصولوں سے منحرف نظر آتا ہے، جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا پھر بھی ہمیں ہوش نہ آیا، ملک کو مختلف علاقائی زبانوں میں تقسیم کرکے لسانیت کو فرو غ دیا گیا، اسی حساب سے لیڈران قوم عروج پاتے رہے ہیں۔ کل تک پاکستان اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتا رہا ہے، آج عالمی مالیاتی اداروں کا گڑھ بنا ہوا ہے، ملک کا بچہ بچہ ان عالمی سود خوروں کے پاس گروہی رکھا ہوا ہے۔ قوم کو ایک بار پھر اپنے ووٹ کے ذریعے حکومت چننے کا موقع میسر آرہا ہے ، گزشتہ دس سال قوم کو یاد ہونے چاہیے اور اسی تناظر میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہیے۔ سوال یہ نہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو کیا دیا ہے؟

پاکستان نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے سنھبال کر رکھیں اس کی قدر کریں ۔ ہمیں اپنے ووٹ کے ذریعے ایسے لیڈران قوم کا چنائو کرنا ہوگا جو سچے دل سے ملک و قوم کا خادم ہو، جو خالص پاکستانی شہری ہو دہری شہرت کا حامل نہ ہو، غیر ملکی آمدن نہ رکھتا ہو، جو اپنے زیرکفالت افراد کی تفصیلات قوم کے سامنے پیش کریں، جو جرائم پیشہ نہ ہو، جو جرائم پیشہ گروہ کی سہولت کار نہ ہو، جو قانون کو مطلوب نہ ہو، جو ٹیکس چور نہ ہو، جو ملکی خزانہ کا نادہندہ نہ ہو، جو پانی، بجلی، گیس اور ٹیلی فون بلز کا نادہندہ نہ ہو، جو صرف پاکستانی پاسپورٹ رکھتا ہو، جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کی سنگین خلاف ورزی میں ملوث نہ ہو۔ شخصیت پرستی سے ہٹ کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھ کر اپنا ووٹ کاسٹ کرنا ہوگا۔ یاد رکھو! قوم کا درست فیصلہ ہی ملک و قوم کی ترقی کا ضامن ہے۔

آخر میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے چند فرمودات نئی نسل کی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں تاکہ ان کی رہنمائی ہوسکے، اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں اور بالخصوص غیر طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔ ہر شخص خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، اس کا رنگ، نسل، مذہب کچھ ہی ہو، اول و آخر اس مملکت کا شہری ہے، اس کے حقوق مراعات اور ذمے داریاں مساوی اور یکساں ہیں ۔ (خطبہ صدارت دستور ساز اسمبلی 11اگست 1947ء) ۔

ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے، لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔ اب بڑی بڑی ذمے داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں اور جتنی بڑی ذمے داریاں ہیں، اتنا ہی بڑا ارادہ،اتنی ہی عظیم جدوجہدکا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔آزاد اور خود مختار پاکستان کی پہلی عید جو انشاء اللہ خوشحالی کا ایک نیا باب کھولے گی اور جو اسلامی ثقافت و نظریات کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو ہماری گزشتہ اور قابل احترام تاریخ کے شایان شان بنائے اور ہمیں یہ توفیق ارزانی کرے کہ ہم اپنے پیارے پاکستان کو دنیا کی صحیح معنوں میں عظیم قوم بنائیں ۔ ( پیغام عیدالفطر ، 18اگست1947ء)۔

میں پاکستان کے ہر مسلمان مرد اور عورت سے کہتا ہوں کہ وہ اس ( پاکستان) کی تعمیر کریں تاکہ وہ اقوام عالم میں اپنے لیے ایک معزز مقام پیدا کرسکیں ۔ (اخباری بیان، 24 اگست 1947ء) ۔ پاکستان کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ کسی مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے۔ (حکومت پاکستان کے افسران سے خطاب، 11اکتوبر 1947ء) ۔ جہاں تک دو قومی نظریہ کا تعلق ہے،یہ کوئی نظریہ نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقت ہے۔

ہندوستان کی تقسیم اسی حقیقت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ ( ایک غیر ملکی نامہ نگارمسٹر ہوپر سے انٹرویو، 25 اکتوبر 1947ء)۔ بعض لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ 3 جون کے منصوبے کو قبول کرنا مسلم لیگ کی غلطی تھی۔ میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی بھی قدم اتنا خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوتا کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک گہری اور منظم سازش کا شکار رہے ہیں۔ جس پر دیانت، شرافت، عزت اور شجاعت کے انسانی بنیادی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر خوب خوب عمل کیا گیا۔ ہم اپنے رب غفور کا شکر بجا لاتے ہیں جس نے ہمیں بدی کی ان قوتوں کا منہ توڑ نے کے لیے ہمت، استقلال اور ایمان کی دولت سے مالا مال کیا۔ اگر ہم ہر معاملے میں قرآن مجید سے تحریک اور رہنمائی حاصل کریں تو میں ایک بار پھر کہوں گا کہ آخری کامیابی ہماری ہوگی، ہماری اور فقط ہماری۔ اپنا فرض بجالاتے رہو اور خدا پر بھروسہ رکھو،دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی۔ (جلسہ عام سے خطاب ، لاہور، 30اکتوبر 1947ء)۔
Load Next Story