تحریر کامل انسان کی تشکیل کرتی ہے

آج کا طالب علم بھی تحریر کے ہنر سے بے خبر ہے۔ خوشخطی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔

shabnumg@yahoo.com

جب تک ڈاک کا نظام فعال تھا، لوگ خوش خطی و مضمون نویسی سے واقف تھے، پھر دور بدلا اور خط کی جگہ ای میل نے لے لی۔ فاصلے مزید سمٹے تو موبائل پر سندیسے بھیجے جانے لگے۔ آج کل واٹس ایپ سے لے کر وائبر تک پیغام رسانی کے جدید طریقے مروج ہوچکے ہیں۔ لیکن خط کی خوبصورتی کی الگ بات ہوا کرتی تھی۔

جب تک خط و کتابت کا سلسلہ جاری تھا۔ انداز تحریر بھی پراثر اور جداگانہ لگتا۔ خط کی اپنی مہک ہے، جس کے ہر لفظ کی تاثیر مہکتی تھی۔ یہ الفاظ کا تبادلہ کم بلکہ احساس کے لمس کی قربت تھی، جو فاصلوں میں بھی محبتوں کو قائم رکھے ہوئے نظر آتی تھی، مگر دنیا بھر میں ڈاک کا نظام زوال پذیر ہو رہا ہے، جس کی وجہ ٹیکنالوجی کا وسیع جال ہے۔ جس نے سماجی زندگی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ سماجی زندگی کی فعالیت کا دار و مدار، رابطے کی زبان کا مثبت و موثر استعمال ہے۔ گفتگوکا معیار، زندگی کے معیار کو متعین کرتا ہے۔ آپ کی زندگی، آپ کی گفتگو کا عکس کہلاتی ہے۔ یہ گفتگو ہے جس کی وجہ سے لوگ اچانک ہم سے کھنچ جاتے ہیں اور رابطے منقطع ہو جاتے ہیں۔

جس کے باعث گھر و خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ ہماری سماجی زندگی میں ذو معنی فقرے اور طنزیہ گفتگو عام طور پر استعمال کی جاتی ہے اور گفتگو کا کوئی معیار مقرر نہیں۔ گفتگو میں کرم فرمائی و خوش اخلاقی کا مظاہرہ کم دکھائی دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں نے گفتگوکے معیارکو بہتر بنایا ہے۔ یہ گفتگو محتاط، موثر اورکام کی حد تک محدود ہے۔ جس میں شک، کھوج یا کسی قسم کے تجسس کے آثار نہیں ملتے۔

ترقی یافتہ ملکوں نے اپنے مکالمے واضح، برجستہ اور منطقی خطوط پر وضع کر رکھے ہیں۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں گفتگوکے معیارکی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی گئی۔ سماجی زندگی کا انتشار، لفظوں کی بے ترتیبی سے شروع ہوکر بہت بڑے ہنگاموں پر جاکر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا، سیاست کے ایوان، ہمارے ادارے ہوں یا گھر۔ رویوں میں بڑی بے ترتیبی پائی جاتی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ غیر محتاط گفتگو ہے۔ جس میں رازداری کا عنصر کمیاب ملتا ہے۔

انگریزی کے معروف مضمون نویس فرانسس بیکن کا کہنا ہے کہ ''مطالعہ شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔ گفتگو یا مکالمہ عمل پذیری اور اچھی تحریر کامل انسان کی تشکیل کرتی ہے۔'' یہ حقیقت ہے کہ پراثرگفتگو وسیع مطالعے کا ثمر ہے۔ بالکل اسی طرح اچھا لکھنا بھی مثبت مکالمے، بہتر مذاکرے و مطالعے کا عکس کہلاتا ہے۔ نفسیاتی طور پر لکھائی یا انداز تحریر شخصیت کی وضاحت بہتر طور پر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نفسیات کے پوشیدہ زاویے سمجھنے کے لیے، مختلف سوال نامے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ دیے گئے جواب کی توسط سے، نفسیاتی ماہر بخوبی ذہنی پیچیدگی کو دریافت کر لیتا ہے۔

جس طرح ہمارے ذہنی مکالمے کا عکس، خد و خال سے واضح دکھائی دیتا ہے، بالکل اسی طرح انداز تحریر شخصیت کا بھید کھول دیتی ہے، مگر چہرہ یا تحریر پڑھ لینا ہرکسی کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ خوشنما لفظوں کے پیچھے ضروری نہیں کہ باعمل یا باکردار شخصیت موجود ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ خوبصورت انداز تحریر ذہن کی پختگی یا عمل کی اچھائی کی ترجمان ہو، لیکن کافی حد تک ہم تحریر کے توسط سے شخصیت کے منفی یا مثبت اثر کو سمجھ سکتے ہیں۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ آج کا طالب علم بھی تحریر کے ہنر سے بے خبر ہے۔ خوشخطی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ لکھائی کی رفتار بھی بہت کم ہوچکی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کمرہ امتحان ایک ایسی جگہ ہے، جہاں بہتر مستقبل کے خوابوں کی پرکھ، انداز تحریر طے کرتی ہے۔ جتنی لکھائی خوبصورت ہوگی، اتنا ہی اہم خیال کی ندرت ہے۔ سوچ کا توازن، گہرائی اور خوبصورتی ہی کامیابی کا تعین کرتے ہیں، اگر اس امر سے آگاہ لفظوں کے پیرائے میں بیان کرنے کا سلیقہ رکھتے ہی ں لہٰذا زندگی کے تمام بند دروازے آپ کو کھلے ہوئے ملیں گے۔


مثبت الفاظ پرندوں کے پروں کی سی سبک رفتاری اور اڑان رکھتے ہیں۔

اردو اور فارسی زبان خط نستعلیق میں تحریرکی جاتی ہے۔ یہ تحریر نویں صدی ہجری میں ایجاد کی گئی تھی۔ ایران، افغانستان، برصغیر پاک و ہند میں خطاطی کا فن شروع سے ہی توجہ طلب رہا۔ چین اور یونانیوں نے خوبصورت لکھائی کا آغاز کیا۔ اسلامی دنیا میں فن خطاطی کو روح پرور عمل قرار دیا گیا۔ تعلیمی اداروں میں خطاطی کا مضمون لازمی متعارف کرانے سے اس مسئلے کا حل مل سکتا ہے۔بصورت دیگر کسی بھی طور پر بچوں کو لکھائی کی طرف راغب نہیں کیا جاسکتا۔

یہ حقیقت ہے کہ Writing Skills لکھائی کے ہنر کو بہتر بنانے کے لیے طریقے ہیں۔ بچے اگر بچپن میں بہتر لکھائی نہیں سیکھ پاتے، تو بعد میں ان کی لکھائی بہتر ہونے کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ ابتدائی عمر کے چند سال لکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی اہم گردانے جاتے ہیں۔ لکھائی کی بہتری کے لیے بنیادی معلومات اہمیت کی حامل ہے۔ جیسے قواعد زبان، رموز اوقاف اور جملوں کی درست ساخت وغیرہ شامل ہیں۔ ہر صنف کی اپنی ضروریات ہیں۔ جیسے کالم اور مضمون میں واضح فرق موجود ہے مگر جدید دنیا میں کالم کے نام پر مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح انشایے کی فنی ضروریات الگ ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی مضامین کے اپنے الگ قواعد و ضوابط ہیں، مگر اخباری دنیا میں مختلف اصناف کے فرق کو واضح نہیں کیا جاتا۔

شروع سے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ ان میں لکھنے کی عادت فروغ پا سکے۔ ان میں ڈائری لکھنے کی عادت کو استوار کرنا اشد ضروری ہے۔ ڈائری دوست کا درجہ بھی رکھتی ہے اور ہمراز بھی کہلاتی ہے۔

دل کے بوجھ کو ہلکا کرنے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں کہ مسائل، ان کہے دکھ اور مشکلات کوکاغذ پر منتقل کرتے رہنا چاہیے۔ مستقل لکھتے رہنے سے یکسوئی میں اضافہ ہوتا ہے اور منفی سوچ بھی تحلیل ہوجاتی ہے۔

آپ کسی سے بھی درخواست لکھنے کوکہیں گے چاہے وہ اردو میں ہی کیوں نہ ہو لکھنا محال دکھائی دیتا ہے، جب کہ لکھائی کے بنیادی اصولوں سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے۔

آج کے دور میں اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ ہمیں گفتگو اور انداز تحریر میں بہتری لے کر آنی چاہیے۔ گفتگو میں نکتہ چینی، بحث برائے بحث اور تکراری جملوں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح انداز تحریر میں منفی سوچ، تعصب اور انفرادی سوچ کا پرچار معاشرتی انتشار کا سبب بنتا ہے۔
Load Next Story