درختوں کا قتل عام

ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے فطرت کی رنگینیوں کا قتل جائز قرار دینے والوں نے بھی مخلوق خدا کو نقصان پہنچایا۔


توقیر چغتائی June 07, 2018

غالبؔ نے کہا تھا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا، لیکن ان کے زمانے میں بہت سارے انسان موجود تھے جوہمارے دور تک پہنچتے پہنچتے آدمی کے بجائے مشین کا روپ دھار چکے ہیںاور ذاتی دشمنی، اختلاف رائے اور دین و دنیا کے جھگڑوں پر ایک دوسرے کا قتل انسانی حدوں سے نکل کر پرندوں،درختوں، دریائوں، سمندروں یہاں تک کہ ویرانوں میں سکھ چین سے زندگی بسر کرنے والی بے ضرر مخلوق تک پہنچ گیا۔

ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے فطرت کی رنگینیوں کا قتل جائز قرار دینے والوں نے بھی مخلوق خدا کو نقصان پہنچایا اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ کسی بھی طے شدہ نظام کی ایک کڑی کو چھیڑا جائے تو پورا نظام تباہ و بر باد ہو جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں، ایبٹ آباد اور مری سے لے کر ہنزہ اور گللگت تک پھیلے فطرت کے کارخانے میں موجود درختوں کے کٹائو کے خلاف ماضی میں بہت ساری آوازیں بلند ہوئیں مگر حصول زر کے لالچ نے انھیں بے رحمی سے دبا دیا۔ پہاڑوں کے دامن میں گرنے والی درختوں کی لاشوں کا ماتم تو برسوں جاری رہا مگر ترقی کے نام پر صدیوں پرانے شہروں میں درختوں کا قتل عام شروع ہوا تو تاریخ کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑے۔ سڑکوں کا نظام بچھانے اور موٹر وے کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں کہ اس کے بغیر ہم مستقبل کی آنکھ سے آنکھ نہیں ملا سکتے تھے مگر اس سے قبل ہمیں ہزاروں تناور درختوں کی لاشوں سے بھی تو گزرنا پڑا۔

پیپل اور بڑ، یعنی برگد کے درخت ماضی میں دو مذاہب کے روحانی مراکزکی طرف سفر کرنے والوں کی راہ نمائی کرتے تھے۔ قدرتی چشموں اور ندی نالوں کے کنارے آسمان کو چھوتا اور زمین کے پیروں سے لپٹا کوئی برگد کا درخت نظر آئے تو وہ اس بات کی نشانی سمجھا جاتا کہ یہاں پر صدیوں پہلے کسی مسلمان صوفی کا آستانہ رہا ہو گا اور پیپل کے درخت بدھ مت، جین مت اور ہندو مت کی عبادت گاہوں کی نشانی سمجھے جاتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ستر سال قبل ملک کے جن علاقوں سے ہندو آبادی نے اجنبی دیس کی طرف کوچ کیا تھا ، وہاں کے گھروں اور عبادت گاہوں کے درو دیوار سے لپٹی پیپل کی جڑیںاب بھی ماضی کا ماتم کرتی نظر آتی ہیں۔

سندھ دھرتی کی قدیم آبادیوں میں بسنے والے انسانوں کے ساتھ درختوں کی محبت کے حقیقی مناظر دیکھنے ہوں تو آپ کو ایسی کئی عمارتیں مل جائیں گی جن کے قریب موجود کسی پرانے گھر سے پیپل کا درخت تو کاٹ دیا گیا تھا، مگر آدھی صدی بعد اس کی جڑیں نئی عمارت کی دوسری اور تیسری منزل کی دیوار پر دوبارہ نمودار ہوگئیں۔ اس کے برعکس انسانوں نے دھوپ، بھوک اور ٹھنڈک سے بچانے والے اپنے مربی و محسن درختوں کو جس بے دردی سے کاٹا اس کا ذکر بھی درختوں سے محبت کرنے والوں کا دل دہلانے کے لیے کافی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے چند مخصوص غیر سرکاری اداروں کے علاوہ ایسے بہت ہی کم افرادرہ گئے ہیں جو درختوں، پرندوں، دریائوں، سمندروں اور صحرائوں کی اہمیت سے واقف ہوں یا اپنے بچوں کو اس بارے میں کچھ بتاتے ہوں۔

لگ بھگ آدھی صدی قبل جب توسیع شہرکے لیے دنیا کی تہذیب و ثقافت کے اولین مرکز ہڑپا کے قریب آباد شہر ساہیوال کی نہر کے کنارے لگے صدیوں پرانے درختوں کوکاٹنے کا حکم صادر ہوا تب بھی بہت سارے لوگ درختوں کی اہمیت سے نا واقف تھے مگر سائیکل پر سوار ہو کر صبح سویرے بلاناغہ اپنے دفتر جانے والے فقیر منش معروف شاعر مجید امجد درختوں کی لاشیں گرنے کا منظر برداشت نہ کر سکے اور ان کے منہ سے ایک نظم چیخ کی طرح بلند ہوئی۔

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار،جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار،گھنے سہانے چھائوں چھڑکتے بُور لدے چھتنار،بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار، جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم، قاتل چہرے چیرگئے ان ساونتوں کے جسم،گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار،کٹتے ہیکل جھڑتے پنجرچھٹتے برگ و بار، سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار، آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہرکے دوار، اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال، مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل۔ مجید امجد کے بعد ایسے شاعر خال ہی نظر آئے جو جذبہ عشق سے کچھ وقت نکال کر فطرت سے عشق کی بھی ترجمانی کرتے ہوں۔

درختوں کی تباہی و بربادی کی گواہی یوں تو ملک کا چپہ چپہ دے گا، مگر سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں پر لگے نیم ، پیپل اور برگد کے درختوں کو ماضی میں جس قتل عام کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بعد میں دیار غیر سے منگوایا گیا ''کونو کارپس'' نامی نامانوس درخت لگا کر یہاں کے بچے کھچے قدیم درختوں کوبھی اس کی پلاسٹک نما شاخوں سے ڈھانپ کر شہر کی قدرتی خوب صورتی کو کئی رنگوں کے بجائے ایک رنگ میں تبدیل کر دیا گیا۔

اب کہیں املتاس کے پھول نظر آتے ہیں نہ پیپل برگد اور نیم کے تناور درخت، نہ گوندنی اور لسوڑھے کے پھل دار بوٹے دکھائی دیتے ہیںاور نہ ہی کیکر کے پیلے پھولوں کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ ملک کے دوسرے علاقوں کے تعمیری منصوبوں اور الیکشن کی بہارکو دیکھ کر سندھ کے ذمے داروں نے جب ترقی کے نام پر انگڑائی لی تو اس کا سب سے پہلا وار بھی درختوں کو ہی سہنا پڑا۔ اس دوران کراچی میں گرین لائن کے نامکمل منصوبے سے جہاںہزاروں درختوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوا وہاں شہر کی ایک بڑی شاہراہ کو کجھوروں کے سوکھے ہوئے درختوں کی لاشوں سے بھی بھر دیا گیا۔

کراچی کو ہرا بھرا اور خوب صورت بنانے کے نام پر لگائے جانے والے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے جنگلی حیات کے ماہرین سے یہ مشورہ بھی نہ کیا گیا کہ جب کجھور کے درخت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے تو اس کی کتنی عمر ہونا چاہیے اور اسے نئے مقام پر منتقل کرنے سے قبل افزائش کے لیے کس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس بات پر بھی غور نہیںکیا گیا کہ سڑک کے کنارے کھجور کے درختوں کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے یا گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے نیم ، پیپل اور برگد جیسے سایہ دار پیڑ زیادہ موزوں ہوتے ہیں۔

خیبر پختون خوا کی حکومت سے ہمیں ہزار اختلاف سہی اور وہاں پر لگوائے گئے کروڑوں پودوں کی کرپشن کا معاملہ درست سہی مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اس ملک میں پہلی دفعہ کسی حکومت نے درختوں کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے عملی قدم تو اٹھایا ۔ اگراس منصوبے پر کسی دوسرے صوبے یا مرکز کو اعتراض ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ ملک کے دوسرے علاقوں میں درختوں کی کاشت کا اس سے بھی بڑا منصوبہ سامنے لے آئے ۔

ماحول میں بہتری کے لیے کام کرنے والے اداروں اور افراد کی کوشش اپنی جگہ مگر توسیع شہر ، کے نام پر درختوں، پرندوں، دریائوں اور صحرائوں کی تباہی کے خلاف انفرادی سوچ کو بیدار نہیں کیا جاتا تو آنے والی نسلوں کو ا نسانوںکے بجائے مشینوں میں ڈھلنے سے کوئی نہیں روک پائے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں