ایک تبصرہ ایک سوال
کچھ میزبانوں کو لاشعوری طور پر ڈر ہوتا ہے کہ انھیں دوسرا سوال...
انفرمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا ایسی ہے کہ اگر آپ قدم بہ قدم اس کے ساتھ چلنے کی کوشش کریں تو چند ہی منٹ میں سانس قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ گزشتہ نصف صدی میں لاکھوں کاغذوں پر انسانی ہاتھ سے جو کچھ تحریر یا جمع تفریق کیا جاتا تھا وہ سب کا سب اب انسانی گود میں سما جانے والے ایک Lap top بلکہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل فون تک میں سمٹ آیا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب 1990ء میں لندن میں میں نے اپنے دوست مکرم جاوید سید کا ایک کمرے پر مشتمل وہ دفتر دیکھا تھا جو صرف دس برس پہلے تک ایک چہار منزلہ وسیع عمارت کا متقاضی تھا تو میں نے سوچا تھا کہ اب اس سے بڑھ کر اور ''سمٹائو'' کیا ہو گا؟ لیکن آج کل وہ یہی کام سربیا کے ایک قصبے میں بیٹھا صرف اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل کی مدد سے کر رہا ہے۔
اگرچہ اب ماشاء اﷲ ہمارے سکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی سافٹ ویئر انجینئرنگ اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے حوالے سے عالمی سطح پر ریکارڈ قائم کر رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پچاس سال کی عمر سے اوپر کے لوگ اب بھی عام طور پر ''کمپیوٹر'' سے کچھ زیادہ آشنا نہیں ہیں، خود میرا شمار اسی گروہ میں ہوتا ہے کہ چند ماہ پہلے تک مجھے موبائل فون پر SMS کرنا یا کسی کا نمبر Save کرنا بھی نہیں آتا تھا اور یہی حال اپنا ای میل اکائونٹ کھولنے یا کسی کو ای میل کرنے کے فن میں تھا۔
میرا بیٹا علی ذیشان وقفے وقفے سے موصول شدہ بے شمار ای میلز میں سے براہ راست مجھ سے مخاطب پا کچھ اہم اور متعلقہ ای میلز کا ایک پرنٹ آئوٹ مجھے نکال کر دے دیتا اور میں ان میں سے چند ایک ضروری میلز کے جوابات اسے لکھ کر دے دیتا تھا کہ وہ انھیں متعلقہ لوگوں کو ای میل کر دے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اب میں اس معاملے میں خودکفیل ہو گیا ہوں اور اب ای میل پڑھ کر اس کا جواب بھی لکھنے کے قابل ہو گیا ہوں اور شکر ہے کہ میری حالت اس حقیقتاً کچے لیکن بزعم خود ماہر موٹر مکینک جیسی نہیں جس نے اپنے استاد سے کہا تھا کہ
''استاد جی میں گاڑی کا پورا انجن کھولنے کے بعد بند تو کر لیتا ہوں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر میں بہت سارے نٹ (Nut) اور پیچ (Screw) بچ کیسے جاتے ہیں؟''
یہ ساری تمہید میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ روزانہ مجھے ستر اسی اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ میلز بھی آتی ہیں، ان میں سے بیشتر کا ٹھکانہ تو TRASH کے جنک یارڈ ہی میں ہوتا ہے لیکن کچھ ''ناآشنا'' ناموں سے ایسی ای میلز بھی آتی ہیں جو بہت دلچسپ، فکر انگیز، خیال افروز، معلوماتی یا مزاح کا عمدہ نمونہ ہوتی ہیں جن میں سے کچھ کو میں محفوظ کر لیتا ہوں۔
انھی محفوظ کردہ ای میلز میں سے آج میں نے دو ایسی میلز کا انتخاب کیا ہے جن میں کچھ بہت دلچسپ سوال اٹھائے گئے ہیں واضح رہے کہ میں ان سوالات کو جوں کا توں پیش کر رہا ہوں یعنی ضروری نہیں کہ میں ان میں پیش کردہ دلائل یا مؤقف سے کلی یا جزوی طور پر اتفاق بھی کرتا ہوں۔
پہلی میل کا تعلق آج کل ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ٹاک شوز اور ان کے اینکرز سے ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی یہ میل بھیجنے والے صاحب کے خیالات اور دلچسپ تجزیے پر ایک نظر ڈالیں کہ یہ باتیں (کسی نہ کسی شکل میں) اکثر و بیشتر سننے میں آتی ہیں ایک بار پھر اس وضاحت کے ساتھ کہ ''ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔''
''اپنے آپ کو مہمان سے کم تر سمجھنے والے اینکر یا انٹرویو لینے والے آپ کو ٹیلی وژن چینلوں پر بہت کم نظر آئیں گے بیشتر رویہ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے برتر کوئی ہے ہی نہیں۔ میزبان ٹاک شوز یا انٹرویو کا آغاز بڑی لمبی تمہید سے کرتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کیمرہ زیادہ سے زیادہ دیر تک ان پر رہے، یہ خیال نہیں رہتا کہ بہت سے دیکھنے والے اس دوران چینل بدل دیتے ہیں۔ ہاں اگر میزبان خوش شکل خاتون ہو تو کچھ لوگ اس کا روئے زیبا دیکھتے رہتے ہیں وہ بھی بغیر اس کی بات سنے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عام طور پر خواتین میزبانوں کی تمہید مختصر ہوتی ہے۔
کیمرہ اپنی طرف رکھنے کے لیے بعض اینکر سوال بھی اتنے لمبے کر دیتے ہیں کہ مہمانوں (اور بہت سے دیکھنے والوں) کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پوچھا کیا جاتا ہے؟ چنانچہ مہمانوں کی جو سمجھ میں آئے جواب دے دیتے ہیں۔ لیری کنگ جو کچھ عرصہ پہلے سی این این سے سبک دوش ہوئے 40 سال تک انٹرویو کرتے رہے ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایک جملے میں سوال نہیں پوچھ سکتے تو آپ کو انٹرویو کرنا نہیں آتا۔
اینکروں کے پاس سوالوں کی لمبی فہرست ہوتی ہے، انھیں اگلا سوال پوچھنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ پچھلے کا جواب بھی پورا نہیں ہونے دیتے، کئی مہمان تو احتجاج کرتے ہیں کہ انھیں بات تو پوری کرنے دی جائے۔ اینکروں کو اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ اہمیت کے لحاظ سے سوالوں کو ترتیب دے لیں اس طرح وقت نہ ہونے سے سب سے کم اہمیت والے سوال ہی رہ جائیں گے۔
کچھ میزبانوں کو لاشعوری طور پر ڈر ہوتا ہے کہ انھیں دوسرا سوال کرنے کا موقع نہیں ملے گا (جیسے نیوز کانفرنس میں اکثر ہوتا ہے) چنانچہ وہ ایک ساتھ دو (بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ) سوال پوچھ ڈالتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مہمان ایک ہی سوال کا جواب دیتا ہے اور باقی سوال بھول جاتا ہے یا ٹال دیتا ہے اگر مہمان کئی ہوں تو ایک مہمان کا جواب مکمل ہونے سے پہلے ہی کسی اور سے سوال پوچھ لیا جاتا ہے جس سے پہلا مہمان تلملا کر رہ جاتا ہے خاص طور پر جب وہ فون پر بول رہا ہو... پھر کچھ مہمان دوسروں کا وقت بھی چھین لیتے ہیں۔
شریف قسم کے مہمان خاص طور پر فون پر شکایت کرتے ہیں کہ انھیں پروگرام میں شریک کر لیا گیا لیکن ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔ اکثر اینکر ''بے زبان'' ہیں تعلیم انگریزی میں ہوئی کچھ عرصہ باہر بھی کام کیا، انگریزی بولنے والوں کا آپ کو پتہ ہے غلامانہ ذہنیت والوں پر بہت رعب ہوتا ہے... بعض اینکر شرمندگی سے نہیں فخریہ کہتے ہیں کہ ان کی اردو کمزور ہے، یہ اتنی کمزور ہے کہ انھیں انگریزی لفظوں کا بے دریغ استعمال کرنا پڑتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ صرف انگریزی میں ڈگری والے ہی ان کی پوری بات سمجھ پاتے ہیں۔ کتنی دفعہ انگریزی کے پورے پورے جملے بول جاتے ہیں، انھیں ''پریذیڈنٹ'' اور ''پرائم منسٹر'' کہنا آسان لیکن ''صدر'' یا ''وزیر اعظم'' مشکل لگتا ہے۔
سیاسی ٹاک شو میں کوٹا سسٹم ناگواری پیدا کرتا ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو بلا لیا جاتا ہے۔ اکثر پارٹیوں کی قیادت طے کرتی ہے کہ اس کی طرف سے کون شریک ہوگا اور اینکر کو مجبوراً اسے لینا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک اپنی ڈفلی بجائے گا۔
ہر نمایندہ نے ہر صورت میں اپنے لیڈر اور اپنی پارٹی کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اگر مؤقف کمزور ہو تو ماضی بعید سے بات شروع کی جاتی ہے تاکہ میزبان تنگ آ کر کوئی اور سوال کر دے اور جواب دینے کی نوبت ہی نہ آئے دوسری صورت میں عذر لنگ کی بیساکھی کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اکثر دیکھنے والوں کو خاصا تجربہ ہو گیا ہے کہ سیاسی لوگ سچ بولنے کے بجائے کج بحثی ہی کرینگے چنانچہ وہ چینل بدل دیتے ہیں۔ اینکروں کی کھال نہایت پتلی ہوتی ہے ذرا کسی نے ان پر نکتہ چینی شروع کی اور وہ فوراً صفائی دینے لگتے ہیں اتنا صبر بھی نہیں ہوتا کہ مہمان کی بات پوری ہونے دیں۔ میزبان کی حیثیت سے ان کے لیے بڑا آسان ہے کہ اپنا مؤقف بعد میں تفصیل سے بیان کر لیں بعض تو مہمان کے چپ ہونے کا انتظار بھی نہیں کرتے اور تو تو میں میں کرتے رہتے ہیں۔
یہ چارج شیٹ یہیں ختم نہیں ہو جاتی لیکن اس میں درج بقیہ باتیں بھی کم و بیش وہی ہیں جن پر اکثر ناظرین اپنی رائے یا ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں سو میں اس کے بقیہ حصے کو ایک طرف رکھتے ہوئے انھی صاحب کے اٹھائے ہوئے ایک بہت اہم اور بظاہر متنازعہ سوال کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ کہ جب روایتی طور پر دنیا کے تمام مسلمان رمضان کے احترام پر متفق ہیں اور اکا دکا مثالوں سے قطع نظر اس کا عملی ثبوت بھی دیتے ہیں تو کیا ہم نے ضیاء الحق کے زمانے میں ''احترام رمضان'' کا قانون پاس کر کے غیرمسلموں، بیماروں یا کسی اور جینوئن عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکنے والوں اور کھانے پینے کی اشیا سے متعلق کاروباری لوگوں اور غریب محنت کشوں کو ایک ایسی مشکل میں نہیں ڈال دیا جس کا پہلے سے آسان بہتر اور آزمودہ حل ہمارے دین اور معاشرے میں موجود اور زیر عمل تھا؟
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب 1990ء میں لندن میں میں نے اپنے دوست مکرم جاوید سید کا ایک کمرے پر مشتمل وہ دفتر دیکھا تھا جو صرف دس برس پہلے تک ایک چہار منزلہ وسیع عمارت کا متقاضی تھا تو میں نے سوچا تھا کہ اب اس سے بڑھ کر اور ''سمٹائو'' کیا ہو گا؟ لیکن آج کل وہ یہی کام سربیا کے ایک قصبے میں بیٹھا صرف اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل کی مدد سے کر رہا ہے۔
اگرچہ اب ماشاء اﷲ ہمارے سکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی سافٹ ویئر انجینئرنگ اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے حوالے سے عالمی سطح پر ریکارڈ قائم کر رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پچاس سال کی عمر سے اوپر کے لوگ اب بھی عام طور پر ''کمپیوٹر'' سے کچھ زیادہ آشنا نہیں ہیں، خود میرا شمار اسی گروہ میں ہوتا ہے کہ چند ماہ پہلے تک مجھے موبائل فون پر SMS کرنا یا کسی کا نمبر Save کرنا بھی نہیں آتا تھا اور یہی حال اپنا ای میل اکائونٹ کھولنے یا کسی کو ای میل کرنے کے فن میں تھا۔
میرا بیٹا علی ذیشان وقفے وقفے سے موصول شدہ بے شمار ای میلز میں سے براہ راست مجھ سے مخاطب پا کچھ اہم اور متعلقہ ای میلز کا ایک پرنٹ آئوٹ مجھے نکال کر دے دیتا اور میں ان میں سے چند ایک ضروری میلز کے جوابات اسے لکھ کر دے دیتا تھا کہ وہ انھیں متعلقہ لوگوں کو ای میل کر دے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اب میں اس معاملے میں خودکفیل ہو گیا ہوں اور اب ای میل پڑھ کر اس کا جواب بھی لکھنے کے قابل ہو گیا ہوں اور شکر ہے کہ میری حالت اس حقیقتاً کچے لیکن بزعم خود ماہر موٹر مکینک جیسی نہیں جس نے اپنے استاد سے کہا تھا کہ
''استاد جی میں گاڑی کا پورا انجن کھولنے کے بعد بند تو کر لیتا ہوں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر میں بہت سارے نٹ (Nut) اور پیچ (Screw) بچ کیسے جاتے ہیں؟''
یہ ساری تمہید میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ روزانہ مجھے ستر اسی اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ میلز بھی آتی ہیں، ان میں سے بیشتر کا ٹھکانہ تو TRASH کے جنک یارڈ ہی میں ہوتا ہے لیکن کچھ ''ناآشنا'' ناموں سے ایسی ای میلز بھی آتی ہیں جو بہت دلچسپ، فکر انگیز، خیال افروز، معلوماتی یا مزاح کا عمدہ نمونہ ہوتی ہیں جن میں سے کچھ کو میں محفوظ کر لیتا ہوں۔
انھی محفوظ کردہ ای میلز میں سے آج میں نے دو ایسی میلز کا انتخاب کیا ہے جن میں کچھ بہت دلچسپ سوال اٹھائے گئے ہیں واضح رہے کہ میں ان سوالات کو جوں کا توں پیش کر رہا ہوں یعنی ضروری نہیں کہ میں ان میں پیش کردہ دلائل یا مؤقف سے کلی یا جزوی طور پر اتفاق بھی کرتا ہوں۔
پہلی میل کا تعلق آج کل ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ٹاک شوز اور ان کے اینکرز سے ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی یہ میل بھیجنے والے صاحب کے خیالات اور دلچسپ تجزیے پر ایک نظر ڈالیں کہ یہ باتیں (کسی نہ کسی شکل میں) اکثر و بیشتر سننے میں آتی ہیں ایک بار پھر اس وضاحت کے ساتھ کہ ''ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔''
''اپنے آپ کو مہمان سے کم تر سمجھنے والے اینکر یا انٹرویو لینے والے آپ کو ٹیلی وژن چینلوں پر بہت کم نظر آئیں گے بیشتر رویہ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے برتر کوئی ہے ہی نہیں۔ میزبان ٹاک شوز یا انٹرویو کا آغاز بڑی لمبی تمہید سے کرتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کیمرہ زیادہ سے زیادہ دیر تک ان پر رہے، یہ خیال نہیں رہتا کہ بہت سے دیکھنے والے اس دوران چینل بدل دیتے ہیں۔ ہاں اگر میزبان خوش شکل خاتون ہو تو کچھ لوگ اس کا روئے زیبا دیکھتے رہتے ہیں وہ بھی بغیر اس کی بات سنے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عام طور پر خواتین میزبانوں کی تمہید مختصر ہوتی ہے۔
کیمرہ اپنی طرف رکھنے کے لیے بعض اینکر سوال بھی اتنے لمبے کر دیتے ہیں کہ مہمانوں (اور بہت سے دیکھنے والوں) کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پوچھا کیا جاتا ہے؟ چنانچہ مہمانوں کی جو سمجھ میں آئے جواب دے دیتے ہیں۔ لیری کنگ جو کچھ عرصہ پہلے سی این این سے سبک دوش ہوئے 40 سال تک انٹرویو کرتے رہے ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایک جملے میں سوال نہیں پوچھ سکتے تو آپ کو انٹرویو کرنا نہیں آتا۔
اینکروں کے پاس سوالوں کی لمبی فہرست ہوتی ہے، انھیں اگلا سوال پوچھنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ پچھلے کا جواب بھی پورا نہیں ہونے دیتے، کئی مہمان تو احتجاج کرتے ہیں کہ انھیں بات تو پوری کرنے دی جائے۔ اینکروں کو اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ اہمیت کے لحاظ سے سوالوں کو ترتیب دے لیں اس طرح وقت نہ ہونے سے سب سے کم اہمیت والے سوال ہی رہ جائیں گے۔
کچھ میزبانوں کو لاشعوری طور پر ڈر ہوتا ہے کہ انھیں دوسرا سوال کرنے کا موقع نہیں ملے گا (جیسے نیوز کانفرنس میں اکثر ہوتا ہے) چنانچہ وہ ایک ساتھ دو (بلکہ بعض اوقات اس سے بھی زیادہ) سوال پوچھ ڈالتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مہمان ایک ہی سوال کا جواب دیتا ہے اور باقی سوال بھول جاتا ہے یا ٹال دیتا ہے اگر مہمان کئی ہوں تو ایک مہمان کا جواب مکمل ہونے سے پہلے ہی کسی اور سے سوال پوچھ لیا جاتا ہے جس سے پہلا مہمان تلملا کر رہ جاتا ہے خاص طور پر جب وہ فون پر بول رہا ہو... پھر کچھ مہمان دوسروں کا وقت بھی چھین لیتے ہیں۔
شریف قسم کے مہمان خاص طور پر فون پر شکایت کرتے ہیں کہ انھیں پروگرام میں شریک کر لیا گیا لیکن ان کی بات نہیں سنی جا رہی۔ اکثر اینکر ''بے زبان'' ہیں تعلیم انگریزی میں ہوئی کچھ عرصہ باہر بھی کام کیا، انگریزی بولنے والوں کا آپ کو پتہ ہے غلامانہ ذہنیت والوں پر بہت رعب ہوتا ہے... بعض اینکر شرمندگی سے نہیں فخریہ کہتے ہیں کہ ان کی اردو کمزور ہے، یہ اتنی کمزور ہے کہ انھیں انگریزی لفظوں کا بے دریغ استعمال کرنا پڑتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ صرف انگریزی میں ڈگری والے ہی ان کی پوری بات سمجھ پاتے ہیں۔ کتنی دفعہ انگریزی کے پورے پورے جملے بول جاتے ہیں، انھیں ''پریذیڈنٹ'' اور ''پرائم منسٹر'' کہنا آسان لیکن ''صدر'' یا ''وزیر اعظم'' مشکل لگتا ہے۔
سیاسی ٹاک شو میں کوٹا سسٹم ناگواری پیدا کرتا ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو بلا لیا جاتا ہے۔ اکثر پارٹیوں کی قیادت طے کرتی ہے کہ اس کی طرف سے کون شریک ہوگا اور اینکر کو مجبوراً اسے لینا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک اپنی ڈفلی بجائے گا۔
ہر نمایندہ نے ہر صورت میں اپنے لیڈر اور اپنی پارٹی کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اگر مؤقف کمزور ہو تو ماضی بعید سے بات شروع کی جاتی ہے تاکہ میزبان تنگ آ کر کوئی اور سوال کر دے اور جواب دینے کی نوبت ہی نہ آئے دوسری صورت میں عذر لنگ کی بیساکھی کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اکثر دیکھنے والوں کو خاصا تجربہ ہو گیا ہے کہ سیاسی لوگ سچ بولنے کے بجائے کج بحثی ہی کرینگے چنانچہ وہ چینل بدل دیتے ہیں۔ اینکروں کی کھال نہایت پتلی ہوتی ہے ذرا کسی نے ان پر نکتہ چینی شروع کی اور وہ فوراً صفائی دینے لگتے ہیں اتنا صبر بھی نہیں ہوتا کہ مہمان کی بات پوری ہونے دیں۔ میزبان کی حیثیت سے ان کے لیے بڑا آسان ہے کہ اپنا مؤقف بعد میں تفصیل سے بیان کر لیں بعض تو مہمان کے چپ ہونے کا انتظار بھی نہیں کرتے اور تو تو میں میں کرتے رہتے ہیں۔
یہ چارج شیٹ یہیں ختم نہیں ہو جاتی لیکن اس میں درج بقیہ باتیں بھی کم و بیش وہی ہیں جن پر اکثر ناظرین اپنی رائے یا ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہتے ہیں سو میں اس کے بقیہ حصے کو ایک طرف رکھتے ہوئے انھی صاحب کے اٹھائے ہوئے ایک بہت اہم اور بظاہر متنازعہ سوال کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ کہ جب روایتی طور پر دنیا کے تمام مسلمان رمضان کے احترام پر متفق ہیں اور اکا دکا مثالوں سے قطع نظر اس کا عملی ثبوت بھی دیتے ہیں تو کیا ہم نے ضیاء الحق کے زمانے میں ''احترام رمضان'' کا قانون پاس کر کے غیرمسلموں، بیماروں یا کسی اور جینوئن عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکنے والوں اور کھانے پینے کی اشیا سے متعلق کاروباری لوگوں اور غریب محنت کشوں کو ایک ایسی مشکل میں نہیں ڈال دیا جس کا پہلے سے آسان بہتر اور آزمودہ حل ہمارے دین اور معاشرے میں موجود اور زیر عمل تھا؟