منزل شفاف الیکشن کاانعقاد
آیندہ انتخابات کے پرامن اور منصفانہ انعقاد کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کا بیان جہاں خوش آیند اور حوصلہ افزا ہے۔
انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیرنہیں کی، چیف الیکشن کمشنر. فوٹو: فائل
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ انتخابات اپنے وقت 11مئی کو ہی ہونگے ، اس میں ایک دن کی بھی تاخیرنہیں کی جاسکتی ، ہم ناکام ہوسکتے ہیں مگر ہمیں کامیاب ہونا ہے، قوم خدشات ذہن سے نکال دے ، انتخابات کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں، دہشتگردوں کی کارروائیاں ہمیں اپنے مقصد میں ناکام نہیں کر سکتیں، پولنگ کے دن فوج ، رینجرز اور ایف سی کی موجودگی میں انتخابات کے پرامن اور صاف و شفاف انعقاد میں ناکامی کا کوئی امکان نہیں ۔
جمعرات کو چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی صدارت میں انتخابات کے دوران سیکیورٹی پلان کو حتمی شکل دینے کے لیے اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن کے ممبران، سیکریٹری دفاع، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز ، ہوم سیکریٹریز، پولیس ، رینجرز ، ایف سی کے حکام اور چیئرمین نادرا سمیت اعلیٰ افسروں نے شرکت کی، اجلاس 6 گھنٹے تک جاری رہا جس میں امن وامان کی صورتحال پر غورکیا گیا۔
آیندہ انتخابات کے پرامن اور منصفانہ انعقاد کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کا بیان جہاں خوش آیند اور حوصلہ افزا ہے وہاں سیاسی حلقوں اور انتخابی امیدواروں کے ذہن میں دہشت گردوں کے مسلسل یک طرفہ حملوں سے پیدا ہونے والے غیر معمولی اندیشوں، افواہوں ،اور ممکنہ خطرات کے پیش نظر چشم کشا بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے پرامن ماحول کا ہونا بے حد ضروری ہے اور اس بات کی یقین دہانی اور ٹھوس انتظامات بھی کہ انتخابی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو یکساں پلے انگ فیلڈ مہیا کی جائے اور انھیں اہدافی قتل کی حکمت عملی جیسی دہشت گردی کے خلاف مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔
کہنے کو تو نگراں حکومت بھی امن کے قیام اور امیدواروں کے تحفظ کی بات کررہی ہے اور سیاست دان بھی دہشت گردی کے خاتمے پر زور دیتے ہیں مگر انتخابات سے قبل حملےعجیب ٹارگٹڈ انداز کے دیکھنے میں آرہے ہیں، سیاسی حلقوں کو شکایت ہے کہ ایک ایجنڈے یا پلاننگ کے تحت دہشت گردی کا نشانہ صرف تین چار پارٹیاں بن رہی ہیں جوبائیں بازو کی یا ترقی پسند، لبرل اور سیکولر جماعتیں کہلاتی ہیں ،ان میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ ،اے این پی اور بلوچستان کی بعض سیاسی جماعتیں ہیں جو مزاحمت پسندوں کی خواہشات کے برعکس انتخابات سے الگ رہنے کے بجائے انتخابی عمل میں شریک ہیں اور اس لیے ان کے انتخابی قافلوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
دوسری جانب ان سیاسی پارٹیز کی یہ بھی جائز شکایت ہے کہ نواز شریف،عمران خان اور مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر دائیں بازو کی مذہبی اور کم پروفائل کی حامل سیاسی جماعتوں کے بینر تلے بڑے ''محفوظ ''جلسے ہورہے ہیں اورانھیں کسی قسم کا کوئی خطرہ در پیش نہیں ۔ اصولی اور منطقی لحاظ سے اس تفریق کا احساس و ادراک کرنا چیف الیکشن کمشنر اور نگراں انتظامیہ کے ارباب بست وکشاد کا کام ہے جن کے ذمے پرامن، منصفانہ،شفاف اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ چانچہ مسلسل ہونے والے حملوں ، پرتشدد واقعات اور اہدافی پارٹیز اٹیک کایہ مظہربالکل انوکھا ہے ، دہشت گردی کامسئلہ یا فینامینا توگزشتہ دو تین عشروں سے جاری ہے مگر حالیہ حملے اور دہشت گردی کی امتیازی وارداتوں کا سلسلہ فوری رکنا چاہیے۔
اس سے سیاسی جماعتوں میں یہ تاثر اور سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ صرف انھیں کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے جب کہ ملک بھر میں دیگر انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر یا امیدواروں اس چیز سے مستثنیٰ ہیں جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان سمیت تمام سیاست دان اس دہشت گردی اور یک طرفہ حملوں کی سخت لفظوں میں مذمت کریں، عمراں خان کا بیان اس ضمن میں خوش آیند ہے تاہم مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کی طرف سے دیگر امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے دفاتر اور قافلوں پر حملوں کے خلاف پالیسی بیان آنا دہشت گردی اور لاقانونیت کے خلاف مثبت پیغام ہوگا۔ بلاشبہ کراچی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
گزشتہ روز نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں ایم کیو ایم کے انتخابی دفتر کے باہر لگاتار دوسرے بم دھماکے سے تین سگے بھائیوں سمیت 5 افراد کا جاں بحق اور پندرہ زخمی ہونا المیے سے کم نہیں۔ متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے نصرت بھٹوکالونی،میں ایم کیوایم کے بند انتخابی دفترکے قریب انتخابی سرگرمیوں میں مصروف عمل ایم کیو ایم کے 5کارکنان کی شہادت اور متعددکے زخمی ہونے کے خلاف جمعہ کو پورے سندھ میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ۔امین فہیم نے کہا کہ لاشیں نہیں اٹھانا چاہتے انتخابی عمل میں رہنا چاہتے ہیں ۔ کالعدم تنظیم طالبان نے کراچی میں حملوں سے وابستگی کا اعتراف کیا ہے اور نصرت بھٹو کالونی میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمے داری بھی قبول کر لی ہے ، اس تناظر میں گینگ وار کارندوں کی شہر کے تجارتی علاقوں میں بدامنی کو کسی طور نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
یہ عناصر مخالف جماعتوں کو ڈرانے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں ان کے خلاف ریاستی مشینری کو کارروائی میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔ صدر زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف،الطاف حسین ، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی، اے این پی کے رہنمائوں افتخار حسین، زاہد خان اور شاہی سید نے بم دھماکے کی شدید مذمت کی ہے،جب کہ گورنر سندھ نے آئی جی پولیس سندھ سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ یہ اطلاع خوش آیندہے کہ ایس ایس پی سی آئی ڈی انسداد انتہا پسندی سیل چوہدری اسلم کی سربراہی میں گزشتہ دنوں بفرزون پیپلز چورنگی کے قریب متحدہ قومی موومنٹ کے الیکشن کیمپ کے ساتھ کیے جانے والے بم دھماکے میں کالعدم تحریک طالبان کے ملوث ہونے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
سی آئی ڈی کی کی دو ٹیموں نے خفیہ اطلاع پر سائٹ غنی چورنگی اور ایم اے جناح روڈ پر چھاپے مار کر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے4کارندوں اور اجرتی قاتلوں سمیت8ملزمان کو گرفتار کر کے ایک من سے زائد دھماکا خیز مواد ، اسلحہ اور گولیاں برآمد کرلیں ۔ ان ملزمان سے درست تفتیش کے بعد مزید ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنانا اشد ضروری ہے تاکہ کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں طالبان کی کارروائیوں کا راستہ روکا جاسکے۔ایم کیو ایم ،پیپلز پارٹی اور اے این پی کی قیادت سے رابطہ کیا جائے اور ان کے تالیف قلوب کے لیے اقدامات درست سمت میں ہونے چاہئیں۔
نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن حکام کو یاد رکھنا چاہیے کہ پرامن انتخابات کے لیے بیوروکریسی، پولیس،رینجرز،ایف سی،لیویز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مستعد اور الرٹ رکھنے کی ہدایات دیکر پاکستان کو شفاف انتخابات کے انعقاد کا مثالی مرکز بنانے کی حتمی پالیسی وضع کی جائے تاکہ دہشت گردی اور ملک دشمن عناصر کے مذموم اور مفاد پرستانہ حملوں اور دہشت گردانہ وارداتوںمیں ملوث عناصر کی کمر ٹوٹ جائے۔ارباب اختیار بلوچستان میں بھی پرامن انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس پیش رفت کریں۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے واقعات کے باوجود ہر فرد انتخابات کے لیے تیار ہے ، کچھ علاقوں میں مشکلات ہیں لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ، 16 دن بعد قوم اپنی منزل پالے گی ۔خدا کرے کہ قوم اس منزل تک پہنچ جائے۔ تاہم حکمراں اس تلخ حقیقت کو مد نظر رکھیں کہ انتخابی عمل کو دشواریوں کا سامنا ہے ۔ کچھ عناصر طاقت اور دھونس کے ساتھ ساتھ اسلحہ کی بنیاد پر اپنا ایجنڈا قوم کے سر پرمسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کو ناکام بنانے کے لیے انتخابی عمل میں شریک سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی سخت ضرورت ہے۔