انتخابات اور کراچی کے حالات
بینکوں میں ڈکیتی کی شرح میں بھی حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی بڑھ گئی
کراچی پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے کارکنوں کے قتل کے خلاف اپنے انتخابی دفاتر بند کردیے ہیں۔ 24 اپریل اور 26 اپریل کو کراچی میں زندگی معطل رہی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما الزام لگارہے ہیں کہ رینجرز کے دستے ان کے خلاف آپریشن کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم حقیقی کے دفاتر پر بھی حملے ہوچکے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی طرح غیر ریاستی کرداروں کے ذریعے انتخابی نتائج کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کراچی شہر کے تمام نوگوایریاز (No Go Areas) ختم کیے جائیں۔ معزز عدالت میں سماعت کے دوران ایک پولیس افسر نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ شہرمیں6 کے قریب نوگوایریاز موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں فل بینچ کراچی میں نو گو ایریا کے بارے میں پولیس اور رینجرز کی رپورٹیں مسترد کرچکا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس سخت آبزرویشن کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کو بند کرنے کے لیے لگائے گئے بیریئرز ہٹانے کے لیے اقدامات ہوئے۔
شہر کے مختلف علاقوں میں لگے ہوئے بیریئرز ہٹادیے گئے مگر کچھ علاقوں میں یہ بیریئرز ابھی تک موجود ہیں۔ کراچی کی نمایندگی کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (MQM) کے قائد الطاف حسین کا کہنا ہے کہ شہریوں نے اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے یہ بیریئرز لگائے ہیں۔ ان بیریئرز کے خاتمے سے جرائم بڑھ جائیں گے۔ کراچی میں نوگوایریاز کی اصطلاح گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں رائج ہوئی جب سیاسی جماعتوں کے مسلح جھتوں نے اپنے مخالفین کو اپنے زیرِ نگرانی علاقوں سے نکال دیا، مخالف جماعتوں کے دفاتر کو بند کردیا گیا، قومی جماعتوں کے بیشتر کارکن اس لہر میں قتل ہوئے جب کہ بعض اپنے اہلِ خانہ سمیت جان بچاکر محفوظ علاقوں میں منتقل ہوگئے۔
90ء کی دھائی میں کراچی میں آپریشن کیا گیا تو سڑکوں اور گلیوں میں لگے ہوئے آہنی دروازے ہٹادیے گئے مگر شاہراہِ فیصل کے دائیں طرف آباد علاقوں میں ایک اقلیتی گروہ کے مسلح جھتوں کو ان علاقوں میں رہنے کی اجازت دیدی گئی۔ اس لڑائی میں ایم کیو ایم کے بہت سے کارکن جاں بحق ہوئے۔ یوں یہ علاقے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لیے نوگوایریاز بن گئے۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد سندھ میں ڈاکٹر عشرت العباد گورنر اور علی محمد مہر وزیر اعلیٰ بنے تو یہ علاقے خالی کرائے گئے مگر نئی صدی کے ساتھ ہی شہر میں بدامنی بڑھتی چلی گئی۔ شہر میں موبائل اور پرس چھیننا عام سی بات بن گئی۔
بینکوں میں ڈکیتی کی شرح میں بھی حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی بڑھ گئی، گوکہ اس ٹارگٹ کلنگ کی نوعیت تبدیل ہوتی رہی۔ فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر لوگوں کو قتل کیا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی کراچی میں دہشت گردی کی وارداتیں بھی بڑھ گئیں۔ مذہبی انتہاپسندوں نے امریکی قونصل خانے کو نشانہ بنایا۔ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے قافلے کو شاہراہ فیصل پر بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ کراچی کے کورکمانڈر کی گاڑی پر کلفٹن کے پل پر تربیت یافتہ افراد نے حملہ کیا۔ اس حملے میں کور کمانڈر تو بچ گئے مگر متعدد فوجی شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ کلفٹن پل پر سے گزرتے ہوئے پولیس افسر اور عام شہری بھی اس حملے میں جاں بحق ہوگئے۔
اس کے بعد گورنر ہاؤس، وزیرِ اعلیٰ ہاؤس اور دوسرے اہم دفاتر کی حفاظت کے لیے بیریئرز لگادیے گئے جس سے عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔شہر کے مختلف علاقوں میں تو صاحب ثروت حضرات نے ان بیریئرز کو چلانے کے لیے پرائیوٹ کمپنیوں کے سیکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کرلیں مگر بیشتر مقامات پر آنے جانے کے تمام راستے بند کردیے گئے۔ بہت سے لوگوں کو رات گئے اپنے گھروں میں پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ ایمرجنسی میں ایمبولینس اور دیگر گاڑیوں کو طلب کرنے میں بھی مشکلات بڑ ھ گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے بیریئرز لگا کر سڑکوں پر گاڑیاں کھڑی کرنا شروع کردیں، مگر اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں کسی طور کمی نہ آئی۔
پولیس اور رینجرز والوں نے اپنے فرائض نجی سیکیورٹی گارڈ اور بیریئرز لگانے والوں کے سپرد کردیے۔ جب پولیس نے لیاری اور شہر کے دوسرے علاقوں میں آپریشن کیے تو ان بیریئرز کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سڑکوں پر لگے ہوئے ان بیریئرز کو اپنے آپریشن کی ناکامی کی وجہ قرار دیا ۔مگر گزشتہ ماہ جب سپریم کورٹ میں کراچی بے امنی کیس کی سماعت ہوئی تو پولیس اور رینجرز حکام نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ شہریوں نے چوری چکاری روکنے کے لیے یہ بیریئرز لگائے ہیں۔ رینجرز کے اس مؤقف کو سپریم کورٹ کے معزز ججوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔
کراچی کی بدقسمتی یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے یہ شہر بد امنی کا شکار ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے کو محسوس نہیں کیا گیا۔ ملک بھر کے علاوہ افغانستان، بنگلہ دیش، برما اور دیگر ممالک سے آنے والے تارکینِ وطن نے بھی اپنی بستیاں یہاں قائم کیں۔ جنرل ضیاء الحق کی اس پالیسی کے تحت شہر کے مضافاتی علاقوں میں افغان پناہ گزینوں کے کیمپ قائم کیے گئے۔ کچی بستیوں کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کا نظام بھی خراب ہوا۔ شہر میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر عام ہونے سے ایک مصنوعی معاشرے کے ساتھ برداشت اور رواداری بھی ختم ہوگئی ۔
1985کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کے بعد شہر لسانی، سیاسی او ر فرقہ وارانہ تضادات کا شکار ہوا۔ شہر نے 1986 سے 1990 تک مختلف نوعیت کے افسوسناک لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات دیکھے ، قانون کی عملداری کم ہوتی چلی گئی۔ 1988سے 1999 تک برسرِ اقتدار آنے والی سیاسی حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کا شکار ہو کر اور کچھ اپنی نااہلی کی وجہ سے کراچی کو لسانی، مذہبی اور سیاسی تضادات سے نہیں نکال سکیں ۔کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں شامل تو ہوا مگر ان تضادات کی بناء پر شہری تشدد کا شکار ہوگئے۔ سیاسی جماعتوں نے تشدد کی فضاء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
دنیا کے کسی شہر میں حکومتی ادارے اور شہری اپنی حفاظت کے لیے سڑکوں پر بیریئرز نہیں لگاتے، یہ پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ شہرمیں امن و امان کو یقینی بنائیں۔ حکومتی اداروں اور شہریوں کا آئین اور قوانین سے ہٹ کر اقدام کرنا ریاستی اداروں پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ اب انتخابات کے موقعے پر غیر ریاستی کرداروں کی طرف سے دہشت گردی کے ذریعے نتائج کو کنٹرول کرنے کا گمان ہورہا ہے۔کراچی کی انتظامیہ جس میں پولیس، رینجرز اورخفیہ ایجنسیاں شامل ہیں کی ذمے داری ہے کہ شہر میں جرائم کا خاتمہ کریں اور ہر شہری کو تحفظ فراہم کریں۔ شہری اپنے تحفظ کے لیے قانون سے ہٹ کر اقدام کرتے ہیں تو اس کے مجموعی طور پر منفی اثرات ہی برآمد ہوتے ہیں۔
انگریزی زبان میں شایع ہونے والے اخبار کے مدیر کا کہنا ہے کہ کراچی کو جرائم سے پا ک کرنے میں Political Will کی کمی رہی ہے۔ اگر منتخب حکومتیں واقعی شہر کو جرائم سے خاتمے کے لیے سیاسی ارادے کا اظہار کریں ،کسی امتیاز کے بغیر شہر کے تمام علاقوں میں نو گو ایریاز کا خاتمہ کیا جائے۔ مجرموں کی کمیں گاہیں بھی ختم کردی جائیں، پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک فعال ہواور ملزمان کو عدالتیں قرار واقعی سزائیں دیں تو پھر کسی بھی گروہ کو حفاظت کے لیے عارضی سہاروں کی ضرورت نہ رہے۔