بھنڈرنوالہ کی یاد بدستور زندہ ہے
فوجی آپریشن ناگزیر نہیں تھا اور یہ کہ بھنڈرانوالہ کے ساتھ دوسرے طریقے سے بھی نمٹا جا سکتا تھا۔
بھارت کی تاریخ المیوں سے بھری ہوئی ہے' اگر ان پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان المناک واقعات سے بچا جا سکتا تھا۔ آپریشن بلیو اسٹار ان میں سے ایک ہے۔ عسکریت پسند جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ جس نے سکھوں کی سب سے مقدس گدی اکال تخت پر قبضہ کرکے ریاست کے اندر ریاست قائم کر لی تھی' وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھنڈرانوالہ کی بندوقوں کو خاموش کرنے کے لیے فوج کا استعمال کیا اور ''ہر مندر صاحب'' پر ٹینک چڑھا دیے۔
اب اس بارے میں جو مرضی کہا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سکھوں کے دل میں بھنڈرانوالہ کی اب بھی عزت قائم ہے۔ مجھے اس کا احساس اگلے دن ہوا جب میں نے روا روی میں اسے دہشت گرد کہہ دیا۔ سکھ تاریخ دان بھنڈرانوالہ کو دہشت گرد کہہ کر بچ سکتا ہے لیکن میں نہیں بچ سکا حالانکہ میں نے بڑی وضاحتیں کیں کہ یہ ایسے ہی منہ سے نکل گیا تھا جس کا مقصد بھنڈرانوالہ کی ہتک کرنا نہیں تھا لیکن میری معافی تلافی کے باوجود سکھ برادری نے بہت غم و غصہ کا اظہار کیا حتیٰ کہ میری دست بستہ معافی کو بھی قبول نہیں کیا گیا۔ مجھ پر سخت تنقید کی گئی اور سکھوں کو ناراض کرنے کا مرتکب گردانا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم اندرا گاندھی اکالی سکھوں کو نیست و نابود کرنا چاہتی تھیں اور بھنڈرانوالہ کو اس مقصد کے لیے ایک چیلنج کے طور پر استعمال کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقوعے کے پیچھے بہت لمبی منصوبہ بندی تھی جس کا عام لوگوں کو پتہ نہیں چل سکا۔ اس حوالے سے ایک کہانی یہ بھی ہے جس کی اندرا گاندھی کے پرسنل سیکریٹری آر کے دھون نے تصدیق بھی کی کہ اصل منصوبہ 1984ء کے لوک سبھا کے انتخابات کے لیے ووٹروں کو اکٹھا کرنا تھا جو چند ماہ بعد ہونے والے تھے۔ اندرا گاندھی کا بیٹا راجیو گاندھی' اس کا بھتیجا ارون نہرو اور راجیو کا مشیر ارون سنگھ وہ لوگ تھے جنہوں نے مسز گاندھی کو امرت سر کے دربار صاحب پر فوجی کارروائی کے لیے مجبور کیا تاکہ عسکریت پسند لیڈر اور اس کے پیروکاروں کو وہاں سے نکالا جا سکے۔
دھون نے بعد میں کہا بھی تھا کہ ان تینوں راجیو، ارون نہرو اور ارون سنگھ کو یقین تھا کہ آرمی کے کامیاب آپریشن کے نتیجے میں وہ الیکشن جیت جائیں گے لیکن آپریشن بلیو اسٹار اندرا گاندھی کی آخری لڑائی نہیں تھی بلکہ غالباً پہلی لڑائی تھی جو سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس کو راجیو کی فاش غلطی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ ''کاروان'' نامی جریدے نے اپنی رپورٹس میں لکھا ہے کہ آپریشن بلیو اسٹار کی بظاہر منظوری اندرا گاندھی نے دی تھی لیکن یہ منظوری بادل نخواستہ دی گئی تھی۔ آپریشن کے فوراً بعد اس پر گہرے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا تھا کیونکہ جب اندرا کو سکھوں کے سب سے مقدس گردوارے میں تباہی کے مناظر دکھائے گئے تو دھون بھی اس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ صدر گیانی ذیل سنگھ سکھوں سے معذرت کرنے کے لیے دربار صاحب جانا چاہتے تھے لیکن ان کو روک لیا گیا۔
چنانچہ انھوں نے اپنے طور پر ایک سویلین طیارہ حاصل کر کے دربار صاحب کا دورہ کیا اور سکھوں سے معافی مانگی۔ سب سے گہرا گھاؤ وہ تھا جب گیانی ذیل سنگھ کو آل انڈیا ریڈیو پر براڈ کاسٹ کے ذریعے آپریشن کے دفاع پر مجبور کیا گیا۔ ذیل سنگھ نے بعدازاں خود مجھے بتایا کہ وہ انکار کر دینا چاہتے تھے لیکن اس خیال کے تحت کہ اس طرح کہیں ملک میں بحران نہ پیدا ہو چنانچہ انھوں نے جو راستہ اختیار کیا وہ حکومتی راستے سے مختلف تھا البتہ انھیں آل انڈیا ریڈیو پر آپریشن کا دفاع کرنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ قوم سے خطاب کے موقع پر وہ سچ مچ رونے لگے۔
مسز گاندھی بھی گولڈن ٹیمپل کی تباہی و بربادی کی فوٹیج دیکھ کر دہشت زدہ رہ گئیں جو کہ ارون سنگھ انھیں دکھانے کے لیے لایا تھا۔ ارون نہرو نے مجھے بتایا کہ اس کی پھوپھی اندرا آخر وقت تک آپریشن کے حق میں نہیں تھیں لیکن آرمی چیف اور متذکرہ تین نوجوانوں نے اسے زبردستی قائل کر لیا حتٰی کہ آپریشن بلیو اسٹار شروع ہو گیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ راجیو گاندھی نے پنجاب کے معاملات ازخود براہ راست سنبھال لیے تھے جس پر کچھ وقت پہلے تک اس کے چھوٹے بھائی سنجے گاندھی کا اختیار تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ گولڈن ٹیمپل پر فوجی کارروائی کا خمیازہ اندرا کو اپنی جان دیکر بھگتنا پڑا کیوںکہ اس کے سیکیورٹی گارڈ نے اس کو اپنی خود کار سرکاری رائفل سے چھلنی کر دیا۔
یہ الگ بات ہے کہ بعدازاں راجیو گاندھی کو انڈین تاریخ میں اپنی والدہ کے قتل کے بعد انتخابات میں سب سے بھاری مینڈیٹ ملا (544 نشستوں کے ایوان میں 421نشستیں)۔ بعدازاں جب ایک طرف سکھوں اور حکومت اور دوسری طرف سکھوں اور ہندوؤں میں کشیدگی دور کرنے کے لیے ایک ٹیم بنائی گئی جس میں جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ' ائر مارشل ارجن سنگھ اور اندر کمار گجرال جو بعدازاں وزیراعظم بن گئے تو اس ٹیم کا خود میں بھی ایک رکن تھا۔
ہماری تفتیش و تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوجی آپریشن ناگزیر نہیں تھا اور یہ کہ بھنڈرانوالہ کے ساتھ دوسرے طریقے سے بھی نمٹا جا سکتا تھا۔ ہم نے ان خیالات کا اظہار پنجابی گروپ کو پیش کی جانے والی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا جنہوں نے ہمیں مسز گاندھی کے قتل کے بعد پھوٹ پڑے والے سکھوں کے خلاف فسادات کے بارے میں تحقیقات کے لیے متعین کیا تھا۔ پی وی نرسیمہا راؤ اس وقت وزیر داخلہ تھے ان سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ وہ بھی ہم سے متفق تھے۔ دوسرے تمام لوگ جن سے ہماری ملاقات ہوئی اور جن میں عینی شاہدین بھی شامل تھے سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ حکومت نے ضرورت سے زیادہ کارروائی کی ہے۔
دہلی اور نواحی علاقوں میں ہونیوالے سکھ کُش فسادات کو فوری طور پر روکا جا سکتا تھا لیکن وزیراعظم راجیو گاندھی نے جان بوجھ کر پولیس یا فوج کو مداخلت کے لیے نہیں کہا بلکہ راجیو کا کہنا تھا کہ فسادات خود بخود پھیل گئے تھے کیونکہ جب کوئی بہت بڑا درخت گرتا ہے تو زمین ہل جاتی ہے۔ اب اس واقعے کو 34 سال بیت چکے ہیں۔ برطانیہ نے خفیہ دستاویزات جاری کر دی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی ملٹری نے انڈیا کو ہدایت کی کہ وہ سکھوں کے اس متبرک مقام پر دوبارہ قبضہ کر لیں۔ برطانوی حکومت نے ان انکشافات کی انکوائری کرانے کا حکم دیا جس پر بی جے پی نے وضاحت طلب کر لی ہے۔ برطانیہ نے جو انکشافات مختلف مراسلوں کے ایک سلسلے میں کیے ہیں جن پر 30 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد خفیہ رکھنے کا قانون ختم ہو گیا ہے۔
سرکاری مراسلوں کا یہ سلسلہ 23 فروری 1984ء سے شروع ہوا جن کا عنوان ہے ''سکھ کمیونٹی'' سیکریٹری خارجہ کے ساتھ کام کرنے والے ایک سرکاری افسر نے وزیر داخلہ کے پرائیویٹ سیکریٹری کو بتایا کہ فارن سیکریٹری چاہتے ہیں کہ آپ انھیں اپنے ملک کی سکھ کمیونٹی کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کریں۔
اس مراسلے میں مزید کہا گیا تھا کہ اگر برطانوی مشورے کو عوام کے سامنے کھول دیا جائے تو اس سے برطانیہ میں جو بھارتی کمیونٹی رہتی ہے اس میں کشیدگی میں اضافہ ہو جائے گا لیکن یہاں تک میرا تعلق ہے تو مجھے اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ آیا جون 1984ء کے آپریشن میں برطانوی منصوبے پر عمل درآمد کیا گیا تھا یا نہیں۔ جب 1990ء میں مجھے برطانیہ میں بھارتی ہائی کمشنر کے طور پر تعینات کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ بھارتی سکھوں کے ساتھ تعصب کا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ جب ہائی کمیشن کی عمارت میں کوئی سکھ داخل ہوتا تو اس کی خاص طور پر تلاشی لی جاتی لیکن میں نے حکم دیا کہ ہائی کمیشن میں سب کو بلا روک ٹوک داخل ہونے دیا جائے اور دروازے چوپٹ کھول دیے جائیں اس اقدام سے حالات معمول پر آگئے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)