اسلام میں حدیث کا مقام آخری حصہ
حدیث و سنت سے بے نیازی اور بے توجہی کا نتیجہ آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
حدیث و سنت، تعلیم الکتاب، بیان الکتاب اور ارادۃ الٰہی کی مصداق ہے قرآن نے رسولؐ کی ذات کو اسوۂ حسنہ قرار دے کر، اطیعواللہ واطیعوالرسول بار بار فرما کر، دین اسلام میں قرآن کے بعد حدیث اور سنت کی سند اور حجت پر انمٹ مہر الٰہی ثبت کردی۔ جس طرح آپؐ کے دو نام حجۃ اور برھان ہیں اسی طرح آپ کی ثابت شدہ ہر حدیث اور سنت بھی حجت اور برھان ہیں۔ اطاعت رسول کے الفاظ بولیں یا حدیث اور سنت پر عمل کہیں معنوی اعتبار سے بات ایک ہی ہے۔ محض الفاظ کا فرق ہے۔ مقصد، مطلب اور مفہوم کا فرق نہیں ۔
جس طرح اللہ ایک ہے اسی طرح اس کی جنت کی طرف جانے والا راستہ بھی ایک ہے اور وہ ہے سنتؐ۔ خالق اور مخلوق کے درمیان سنتؐ ایک ایسا واسطہ اور رابطہ ہے جس سے وابستہ اور پیوستہ ہوئے بغیرگمراہی کا راستہ تو مل سکتا ہے لیکن بھلائی اور رضائے الٰہی کا راستہ ہرگز نہیں مل سکتا۔ نور نبوت و حکمتؐ سے بے نیاز ہوکر نور عقل کی مدھم روشنی میں حق کا متلاشی راہوں کی بھول بھلیوں کو کھو تو سکتا ہے منزل پا نہیں سکتا ۔
آئین مصطفیٰؐ کے سوا حل مشکلات
یہ عقل کا فریب' نگاہوں کی بھول ہے
اطاعت انسان کے دل کی پکار اور اس کے جذبہ سپردگی کا اظہار ہوتی ہے۔ عشق رسولؐ اگر ہماری نماز اور دیگر نیک اعمال کا امام نہ ہو تو ایسے تمام افعال کی اللہ کے ہاں کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اطاعت رسولؐ، علامت ایمان ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو۔''
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث نبوی دین میں حجت ہے اور اس کے بغیر دین اسلام کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ کلمہ طیبہ یعنی ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ'' دین اسلام کے دو بنیادی عقائد پر مشتمل ہے۔ جو اس بات کا اعلان ہے کہ اطاعت الٰہی کا دعویٰ، اطاعت رسولؐ کے بغیر نفس کی عیاری اور عقل کی مکاری کے سوا کچھ بھی نہیں۔
آپؐ نے فرمایا ''خبردار رہو مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اسی قسم کی ایک اور چیز بھی۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ ایک شکم سیر انسان اپنی مسند پر بیٹھا یہ کہنے لگے کہ بس تم قرآن کی پیروی کرو جس چیزکو اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جس چیز کو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو حالانکہ جس چیز کو اللہ کا رسولؐ حرام ٹھہرائے وہ ویسی ہی حرام ہے جیسے اللہ کی حرام کردہ چیز۔''
آپؐ نے مزید فرمایا ''کیا تم میں سے کوئی شخص۔۔۔۔ یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حرام نہیں کی سوائے ان چیزوں کے جن کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے خبردار رہو خدا کی قسم میں نے جن باتوں کا حکم دیا اور جو نصیحتیں کی ہیں اور جن کاموں سے منع کیا ہے وہ بھی قرآن ہی کی طرح ہیں۔''
اس سے معلوم ہوا ہے کہ حدیث قرآن کی ہی ایک قسم ہے۔ قرآن ہی کی طرح ہے۔ ایک وہ چیز جو قرآن کی شرح ہو اور اپنی ذات میں منجانب اللہ شرع بھی ہو اس سے ایک مسلمان کس طرح بے نیاز ہوسکتا ہے۔ ائمہ اربعہ کا متفق علیہ فیصلہ ہے کہ ثابت شدہ حدیث کے ترک میں سے کسی کو عذر نہیں۔ امام حنبلؒ کا قول ہے:
''جس نے رسول اللہؐ کی حدیث کو رد کیا وہ ہلاکت و تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا۔''
آپؐ نے فرمایا ''میری تمام امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جو انکار کرے۔'' صحابہؓ نے فرمایا یا رسول اللہؐ! انکار کون کرتا ہے؟ فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔''
انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکام کو جاننے کا واحد ذریعہ نبی ہے اور صرف رسول ہی بتا سکتا ہے کہ اللہ کے احکام پر کس طرح عمل کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے قرآن کی رو سے نبی کی مکمل اطاعت ضروری ہے ایسی اطاعت جس میں نہ کوئی قید و شرط ہو نہ کوئی تنگ دلی۔
جیساکہ فرمان الٰہی ہے:ترجمہ: پس نہیں، اے نبی! تمہارا رب گواہ ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ آپس کے تمام معاملات میں تمہیں حکم نہ بنائیں اور پھر تمہارے فیصلے پر بلاکسی دلی تنگی کے آمادگی کے ساتھ سر تسلیم خم نہ کریں۔ (سورۃ النسا آیت 65)
خدا کی اطاعت کی واحد شکل اتباع رسولؐ ہے اور اتباع کے لیے آپؐ کی ذات بابرکات کے لیے عشق و سرمستی والہانہ محبت اور عزت و عظمت کے جذبات سے دل کا لبریز ہونا لازمی ہے۔
محمدؐ کی محبت دین حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
آپؐ کے قول کو خدا کی بات اور خدا کا حکم سمجھنا اور آپؐ کی سنت سے محبت کرنا آپؐ کی ذات سے محبت کا لازمی تقاضا ہے۔
جیساکہ آپؐ نے فرمایا ''جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی''، ''جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھے زندہ کیا۔'' ، ''جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس تم میری سنت اور میرے راست رو ہدایت یافتہ خلفا کے طریقے پر جمے رہنا۔''
جس طرح قرآن سے انحراف ضلالت اور باعث سزا ہے اسی طرح حدیث و سنت سے بے نیازی اور بے توجہی کا نتیجہ آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ جس طرح آپؐ کے نام حق، نور، صادق، حجۃ اور برہان ہیں اسی طرح دین میں آپؐ کی حدیث اور سنت حق نور، صدق، حجۃ اور برہان ہیں۔ یہ صحابہ کرام اور ان کے بعد جمہور علما، فقہا، صلحا اور ائمہ کا فیصلہ ہے۔
کیونکہ رسول پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعے آپ کو مطلع کیا جاتا تھا جو قرآن میں نہیں۔ قرآن کی موجودہ ترتیب اس بات کا بین ثبوت ہے۔ قرآن کے نزول کا آغاز سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیات سے ہوا لیکن سورتوں کی ترتیب میں سب سے پہلے سورۂ فاتحہ ہے۔ حالانکہ بہ اعتبار نزول اس کا نمبر پانچواں ہے اور سورہ علق جو نزول کے اعتبار سے سب سے پہلے ہے اس کا نمبر شمار 96 ہے۔ اسی طرح آخری آیت جو حجۃ الوداع کے موقعے پر 10 ہجری کو نازل ہوئی اس کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے جوکہ ترتیب کے لحاظ سے قرآن کی پانچویں سورہ ہے۔
حدیث کا واسطہ منقطع کرکے الدین اور الاسلام کا راستہ مل ہی نہیں سکتا۔ مثلاً نماز اور زکوٰۃ کے احکام کو لیجیے۔ نماز کا مفصل نظام، اوقات، وضو، اذان، تکبیر، جماعت، رکعات، قیام، رکوع، سجود، تشہد، سلام غرض یہ کہ نماز سے متعلق ساری تفصیلی معلومات حدیث سے ملتی ہے۔ اسی طرح قرآن حکیم میں زکوٰۃ کے بارے میں جو احکامات ملتے ہیں ان میں صرف زرعی پیداوار اور سونے چاندی پر زکوٰۃ دینے کا ذکر ملتا ہے لیکن ان چیزوں کے بارے میں بھی نصاب اور شرح زکوٰۃ کا ذکر نہیں ملتا۔ لیکن حدیث (وحی غیر متلو) کے ذریعے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ان اشیا کے علاوہ تجارتی مال و اسباب اور مویشیوں وغیرہ پر بھی زکوٰۃ ہے۔ اس طرح ہر ایک چیز کی کم ازکم مقدار یا حد (نصاب) جس پر زکوٰۃ لی جائے گی اور جن چیزوں پر زکوٰۃ واجب ہے ان کی شرح زکوٰۃ یعنی 20 فیصد، 10 فیصد، 5 فیصد اور 2.5 فیصد نیز اہل بیت پر زکوٰۃ لینا حرام قرار دینے کا پتا حدیث ہی سے چلتا ہے۔ یہی حال دیگر احکامات کی تفصیلات کا ہے۔
قرآن اور حدیث دونوں مل کر اسلامی نظام کا پورا نقشہ پیش کرتی ہیں جس کا ایک مجموعی مزاج ہے جو جدا ہوکر قائم نہیں رہ سکتا۔ حدیث خدا کا بیان ہے خدا کا حکم ہے۔ قرآن اللہ کے الفاظ اور معانی کا مجموعہ ہے اور حدیث اللہ کے معانی اور رسولؐ کے الفاظ کا مجموعہ ہے۔ لیکن حجت، قطعیت اور حقانیت میں دونوں برابر ہیں کیونکہ دونوں کا ماخذ، منبع اور سرچشمہ اللہ پاک کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے الفاظ اور معانی کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس وعدے میں حدیث جو اللہ ہی کے معانی ہیں خود بخود آجاتا ہے۔ دشمنان اسلام اور اسلام کے دوست نما دشمن لاکھ برا چاہیں تو کیا ہوتا ہے۔ حدیث مٹ نہیں سکتی۔ یہ ناپاک سازش کہ حدیث کو قرآن سے جدا کرکے اسلامی تہذیب و تمدن کی عمارت میں ضعف پیدا کردیا جائے اس کے شہتیر ہلا دیے جائیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ اپنے معانی یعنی حدیث کا حامی و ناصر ہے۔
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
جس طرح اللہ ایک ہے اسی طرح اس کی جنت کی طرف جانے والا راستہ بھی ایک ہے اور وہ ہے سنتؐ۔ خالق اور مخلوق کے درمیان سنتؐ ایک ایسا واسطہ اور رابطہ ہے جس سے وابستہ اور پیوستہ ہوئے بغیرگمراہی کا راستہ تو مل سکتا ہے لیکن بھلائی اور رضائے الٰہی کا راستہ ہرگز نہیں مل سکتا۔ نور نبوت و حکمتؐ سے بے نیاز ہوکر نور عقل کی مدھم روشنی میں حق کا متلاشی راہوں کی بھول بھلیوں کو کھو تو سکتا ہے منزل پا نہیں سکتا ۔
آئین مصطفیٰؐ کے سوا حل مشکلات
یہ عقل کا فریب' نگاہوں کی بھول ہے
اطاعت انسان کے دل کی پکار اور اس کے جذبہ سپردگی کا اظہار ہوتی ہے۔ عشق رسولؐ اگر ہماری نماز اور دیگر نیک اعمال کا امام نہ ہو تو ایسے تمام افعال کی اللہ کے ہاں کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اطاعت رسولؐ، علامت ایمان ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو۔''
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث نبوی دین میں حجت ہے اور اس کے بغیر دین اسلام کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ کلمہ طیبہ یعنی ''لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ'' دین اسلام کے دو بنیادی عقائد پر مشتمل ہے۔ جو اس بات کا اعلان ہے کہ اطاعت الٰہی کا دعویٰ، اطاعت رسولؐ کے بغیر نفس کی عیاری اور عقل کی مکاری کے سوا کچھ بھی نہیں۔
آپؐ نے فرمایا ''خبردار رہو مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اسی قسم کی ایک اور چیز بھی۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ ایک شکم سیر انسان اپنی مسند پر بیٹھا یہ کہنے لگے کہ بس تم قرآن کی پیروی کرو جس چیزکو اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جس چیز کو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو حالانکہ جس چیز کو اللہ کا رسولؐ حرام ٹھہرائے وہ ویسی ہی حرام ہے جیسے اللہ کی حرام کردہ چیز۔''
آپؐ نے مزید فرمایا ''کیا تم میں سے کوئی شخص۔۔۔۔ یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حرام نہیں کی سوائے ان چیزوں کے جن کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے خبردار رہو خدا کی قسم میں نے جن باتوں کا حکم دیا اور جو نصیحتیں کی ہیں اور جن کاموں سے منع کیا ہے وہ بھی قرآن ہی کی طرح ہیں۔''
اس سے معلوم ہوا ہے کہ حدیث قرآن کی ہی ایک قسم ہے۔ قرآن ہی کی طرح ہے۔ ایک وہ چیز جو قرآن کی شرح ہو اور اپنی ذات میں منجانب اللہ شرع بھی ہو اس سے ایک مسلمان کس طرح بے نیاز ہوسکتا ہے۔ ائمہ اربعہ کا متفق علیہ فیصلہ ہے کہ ثابت شدہ حدیث کے ترک میں سے کسی کو عذر نہیں۔ امام حنبلؒ کا قول ہے:
''جس نے رسول اللہؐ کی حدیث کو رد کیا وہ ہلاکت و تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا۔''
آپؐ نے فرمایا ''میری تمام امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جو انکار کرے۔'' صحابہؓ نے فرمایا یا رسول اللہؐ! انکار کون کرتا ہے؟ فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔''
انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکام کو جاننے کا واحد ذریعہ نبی ہے اور صرف رسول ہی بتا سکتا ہے کہ اللہ کے احکام پر کس طرح عمل کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے قرآن کی رو سے نبی کی مکمل اطاعت ضروری ہے ایسی اطاعت جس میں نہ کوئی قید و شرط ہو نہ کوئی تنگ دلی۔
جیساکہ فرمان الٰہی ہے:ترجمہ: پس نہیں، اے نبی! تمہارا رب گواہ ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ آپس کے تمام معاملات میں تمہیں حکم نہ بنائیں اور پھر تمہارے فیصلے پر بلاکسی دلی تنگی کے آمادگی کے ساتھ سر تسلیم خم نہ کریں۔ (سورۃ النسا آیت 65)
خدا کی اطاعت کی واحد شکل اتباع رسولؐ ہے اور اتباع کے لیے آپؐ کی ذات بابرکات کے لیے عشق و سرمستی والہانہ محبت اور عزت و عظمت کے جذبات سے دل کا لبریز ہونا لازمی ہے۔
محمدؐ کی محبت دین حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
آپؐ کے قول کو خدا کی بات اور خدا کا حکم سمجھنا اور آپؐ کی سنت سے محبت کرنا آپؐ کی ذات سے محبت کا لازمی تقاضا ہے۔
جیساکہ آپؐ نے فرمایا ''جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی''، ''جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھے زندہ کیا۔'' ، ''جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس تم میری سنت اور میرے راست رو ہدایت یافتہ خلفا کے طریقے پر جمے رہنا۔''
جس طرح قرآن سے انحراف ضلالت اور باعث سزا ہے اسی طرح حدیث و سنت سے بے نیازی اور بے توجہی کا نتیجہ آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ جس طرح آپؐ کے نام حق، نور، صادق، حجۃ اور برہان ہیں اسی طرح دین میں آپؐ کی حدیث اور سنت حق نور، صدق، حجۃ اور برہان ہیں۔ یہ صحابہ کرام اور ان کے بعد جمہور علما، فقہا، صلحا اور ائمہ کا فیصلہ ہے۔
کیونکہ رسول پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعے آپ کو مطلع کیا جاتا تھا جو قرآن میں نہیں۔ قرآن کی موجودہ ترتیب اس بات کا بین ثبوت ہے۔ قرآن کے نزول کا آغاز سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیات سے ہوا لیکن سورتوں کی ترتیب میں سب سے پہلے سورۂ فاتحہ ہے۔ حالانکہ بہ اعتبار نزول اس کا نمبر پانچواں ہے اور سورہ علق جو نزول کے اعتبار سے سب سے پہلے ہے اس کا نمبر شمار 96 ہے۔ اسی طرح آخری آیت جو حجۃ الوداع کے موقعے پر 10 ہجری کو نازل ہوئی اس کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے جوکہ ترتیب کے لحاظ سے قرآن کی پانچویں سورہ ہے۔
حدیث کا واسطہ منقطع کرکے الدین اور الاسلام کا راستہ مل ہی نہیں سکتا۔ مثلاً نماز اور زکوٰۃ کے احکام کو لیجیے۔ نماز کا مفصل نظام، اوقات، وضو، اذان، تکبیر، جماعت، رکعات، قیام، رکوع، سجود، تشہد، سلام غرض یہ کہ نماز سے متعلق ساری تفصیلی معلومات حدیث سے ملتی ہے۔ اسی طرح قرآن حکیم میں زکوٰۃ کے بارے میں جو احکامات ملتے ہیں ان میں صرف زرعی پیداوار اور سونے چاندی پر زکوٰۃ دینے کا ذکر ملتا ہے لیکن ان چیزوں کے بارے میں بھی نصاب اور شرح زکوٰۃ کا ذکر نہیں ملتا۔ لیکن حدیث (وحی غیر متلو) کے ذریعے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ان اشیا کے علاوہ تجارتی مال و اسباب اور مویشیوں وغیرہ پر بھی زکوٰۃ ہے۔ اس طرح ہر ایک چیز کی کم ازکم مقدار یا حد (نصاب) جس پر زکوٰۃ لی جائے گی اور جن چیزوں پر زکوٰۃ واجب ہے ان کی شرح زکوٰۃ یعنی 20 فیصد، 10 فیصد، 5 فیصد اور 2.5 فیصد نیز اہل بیت پر زکوٰۃ لینا حرام قرار دینے کا پتا حدیث ہی سے چلتا ہے۔ یہی حال دیگر احکامات کی تفصیلات کا ہے۔
قرآن اور حدیث دونوں مل کر اسلامی نظام کا پورا نقشہ پیش کرتی ہیں جس کا ایک مجموعی مزاج ہے جو جدا ہوکر قائم نہیں رہ سکتا۔ حدیث خدا کا بیان ہے خدا کا حکم ہے۔ قرآن اللہ کے الفاظ اور معانی کا مجموعہ ہے اور حدیث اللہ کے معانی اور رسولؐ کے الفاظ کا مجموعہ ہے۔ لیکن حجت، قطعیت اور حقانیت میں دونوں برابر ہیں کیونکہ دونوں کا ماخذ، منبع اور سرچشمہ اللہ پاک کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے الفاظ اور معانی کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس وعدے میں حدیث جو اللہ ہی کے معانی ہیں خود بخود آجاتا ہے۔ دشمنان اسلام اور اسلام کے دوست نما دشمن لاکھ برا چاہیں تو کیا ہوتا ہے۔ حدیث مٹ نہیں سکتی۔ یہ ناپاک سازش کہ حدیث کو قرآن سے جدا کرکے اسلامی تہذیب و تمدن کی عمارت میں ضعف پیدا کردیا جائے اس کے شہتیر ہلا دیے جائیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ اپنے معانی یعنی حدیث کا حامی و ناصر ہے۔
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا