کتاب سے اتنا خوف کیوں
ریحام خان کی کتاب کا معاملہ پی ٹی آئی کے لیے ایک اضطرابی صورتحال کا سبب بن چکا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کتاب انسان کی سب سے بہتر دوست ہوتی ہیں مگرکچھ کتابیں کچھ لوگوں کے لیے ڈرائونے خواب سے کم نہیں ہوتیں۔ جی ہاں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سابقہ اور دوسری اہلیہ ریحام خان کی کتاب جو ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہے بلکہ ان کیمطابق پرنٹ بھی نہیں ہوئی، اس سے قبل اس کتاب کواتنی شہرت ملی گئی جس کا شاید ریحام خان نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ یہ کتاب جب شایع ہوگی یقیناً Sale کے نئے ریکارڈقائم کرے گی۔
کتاب کی مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں ہمارے عمران خان اور تحریک انصاف کی مرکزی کابینہ کا بھی اہم کردار رہا ہے، جنہوں نے کتاب کے حوالے سے اتنا خوف پیداکردیاہے کہ عمران خان اس حوالے سے کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ریحام خان کی کتاب کا معاملہ پی ٹی آئی کے لیے ایک اضطرابی صورتحال کا سبب بن چکا ہے اس کا اندازہ ٹی وی چینل پر کتاب پر ہونے والی بحث ہے جس میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری، عمران خان کے دفاع میں مصروف ہیں ۔
اب تو عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما بھی میدان میں آچکی ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کتاب لندن سے شایع نہیں ہوسکتی۔ تحریک انصاف نے کتاب کو عمران خان کے خلاف سازش قرار دیا ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ'' ریحام خان کی کتاب کا مواد واہیات ، گھٹیا ، فحش اور ذہنی گندگی کا اظہار ہے، صاف نظر آرہا ہے کہ کتاب کے پیچھے رائیونڈ نیٹ ورک ہے جو حسین حقانی کے ذریعے چل رہا ہے''۔جب کہ کتاب کی رائٹرریحام خان کا کہنا ہے کہ اس وقت میڈیا میں حمزہ علی عباسی کی کتاب چل رہی ہے۔
ان کی یہ بات درست ہے جب کتاب پرنٹ ہی نہیں ہوئی تو اس سے پہلے کتاب پر تبصرہ یا کوئی رائے کس طرح قائم کی جاسکتی ہے۔عمران خان کی ٹیم یہ بات کس طرح ثابت کر سکتی ہے جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ کتاب کا حصہ ہے۔ریحام خان نے کتاب میں بلیک بیری کا ذکر کیا ہے۔یہ وہ ہی بلیک بیری ہے جو عائشہ گلالئی کے کیس میں بھی سامنے آیا تھا عائشہ گلالئی کا یہی اسرار تھا کہ عمران خان اپنا بلیک بیری پیش کردیں تو تمام ثبوت سامنے آجائیں گے۔ عائشہ گلا لئی نے عمران خان کے کردار پر سنگین نوعیت کے الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے انھیں اپنے بلیک بیری فون سے نامناسب پیغامات بھیجے تھے۔
موجودہ صورت حال میں عائشہ گلالئی کہاں خاموش رہ سکتی تھی وہ فرماتی ہیں کہ '' عمران خان کو کتاب سے بے نقاب ہونے کا ڈر ہے ، عمران خان کو کون نہیں جانتا ، وہ اپنے کردار کی وجہ سے عالمی سطح پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ عمران خان اخلاقی زوال کا شکار شخص ہے۔ عمران 62،63 پر بھی پورے نہیں اترتے''۔
ریحام خان کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ عمران خان 62،63 پر بھی پورے نہیں اترتے۔ یقینا اس کتاب میں ایسا کچھ تو ضرور ہے جس پر عمران خان سمیت تحریک انصاف پریشانی کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کوشش کررہی ہے کسی بھی طرح کتاب کو الیکشن سے پہلے شایع ہونے سے روکا جائے اس کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا جائے گا اور بیک ڈور کوشش بھی جاری رہے گی کہ معاملہ کسی طور پر حل کرلیا جائے۔لیکن اس سارے کھیل میں اور تحریک انصاف کی نظر میں اس ''سازش'' میں حسین حقانی کی انٹری بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔
کتاب کے پیچھے کون ہے؟ اور کتاب میں کیا کچھ ہے؟ اس کے لیے کچھ دن انتظارکرنا ہی پڑے گا ۔ تمام صورت حال الیکشن سے پہلے سامنے آجائے گی۔بات جب کتاب کی چل نکلی ہے تو ایک اور کتاب کا بھی ذکر کرتے چلیں۔ یہ کتاب آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے را کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سات دہائیوں سے جنگ کی کیفیت رہی ہے اور پھر مسئلہ کشمیردونوں ممالک کے درمیان وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔
اس کے باوجود جنرل اسد درانی نے کتاب کیوں لکھی اس کو جواب تو وہ جی ایچ کیو میں دیں گے ہی۔اس کتاب کے منظر عام پر آتے ہی سب سے پہلے سابق چئیرمین سینیٹ رضا ربانی نے اسد درانی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ '' اگر یہ کتاب آپ یا میرے طبقے کے کسی عام آدمی نے یا کسی سیاست دان نے اپنے ہندوستان کے کسی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو شاید اس وقت زمین اور آسمان ایک ہوگیا ہوتا اور غداری کے فتوے اس سیاست دان کے اوپر لگ چکے ہوتے۔'' رضا ربانی کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب نواز شریف کے مقتدر اداروں کے بعض سابق عہدیداروں اور بھارت کے شہر ممبئی میں 2008ء میں ہونیوالے حملوں سے متعلق دیے گئے بیانات پرتمام حلقوں کی طرف سے انھیں شدید تنقید کاسامنا تھا ان پر ملک دشمنی اور غداری جیسے سنگین الزامات لگائے جارہے تھے۔
ایسے میں اس کتاب کا شایع ہونا نواز شریف کے لیے سیاسی طور پر ایک مثبت پوائنٹ تھا ۔ انھوںنے اسد درانی کی کتاب پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ممبئی حملوں سے متعلق ان کی طرف سے دیے گئے بیان پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے تو پھر ایک ریٹائرڈ جنرل کی کتاب پر کیوں اجلاس نہیں بلایا جا سکتا؟ ایک کمیشن بنایا جائے جو ملکی تاریخ میں اہمیت رکھنے والے تمام واقعات کا جائزہ لے کر حقائق کو سامنے آئے۔ ان کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے جب کمیشن بنتے ہیں توان کی رپورٹس کو منظر عام پر بھی آنا چاہیے۔سوال پھر وہی ہے کہ جب سیاستدان اقتدار میں ہوتے ہیں تو انھیں یہ بات کیوں یاد نہیں رہتی کہ حمود الرحمان سے لے کر ایبٹ آباد تک قائم تمام کمیشن کو منظر عام پر لایا جائے۔اپنی نااہلی کے بعد نواز شریف مسلسل اداروں کے خلاف باتیں کررہے ہیں۔
جیسے جیسے ان کے مقدمات کے فیصلوں کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے ان کے جملوں میں تیزی اور آواز میں غصہ نمایا ں ہو رہا ہے۔ ان کی قومی اداروں سے ناراضگی موجودہ نااہلی نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی ان کے بہتر اور مثالی تعلقات نہیں رہے۔جنرل درانی کی کتاب سے لاکھ اختلاف مگر انھوں نے نواز شریف کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ نواز شریف کی شکی مزاج اور ضدی طبعیت کی عکاسی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ''ادیتیہ سنہا نے جنرل درانی سے ایک دلچسپ سوال کیا کہ نوازشریف کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا۔ اس پر جنرل درانی کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ میری کبھی نہیں بن سکی۔ان کے پہلے دور حکومت میں میں آئی ایس آئی کا سربراہ تھا۔ میرے خیال میں نوازشریف اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک نہیں تھے وہ ہروقت اسی تاک میں رہتے کہ پتہ نہیں فوج اب کیا کرے گی۔
پتہ نہیں آئی ایس آئی کیا کرے گی، آئی ایس آئی چیف میری پسند کا ہونا چاہیے۔ جب میرے باس مرزا اسلم بیگ ریٹائر ہو گئے اور چونکہ آئی ایس آئی کے سربراہ کا تعین وزیراعظم کو کرنا ہوتا ہے اور آرمی کبھی نہیں کہتی کہ ''اسی آدمی کو لگائو'' تو میں اس وقت جانے کو تیار تھا۔ ویسے بھی میں ٹو اسٹار جنرل تھا اور عارضی طور پر آئی ایس آئی کا انتظام دیکھ رہا تھا اور پھر میں تھری اسٹار جنرل بن گیا اور میاں صاحب نے کہا کہ آپ ہی کام کو جاری رکھیں کیونکہ آرمی چیف مرزا اسلم بیگ گئے اور اب آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف ہیں۔ یہ دماغی خلل ہے، نوازشریف نے سوچا کہ اگر آصف نواز نے نیا ڈی جی آئی ایس آئی لگایا تو ان دونوں کا گٹھ جوڑ ہو جائے گا۔ نوازشریف میرے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے مگر جب آصف نوازآرمی چیف بن گئے تو انھوں نے کہا یہی بندہ آئی ایس آئی چیف لگا رہے۔''
کتاب کی مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں ہمارے عمران خان اور تحریک انصاف کی مرکزی کابینہ کا بھی اہم کردار رہا ہے، جنہوں نے کتاب کے حوالے سے اتنا خوف پیداکردیاہے کہ عمران خان اس حوالے سے کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ریحام خان کی کتاب کا معاملہ پی ٹی آئی کے لیے ایک اضطرابی صورتحال کا سبب بن چکا ہے اس کا اندازہ ٹی وی چینل پر کتاب پر ہونے والی بحث ہے جس میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری، عمران خان کے دفاع میں مصروف ہیں ۔
اب تو عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما بھی میدان میں آچکی ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کتاب لندن سے شایع نہیں ہوسکتی۔ تحریک انصاف نے کتاب کو عمران خان کے خلاف سازش قرار دیا ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ'' ریحام خان کی کتاب کا مواد واہیات ، گھٹیا ، فحش اور ذہنی گندگی کا اظہار ہے، صاف نظر آرہا ہے کہ کتاب کے پیچھے رائیونڈ نیٹ ورک ہے جو حسین حقانی کے ذریعے چل رہا ہے''۔جب کہ کتاب کی رائٹرریحام خان کا کہنا ہے کہ اس وقت میڈیا میں حمزہ علی عباسی کی کتاب چل رہی ہے۔
ان کی یہ بات درست ہے جب کتاب پرنٹ ہی نہیں ہوئی تو اس سے پہلے کتاب پر تبصرہ یا کوئی رائے کس طرح قائم کی جاسکتی ہے۔عمران خان کی ٹیم یہ بات کس طرح ثابت کر سکتی ہے جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ کتاب کا حصہ ہے۔ریحام خان نے کتاب میں بلیک بیری کا ذکر کیا ہے۔یہ وہ ہی بلیک بیری ہے جو عائشہ گلالئی کے کیس میں بھی سامنے آیا تھا عائشہ گلالئی کا یہی اسرار تھا کہ عمران خان اپنا بلیک بیری پیش کردیں تو تمام ثبوت سامنے آجائیں گے۔ عائشہ گلا لئی نے عمران خان کے کردار پر سنگین نوعیت کے الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے انھیں اپنے بلیک بیری فون سے نامناسب پیغامات بھیجے تھے۔
موجودہ صورت حال میں عائشہ گلالئی کہاں خاموش رہ سکتی تھی وہ فرماتی ہیں کہ '' عمران خان کو کتاب سے بے نقاب ہونے کا ڈر ہے ، عمران خان کو کون نہیں جانتا ، وہ اپنے کردار کی وجہ سے عالمی سطح پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ عمران خان اخلاقی زوال کا شکار شخص ہے۔ عمران 62،63 پر بھی پورے نہیں اترتے''۔
ریحام خان کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ عمران خان 62،63 پر بھی پورے نہیں اترتے۔ یقینا اس کتاب میں ایسا کچھ تو ضرور ہے جس پر عمران خان سمیت تحریک انصاف پریشانی کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کوشش کررہی ہے کسی بھی طرح کتاب کو الیکشن سے پہلے شایع ہونے سے روکا جائے اس کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا جائے گا اور بیک ڈور کوشش بھی جاری رہے گی کہ معاملہ کسی طور پر حل کرلیا جائے۔لیکن اس سارے کھیل میں اور تحریک انصاف کی نظر میں اس ''سازش'' میں حسین حقانی کی انٹری بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔
کتاب کے پیچھے کون ہے؟ اور کتاب میں کیا کچھ ہے؟ اس کے لیے کچھ دن انتظارکرنا ہی پڑے گا ۔ تمام صورت حال الیکشن سے پہلے سامنے آجائے گی۔بات جب کتاب کی چل نکلی ہے تو ایک اور کتاب کا بھی ذکر کرتے چلیں۔ یہ کتاب آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے را کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سات دہائیوں سے جنگ کی کیفیت رہی ہے اور پھر مسئلہ کشمیردونوں ممالک کے درمیان وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔
اس کے باوجود جنرل اسد درانی نے کتاب کیوں لکھی اس کو جواب تو وہ جی ایچ کیو میں دیں گے ہی۔اس کتاب کے منظر عام پر آتے ہی سب سے پہلے سابق چئیرمین سینیٹ رضا ربانی نے اسد درانی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ '' اگر یہ کتاب آپ یا میرے طبقے کے کسی عام آدمی نے یا کسی سیاست دان نے اپنے ہندوستان کے کسی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو شاید اس وقت زمین اور آسمان ایک ہوگیا ہوتا اور غداری کے فتوے اس سیاست دان کے اوپر لگ چکے ہوتے۔'' رضا ربانی کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب نواز شریف کے مقتدر اداروں کے بعض سابق عہدیداروں اور بھارت کے شہر ممبئی میں 2008ء میں ہونیوالے حملوں سے متعلق دیے گئے بیانات پرتمام حلقوں کی طرف سے انھیں شدید تنقید کاسامنا تھا ان پر ملک دشمنی اور غداری جیسے سنگین الزامات لگائے جارہے تھے۔
ایسے میں اس کتاب کا شایع ہونا نواز شریف کے لیے سیاسی طور پر ایک مثبت پوائنٹ تھا ۔ انھوںنے اسد درانی کی کتاب پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ممبئی حملوں سے متعلق ان کی طرف سے دیے گئے بیان پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے تو پھر ایک ریٹائرڈ جنرل کی کتاب پر کیوں اجلاس نہیں بلایا جا سکتا؟ ایک کمیشن بنایا جائے جو ملکی تاریخ میں اہمیت رکھنے والے تمام واقعات کا جائزہ لے کر حقائق کو سامنے آئے۔ ان کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے جب کمیشن بنتے ہیں توان کی رپورٹس کو منظر عام پر بھی آنا چاہیے۔سوال پھر وہی ہے کہ جب سیاستدان اقتدار میں ہوتے ہیں تو انھیں یہ بات کیوں یاد نہیں رہتی کہ حمود الرحمان سے لے کر ایبٹ آباد تک قائم تمام کمیشن کو منظر عام پر لایا جائے۔اپنی نااہلی کے بعد نواز شریف مسلسل اداروں کے خلاف باتیں کررہے ہیں۔
جیسے جیسے ان کے مقدمات کے فیصلوں کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے ان کے جملوں میں تیزی اور آواز میں غصہ نمایا ں ہو رہا ہے۔ ان کی قومی اداروں سے ناراضگی موجودہ نااہلی نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی ان کے بہتر اور مثالی تعلقات نہیں رہے۔جنرل درانی کی کتاب سے لاکھ اختلاف مگر انھوں نے نواز شریف کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ نواز شریف کی شکی مزاج اور ضدی طبعیت کی عکاسی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ''ادیتیہ سنہا نے جنرل درانی سے ایک دلچسپ سوال کیا کہ نوازشریف کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا۔ اس پر جنرل درانی کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ میری کبھی نہیں بن سکی۔ان کے پہلے دور حکومت میں میں آئی ایس آئی کا سربراہ تھا۔ میرے خیال میں نوازشریف اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک نہیں تھے وہ ہروقت اسی تاک میں رہتے کہ پتہ نہیں فوج اب کیا کرے گی۔
پتہ نہیں آئی ایس آئی کیا کرے گی، آئی ایس آئی چیف میری پسند کا ہونا چاہیے۔ جب میرے باس مرزا اسلم بیگ ریٹائر ہو گئے اور چونکہ آئی ایس آئی کے سربراہ کا تعین وزیراعظم کو کرنا ہوتا ہے اور آرمی کبھی نہیں کہتی کہ ''اسی آدمی کو لگائو'' تو میں اس وقت جانے کو تیار تھا۔ ویسے بھی میں ٹو اسٹار جنرل تھا اور عارضی طور پر آئی ایس آئی کا انتظام دیکھ رہا تھا اور پھر میں تھری اسٹار جنرل بن گیا اور میاں صاحب نے کہا کہ آپ ہی کام کو جاری رکھیں کیونکہ آرمی چیف مرزا اسلم بیگ گئے اور اب آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف ہیں۔ یہ دماغی خلل ہے، نوازشریف نے سوچا کہ اگر آصف نواز نے نیا ڈی جی آئی ایس آئی لگایا تو ان دونوں کا گٹھ جوڑ ہو جائے گا۔ نوازشریف میرے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے مگر جب آصف نوازآرمی چیف بن گئے تو انھوں نے کہا یہی بندہ آئی ایس آئی چیف لگا رہے۔''