ایسا کرنا سب کی مجبوری ہے
فوزیہ قصوری جیسے مخلص رہنماؤں کو پتا ہے کہ ایسا کرنا تمام پارٹی سربراہوں کی مجبوری ہے۔
پی ٹی آئی کی سابق مرکزی رہنما فوزیہ قصوری نے کہا ہے کہ میری تحریک انصاف سے ناراضگی صرف اس بات پر ہے کہ ہماری پارٹی جہاں سے شروع ہوئی تھی اور ہم جن لوگوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے 22 سال بعد ان لوگوں کا احتساب کرکے انھیں جیل بھجوانا تھا، آج پی ٹی آئی ان کی سرپرست بن کر دوبارہ انھیں اسمبلیوں میں بھیجنا چاہتی ہے ۔ اسی وجہ سے میں نے پی ٹی آئی چھوڑی ہے۔ جو درست باتیں فوزیہ قصوری کہہ رہی ہیں وہی باتیں 50 سال قبل پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد مسلم لیگ کے مختلف گروپ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے ان نظریاتی، اصول پرست اور مخلص سیاسی رہنماؤں نے کہی تھیں۔
پی پی کے بانی نے اس وقت جو باتیں کی تھیں اور ایسے سنہری خواب دکھا کر قوم اور سیاسی رہنماؤں کو پی پی میں شمولیت پر راغب کیا تھا جس کے نتیجے میں صرف تین سال بعد پی پی نے عوامی مقبولیت اور الیکشن میں سندھ و پنجاب سے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔ بھٹو صاحب نے اس وقت بہت سے غیر معروف لوگوں کو پی پی کا ٹکٹ دیا تھا اور عوام نے بڑے بڑے سیاسی بتوں کو گرا کر پی پی کے منشور اور ذوالفقار علی بھٹو کی تقریروں سے متاثر ہوکر سیاسی کایا پلٹ دی تھی ۔ ملک دولخت کروا کر مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی پیپلز پارٹی کو پاکستان اور سندھ و پنجاب کا اقتدار دیا گیا تھا۔
اقتدار میں آتے ہی بڑے زمیندار خاندان سے تعلق رکھنے اور ایوب خان کی کابینہ میں طویل عرصہ وزیر رہنے والے پی پی چیئرمین نے بھی عوام کو پسند آنے والی خوش کن باتیں کی تھیں جو گزشتہ سات سالوں سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کرتے آرہے ہیں جنھیں 5 سال قبل کے پی کے میں مثالی حکومت قائم کرنے کا پہلا موقعہ ملا تھا۔ عمران خان بھی بھٹو کی طرح عوام میں اپنی باتوں سے تیزی سے مقبول ہوکر ملک کی سیاست میں نمایاں ہوئے تھے۔
وہ بھٹو کی طرح عالمی شخصیت نہیں تھے پھر بھی انھیں کے پی کے عوام نے اقتدار دیا اور انھوں نے اپنے من پسند وزیر اعلیٰ سے 5 سال حکومت کرائی مگر کوئی بھی اچھی حکمرانی کی مثال قائم نہ کرسکے۔ بھٹو کو ملک میں پانچ سال تک حکومت کرنے کا موقعہ ملا تو انھوں نے پارٹی منشور کی بجائے اپنی من مانی کی اور ان تمام بڑے لوگوں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرلیا جن کے خلاف باتیں کرکے انھوں نے عوام میں مقبولیت حاصل کی تھی کیونکہ وہ ایسا کرنا پارٹی اور اقتدار کے لیے ضروری سمجھتے تھے اور ایسا کرنا مزید اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ان کی مجبوری بن چکی تھی۔
بھٹو حکومت سے قبل ملک میں اتنی کرپشن تو نہیں تھی مگر بڑے سیاسی گھرانوں اور انھی کے ارکان اسمبلی کی ذاتی مفاد پرستیوں سے عوام اور مخلص رہنما تنگ تھے مگر اقتدار میں آکر بھٹو صاحب کی من مانیوں سے تنگ آکر ان کی حکومت میں شامل محمود علی قصوری، معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید مستعفی ہوگئے تھے اور مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ، مختار رانا، رسول بخش تالپور و دیگر رہنما مایوس ہوئے تھے کیونکہ بھٹو صاحب اپنے آگے کسی کی چلنے نہیں دیتے تھے۔
جیسے آج کل عمران خان ہے جو صرف اپنی چلانا جانتے ہیں جس کی مثال پارٹی میں مخالفت کے باوجود پرویز خٹک کا وزیر اعلیٰ رہنا۔ جسٹس صبیح کی رپورٹ پر جہانگیر ترین، علیم خان، پرویز خٹک کو پارٹی سے نہ نکالنا، احتساب کمیشن کے پی کے کو ختم کرنا اور دیگر معاملات ہیں۔ عمران خان کی سیاسی ابتدا میں جو مخلص سیاسی رہنما ان کے ساتھ تھے وہ صوبائی اقتدار ملنے سے قبل ہی پی ٹی آئی چھوڑ کر الگ ہوگئے تھے۔
پی ٹی آئی میں عمران خان سے مایوس رہنما اس وقت الگ ہوئے جب عمران خان کے اقتدار کے آثار نہ تھے مگر پی ٹی آئی کی بانی اور مرکزی رہنما فوزیہ قصوری نے عمران خان کو قریب سے دیکھا۔ ان کے اقتدار کا انداز دیکھا اور ایسے وقت میں پارٹی چھوڑی جب وہ کے پی کے اقتدار، عوامی مقبولیت میں منفرد ایسے مقام پر تھے جب کرپشن میں بدنام پیپلز پارٹی، ذاتی بادشاہت کے لیے مشہور نواز شریف کے اہم رہنماؤں اور ارکان اسمبلی نے سیاسی وفاداریاں ترک کرکے عمران خان کے پاس آنے والوں نے طویل لائن لگا رکھی ہے اور وہ عمران خان کے ہاتھوں پارٹی پرچم گلے میں ڈلوا کر پاک صاف ہو رہے ہیں۔
سیاسی مفاد پرستوں نے پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے جو فائدے اٹھانے تھے اٹھا لیے اور اب عمران خان کے مجوزہ احتساب کے خوف سے دھڑا دھڑ پی ٹی آئی میں آرہے ہیں اور فوزیہ قصوری کے مطابق یہ وہی لوگ ہیں جنھیں تحریک انصاف نے اقتدار میں آکر جیلوں میں ڈالنا تھا مگر اب عمران خان انھیں گلے لگا کر اسمبلیوں میں بھیجیں گے۔ یہ سلسلہ پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں چلتا رہا جو بار بار اقتدار کی بازیاں لیتی رہیں اور اب اس عمران خان کے پاس بازی نظر آرہی ہے جو کہتے تھے کہ ہن ساڈی واری آن دیو، میاں صاحب جان دیو۔
فوزیہ قصوری جیسے مخلص رہنماؤں کو پتا ہے کہ ایسا کرنا تمام پارٹی سربراہوں کی مجبوری ہے اور الیکشن جیتنے کی طاقت رکھنے والے سیاسی لوٹے ان کی ضرورت ہیں کیونکہ ان کو ساتھ ملائے بغیر اقتدار نہیں مل سکتا اور ایسا عمران خان ہی نہیں کر رہے بلکہ ماضی میں ایسا ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف زرداری بھی کرچکے ہیں کیونکہ سیاسی لوٹوں اور مفاد پرستانہ سیاست میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
پی پی کے بانی نے اس وقت جو باتیں کی تھیں اور ایسے سنہری خواب دکھا کر قوم اور سیاسی رہنماؤں کو پی پی میں شمولیت پر راغب کیا تھا جس کے نتیجے میں صرف تین سال بعد پی پی نے عوامی مقبولیت اور الیکشن میں سندھ و پنجاب سے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔ بھٹو صاحب نے اس وقت بہت سے غیر معروف لوگوں کو پی پی کا ٹکٹ دیا تھا اور عوام نے بڑے بڑے سیاسی بتوں کو گرا کر پی پی کے منشور اور ذوالفقار علی بھٹو کی تقریروں سے متاثر ہوکر سیاسی کایا پلٹ دی تھی ۔ ملک دولخت کروا کر مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی پیپلز پارٹی کو پاکستان اور سندھ و پنجاب کا اقتدار دیا گیا تھا۔
اقتدار میں آتے ہی بڑے زمیندار خاندان سے تعلق رکھنے اور ایوب خان کی کابینہ میں طویل عرصہ وزیر رہنے والے پی پی چیئرمین نے بھی عوام کو پسند آنے والی خوش کن باتیں کی تھیں جو گزشتہ سات سالوں سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کرتے آرہے ہیں جنھیں 5 سال قبل کے پی کے میں مثالی حکومت قائم کرنے کا پہلا موقعہ ملا تھا۔ عمران خان بھی بھٹو کی طرح عوام میں اپنی باتوں سے تیزی سے مقبول ہوکر ملک کی سیاست میں نمایاں ہوئے تھے۔
وہ بھٹو کی طرح عالمی شخصیت نہیں تھے پھر بھی انھیں کے پی کے عوام نے اقتدار دیا اور انھوں نے اپنے من پسند وزیر اعلیٰ سے 5 سال حکومت کرائی مگر کوئی بھی اچھی حکمرانی کی مثال قائم نہ کرسکے۔ بھٹو کو ملک میں پانچ سال تک حکومت کرنے کا موقعہ ملا تو انھوں نے پارٹی منشور کی بجائے اپنی من مانی کی اور ان تمام بڑے لوگوں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرلیا جن کے خلاف باتیں کرکے انھوں نے عوام میں مقبولیت حاصل کی تھی کیونکہ وہ ایسا کرنا پارٹی اور اقتدار کے لیے ضروری سمجھتے تھے اور ایسا کرنا مزید اقتدار برقرار رکھنے کے لیے ان کی مجبوری بن چکی تھی۔
بھٹو حکومت سے قبل ملک میں اتنی کرپشن تو نہیں تھی مگر بڑے سیاسی گھرانوں اور انھی کے ارکان اسمبلی کی ذاتی مفاد پرستیوں سے عوام اور مخلص رہنما تنگ تھے مگر اقتدار میں آکر بھٹو صاحب کی من مانیوں سے تنگ آکر ان کی حکومت میں شامل محمود علی قصوری، معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید مستعفی ہوگئے تھے اور مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ، مختار رانا، رسول بخش تالپور و دیگر رہنما مایوس ہوئے تھے کیونکہ بھٹو صاحب اپنے آگے کسی کی چلنے نہیں دیتے تھے۔
جیسے آج کل عمران خان ہے جو صرف اپنی چلانا جانتے ہیں جس کی مثال پارٹی میں مخالفت کے باوجود پرویز خٹک کا وزیر اعلیٰ رہنا۔ جسٹس صبیح کی رپورٹ پر جہانگیر ترین، علیم خان، پرویز خٹک کو پارٹی سے نہ نکالنا، احتساب کمیشن کے پی کے کو ختم کرنا اور دیگر معاملات ہیں۔ عمران خان کی سیاسی ابتدا میں جو مخلص سیاسی رہنما ان کے ساتھ تھے وہ صوبائی اقتدار ملنے سے قبل ہی پی ٹی آئی چھوڑ کر الگ ہوگئے تھے۔
پی ٹی آئی میں عمران خان سے مایوس رہنما اس وقت الگ ہوئے جب عمران خان کے اقتدار کے آثار نہ تھے مگر پی ٹی آئی کی بانی اور مرکزی رہنما فوزیہ قصوری نے عمران خان کو قریب سے دیکھا۔ ان کے اقتدار کا انداز دیکھا اور ایسے وقت میں پارٹی چھوڑی جب وہ کے پی کے اقتدار، عوامی مقبولیت میں منفرد ایسے مقام پر تھے جب کرپشن میں بدنام پیپلز پارٹی، ذاتی بادشاہت کے لیے مشہور نواز شریف کے اہم رہنماؤں اور ارکان اسمبلی نے سیاسی وفاداریاں ترک کرکے عمران خان کے پاس آنے والوں نے طویل لائن لگا رکھی ہے اور وہ عمران خان کے ہاتھوں پارٹی پرچم گلے میں ڈلوا کر پاک صاف ہو رہے ہیں۔
سیاسی مفاد پرستوں نے پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے جو فائدے اٹھانے تھے اٹھا لیے اور اب عمران خان کے مجوزہ احتساب کے خوف سے دھڑا دھڑ پی ٹی آئی میں آرہے ہیں اور فوزیہ قصوری کے مطابق یہ وہی لوگ ہیں جنھیں تحریک انصاف نے اقتدار میں آکر جیلوں میں ڈالنا تھا مگر اب عمران خان انھیں گلے لگا کر اسمبلیوں میں بھیجیں گے۔ یہ سلسلہ پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں چلتا رہا جو بار بار اقتدار کی بازیاں لیتی رہیں اور اب اس عمران خان کے پاس بازی نظر آرہی ہے جو کہتے تھے کہ ہن ساڈی واری آن دیو، میاں صاحب جان دیو۔
فوزیہ قصوری جیسے مخلص رہنماؤں کو پتا ہے کہ ایسا کرنا تمام پارٹی سربراہوں کی مجبوری ہے اور الیکشن جیتنے کی طاقت رکھنے والے سیاسی لوٹے ان کی ضرورت ہیں کیونکہ ان کو ساتھ ملائے بغیر اقتدار نہیں مل سکتا اور ایسا عمران خان ہی نہیں کر رہے بلکہ ماضی میں ایسا ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف زرداری بھی کرچکے ہیں کیونکہ سیاسی لوٹوں اور مفاد پرستانہ سیاست میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔