خود فریبی سی خود فریبی ہے

ہمیشہ ایک روایتی بیان سامنے آتا ہے کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ہماری نہیں ہے۔


syedzeeshanhaider.com

بچپن میں دادی جان کی اکثر خود ساختہ کہانیوں میں ''کالا جن '' ہوا کرتا تھا۔ ہم شام ڈھلتے ہی اسی سے خوف زدہ ہو کر گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ چڑھے دن میں بھی اگر کوئی معمولی '' تخریبی کارروائی '' آس پاس کے محلے میں ہوتی تو دادی جان کا روایتی بیان ہوتا کہ یہ سب کالے جن نے کروایا ہے ۔ اس کالے جن سے ہماری دشمنی اور ہم سے اس کی دشمنی کا سبب مگر دادی جان نہیں بتایا کرتی تھیں کیونکہ دشمنی کا سبب بتانے میں منطق درکار ہوتی ہے۔ جب کہ بچے منطق سے زیادہ جذبات پر دھیان دیتے ہیں ۔ لہذا جب منطق پر جذبات حاوی ہو جائیں تو دشمن کی دشمنی کا سبب تلاش کرنا ذرا مشکل ہے ۔ ہم بھی شاید من الحیث القوم دادی جان کی گود میں لیٹے اسی بچے کی مانند ہیں جو روایتی بیانات کو جذبات کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور پھر من و عن تسلیم بھی کر لیتا ہے۔

ہمیشہ ایک روایتی بیان سامنے آتا ہے کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ہماری نہیں ہے۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں کچھ لوگ اسے امریکا کی جنگ کہتے ہیں تو کچھ لوگ جان کی امان پا کر اسے عربی اور فارسی ملک کی جنگ کہتے ہیں۔ مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ مرتے بھی مسلمان ہیں اور مارنے والے بھی مسلمان ہیں۔ اور شہادت بے چاری کنفیوژن کا شکار ہے۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ آرمی چیف نے چودہ اگست کی تقریر میں بہ بانگ دہل دہشت گردی کے خلاف جنگ کو واضح طور پر پاکستان کی اپنی جنگ قرار دے دیا۔ آرمی چیف نے دہشت گردوں کے نظریات اور اس معاملے میں قومی اتفاق رائے کی اہمیت واضح طور پر بیان کر دی تھی۔ مگر ناجانے کیوں ہم مزید کسی فتوے کے انتظار میں ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر بھارت ہمارا روایتی حریف ہے۔ تعلیمی اداروں میں جانے والے ہر طالبعلم کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بھارت ایک کافر ملک ہے یہ ہماری اسلامی ریاست کے خلاف بربریت پر آمادہ ہے۔ بھارت کی کافر فوج کے خلاف جنگ عین جہاد ہے۔ جس میں مرنا شہادت اور بچنا غازی کے مرتبے پر فائز کرتا ہے۔ یہی سبق پڑھ کر ہمارے نوجوان سرکاری ملازمتوں میں جاتے اور اعلی عہدوں پر پہنچ کر بھی ان کی سوچ میں تبدیلی نہیں آتی ۔ مگر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں بھی مسلمان بہت ہیں۔ کیا کفار کے خلاف جنگ میں ان بھارتی مسلمانوں کو '' اسلامی استثنیٰ '' حاصل ہے ؟

اسی طرح جو جنگ ہم ریاست کی چار دیواری کے اندر لڑ رہے ہیں اس کے بارے میں ہمارا فلسفہ کیا ہے ؟ ادھر تو تقریباً ہر دہشت گرد ہی کلمہ گو ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے عوام اور ریاستی عناصر اس بات کا ادراک کر لیں کہ جہاد محض مذہب کی بنیاد پرکافروں سے نہیں ہوا کرتا۔ یہ ریاست کی سلامتی کے لیے بھی ہوا کرتا ہے۔ پھر دشمن چاہے کوئی بھی ہو ' میدان جنگ ریاست کی سرحد ہو یا ریاست کے اندر ہو ' پہاڑوں پر ہو یا کھلے میدان یا گلی محلوں میں ہونے والی جنگ عین جہاد ہے۔ جو ریاست کے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی جان دے گا وہی شہادت کے رتبے پر فائز ہوگاچاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اسی طرح جو ریاست میں ریاست بنانے کے خواب دیکھے گا وہی ہمارا حقیقی دشمن ہے۔ اسی تصور کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی قسم کا ابہام نہ رہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ دہشت گرد مذہب کو بنیاد بنا کر پا کستان پر جو جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں اس کا ہدف سرا سر سیاسی ہی ہے۔

انتہائی حیران کن بات ہے کہ پاکستان میں ہم دہشت گردی کی تاریخ کو9/11سے منسوب کردیتے ہیں۔ اگر 80اور90کی دہائی کے اخباروں کا مطالعہ کریں تو دہشت گردی کے واقعات اسی شدومد کے ساتھ جاری تھے۔ اس زمانے اور9/11 کے بعد کے وقت میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے دہشت گردی مذہبی فرقوں تک محدود تھی اور اب اس کا نشانہ حکومتی اداروں تک پھیل گیا ہے۔ ذرا غور کریں کہ پہلے ان سرکاری اداروں کو نشانہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ اس کی وجہ سرکاری اداروں کی دہشت گردی کے خلاف غیر مربوط پالیسی تھی۔ انتہا پسندوں اور ریاستی اداروں میں قریبی رابطے کی وجہ سے سرکار اس فتنے سے بچی ہوئی تھی ۔

ہم دوسری طرف سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت میں بھی الجھے ہوئے ہیں۔ صرف یہ کہہ دینا کہ مختلف فرقوں میں کوئی اختلاف نہیں، میرے نزدیک ایک روایتی بیان ہے۔ کیونکہ اگر اختلاف نہیں تو پھر فرقے الگ الگ کیوں ہیں؟ ان اختلافات کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو گزند پہنچانا سر اسر جاہلانہ فعل ہے۔ جب تک ہم اختلافات کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم میں برداشت اور درگزر کے سنہری اصول پنپ نہیں پائیں گے۔ ہم خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور اپنے اردگرد کے افراد کو بھی ابہام زدہ ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔ میرے خیال میں میڈیا اور ہمارے مذہبی اسکالرز کا کردار اب بہت اہم ہو چکا ہے ان کو چاہیے کہ عوام کو سمجھائیں کہ ایک دوسرے کے مسلک کو برداشت کیے بغیر امن و امان قائم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔

مجمو عی طور پر ہم بحیثیت قوم بلوغت تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ لہذا مذہب کے نام پر کیے جانے والے جمہوریت دشمن جذباتی پراپیگنڈہ پر یقین کر لیتے ہیں۔ یہ تعین کون کرے گا کہ کون بہتر انسان ہے؟ اور کون بہتر نہیں ہے؟ اب بہترین شخص کے انتخاب کے لیے دوبارہ ہمیں جمہوریت کی طرف ہی لوٹنا ہوگا۔ جس فرد کو زیادہ لوگوں کا اعتماد حاصل ہو وہی فرد بہترین تصور کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ہمیشہ ہمارے حکمران نا اہل ہی کیوں ثابت ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ ہم غلط افراد کو منتخب کرتے ہیں۔ اس میں قصور سراسر ہماری ترجیحات کا ہے۔

آج ہم اپنی ترجیحات درست کر لیں کل ہمارے حکمران بھی بہترین ہوں گے ۔ اکثر لوگوں کے نزدیک تو یہ پورا نظام ہی خراب ہے اسی وجہ سے وہ ووٹ بھی ڈالنے کے حق میں نہیں۔ انتخابی عمل سے مایوسی ظا ہر کرنے والے حضرات کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا انتخابی حلقہ نمبر کیا ہے یا کتنے ا نتخابی امیدوار ان کے حلقے میں موجود ہیں ۔نہ ہی وہ جملہ امیدواروں کو جاننے یا ان کا نظریہ سمجھنے کی تکلیف کرتے ہیں۔صرف طو طے کی طرح سسٹم پر لعن طعن کرتے ہیںاور الیکشن کے دن لمبی تان کے سو جاتے ہیں۔ حقیقتاً تبدیلی ووٹ کے ذریعے ہی آئے گی۔

تاریخ میں پہلی مرتبہ لاکھوں بوگس ووٹوں کو انتخابی فہرستوں سے نکال دیا گیا ہے۔ ہر شہری کو حق رائے دہی استعمال کرنا چاہیے اور یہ حق صرف جمہوریت ہی دیتی ہے۔ جمہوریت سے محض وہی لوگ خوفزدہ ہیں جو اپنی ذاتی رائے کو لوگوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے افراد کو خود اپنے نظریات پر اعتماد نہیں ہوتا اور اس بات سے وہ خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ عوام کو اپنے نظریے پر قائل نہ کر پائیں گے۔ اسی لیے ایسے حضرات جمہوریت کے خلاف کبھی فتوے صادر فرماتے ہیں تو کبھی جمہوری عمل کو بائی پاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اب وقت ہے کہ ہم جمہوریت کو مستحکم کریں اور محض جذباتی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے ہر بات کو ایک مستند منطق کے تابع کرنے کے بعد اس پر غور بھی کریں تا کہ '' کالا جن '' ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بوتل میں بند ہو جائے جو ہمیشہ ہمیں ایک خود فریبی میں مبتلا کیے رکھتا ہے۔

خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں