اعتکاف

معتکف کا حالت اعتکاف میں سونا‘ جاگنا یا خالی بیٹھنا بھی عبادت ہے۔


رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لئے اعتکاف کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ فوٹو: فائل

اعتکاف کے لغوی معنی ٹھہرنے کے ہیں۔ لیکن شرعی محاورے میں دنیا کے تمام تر کاروبار و مصروفیات کو ترک کرکے عبادت الٰہی کی نیت اور رضائے الٰہی کے حصول کے جذبے کے تحت مسجد میں ٹھہر کر عبادت ' ذکر و اذکار' تلاوت قرآن مجید وغیرہ میں مشغول رہنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔

حالت اعتکاف میں کثرت سے نوافل کی ادائی اور تلاوت' دعا' ذکر و تسبیح و تہلیل درود شریف وغیرہ کے ذریعے اپنے رب سے تعلق استوار کرنا چاہیے۔ اسی طرح مسجد میں قرآن و حدیث کا درس دینا اور وعظ و نصیحت کرنا بھی جائز و مستحسن ہے۔ کیوں کہ یہ ذرایع عقائد و اعمال کی اصلاح میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

اعتکاف کی بڑی فضیلت ہے۔ رحمت کائنات ﷺ کا ارشاد گرامی ہے، مفہوم: '' جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں کوشاں ہو اور اس مقصد میں کام یاب ہو جائے تو (یہ عمل) دس سال کے اعتکاف سے اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ کی خوش نُودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اس بندے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کی دوری کر دیتا ہے جن میں سے ہر خندق کی چوڑائی زمین و آسمان کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ ہے ۔'' (طبرانی)

اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کرلیا۔ اسے دو حج اور دو عمرے کا ثواب عطا ہوگا۔ (بیہقی)

چوں کہ ماہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اس ماہ مقدس میں اللہ رب العالمین کی رحمتیں اور بخششیں اپنے بندوں کے لیے دیگر ایام کی نسبت بہت زیادہ بڑھی ہوتی ہیں اور خالق جن و بشر اپنے گناہ گار بندوں کو جو اپنی شامت اعمال کی بہ دولت اللہ کے غضب اور جہنم کے مستحق ٹھہر چکے ہوتے ہیں۔

مالک کائنات اس ماہ مبارک میں انہیں اصلاح کا موقع عطا فرما دیتا ہے تاکہ اس کے بندے سارا سال کیے گئے گناہوں اور نافرمانیوں پر شرمندہ ہوکر اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر اور اپنی جبین نیاز کو خم کرکے اپنے خالق و مالک سے توبہ و استغفار کرلیں۔ اور وہ مہربان آقا اپنی مخلوق کو جہنم سے آزادی کا پروانہ جاری فرما دے۔ ماہ رمضان المبارک کی تمام تر عبادات کا محور رضائے الٰہی کا حصول ہی ہوتا ہے۔ اعتکاف بھی رمضان المبارک میں انجام پانے والے ایسے ہی پاکیزہ اعمال میں سے ایک ہے۔

چناں چہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا چاہیے اور پھر عیدالفطر کا چاند دیکھ کر ہی باہر نکلنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب رمضان کا اعتکاف چھوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال المکرم کے پہلے دس دنوں میں اس کی قضا کی۔ (بخاری)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کی عبادت کس قدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہے کہ بہ امر مجبوری رہ جانے والے اعتکاف کی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے قضا فرمائی' لیکن نظر انداز نہیں فرمایا۔ اعتکاف ایسی عظیم عبادت ہے کہ انسان اپنی جائز دنیاوی ضروریات سے دست بردار ہوجاتا ہے اور خالصتاً اللہ تعالیٰ سے لو لگا کر مسجد کے ایک کونے میں پڑا رہ جاتا ہے۔ اس لیے اس عبادت کو اعتکاف کہا جاتا ہے کہ اس بندے نے اپنے آپ کو ایک خاص مقصد (یعنی رضائے الہٰی کے حصول) کے لیے ایک خاص مقام (یعنی مسجد کے کونے) میں محدود کر لیا ہے اور وہ دنیا کے جائز معاملات سے بھی لاتعلق ہو کر مشغول عبادت ہوگیا ہے۔

معتکف کا حالت اعتکاف میں سونا' جاگنا یا خالی بیٹھنا بھی عبادت ہے۔ لیکن حالت اعتکاف میں' جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جہاں معتکف محض اعتکاف کے اجر و ثواب میں دو حج دو عمرے کا ثواب ملتا ہے جو وہ حالت اعتکاف میں یک سوئی کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ تاہم ان خوش نصیب لوگوں کو اعتکاف کی برکت سے شب قدر کی فیوض و برکات سے بھی مستفید ہونے کا سنہری موقع مل جاتا ہے، جس کی ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔ لہٰذا دوران اعتکاف لایعنی باتوں اور مشاغل سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

بعض حضرات اعتکاف میں بھی موبائل فون لیے کاروباری یا خاندانی معاملات نمٹاتے رہتے ہیں یا دوستوں کی محفل لگا کر خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ امور اعتکاف کے اجر و ثواب کو ضایع کرنے والے ہیں۔ لہٰذا ان سے اجتناب کرتے ہوئے مکمل یک سوئی کے ساتھ اپنے رب سے تعلق استوار کر کے اپنی بخشش کا سامان مہیا کرنا چاہیے۔ حالت اعتکاف میں تیل' خوش بُو وغیرہ لگانا' غسل کرنا جائز ہے۔ البتہ جنازہ کے ساتھ جانا یا کسی بھی ضرورت کے تحت مسجد سے باہر جانا ممنوع ہے۔

اعتکاف کی شرائط میں سے ہے کہ اس کے لیے مسجد کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اعتکاف کو سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ ہمیں صحیح معنوں میں اس کی فیوض و برکات حاصل ہوسکیں۔ آمین یا رب العالمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں