اردو نعت کی شعری روایت
رحمت کی اس نوید سے حیاتِ انسانی کو وہ مفہوم میسر آتا ہے جو اُس کے خلیفہ فی الارض ہونے کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔
(گذشتہ سے پیوستہ)
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان کی زندگی کا سراسر نجی مگر بے حد اہم معاملہ ہے۔ اس معاملے کی اہمیت کا انحصار اس امر پر نہیں کہ وہ مسلمان اپنے عقائد کے عملی رویوں پر کس حد تک کاربند ہے، بلکہ ایمان و یقین کے اس نکتے پر ہے کہ حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر اُس کے عقائد اس درجہ ناقص ہیں کہ باقی اعمال کی توفیق اور بجاآوری کے باوجود وہ کامل ایمان والا مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سراسر نجی معاملہ ہونے کے باوجود عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اثبات و اظہار فرد کی ذاتی زندگی سے لے کر اُس کے سماجی اور تہذیبی وجود تک شعور کی ہر ممکنہ سطح پر ہوتا ہے۔
اسلام کی چودہ سو سال سے زائد عرصے کو محیط تاریخ پر ایک اجمالی نگاہ ڈال کر بھی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مذہب، تہذیب، سیاست، قومیت اور دینی حمیت کے جس میدان نے بھی اہلِ اسلام سے جب جب عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی طلب کی تو ادنیٰ سے ادنیٰ سطح پر سماجی اور اعمال کے معاملے میں برائے نام مذہبی زندگی گزارنے والے مسلمان نے بھی دامے درمے قدمے سخنے جی جان سے اس شہادت کو اپنے لیے اعزاز جانا۔ شاتمینِ رسول کی ذلت کا باب ماضی کے اوراق سے عصرِ حاضر کے تناظر تک جو نقشہ پیش کرتا ہے، اس کی کوئی دوسری مثال ادب، تہذیب اور مذہب تینوں حوالوں سے تاریخِ عالم کے کسی باب میں اس طرح نہیں ملتی۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیا معاملہ ہے جو اس رویے اور جذبے کے اظہار کی بنیاد بنتا ہے؟ ہم اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسلمانوں کا جذبۂ محبت بھی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم یہ جواب ناکافی ہوگا۔ اس لیے کہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار تاریخِ اسلام نے محض عام آدمی کے یہاں ریکارڈ نہیں کیا، بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اذہان اور معاشرے کے اہم سنجیدہ شعبوں سے وابستہ افراد کے یہاں بھی اس کا وفور اسی سطح پر دیکھا گیا ہے۔ باور کیا جانا چاہیے کہ یہ جذبہ تو ہے ہی، لیکن اس کے سوا بھی کچھ ہے جو معاشرے کے مختلف طبقات میں یکساں کیفیت کے ساتھ اس ضمن میں جاذبیت اور وارفتگی کی بنیاد بنتا ہے- اور وہ ہے سیرتِ مطہرہ کی صورت اُبھرنے والا انسانی کردار۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انا بشر مثلکم
(میں تمھاری ہی طرح کا انسان ہوں۔)
یہ بیان فکر انگیز ہے۔ قرآنِ کریم میں ہبوطِ آدم کا واقعہ، فرشتوں کا آدم کو سجدہ، آدم کی فضیلت اور انسانیت کے فوز و فلاح کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی ضرورت سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلت تک کے حقائق پر غور کیا جائے تو اس بیان کی معنویت کا انکشاف ہوتا ہے۔ نبوت کے باب کی تکمیل کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ باری تعالیٰ نے نبوت کا باب بند کر دیا اور اب رہتی دُنیا تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہ بات تو اپنی جگہ حقیقت ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خاتم النبیین کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اس صورت میں نبوت کو مثال کے اس درجے تک لایا گیا ہے کہ اس کے بعد کسی دوسرے نبی کی گنجائش یا ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
یعنی نبوت کی تکمیل سے مراد نبوت کے کردار کا بلند ترین اظہار ہے، یعنی اس کردار کی معراج۔ چناںچہ ختمِ نبوت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسانی فوز و فلاح کے کام کو وہ حتمی صورت دے دی گئی اور اُس نکتۂ کمال تک پہنچا دیا گیا کہ اس منصبِ جلیلہ کی تکمیل ہوگئی۔ نبوت کا کردار اپنی اعلیٰ ترین صورت میں منصہ شہود پر آگیا، لہٰذا اس کے بعد کسی اور اظہار کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
یہاں فطری طور پر انسانی ذہن سوچتا ہے کہ پھر تو اس کردار کی بہت نزاکتیں ہوں گی اور اس کے راستے کو ایک عام آدمی کے لیے اختیار کرنا بہت مشکل، بلکہ ناممکن ہوگا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، بلکہ اسی خیال کو رد کرنے کے لیے باری تعالیٰ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارکہ سے یہ بات کہلوائی کہ میں تم ہی جیسا ہوں، یعنی تم میرا راستہ آسانی سے اختیار کر سکتے ہو۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان کی زندگی میں کردار کا سب سے بڑا آئیڈیل، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صورت میں ہوتا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت اپنی جگہ بڑی چیز ہے اور اس کے ساتھ ایک اور بڑی چیز اس آئیڈیل کے اتباع کی شدید آرزو ہے۔
یوں ایک عام مسلمان کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ دراصل انسانی رشتے کی معراج بن جاتا ہے۔ چناں چہ اس ضمن میں وہ عام آدمی بھی فعال کردار اور حساس رویے کے ساتھ سامنے آتا ہے، جس کے روز مرہ معمولات میں عملی مذہبی زندگی کا رُجحان کم کم دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں عام آدمی سے لے کر اہلِ نظر اور اہلِ فلسفہ ہی نہیں، بلکہ ملامتی فرقے اور ترک کی منزل کے صوفیہ تک کے یہاں ذاتِ الٰہیہ کے سلسلے میں تو بے احتیاطی یا بے نیازی دیکھی گئی ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھی جاسکتی ہے، لیکن کیا مجال جو آپ کو محض نام کا ایک مسلمان بھی حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں غافل یا بے لحاظ مل جائے۔ اصل میں یہ معاملہ ہے:
باخدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیار
کے طرزِ احساس کا یہ معاملہ عجیب و غریب ہے۔ اور اس کی بنیاد وہی ہے، جس کی طرف سطورِ گذشتہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ چناںچہ اس کی توجیہات کا قصہ بھی عجب اور قدرے طولانی ہے۔ اس طوالت میں ایک طرف عقائد اور شریعت کے تقاضوں کا بیان ہے تو دوسری طرف اہلِ دانش کی نکتہ رس شرح اور اس کے ساتھ ساتھ شیوئہ وابستگی کی وہ تفہیم بھی جو ایک عام آدمی اپنے احساس کی سطح پر کرتا ہے۔ بالاختصار بس یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہر مسلمان کا دل اُس گھر کے مانند ہے جس میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی کا سارا اہتمام قادرِ مطلق نے خود اپنے ہاتھ میں رکھا ہے- اور اس طور سے رکھا ہے کہ ابدالآباد تک کے لیے دلوں کو اس اُجالے سے آباد کیا ہے۔ یہ اسی بیان کی تصدیق ہے جو ہمیں قرآن میں ملتا ہے جب خالق اپنے محبوب سے کہتا ہے:
ورفعنا لک ذکرک
(اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔)
اس نکتے پر گھڑی بھر رُک کر غور کیا جائے تو گواہی کا یہ معاملہ بھی واضح ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تفہیم کا یہ زاویہ بھی عقلِ انسانی کو میسر آتا ہے کہ باری تعالیٰ نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کرنے کا جو ارشاد فرمایا تو ہم دیکھتے ہیں کہ بلندی کی اس صورت میں عملاً وقت کی عمودی اور اُفقی دونوں جہتوں کو سمیٹ کر رکھ دیا۔ عمودی جہت سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ذکر کو اس طرح پھیلایا کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ جس کو ہم اس درجہ مذکور پاتے ہوں۔ اُدھر دوسری طرف یعنی اُفقی جہت سے دیکھیے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر صدیوں سے اس طرح ہو رہا ہے کہ جیسے قرونِ اولیٰ میں ہوا ہوگا۔
گویا ذکر کی اس بلندی کو سمجھنے کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمودی جہت زمینوں کا اور افقی جہت زمانوں کا احاطہ کرتی ہے۔ چناںچہ ذکر کی بلندی کے معانی کی نمود قدرتِ الٰہیہ کا تو بے شک اظہار ہے ہی، لیکن ذرا غور کیجیے کہ اس کے ذریعے ذہنِ انسانی کو ختمِ نبوت کا فہم اور اور مقامِ ختم النبیین کی بصیرت کس درجۂ اطلاق میں ودیعت کی جا رہی ہے۔ اﷲ اکبر۔ کوئی ٹھکانا ہے محبوب کی منزلت کے اظہار اور پذیرائی کے اسرار کا۔ ذرا دیکھیے صبیح رحمانی کی نعت کا یہ سادہ سا مصرع یہاں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کن معنوں بیان کر رہا ہے:
کوئی مثل مصطفیؐ کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
یہاں 'مثل' کے معنی فی الاصل نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی بلندی کے ہیں، یعنی ایسی بلندی کے جس سے نبوت کی یگانگت کا درجہ متعین ہوا۔
اب یہیں قرآنِ کریم کے اس بیان پر بھی ذرا توجہ دیجیے۔ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔
(اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔)
اللہ غنی! یہ خالقِ ارض و سما کی رحمتِ فراواں کا اظہار ہے کہ جس زمانے اور جس جہان میں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، بعثت کی رحمت و برکت کو اس تک محدود و مرتکز نہیں کیا، بلکہ علیٰ حالہٖ اس نعمت کی تعمیم کر دی۔ یوں انسانیت کو دائمی طور سے شرف کے گھر سے منسوب کر دیا۔ انسان کے اس دُنیا میں اشرف المخلوقات ہونے کا جواز واضح ہوا اور اُس کے خلیفۃ اﷲ فی الارض ہونے کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ معلوم ہوا کہ اس کارخانۂ رنگ و بو اور نگار خانۂ فکر و عمل میں انسان ہونے سے مراد کیا ہے اور انسانیت کی قدر و منزلت کیا ہے۔ یوں انسانی زندگی میں خیر کی نعمت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مستقل کر دیا گیا۔ اُس کے حال کو مستقبل کی تہ در تہ وسعتوں تک پھیلا دیاگیا:
آپؐ اُن کے لیے بھی رحمت ہیں
جو زمانے ابھی نہیں آئے
(حنیف اسعدی)
رحمت کی اس نوید سے حیاتِ انسانی کو وہ مفہوم میسر آتا ہے جو اُس کے خلیفہ فی الارض ہونے کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔ جود و سخا اور عطا و کرم کا یہ معاملہ اہلِ دانش نے اپنے انداز سے سمجھا ہے اور اہلِ فکر و بصیرت نے اپنے طریقے سے۔ اسے اپنی سطحِ ادراک سے علما نے بھی سمجھا اور بیان کیا ہے اور اہلِ فقہ و شریعت نے بھی۔ حال و قال والے صوفیہ نے بھی اس کا فہم اپنے کشف و عرفان سے پایا۔ تاہم ہماری شعری تہذیب کی روایت بتاتی ہے کہ ہمارے شعرا نے اس کا ادراک جس سطح اور جس انداز سے کیا، وہ کچھ انھی کا حصہ ہے۔ انھی کا حصہ اس لیے ہے کہ اُن کے ادراک و اظہار میں فکر کے ساتھ جس طرح جذبے کی سطح قائم ہوتی ہے، وہ جاذبیت کا اپنا ایک الگ پہلو رکھتی ہے اور اس کی اثر آفرینی کا دائرہ بھی الگ ہوتا ہے۔
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں وارفتگی کے رنگ اردو نعت نے کس طرح پیش کیے ہیں، اس کی وضاحت کے لیے ایک مضمون تو کیا ایک ضخیم کتاب بھی ناکافی ہے۔ اس لیے کہ یہاں ایک گل کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ نگارِ ہزار شیوہ کو بہ درجۂ شوق اور بہ رنگِ کمال معرضِ بیاں تک لانے کی آرزو نعت کے شاعر کی زندگی کا مقصد اور اُس کے فن کی معراج ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں سیرت و کردار کا بیان نعت بن گیا ہے تو کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بیان نے نعت کا پیرایہ اختیار کرلیا ہے اور کہیں کسی آیتِ قرآنی اور حدیث کے ٹکڑے سے نعت کا مضمون وضع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی حقائق اور اجتماعی تہذیبی احساس کے رنگوں سے بھی نعت کا بیانیہ آراستہ کیا گیا ہے۔ اس سے نعت کی معنوی وسعت کا ہی اندازہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ اس باب میں جذبۂ اظہار کی فراوانی کا بھی پتا چلتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
اُس کا پیامِ انس و مواخات ، روحِ دیں
اس کا نظامِ عدل و مساوات ، جانِ خیر
(حفیظ تائب)
اُسی کا عکس ہیں سارے جہاں کی تہذیبیں
کہاں نہیں ہے ضیائے محمدِ عربی
(صبااکبرآبادی)
جاں تری سربسر جمال ، دیں ترا آئینہ مثال
تجھ کو ترے عدو نے بھی دیکھا تو ہوگیا ترا
(احمدندیم قاسمی)
شبِ زندگی کو سحر کرنے والے
ہر اک دور کی روشنی نام تیرا
عدالت ، امانت ، دیانت میں یکتا
حیات ، آشتی ، راستی نام تیرا
(ضمیر جعفری)
شوکتِ شاہانِ عالم اُس فقیری پر نثار
جس فقیری کو نبی کا آستاں بخشا گیا
(اقبال عظیم)
انسانیت کو اوجِ شرف ہے تمھاری راہ
رحمت تمھارا ذکر ، عبادت تمھارا نام
(سجادباقررضوی)
وہ جو حیراں ہے معراج کیا راز تھا، طے ہوا کس طرح وقت کا فاصلہ
تیرے اقبال کی کیا خبر ہو اسے، جو حرا میں محبت کی اُترا نہیں
(عرش صدیقی)
لمحے لمحے کی مٹھی میں جگنو ترے
ہر زمانے کی مشعل زمانہ ترا
(مظفروارثی)
بس ایک آپ کا دربار ہے پناہِ جہاں
بس ایک آپ کا دربار خاص و عام کا ہے
(حافظ لدھیانوی)
تو سطوتِ شاہاں کے لیے تیغِ مکافات
تو مونس و ہم درد ہر اک جانِ حزیں کا
(ظہیر کاشمیری)
سب جہانوں میں اُسی نام کا جلتا ہے چراغ
سب جہانوں کا انھیں ہادی و رہبر لکھوں
(کلیم عثمانی)
میں جتنا بھی لکھتا ہوں شانِ نبیؐ میں
یہ محسوس ہوتا ہے کم لکھ رہا ہوں
(اعجازرحمانی)
سمولے خود میں گر اُس خلقِ کامل کے اُجالوں کو
تو دامانِ تمدّن دامنِ زرتار ہوجائے
(اسلم انصاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ایک مسلمان کے لیے ہر عمل اور ہر نکتۂ فکر کا بنیادی حوالہ اور معنویت کا وہ سرچشمہ ہے کہ نکتہ رسی کے سارے سوتے یہیں سے نکلتے ہیں یا پھر یہیں آکے ملتے ہیں۔ چناںچہ نعت کے مضامین میں زماں کا حوالہ ہو یا مکاں کا، حرکت و تغیر کا نکتہ ہو یا سکون و ثبات کا، یا پھر وصل و فصل کا سوال- ہر مضمون کی گہرائی اور ہر خیال کی وسعت دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شاعر کے جذبۂ دل کی وابستگی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ مطالعاتِ نعت میں یہ نکتہ کھلتا ہے کہ یہاں فلسفے میں دھڑکن سما جاتی ہے اور دل کی دھڑکن میں دقیق فلسفہ گونج اٹھتا ہے۔ اس لیے کہ یہ محل ہی وہ ہے کہ جہاں دل و نظر ہی کی نہیں علم و فلسفے کی بھی کایا پلٹ جاتی ہے۔ یہاں سکوت کلام سے بڑھ جاتا ہے اور اذن مل جائے تو کلام معجزہ ہوجاتا ہے:
ہر ایک سمت سے آتی ہے تیری ہی خوش بو
ہر اک زمانہ ، زمانہ ترے جمال کا ہے
(شہزاداحمد)
دربار و محافل کو بھی ہو تجھ پہ سدا رشک
اے غارِ حرا کیا تجھے تنہائی ملی ہے
(سحرانصاری)
بابِ حرم پہ ہے کہیں لمس مرے بھی ہاتھ کا
فرشِ حرم پہ ہے کہیں میری جبیں کا بھی نشاں
(یاسمین حمید)
سفر میں وقت کی رفتار رہ گئی پیچھے
ورائے عقل و گماں ہیں مسافتیں تیری
(انورجمال)
عزمِ سفر جو طیبہ کا ہو ، نکلیں وقت سے ہم آگے
دل آنکھوں سے آگے ، آنکھیں دل سے ایک قدم آگے
(حسن اکبرکمال)
اس میں کلام نہیں کہ عالمی ادب نے مذہبی فکر کے جو نقش ابھارے ہیں ان میں مذہبی تعلیمات سے اور اُن تعلیمات کے حامل پیغام بروں سے عقیدت کے جذبات کا اظہار بھی نمایاں طور سے ہوا ہے، خاص طور سے اطراف کی تہذیبوں اور زمانوں میں یہودیت، عیسائیت، ہندومت اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کے یہاں اس احساس کو صاف طور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہر مذہبی فکر کے تخلیق کاروں نے یہ کام اپنی استعداد اور جذبے کی فراوانی کے مطابق کیا ہے، لیکن تمام تر معروضیت کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کی نوعیت اور کیفیت ہی مختلف نظر آتی ہے جسے ہم اردو شعر و سخن میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
یہ اُسی صداقت کا ثبوت ہے جس کی بابت ہم اس سے قبل ورفعنا لک ذکرک کے ذیل میں گفتگو کر آئے ہیں۔ اس ضمن میں یہ قابلِ لحاظ بات اپنی جگہ کہ جس کثرت سے ہماری شاعری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے، دُنیا کی کسی دوسری زبان کی شاعری میں ایسا اور اتنا ذکر کسی دوسری شخصیت کا کہیں نہیں ہوا۔ بایں ہمہ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ ذکر جس والہانہ پن، وارفتگی اور وفورِ شوق کے ساتھ ہوا ہے، اُس کی کوئی مثال دُنیا کے شعر و سخن میں ہمیں نہیں ملتی۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ اس وارفتگی اور وفور میں وابستگی کے قرینے اور معنی آفرینی کے پہلو تخلیق کار کی نظر سے ہرگز اوجھل نہیں ہوتے۔ ذرا یہ اشعار دیکھیے:
کوئی بھی جستجو ہو کوئی لگن
ذوقِ منزل وہیں سے ملتا ہے
(محشر بدایونی)
یہ اور راستے ہیں حدی خواں سنبھل کے چل
طیبہ کا ذرّہ ذرّہ مجھے دل دکھائی دے
(اداجعفری)
کہاں ہو گر نہ ہو اس جا ہجومِ آرزو منداں
ہے اُس کا آستانہ قبلہ سارے آستانوں کا
(عبدالعزیزخالد)
نگاہ دیکھ کہ ہے رُو بہ رُو دیارِ جمال
ہے ذرّہ ذرّہ یہاں آفتاب ، کیا دیکھوں
(عاصی کرنالی)
کاش یہ میری جبیں اور نقشِ پائے مصطفی
صرف روزِ حشر تک ہوجائیں ساکن ساتھ ساتھ
(ماجدخلیل)
تو سائبان کی صورت محیط عالم پر
کرن کرن کی ترے سامنے طناب کھلے
(محسن احسان)
یہ کس کی سمت پے بہ پے رواں دواں ہیں ساعتیں
یہ کس کے پائے بوس کا ہے اشتیاق دیکھنا
(جعفربلوچ)
نظر میں رکھتا ہوں یوں بھی تری مثالوں کو
ترا ہی عکس سمجھتا ہوں میں اجالوں کو
(عزیزاحسن)
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار میں والہانہ پن، وارفتگی، دل بستگی، وابستگی اور وفور کے ساتھ ایک قرینہ اس دولتِ بیدار پر ناز آفرینی کا بھی ہے۔ نسبت کا اعزاز اہلِ دل اور اہلِ صفا کے لیے کیسی نازپرور شے رہی ہے، اس کا اندازہ صحیح معنوں میں اُسی وقت ہوسکتا ہے، جب اس اظہار کے مختلف شیڈز نظر میں ہوں۔ اس لیے کہ یہ معاملہ، کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے، والا ہے۔ اس بزمِ فخر و انبساط میں ہر ناز پرور کی اپنی ایک کیفیت ہے اور اس کے بیان کا اپنا ہی ایک قرینہ بھی۔ دیکھا جائے تو کہیں یہ ادب و محبت کی معراج ہے تو کہیں حرفِ طمانیت و تشکر کے اظہار کا ذریعہ، کہیں سرشاری ہے تو کہیں شوق کی وسعت و بیداری کا احساس، اس میں کہیں جذبے کی فراوانی کلام پر مائل ہے تو کہیں پر حدِادب کا لحاظ خاموشی پر مصر، کہیں یہ نسبت انوکھا خواب ہے اور کہیں اس سے عقدۂ دل کھلتا ہے۔ اس کیفیتِ دیدہ و دل کے کچھ رنگوں کی جھلمل ملاحظہ کیجیے:
ترے ہی فیض سے ممتاز تھے جہاں بھر میں
جنوں شعار ترے صاحبِ خرد تیرے
(عارف عبدالمتین)
گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے
حضور آپ نہ ہوتے تو ہم کہیں کے نہ تھے
(حنیف اسعدی)
تری عقدہ کشائی سے کھلے عقدے سبھی دل کے
ہوئیں سب مشکلیں آساں تری مشکل کشائی سے
(جمال پانی پتی)
اُس پیکرِ جمال کی پرچھائیں بھی جمال
اُس روشنی کے پیڑ کا سایہ بھی روشنی
(بیدل حیدری)
طلوعِ اسمِ محمد فقط نظارہ نہیں
ہماری صبحِ شرف کا کوئی کنارہ نہیں
(مشکور حسین یاد)
درود اُن پہ پڑھا اور سعادتیں پائیں
ہٹا گیا مرے سینے سے سب غبار درود
(خاطرغزنوی)
شان اُن کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے
(خورشیدرضوی)
کتنی صبحیں ظہور کرتا ہے
جاگنا رات بھر مدینے میں
(عطاء الحق قاسمی)
حضوری کی تمنا، حاضری کی خواہش، اپنی فردِحیات پر ندامت کا احساس، خود احتسابی کا رویہ، دُنیا میں دست گیری اور آخرت میں شفاعت کی آرزو کے مضامین نعت کی روایت میں آغاز ہی سے ملتے ہیں، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اہلِ نظر نے احساس کے ان رنگوں کو اردو سے قبل عربی اور فارسی شاعری کی نعتیہ روایت میں بھی دیکھا ہے۔ اردو نعت میں کیفیتِ دل کے یہ پہلو دورِ اوّل سے چلے آتے ہیں اور اب تک کسی نہ کسی صورت مضامینِ نعت میں اظہار کی راہ پاتے رہتے ہیں- لیکن توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دھڑکتے دلوں کا یہ آہنگ اب بھی جب کسی گہرے باطنی تجربے کی صورت میں ابھرتا ہے تو ایک الگ طرح کی اُمنگ اور ایک انوکھی ترنگ کو جگاتا چلا جاتا ہے۔ چناںچہ قاری محسوس کرتا ہے کہ بات سامنے کی ہے اور سنی ہوئی بھی ہے، لیکن ہر نئے اظہار میں شاعر کی وارفتگی نے اسے پہلے انفرادی کیفیت کے طور پر نکھارا اور پھر تہذیب کے اجتماعی مافی الضمیر کے اعلامیے میں منقلب کرکے پیش کردیا۔ نعت کا یہ قرینہ اپنی ہی ایک دل کشی اور اپنا ہی ایک اثر رکھتا ہے۔ ذرا دیکھیے:
نخلِ صحرا کی طرح خشک ہوں ، وہ ابرِ کرم
مجھ پہ برسے تو مجھے برگ و ثمر مل جائے
(سلیم احمد)
نئے لہجے میں بہ صد عجز و ندامت لکھوں
صرف اشکوں کی زباں میں تری مدحت لکھوں
(سرشارصدیقی)
کام بھی کوئی اُس طرح کا ظفرؔ
نام تو لے لیا محمدؐ کا
(ظفراقبال)
اسی دہلیز پہ بیٹھا رہے میرا بڑھاپا
انھیں کوچوں میں گزرے میرے بچوں کی جوانی
(محمداظہارالحق)
جو مدینے کے سفر میں کھو گیا
اس مسافر کا پتا ہی اور ہے
(شاہدہ حسن)
حضور آپ جو سن لیں تو بات بن جائے
حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہوجائے
(صبیح رحمانی)
ایک مقام پر عرض کیا تھا کہ نعت کا مطالعہ کسی بھی موضوع کو پیشِ نظر رکھ کر یا کسی بھی عنوان کے تحت کیا جائے، اسے جامعیت کے ساتھ ایک مضمون میں تو کیا، پوری کتاب کی ضخامت میں بھی سمیٹ لینا آسان نہیں۔ کم سے کم راقم الحروف تو تجربے کی صداقتوں کے ساتھ اسی احساس سے دوچار ہے۔ خیر، سچ پوچھیے تو یہ وہم اس مضمون کے آغاز میں بھی دل کو نہیں تھا کہ مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی نکتے کو اس تحریر میں بہ تمام و کمال پیش کردیا جائے گا۔ محض ایک بات ذہن میں تھی کہ ہماری ادبی و شعری تہذیب نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبدا سے جو فیض پایا اور جو اثر قبول کیا ہے، اسے سادہ لفظوں میں جس طور ممکن ہو بیان کیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ اس مرحلے پر آکر بیان کرنے کی بات بھی سراسر دعویٰ معلوم ہورہی ہے۔ اس لیے کہ یہ کام اپنے برتے پر بھلا کیوںکر ہوسکتا ہے۔ یہ تو اصل میں توفیقِ ایزدی کا معاملہ ہے کہ ایک خیال، ایک بات دل میں آگئی اور پھر اپنے تئیں اُس کو سمجھنے اور قابلِ فہم بنانے کی کوشش نے اس مضمون کی صورت اختیار کرلی۔ یہ بابِ کرم ہے سو اس کی جانب نگاہ کا اٹھ جانا ہی فیض یابی کا آغاز ثابت ہوتا ہے۔ یہ مضمون اسی حقیقت کا ثبوت ہے۔
اس امر کا اظہار بھی چند در چند وجوہ کی بنا پر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس مضمون میں جن نکات اور مباحث پر توجہ دی گئی، وہ اپنی بہتر تفہیم کے لیے اس سے کہیں زیادہ شرح و بسط کے ساتھ مطالعے کے متقاضی ہیں۔ یہاں تو صرف اشارات سے کام لیا گیا ہے۔اسی طرح جن شعرا کے اشعار حوالے کے طور پر درج کیے گئے، ان کے علاوہ بھی کتنے ہی اہم نام ایسے ہوسکتے ہیں جو یہاں درج ہونے سے رہ گئے ہوں گے، لیکن جن کے یہاں نعت کی روشنی اُن کے ذاتی سرمایۂ تخلیق ہی کو منور نہ کرتی ہوگی، بلکہ ہمارے شعر و ادب کی روایت میں بھی دور تک اُجالے بکھیرتی ہوگی۔ واقعہ یہ ہے کہ کائنات کی وسعتوں کو ایک گفتگو میں سمیٹنا اتنا دشوار نہیں، جتنا نعت کے موضوع، اُس کی لطافت، نکتہ آفرینی، اُس کے جمالیاتی پیرائے، اسالیبِ اظہار، جذبہ و فکر کے امتزاج، بیان کی تہ داری، لہجے، قرینے، وسعت اور معنویت کے رنگوں کو بہ یک وقت ابلاغ کے دائرے میں لانا۔ یہی سبب ہے کہ اس موضوع کے نکتہ ور اور اہلِ کمال بار بار اپنی نارسی اور عجز کے احساس سے دوچار ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کو اپنے محدودات کا بہ خوبی اندازہ ہے۔ تاہم سعیِ مشکور تو بڑی چیز ہے، اس باب میں اظہار کی ادنیٰ سی کاوش بھی لائقِ افتخار اعزاز سے کم نہیں۔
آخر میں بس یہ عرض کرنا ہے کہ اردو زبان و ادب کی تہذیب کا سب سے بلیغ، مؤثر اور ارفع سطح پر اظہارِ غزل کے اسلوب میں ہوا ہے۔ عشق، وابستگی، جذب و شوق، سرشاری، مہجوری، نسبت، افتخار، انبساط، ذوقِ بیاں، عرضِ حال- غزل کے جتنے قرینے ہیں، انھیں مجاز کی سطح سے اٹھا کر حقیقت کے درجے میں دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ غزل اور نعت میں عجب امتزاج اور ارتباط پایا جاتا ہے۔
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہماری تہذیب کے اس کنائے (غزل) پر ایسی چُھوٹ پڑتی ہے کہ احساس کے منطقے اور اظہار کے خطّے دور تک مہکتے اور جگمگاتے محسوس ہوتے ہیں۔ غزل نے مجاز (کے باب میں جذباتی کیفیات) کا اور نعت نے حقیقت (کے باب میں روحانی احساسات) کا جس طرح احاطہ کیا ہے، وہ دونوں کی اپنی اپنی کام یابی کا ثبوت تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی اس تہذیب کا اختصاص بھی ہے کہ جو اپنے افراد کی زندگی میں فکر و احساس کے دونوں رُخ منور رکھتی ہے۔ غزل نے ہمارے دل کی دھڑکنوں کو گنا ہے تو نعت نے ہماری روح کے وجد آفریں نغمے سے انھیں ہم آہنگ کیا ہے۔ اس لیے کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دل کی آواز اور ہماری روح کی پکار ہے۔ اسی صدا کا اُجالا ہماری تہذیب، زبان، ادب، سماج، فکر اور دل کے سارے گوشوں کو منور رکھتا ہے۔
(جاری ہے)
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان کی زندگی کا سراسر نجی مگر بے حد اہم معاملہ ہے۔ اس معاملے کی اہمیت کا انحصار اس امر پر نہیں کہ وہ مسلمان اپنے عقائد کے عملی رویوں پر کس حد تک کاربند ہے، بلکہ ایمان و یقین کے اس نکتے پر ہے کہ حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر اُس کے عقائد اس درجہ ناقص ہیں کہ باقی اعمال کی توفیق اور بجاآوری کے باوجود وہ کامل ایمان والا مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سراسر نجی معاملہ ہونے کے باوجود عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اثبات و اظہار فرد کی ذاتی زندگی سے لے کر اُس کے سماجی اور تہذیبی وجود تک شعور کی ہر ممکنہ سطح پر ہوتا ہے۔
اسلام کی چودہ سو سال سے زائد عرصے کو محیط تاریخ پر ایک اجمالی نگاہ ڈال کر بھی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مذہب، تہذیب، سیاست، قومیت اور دینی حمیت کے جس میدان نے بھی اہلِ اسلام سے جب جب عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی طلب کی تو ادنیٰ سے ادنیٰ سطح پر سماجی اور اعمال کے معاملے میں برائے نام مذہبی زندگی گزارنے والے مسلمان نے بھی دامے درمے قدمے سخنے جی جان سے اس شہادت کو اپنے لیے اعزاز جانا۔ شاتمینِ رسول کی ذلت کا باب ماضی کے اوراق سے عصرِ حاضر کے تناظر تک جو نقشہ پیش کرتا ہے، اس کی کوئی دوسری مثال ادب، تہذیب اور مذہب تینوں حوالوں سے تاریخِ عالم کے کسی باب میں اس طرح نہیں ملتی۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیا معاملہ ہے جو اس رویے اور جذبے کے اظہار کی بنیاد بنتا ہے؟ ہم اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسلمانوں کا جذبۂ محبت بھی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم یہ جواب ناکافی ہوگا۔ اس لیے کہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار تاریخِ اسلام نے محض عام آدمی کے یہاں ریکارڈ نہیں کیا، بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اذہان اور معاشرے کے اہم سنجیدہ شعبوں سے وابستہ افراد کے یہاں بھی اس کا وفور اسی سطح پر دیکھا گیا ہے۔ باور کیا جانا چاہیے کہ یہ جذبہ تو ہے ہی، لیکن اس کے سوا بھی کچھ ہے جو معاشرے کے مختلف طبقات میں یکساں کیفیت کے ساتھ اس ضمن میں جاذبیت اور وارفتگی کی بنیاد بنتا ہے- اور وہ ہے سیرتِ مطہرہ کی صورت اُبھرنے والا انسانی کردار۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انا بشر مثلکم
(میں تمھاری ہی طرح کا انسان ہوں۔)
یہ بیان فکر انگیز ہے۔ قرآنِ کریم میں ہبوطِ آدم کا واقعہ، فرشتوں کا آدم کو سجدہ، آدم کی فضیلت اور انسانیت کے فوز و فلاح کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کی ضرورت سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلت تک کے حقائق پر غور کیا جائے تو اس بیان کی معنویت کا انکشاف ہوتا ہے۔ نبوت کے باب کی تکمیل کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ باری تعالیٰ نے نبوت کا باب بند کر دیا اور اب رہتی دُنیا تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہ بات تو اپنی جگہ حقیقت ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خاتم النبیین کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اس صورت میں نبوت کو مثال کے اس درجے تک لایا گیا ہے کہ اس کے بعد کسی دوسرے نبی کی گنجائش یا ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
یعنی نبوت کی تکمیل سے مراد نبوت کے کردار کا بلند ترین اظہار ہے، یعنی اس کردار کی معراج۔ چناںچہ ختمِ نبوت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسانی فوز و فلاح کے کام کو وہ حتمی صورت دے دی گئی اور اُس نکتۂ کمال تک پہنچا دیا گیا کہ اس منصبِ جلیلہ کی تکمیل ہوگئی۔ نبوت کا کردار اپنی اعلیٰ ترین صورت میں منصہ شہود پر آگیا، لہٰذا اس کے بعد کسی اور اظہار کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
یہاں فطری طور پر انسانی ذہن سوچتا ہے کہ پھر تو اس کردار کی بہت نزاکتیں ہوں گی اور اس کے راستے کو ایک عام آدمی کے لیے اختیار کرنا بہت مشکل، بلکہ ناممکن ہوگا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، بلکہ اسی خیال کو رد کرنے کے لیے باری تعالیٰ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارکہ سے یہ بات کہلوائی کہ میں تم ہی جیسا ہوں، یعنی تم میرا راستہ آسانی سے اختیار کر سکتے ہو۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان کی زندگی میں کردار کا سب سے بڑا آئیڈیل، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صورت میں ہوتا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت اپنی جگہ بڑی چیز ہے اور اس کے ساتھ ایک اور بڑی چیز اس آئیڈیل کے اتباع کی شدید آرزو ہے۔
یوں ایک عام مسلمان کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ دراصل انسانی رشتے کی معراج بن جاتا ہے۔ چناں چہ اس ضمن میں وہ عام آدمی بھی فعال کردار اور حساس رویے کے ساتھ سامنے آتا ہے، جس کے روز مرہ معمولات میں عملی مذہبی زندگی کا رُجحان کم کم دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں عام آدمی سے لے کر اہلِ نظر اور اہلِ فلسفہ ہی نہیں، بلکہ ملامتی فرقے اور ترک کی منزل کے صوفیہ تک کے یہاں ذاتِ الٰہیہ کے سلسلے میں تو بے احتیاطی یا بے نیازی دیکھی گئی ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھی جاسکتی ہے، لیکن کیا مجال جو آپ کو محض نام کا ایک مسلمان بھی حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں غافل یا بے لحاظ مل جائے۔ اصل میں یہ معاملہ ہے:
باخدا دیوانہ باش و بامحمد ہوشیار
کے طرزِ احساس کا یہ معاملہ عجیب و غریب ہے۔ اور اس کی بنیاد وہی ہے، جس کی طرف سطورِ گذشتہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ چناںچہ اس کی توجیہات کا قصہ بھی عجب اور قدرے طولانی ہے۔ اس طوالت میں ایک طرف عقائد اور شریعت کے تقاضوں کا بیان ہے تو دوسری طرف اہلِ دانش کی نکتہ رس شرح اور اس کے ساتھ ساتھ شیوئہ وابستگی کی وہ تفہیم بھی جو ایک عام آدمی اپنے احساس کی سطح پر کرتا ہے۔ بالاختصار بس یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہر مسلمان کا دل اُس گھر کے مانند ہے جس میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی کا سارا اہتمام قادرِ مطلق نے خود اپنے ہاتھ میں رکھا ہے- اور اس طور سے رکھا ہے کہ ابدالآباد تک کے لیے دلوں کو اس اُجالے سے آباد کیا ہے۔ یہ اسی بیان کی تصدیق ہے جو ہمیں قرآن میں ملتا ہے جب خالق اپنے محبوب سے کہتا ہے:
ورفعنا لک ذکرک
(اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔)
اس نکتے پر گھڑی بھر رُک کر غور کیا جائے تو گواہی کا یہ معاملہ بھی واضح ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تفہیم کا یہ زاویہ بھی عقلِ انسانی کو میسر آتا ہے کہ باری تعالیٰ نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کرنے کا جو ارشاد فرمایا تو ہم دیکھتے ہیں کہ بلندی کی اس صورت میں عملاً وقت کی عمودی اور اُفقی دونوں جہتوں کو سمیٹ کر رکھ دیا۔ عمودی جہت سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ذکر کو اس طرح پھیلایا کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ جس کو ہم اس درجہ مذکور پاتے ہوں۔ اُدھر دوسری طرف یعنی اُفقی جہت سے دیکھیے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر صدیوں سے اس طرح ہو رہا ہے کہ جیسے قرونِ اولیٰ میں ہوا ہوگا۔
گویا ذکر کی اس بلندی کو سمجھنے کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمودی جہت زمینوں کا اور افقی جہت زمانوں کا احاطہ کرتی ہے۔ چناںچہ ذکر کی بلندی کے معانی کی نمود قدرتِ الٰہیہ کا تو بے شک اظہار ہے ہی، لیکن ذرا غور کیجیے کہ اس کے ذریعے ذہنِ انسانی کو ختمِ نبوت کا فہم اور اور مقامِ ختم النبیین کی بصیرت کس درجۂ اطلاق میں ودیعت کی جا رہی ہے۔ اﷲ اکبر۔ کوئی ٹھکانا ہے محبوب کی منزلت کے اظہار اور پذیرائی کے اسرار کا۔ ذرا دیکھیے صبیح رحمانی کی نعت کا یہ سادہ سا مصرع یہاں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کن معنوں بیان کر رہا ہے:
کوئی مثل مصطفیؐ کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
یہاں 'مثل' کے معنی فی الاصل نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی بلندی کے ہیں، یعنی ایسی بلندی کے جس سے نبوت کی یگانگت کا درجہ متعین ہوا۔
اب یہیں قرآنِ کریم کے اس بیان پر بھی ذرا توجہ دیجیے۔ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔
(اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔)
اللہ غنی! یہ خالقِ ارض و سما کی رحمتِ فراواں کا اظہار ہے کہ جس زمانے اور جس جہان میں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، بعثت کی رحمت و برکت کو اس تک محدود و مرتکز نہیں کیا، بلکہ علیٰ حالہٖ اس نعمت کی تعمیم کر دی۔ یوں انسانیت کو دائمی طور سے شرف کے گھر سے منسوب کر دیا۔ انسان کے اس دُنیا میں اشرف المخلوقات ہونے کا جواز واضح ہوا اور اُس کے خلیفۃ اﷲ فی الارض ہونے کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ معلوم ہوا کہ اس کارخانۂ رنگ و بو اور نگار خانۂ فکر و عمل میں انسان ہونے سے مراد کیا ہے اور انسانیت کی قدر و منزلت کیا ہے۔ یوں انسانی زندگی میں خیر کی نعمت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مستقل کر دیا گیا۔ اُس کے حال کو مستقبل کی تہ در تہ وسعتوں تک پھیلا دیاگیا:
آپؐ اُن کے لیے بھی رحمت ہیں
جو زمانے ابھی نہیں آئے
(حنیف اسعدی)
رحمت کی اس نوید سے حیاتِ انسانی کو وہ مفہوم میسر آتا ہے جو اُس کے خلیفہ فی الارض ہونے کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔ جود و سخا اور عطا و کرم کا یہ معاملہ اہلِ دانش نے اپنے انداز سے سمجھا ہے اور اہلِ فکر و بصیرت نے اپنے طریقے سے۔ اسے اپنی سطحِ ادراک سے علما نے بھی سمجھا اور بیان کیا ہے اور اہلِ فقہ و شریعت نے بھی۔ حال و قال والے صوفیہ نے بھی اس کا فہم اپنے کشف و عرفان سے پایا۔ تاہم ہماری شعری تہذیب کی روایت بتاتی ہے کہ ہمارے شعرا نے اس کا ادراک جس سطح اور جس انداز سے کیا، وہ کچھ انھی کا حصہ ہے۔ انھی کا حصہ اس لیے ہے کہ اُن کے ادراک و اظہار میں فکر کے ساتھ جس طرح جذبے کی سطح قائم ہوتی ہے، وہ جاذبیت کا اپنا ایک الگ پہلو رکھتی ہے اور اس کی اثر آفرینی کا دائرہ بھی الگ ہوتا ہے۔
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں وارفتگی کے رنگ اردو نعت نے کس طرح پیش کیے ہیں، اس کی وضاحت کے لیے ایک مضمون تو کیا ایک ضخیم کتاب بھی ناکافی ہے۔ اس لیے کہ یہاں ایک گل کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ نگارِ ہزار شیوہ کو بہ درجۂ شوق اور بہ رنگِ کمال معرضِ بیاں تک لانے کی آرزو نعت کے شاعر کی زندگی کا مقصد اور اُس کے فن کی معراج ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں سیرت و کردار کا بیان نعت بن گیا ہے تو کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بیان نے نعت کا پیرایہ اختیار کرلیا ہے اور کہیں کسی آیتِ قرآنی اور حدیث کے ٹکڑے سے نعت کا مضمون وضع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی حقائق اور اجتماعی تہذیبی احساس کے رنگوں سے بھی نعت کا بیانیہ آراستہ کیا گیا ہے۔ اس سے نعت کی معنوی وسعت کا ہی اندازہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ اس باب میں جذبۂ اظہار کی فراوانی کا بھی پتا چلتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
اُس کا پیامِ انس و مواخات ، روحِ دیں
اس کا نظامِ عدل و مساوات ، جانِ خیر
(حفیظ تائب)
اُسی کا عکس ہیں سارے جہاں کی تہذیبیں
کہاں نہیں ہے ضیائے محمدِ عربی
(صبااکبرآبادی)
جاں تری سربسر جمال ، دیں ترا آئینہ مثال
تجھ کو ترے عدو نے بھی دیکھا تو ہوگیا ترا
(احمدندیم قاسمی)
شبِ زندگی کو سحر کرنے والے
ہر اک دور کی روشنی نام تیرا
عدالت ، امانت ، دیانت میں یکتا
حیات ، آشتی ، راستی نام تیرا
(ضمیر جعفری)
شوکتِ شاہانِ عالم اُس فقیری پر نثار
جس فقیری کو نبی کا آستاں بخشا گیا
(اقبال عظیم)
انسانیت کو اوجِ شرف ہے تمھاری راہ
رحمت تمھارا ذکر ، عبادت تمھارا نام
(سجادباقررضوی)
وہ جو حیراں ہے معراج کیا راز تھا، طے ہوا کس طرح وقت کا فاصلہ
تیرے اقبال کی کیا خبر ہو اسے، جو حرا میں محبت کی اُترا نہیں
(عرش صدیقی)
لمحے لمحے کی مٹھی میں جگنو ترے
ہر زمانے کی مشعل زمانہ ترا
(مظفروارثی)
بس ایک آپ کا دربار ہے پناہِ جہاں
بس ایک آپ کا دربار خاص و عام کا ہے
(حافظ لدھیانوی)
تو سطوتِ شاہاں کے لیے تیغِ مکافات
تو مونس و ہم درد ہر اک جانِ حزیں کا
(ظہیر کاشمیری)
سب جہانوں میں اُسی نام کا جلتا ہے چراغ
سب جہانوں کا انھیں ہادی و رہبر لکھوں
(کلیم عثمانی)
میں جتنا بھی لکھتا ہوں شانِ نبیؐ میں
یہ محسوس ہوتا ہے کم لکھ رہا ہوں
(اعجازرحمانی)
سمولے خود میں گر اُس خلقِ کامل کے اُجالوں کو
تو دامانِ تمدّن دامنِ زرتار ہوجائے
(اسلم انصاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ایک مسلمان کے لیے ہر عمل اور ہر نکتۂ فکر کا بنیادی حوالہ اور معنویت کا وہ سرچشمہ ہے کہ نکتہ رسی کے سارے سوتے یہیں سے نکلتے ہیں یا پھر یہیں آکے ملتے ہیں۔ چناںچہ نعت کے مضامین میں زماں کا حوالہ ہو یا مکاں کا، حرکت و تغیر کا نکتہ ہو یا سکون و ثبات کا، یا پھر وصل و فصل کا سوال- ہر مضمون کی گہرائی اور ہر خیال کی وسعت دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شاعر کے جذبۂ دل کی وابستگی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ مطالعاتِ نعت میں یہ نکتہ کھلتا ہے کہ یہاں فلسفے میں دھڑکن سما جاتی ہے اور دل کی دھڑکن میں دقیق فلسفہ گونج اٹھتا ہے۔ اس لیے کہ یہ محل ہی وہ ہے کہ جہاں دل و نظر ہی کی نہیں علم و فلسفے کی بھی کایا پلٹ جاتی ہے۔ یہاں سکوت کلام سے بڑھ جاتا ہے اور اذن مل جائے تو کلام معجزہ ہوجاتا ہے:
ہر ایک سمت سے آتی ہے تیری ہی خوش بو
ہر اک زمانہ ، زمانہ ترے جمال کا ہے
(شہزاداحمد)
دربار و محافل کو بھی ہو تجھ پہ سدا رشک
اے غارِ حرا کیا تجھے تنہائی ملی ہے
(سحرانصاری)
بابِ حرم پہ ہے کہیں لمس مرے بھی ہاتھ کا
فرشِ حرم پہ ہے کہیں میری جبیں کا بھی نشاں
(یاسمین حمید)
سفر میں وقت کی رفتار رہ گئی پیچھے
ورائے عقل و گماں ہیں مسافتیں تیری
(انورجمال)
عزمِ سفر جو طیبہ کا ہو ، نکلیں وقت سے ہم آگے
دل آنکھوں سے آگے ، آنکھیں دل سے ایک قدم آگے
(حسن اکبرکمال)
اس میں کلام نہیں کہ عالمی ادب نے مذہبی فکر کے جو نقش ابھارے ہیں ان میں مذہبی تعلیمات سے اور اُن تعلیمات کے حامل پیغام بروں سے عقیدت کے جذبات کا اظہار بھی نمایاں طور سے ہوا ہے، خاص طور سے اطراف کی تہذیبوں اور زمانوں میں یہودیت، عیسائیت، ہندومت اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کے یہاں اس احساس کو صاف طور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہر مذہبی فکر کے تخلیق کاروں نے یہ کام اپنی استعداد اور جذبے کی فراوانی کے مطابق کیا ہے، لیکن تمام تر معروضیت کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کی نوعیت اور کیفیت ہی مختلف نظر آتی ہے جسے ہم اردو شعر و سخن میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
یہ اُسی صداقت کا ثبوت ہے جس کی بابت ہم اس سے قبل ورفعنا لک ذکرک کے ذیل میں گفتگو کر آئے ہیں۔ اس ضمن میں یہ قابلِ لحاظ بات اپنی جگہ کہ جس کثرت سے ہماری شاعری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے، دُنیا کی کسی دوسری زبان کی شاعری میں ایسا اور اتنا ذکر کسی دوسری شخصیت کا کہیں نہیں ہوا۔ بایں ہمہ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ ذکر جس والہانہ پن، وارفتگی اور وفورِ شوق کے ساتھ ہوا ہے، اُس کی کوئی مثال دُنیا کے شعر و سخن میں ہمیں نہیں ملتی۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ اس وارفتگی اور وفور میں وابستگی کے قرینے اور معنی آفرینی کے پہلو تخلیق کار کی نظر سے ہرگز اوجھل نہیں ہوتے۔ ذرا یہ اشعار دیکھیے:
کوئی بھی جستجو ہو کوئی لگن
ذوقِ منزل وہیں سے ملتا ہے
(محشر بدایونی)
یہ اور راستے ہیں حدی خواں سنبھل کے چل
طیبہ کا ذرّہ ذرّہ مجھے دل دکھائی دے
(اداجعفری)
کہاں ہو گر نہ ہو اس جا ہجومِ آرزو منداں
ہے اُس کا آستانہ قبلہ سارے آستانوں کا
(عبدالعزیزخالد)
نگاہ دیکھ کہ ہے رُو بہ رُو دیارِ جمال
ہے ذرّہ ذرّہ یہاں آفتاب ، کیا دیکھوں
(عاصی کرنالی)
کاش یہ میری جبیں اور نقشِ پائے مصطفی
صرف روزِ حشر تک ہوجائیں ساکن ساتھ ساتھ
(ماجدخلیل)
تو سائبان کی صورت محیط عالم پر
کرن کرن کی ترے سامنے طناب کھلے
(محسن احسان)
یہ کس کی سمت پے بہ پے رواں دواں ہیں ساعتیں
یہ کس کے پائے بوس کا ہے اشتیاق دیکھنا
(جعفربلوچ)
نظر میں رکھتا ہوں یوں بھی تری مثالوں کو
ترا ہی عکس سمجھتا ہوں میں اجالوں کو
(عزیزاحسن)
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار میں والہانہ پن، وارفتگی، دل بستگی، وابستگی اور وفور کے ساتھ ایک قرینہ اس دولتِ بیدار پر ناز آفرینی کا بھی ہے۔ نسبت کا اعزاز اہلِ دل اور اہلِ صفا کے لیے کیسی نازپرور شے رہی ہے، اس کا اندازہ صحیح معنوں میں اُسی وقت ہوسکتا ہے، جب اس اظہار کے مختلف شیڈز نظر میں ہوں۔ اس لیے کہ یہ معاملہ، کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے، والا ہے۔ اس بزمِ فخر و انبساط میں ہر ناز پرور کی اپنی ایک کیفیت ہے اور اس کے بیان کا اپنا ہی ایک قرینہ بھی۔ دیکھا جائے تو کہیں یہ ادب و محبت کی معراج ہے تو کہیں حرفِ طمانیت و تشکر کے اظہار کا ذریعہ، کہیں سرشاری ہے تو کہیں شوق کی وسعت و بیداری کا احساس، اس میں کہیں جذبے کی فراوانی کلام پر مائل ہے تو کہیں پر حدِادب کا لحاظ خاموشی پر مصر، کہیں یہ نسبت انوکھا خواب ہے اور کہیں اس سے عقدۂ دل کھلتا ہے۔ اس کیفیتِ دیدہ و دل کے کچھ رنگوں کی جھلمل ملاحظہ کیجیے:
ترے ہی فیض سے ممتاز تھے جہاں بھر میں
جنوں شعار ترے صاحبِ خرد تیرے
(عارف عبدالمتین)
گماں تھے ایسے کہ آثار تک یقیں کے نہ تھے
حضور آپ نہ ہوتے تو ہم کہیں کے نہ تھے
(حنیف اسعدی)
تری عقدہ کشائی سے کھلے عقدے سبھی دل کے
ہوئیں سب مشکلیں آساں تری مشکل کشائی سے
(جمال پانی پتی)
اُس پیکرِ جمال کی پرچھائیں بھی جمال
اُس روشنی کے پیڑ کا سایہ بھی روشنی
(بیدل حیدری)
طلوعِ اسمِ محمد فقط نظارہ نہیں
ہماری صبحِ شرف کا کوئی کنارہ نہیں
(مشکور حسین یاد)
درود اُن پہ پڑھا اور سعادتیں پائیں
ہٹا گیا مرے سینے سے سب غبار درود
(خاطرغزنوی)
شان اُن کی سوچیے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہوجائیے
(خورشیدرضوی)
کتنی صبحیں ظہور کرتا ہے
جاگنا رات بھر مدینے میں
(عطاء الحق قاسمی)
حضوری کی تمنا، حاضری کی خواہش، اپنی فردِحیات پر ندامت کا احساس، خود احتسابی کا رویہ، دُنیا میں دست گیری اور آخرت میں شفاعت کی آرزو کے مضامین نعت کی روایت میں آغاز ہی سے ملتے ہیں، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اہلِ نظر نے احساس کے ان رنگوں کو اردو سے قبل عربی اور فارسی شاعری کی نعتیہ روایت میں بھی دیکھا ہے۔ اردو نعت میں کیفیتِ دل کے یہ پہلو دورِ اوّل سے چلے آتے ہیں اور اب تک کسی نہ کسی صورت مضامینِ نعت میں اظہار کی راہ پاتے رہتے ہیں- لیکن توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دھڑکتے دلوں کا یہ آہنگ اب بھی جب کسی گہرے باطنی تجربے کی صورت میں ابھرتا ہے تو ایک الگ طرح کی اُمنگ اور ایک انوکھی ترنگ کو جگاتا چلا جاتا ہے۔ چناںچہ قاری محسوس کرتا ہے کہ بات سامنے کی ہے اور سنی ہوئی بھی ہے، لیکن ہر نئے اظہار میں شاعر کی وارفتگی نے اسے پہلے انفرادی کیفیت کے طور پر نکھارا اور پھر تہذیب کے اجتماعی مافی الضمیر کے اعلامیے میں منقلب کرکے پیش کردیا۔ نعت کا یہ قرینہ اپنی ہی ایک دل کشی اور اپنا ہی ایک اثر رکھتا ہے۔ ذرا دیکھیے:
نخلِ صحرا کی طرح خشک ہوں ، وہ ابرِ کرم
مجھ پہ برسے تو مجھے برگ و ثمر مل جائے
(سلیم احمد)
نئے لہجے میں بہ صد عجز و ندامت لکھوں
صرف اشکوں کی زباں میں تری مدحت لکھوں
(سرشارصدیقی)
کام بھی کوئی اُس طرح کا ظفرؔ
نام تو لے لیا محمدؐ کا
(ظفراقبال)
اسی دہلیز پہ بیٹھا رہے میرا بڑھاپا
انھیں کوچوں میں گزرے میرے بچوں کی جوانی
(محمداظہارالحق)
جو مدینے کے سفر میں کھو گیا
اس مسافر کا پتا ہی اور ہے
(شاہدہ حسن)
حضور آپ جو سن لیں تو بات بن جائے
حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہوجائے
(صبیح رحمانی)
ایک مقام پر عرض کیا تھا کہ نعت کا مطالعہ کسی بھی موضوع کو پیشِ نظر رکھ کر یا کسی بھی عنوان کے تحت کیا جائے، اسے جامعیت کے ساتھ ایک مضمون میں تو کیا، پوری کتاب کی ضخامت میں بھی سمیٹ لینا آسان نہیں۔ کم سے کم راقم الحروف تو تجربے کی صداقتوں کے ساتھ اسی احساس سے دوچار ہے۔ خیر، سچ پوچھیے تو یہ وہم اس مضمون کے آغاز میں بھی دل کو نہیں تھا کہ مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی نکتے کو اس تحریر میں بہ تمام و کمال پیش کردیا جائے گا۔ محض ایک بات ذہن میں تھی کہ ہماری ادبی و شعری تہذیب نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبدا سے جو فیض پایا اور جو اثر قبول کیا ہے، اسے سادہ لفظوں میں جس طور ممکن ہو بیان کیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ اس مرحلے پر آکر بیان کرنے کی بات بھی سراسر دعویٰ معلوم ہورہی ہے۔ اس لیے کہ یہ کام اپنے برتے پر بھلا کیوںکر ہوسکتا ہے۔ یہ تو اصل میں توفیقِ ایزدی کا معاملہ ہے کہ ایک خیال، ایک بات دل میں آگئی اور پھر اپنے تئیں اُس کو سمجھنے اور قابلِ فہم بنانے کی کوشش نے اس مضمون کی صورت اختیار کرلی۔ یہ بابِ کرم ہے سو اس کی جانب نگاہ کا اٹھ جانا ہی فیض یابی کا آغاز ثابت ہوتا ہے۔ یہ مضمون اسی حقیقت کا ثبوت ہے۔
اس امر کا اظہار بھی چند در چند وجوہ کی بنا پر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس مضمون میں جن نکات اور مباحث پر توجہ دی گئی، وہ اپنی بہتر تفہیم کے لیے اس سے کہیں زیادہ شرح و بسط کے ساتھ مطالعے کے متقاضی ہیں۔ یہاں تو صرف اشارات سے کام لیا گیا ہے۔اسی طرح جن شعرا کے اشعار حوالے کے طور پر درج کیے گئے، ان کے علاوہ بھی کتنے ہی اہم نام ایسے ہوسکتے ہیں جو یہاں درج ہونے سے رہ گئے ہوں گے، لیکن جن کے یہاں نعت کی روشنی اُن کے ذاتی سرمایۂ تخلیق ہی کو منور نہ کرتی ہوگی، بلکہ ہمارے شعر و ادب کی روایت میں بھی دور تک اُجالے بکھیرتی ہوگی۔ واقعہ یہ ہے کہ کائنات کی وسعتوں کو ایک گفتگو میں سمیٹنا اتنا دشوار نہیں، جتنا نعت کے موضوع، اُس کی لطافت، نکتہ آفرینی، اُس کے جمالیاتی پیرائے، اسالیبِ اظہار، جذبہ و فکر کے امتزاج، بیان کی تہ داری، لہجے، قرینے، وسعت اور معنویت کے رنگوں کو بہ یک وقت ابلاغ کے دائرے میں لانا۔ یہی سبب ہے کہ اس موضوع کے نکتہ ور اور اہلِ کمال بار بار اپنی نارسی اور عجز کے احساس سے دوچار ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کو اپنے محدودات کا بہ خوبی اندازہ ہے۔ تاہم سعیِ مشکور تو بڑی چیز ہے، اس باب میں اظہار کی ادنیٰ سی کاوش بھی لائقِ افتخار اعزاز سے کم نہیں۔
آخر میں بس یہ عرض کرنا ہے کہ اردو زبان و ادب کی تہذیب کا سب سے بلیغ، مؤثر اور ارفع سطح پر اظہارِ غزل کے اسلوب میں ہوا ہے۔ عشق، وابستگی، جذب و شوق، سرشاری، مہجوری، نسبت، افتخار، انبساط، ذوقِ بیاں، عرضِ حال- غزل کے جتنے قرینے ہیں، انھیں مجاز کی سطح سے اٹھا کر حقیقت کے درجے میں دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ غزل اور نعت میں عجب امتزاج اور ارتباط پایا جاتا ہے۔
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہماری تہذیب کے اس کنائے (غزل) پر ایسی چُھوٹ پڑتی ہے کہ احساس کے منطقے اور اظہار کے خطّے دور تک مہکتے اور جگمگاتے محسوس ہوتے ہیں۔ غزل نے مجاز (کے باب میں جذباتی کیفیات) کا اور نعت نے حقیقت (کے باب میں روحانی احساسات) کا جس طرح احاطہ کیا ہے، وہ دونوں کی اپنی اپنی کام یابی کا ثبوت تو ہے ہی، لیکن ساتھ ہی اس تہذیب کا اختصاص بھی ہے کہ جو اپنے افراد کی زندگی میں فکر و احساس کے دونوں رُخ منور رکھتی ہے۔ غزل نے ہمارے دل کی دھڑکنوں کو گنا ہے تو نعت نے ہماری روح کے وجد آفریں نغمے سے انھیں ہم آہنگ کیا ہے۔ اس لیے کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دل کی آواز اور ہماری روح کی پکار ہے۔ اسی صدا کا اُجالا ہماری تہذیب، زبان، ادب، سماج، فکر اور دل کے سارے گوشوں کو منور رکھتا ہے۔
(جاری ہے)